زائرین پر کورونا وائرس پھیلانے کا الزام اور اس کے اثرات
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب ایک عالمگیر وبا دنیا میں پھیلتی ہے تو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آتے ہیں اور انکی صنعتی ترقی اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی نظر آتی ہے ایسے میں پاکستان جیسا بےبس ملک کا ایسے وبا کو ملکی سرحدوں تک پہنچنے سے پہلے روکنے کی کوششیں خودفریبی کے سوا کچھ نہیں کیونکہ یورپ اور امریکہ وغیرہ میں جب کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والے افراد کی شرح آئے دن بڑھتی جارہی ہے اور وہ اسے سرحدوں سے باہر روکنے سے قاصر رہے ہیں تو بیچارہ پاکستان جس کے پاس جہاں ہسپتال نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو ہیں وہ بھی اکثر بنیادی سہولیات سے عاری، تو ایسی صورت میں انکا یہ کہنا کہ ہم کورونا کو بارڈرز سے باہر ہی روک دیں گے یہ ایک سہانا خواب ہی ہوسکتا ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ بنابر این کورونا وائرس جس طرح یورپ، امریکہ، افریقہ، خلیجی ممالک، ایران اور چین میں پھیلا اسی طرح سے پاکستان میں بھی اس نے پہنچنا تھا اور پہنچ گیا۔ لیکن کیسے اور کہاں سے آیا اسے مستقبل میں ماہرین خود تجزیہ کریں گے اور اس کا جواب تلاش کریں گے۔ خیر ،کورونا کو ملک کی سرحدوں سے باہر روکنے کی طاقت پاکستان میں نہیں تھی اور اس کے سامنے حکومت بےبس تھی اس کی بےبسی کے نتیجے میں پورا ملک اس کی لپیٹ میں آگیا۔
کفرستان سے لیکر پاکستان تک کا سفر
اس وقت پوری دنیا میں جہاں کرونا کی وجہ سے خوف ھراس پھیلا ہوا ہے۔ جب یہ کرونا کسی کفرستان میں پہونچا تو لوگ قوم پرستی، فرقہ واریت اور ذاتی عناد اور دشمنی کے خول سے نکل کر سب ایک جسم اور روح کی طرح اتحاد کا مظاہرہ کرتے دکھائی دئیے جبکہ ھم دیکھتے ہیں کہ جتنے ادیان ومذاہب ہیں اتنے ہی انکے اصول و عقائد اور نظریات یہاں تک کہ رہن سہن کا طریقہ بھی مختلف ہے لیکن کرونا نے ان سب کو متحد کیا اور دن رات سب اپنی اپنی بساط کے مطابق کرونا کا توڑ ڈھونڈنے کی کوشش میں مصروف رہے۔
لیکن یہی کرونا جب پاکستان میں تشریف لایا تو ھم چند گروہوں میں تقسیم ہوگئے ھم یہاں صرف دو ہی گروہ کا ذکر کرنے پر اکتفا کرینگے۔
جنرل قاسم سلیمانی بعد از شہادت
جنرل قاسم سلیمانی بعد از شہادت
موت تجدید مذاق زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے۔
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
یہ ہے شام زندگی صبح دوامِ زندگی (علامہ اقبال)
کائنات کی متفق علیہ حقیقتوں میں سے ایک بڑی حقیقت موت ہے یعنی موت کا آنا، ہر ذی روح کے لیے موت کا واقع ہونا، دنیا کا ہر انسان موت کے یقینی ہونے پر ایمان رکھتا ہے چاہے وہ کسی دین و مذہب کا قائل ہو یا نہ ہو اگرچہ ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے موت نہ آئے مگر اپنی تمام تر خواہشوں اورتمناؤں کے باوجود موت کے آنے پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ یہ کائنات کی ایک ناقابل انکار اور اٹل حقیقتوں میں سے ایک ہے جس سے کسی کو مفر ممکن نہیں۔
