حکمرانو ؛پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے والوں کو لگام دیں

وطن عزیز پاکستان میں فرقہ واریت کی جنگ کوئی نئی بات نہیں ـ عرصہ دراز سے فرقہ واریت کی آگ میں پاکستانی مسلمان جل رہے ہیں ـ اس ملک میں مذہبی تعصب ختم ہونے کا نام لے رہا ہے جس سے اس ملک کے مکینوں کے جانی و مالی ایسے نقصانات ہوئے جو شاید قابل جبران نہیں ـ
پاکستان کی امنیت اور سالمیت کے دشمنوں نے پوری منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کو گروہ در گروہ میں تقسیم کیا ، ان کے اتحاد کا شیرازہ بکھیر دیا،انہیں ایک دوسرے کا دشمن بنادیا،ان کی عقل اور شعور پر جزبات کا غلاف چڑھایادیا، ان کی سوچنے اور سمجھنے کی قوت پر پردہ ڈالا، ان سے بصیرت اور نفع ونقصان کے درمیان تمییز پیدا کرنے والی صلاحیت چھین لی اور انہیں دوبارہ غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ۔
کربلاکاسرمدی پیغام اورہماری ذمہ داریاں
مقدمہ
ارشادخداوندی ہورہاہے۔”کنتم خیرامۃاخرجت للناس تامرون باالمعرون وتنھون عن المنکروتومنون بااللہ ” (1) تم بہترین امت ہوجسے لوگوں کیلئے منظرعام پرلایاگیاہے تم لوگوں کونیکیوں کاحکم دیتے ہواوربرائیوں سے روکتےہواوراللہ پرایمان رکھتے ہو۔
خالق کائنات نے امت اسلامیہ کوبہترین امت بناکرپیداکیاہے۔لیکن امت کی بہتری کیلئےتین علامتیں اس آیہ کریمہ میں ذکرفرمایاہے:
۱۔ لوگوں کے فائدے کیلئے کام کرے۔
۲۔ نیکیوں کاحکم دے اوربرائیوں سے منع کریں۔
3۔ان سب کے پیچھے ایمان بااللہ کاجذبہ ہو۔
زندگي نامه شيخ جوادعلي صالحی
زندگي نامه شيخ جوادعلي صالحی
محمد جعفر جعفري راموي
اسلامی سماج میں مسلم امہ کی فکری ،علمی ،عقیدتی، سیاسی ،فرہنگی اور مبارزاتی پہلووں کی رشد ونمو کا انحصار بلاشبہ اس خطے کے علما کرام کی بصیرت افروز جدو جہد اور ایمان سے سر شار سرگرمیوں پر منحصر ہے۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ ہر دور میں مکتب تشیع کے دامن میں بابصیرت علما کرام کی بڑی تعداد پائی جاتی تھی جنھوں نے اسلام کی بقاء کے لئے بہت سے کارنامے انجام دیے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے مجاہد علما کے دین مبین کے لیے پرخلوص جد و جہدکو تاریخ کےکوڑے دان میں ڈالنے کے بجائے نئی نسل کے لیے بطور نمونہ پیش کیا جائے تاکہ دور حاضر کے استعمار و استکبار سے مقابلے میں توحید و امامت کی راہ میں مجاہدوں کے لیے صحیح رہنمائی میسر آسکے ۔ انہی مجاہدوں میں سے ایک عظیم شخصیت جناب حجۃالاالسلام شیخ جواد علی صالحیی کی ہیں۔جن کی شخصیت میں جو چیز سب سے زیادہ نمایاں تھی وہ دین مبین کے حوالے سے ان کی احساس ذمہ داری تھی، جس نے ان سے دنیوی آسائشات ،آرام طلبی اور دیگر خواہشات کو چھین کر ان کو دین کی راہ میں متحرک و سر گرم عمل رکھا۔
