گلگت بلتستان کے عام انتخابات میں دینی جماعتوں کا کردار کیا ہوگا؟/تحریر: لیاقت علی انجم
گلگت بلتستان کے عام انتخابات کی تاریخ نزدیک آتے ہی دینی جماعتوں کے کردار اور سیاسی مستقبل پر ایک بار پھر بحث ہونے لگی ہے، عوامی، سیاسی اور سماجی سطح پر ہونے والی بحث مذہبی جماعتوں کیلئے کوئی نیک شگون کو ظاہر نہیں کرتی۔
گلگت بلتستان کے عام انتخابات کی تاریخ نزدیک آتے ہی خطے کے سیاسی منظرنامے میں تبدیلی کے واضح اشارے ملنے لگے ہیں۔ گو کہ وزیراعظم کی جانب سے دعوؤں کے برخلاف کوئی قابل ذکر اعلانات نہ ہونے نے وقتی طور پر تحریک انصاف کو مشکلات سے دوچار کر دیا ہے، تاہم اس کے باؤجود سیاسی جوڑ توڑ اور کئی اہم ”الیکٹیبلز” کے ساتھ پی ٹی آئی کے معاملات فائنل ہونے کے قریب ہیں۔ ذرائع کے مطابق گلگت بلتستان میں سردیاں ختم ہونے کے فوری بعد ہی سیاسی گرمی کا موسم شروع ہونے والا ہے، آئندہ سال مارچ کے اوائل سے ہی کئی اہم تبدیلیاں رونما ہوں گی اور آئندہ کی حکومت سازی کے حوالے سے معاملات کسی حد تک واضح ہونے لگیں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس وقت نون لیگ کے تین اہم ترین رہنما مارچ میں تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کرینگے، یہ تینو ں رہنما اس وقت حکومتی بنچوں پر اہم عہدوں پر فائز ہیں، جبکہ تحریک اسلامی کے رکن اسمبلی بھی تبدیلی کے قافلے میں شامل ہونے کیلئے بے چین ہیں۔ گلگت میں پیپلزپارٹی کے ایک اہم رہنما نے پی ٹی آئی میں شمولیت کیلئے ٹکٹ کی شرط رکھی ہے، جس پر سنجیدگی سے غور کیا جار ہا ہے، ایسی صورت میں خود تحریک انصاف کے اہم رہنما ٹکٹ کی دوڑ سے آؤٹ ہو جائیں گے اور انہیں ٹیکنوکریٹ کی سیٹ کی پیشکش کی جائے گی۔
عطیہ عوفی(کوفی)زائر اربعین حسینی/ تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
عطیہ سعد بن جنادہ عوفی جو بعض تاریخی کتابوں کے مطابق ۳۶سے 40 ہجری کے درمیان کوفہ میں پیدا ہوئے۔ بعض تحقیقات کے مطابق چونکہ ان کی پرورش کوفہ میں ہوئی اس لئے انھیں کوفی کہا جاتا ہے۔ لیکن بعض کے مطابق وہ کوفہ میں پیدا نہیں ہوئے تھے کیونکہ ان کا والد سعد بن جنادہ کوفہ کا رہنے والا نہیں تھا۔ عطیہ عرب کے معروف و مشہور بکالی خاندان میں پیدا ہوا ۔ بکالی خاندان قبیلہ بنی عوف بن امر القیس سے تعلق رکھتے تھےاور عرب قبائل میں اس قبیلہ کوایک خاص مقام و منزلت حاصل تھا چونکہ وہ بنی عوف قبیلے سے تعلق رکھتاتھا ، اس لئے اسےعطیہ عوفی کہا جاتاہے۔۱۔ جنادہ مشہور روایوں میں سے ہیں جنہوں نے بہت ساری روایتوں کو نقل کیا ہے۔وہ پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد امام علی علیہ السلام کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گئے اورآپ کے ساتھ بہت سے جنگوں میں شرکت کی اوراس بارے میں بہت سی روایات ان سےنقل ہوئی ہیں۔
مسئلہ کشمیر پر حمایت فرقہ واریت نہیں/تحریر: نصرت علی شہانی
مسئلہ کشمیر پر حمایت فرقہ واریت نہیں
نصرت علی شہانی ترجمان وفاق المدارس الشیعہ پاکستان
اگر عرب کشمیر کی حمایت کریں تو انکے کون سے مفادات خطرے میں ہیں؟ یہ ایران کا اعزاز ہے کہ اقتصادی پابندیوں میں جکڑے ہونے اور تنہائی کے باوجود اپنے مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت کی مخالفت اور کشمیر کی کھلی حمایت کی ہے۔ نہایت افسوس کہ کالم نگار نے کشمیر پر ایرانی حمایت کی تحسین کی بجائے اسکے ماضی میں بھارت سے کئے چند کاروباری معاہدوں کو تو اچھالا، لیکن سعودیہ کے بھارت سے حالیہ معاہدوں کا ذکر تک نہیں کیا۔ انہیں اپنی اس رائے کے ضمنی پہلووں پر بھی غور کرنا چاہیئے کہ بہت سے پاکستانیوں کی ہمدردیاں اسلام آباد کی بجائے ریاض یا تہران سے ہوتی ہیں۔فرمان نبوی ﷺ کی رُو سے اُمت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے، جس کے ہر فرد کا درد سب کو محسوس کرنا چاہیئے۔ کشمیر کی تازہ صورتحال نے درحقیقت ہمارے اور کشمیر کے اصل دوستوں اور زبانی دعوے کرنیوالوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ مادر، پدر آزاد سوشل میڈیا کے مباحثوں کا حوالہ دے کر رکن اسلامی نظریاتی کونسل جناب خورشید ندیم 29 اگست کے روزنامہ دنیا میں مسئلہ کشمیر پر ان کے بقول ہو رہی فرقہ پرستی اور فرقہ واریت کے بارے میں خلاف حقائق باتیں کرکے خود اس فعل کے مرتکب ہوئے۔ دراصل کچھ لوگ کشمیر کے ان نازک حالات میں عربوں کے صریح منفی کردار کی شدت کو کم کرنے اور ایران کے تاریخی مثبت اقدام کو کم اہمیت ثابت کرنے کیلئے خورشید صاحب جیسی تکنیک کا سہارا لے رہے ہیں، حالانکہ یہ ایک سادہ عام فہم بات ہے کہ جو مسلم ممالک ان مشکل حالات میں زبانی حمایت بھی نہیں کر رہے، ان میں سعودیہ و دیگر عرب ممالک ہیں اور وہ اسلامی ممالک جن کی حیثیت، اثر و رسوخ عربوں جیسا نہیں یا بنگلہ دیش اور افغانستان کی طرح بھارت کے زیر اثر ہیں۔
