بھڑیا کو شیر کہنے سے وہ کھبی شیر نہیں بنتا/تحریر: محمد حسن جمالی

سیاسی اور مذہبی دنیا میں لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے بعض مغرض افراد مغالطے کا سہارا لیتے ہیں، وہ حق اور باطل کو اس طرح مخلوط کرکے پیش کرتے ہیں کہ سادہ لوح افراد یہ تشخیص نہیں کرپاتے ہیں کہ حق کونسا ہے اور باطل کس طرف ہےـ یہاں تک کہ مفادات کے اسیر ٹولے بسااوقات ظالم اور ستمگر طبقے کی انتہائی خوبصورت الفاظ اور جملوں میں ایسی مدح اور تعریف لکھ دیتے ہیں کہ خالی الذھن قاری بہت جلد متاثر ہوکر داد دیے بغیر نہیں رہ جاتے ـاگر تھوڑی سی تحقیق کرکے دیکھ لیں تو آج کل میڈیا اور سوشل میڈیا کے میدانوں میں اس کے ہزاروں نمونے مل جائیں گے جہاں انسانوں کی ایک بڑی تعداد کا محبوب مشغلہ ہی مغالطہ کاری کے ذریعے لوگوں کو حقائق سے بے خبر رکھنا بنا ہوا ہے ـ تاریخ اسلام اور تاریخ بشریت کا عمیق مطالعہ کرنے سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ گزشتہ ادوار میں بھی لوگوں کی اکثریت کی گمراہی میں مغالطہ کاری کا نمایاں کردار رہا ہے ـ

بن سلمان کا دورہ پاکستان اور امت مسلمہ کی غیرت کا تقاضا/ تحریر:  محمد حسن جمالی 

 اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ وطن عزیز پاکستان مظالم کے خلاف قیام کا نتیجہ ہے ـ جب ہندو ریاست کے اندر مسلمانوں پر ستم کی انتہا ہوئی تو قائد اور اقبال جیسی درد مند اور دلسوز شخصیات نے سرجوڑ کر یہ فیصلہ کرلیا کہ مسلمانوں کو ہندو ریاست کی ناانصافیوں سے نجات دلانے کا واحد راستہ ان کے لئے ہندووں سے جداگانہ مملکت معرض وجود میں لانا ہے، چنانچہ انہوں نے اس مقدس ہدف کے حصول کے لئے شب وروز ایک کرکے جدوجہد کی درنتیجہ وہ اپنے ہدف میں کامیاب ہوئے ، انہوں نے پاکستان کے نام سے مسلمانوں کے لئے مستقل ریاست تشکیل دی گئی تاکہ مسلمان غلامانہ زندگی سے جھٹکارا پاکر امن اور سکون سے آذادانہ زندگی گزارسکیں اس مقصد کے پیش نظر بانی پاکستان نے تین اہم اور دقیق چیزوں کو اس کی بنیاد قرار دیا جو ایمان، اتحاد اور تنظیم سے عبارت ہے ـ آپ نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ یہ تین عنصر پاکستان کی بقاء ، سلامتی اوراستحکام کا ضامن ہیں اور یہی اس مملکت کی پیشرفت اور ترقی کا راز ہیں ـ

پاکستان کے خلاف صہیونی گماشتے سرگرم /تحریر: صابر ابو مریم

پاکستان کے خلاف صہیونی گماشتے سرگرم /تحریر: صابر ابو مریم سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر ، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

امریکی صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے جب سے انہوں نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے غیر منصفانہ حل تجویز کرتے ہوئے صدی کی ڈیل نامی معاہدہ متعارف کروایا اور اس کے نتیجہ میں یکطرفہ اعلانات جن میں القدس کو اسرائیل کی جعلی ریاست کا دارلحکومت تسلیم کرنا، پھر اس کام کے لئے دنیا کے دیگر ممالک کو دباؤ میں لا کر ان سے اس بات کو تسلیم کروانا، اسی طرح امریکی سفارت خانہ کو القدس شہر میں منتقل کرنے کے ساتھ دوسرے ممالک کے سفارتخانوں کو بھی القدس شہر منتقل کرنے پر راضی کرنے جیسے معاملات سرفہرست ہیں۔