تعزیت کاجدید انداز/ از-قلم-اشرف سراج گلتری
عیادت اورتعزیت کی رسم مسلم معاشروں میں زمانہ قدیم سے چلتی آرہی ہیں.فرق صرف اتنا ہے کہ پہلےانسان کے مرنےسے پہلے عیادت کےلیے بهی جایاکرتے تهے اب تو صرف تعزیت میں آکر دو آنسو بہانے کوہی اخلاقی فریضہ سمجهاجاتاہے.
خاص کر قومی احستاب بیورو نےتوحدہی کردی ہے کہ جہاں جس وقت عیادت اور تعزیت کےلئے پہنچناچاہئےتها پہنچانہیں ہے مگر اب بیتے لمحو کو یاد دلاکرلواحقین کو ان کی یادمیں پهررولانے گلگت بلتستان تشریف فرماہوگا.
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ ادارہ گلگت بلتستان میں بهی کسی سیاستدان اور بیوروکریٹس کی خدمت میں حاضر ہو نہ ہو مگرغریب عوام کورولانےحاضر ہوہی جائے گا جہاں سے وہ اپنےحصے کاترکہ لےکرواپس چلاجائےگا.
لباس کی اھمیت/ چمن آبادی
لباس عربی زبان کا لفظ ہے اصل میں یہ لبس سے نکلا ہے اور اس کا معنی ہے پہننا ۔
جسم کو ڈھانپنے کا رواج انسانی تاریخ کے ساتھ ہی شروع ہوا، کیونکہ قرآن کریم اس کی گواہی دے رہا ہے کہ جس طرح ہمارے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام نے شجرہ ممنوعہ کا پھل کھایا تو ان کے جسم سے پردہ اور لباس اتر کر عریان ہوگیا تو آپ نے درخت کے پتوں سے اپنے جسم کو چھپایا، قرآن کریم کے کئی مقامات پر لباس کا ذکر آیا ہے، کبھی بیوی اور شوہر کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے تو کبھی تقوی اور پرہیزگاری کو بھترین لباس کہا گیا۔
وزیراعلی کے محکمہ تعلیم میں تحرک وتبدیلی لانےکے بیانات خوش آیند ہیں/ اشرف سراج گلتری
علم سماج کو زندگی بخشتا ہے.اسی لیےسماج کی تعلیم وتربیت کابندوبست کرنا بهی حکومتوں کا اولین فریضہ بنتاہے.
مگر پاکستان میں جتنی بهی حکومتیں وفاق اور صوبوں میں براجمان ہوئی ہیں تعلیم وتربیت کے شعبےمیں پاکستانی عوام کو سوایے محرومیوں کےکچه نہیں دیاہے.خصوصا خطےگلگت بلتستان کوتعلیم وتربیت کے شعبے میں اس قدر محروم رکهاہواہےکہ جہاں پرگورنمنٹ سکولوں کی تعداد ویسے بهی بہت کم ہیں اور انهیں میں سے بهی جوسکول مشروف اورذرداری کے دور میں منظور ہوئے تهے ان کی عمارتیں تو خوبصورت بنی تهیں مگرذرداری حکومت کے کچه وفاقی وزیروں نےمحکمہ تعلیم گلگت بلتستان کے کچه بابووں کے ذریعےسرے عام فی سیٹ ڈهائی لاکه سے پانچ لاکه روپے تک کےلئے فروخت کرواکرنئےاسٹاپ لگادیا جوگلگت بلتستان کے تعلیمی نظام پرایک قسم کا کاری ضرب ثابت ہوا.
