امام حسن عسکری علیہ السلام کا اسحاق کندی اور جاثلیق نصرانی کو جواب/تحریر:محمد لطیف مطہری کچوروی

اسحاق کندی عراق کے دانشوروں اور فلاسفہ میں سے تھا اور لوگوں میں علم،فلسفہ اور حکمت کے میدان میں شہرت رکھتا تھا لیکن اسلام قبول نہیں کرتا تھااور اُس نے اپنی ناقص عقل سے کام لیتے ہوئےفیصلہ کر لیا کہ قرآن میں موجود متضاد و مختلف امور کے بارے میں ایک کتاب لکھے کیونکہ اُس کی نظر میں قرآن کی بعض آیات بعض دوسری آیات کے ساتھ ہم آہنگ اور مطابقت نہیں رکھتے ہیں اور ان کی تطبیق سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں(نعوذ باللہ)ناہم آہنگی پائی جاتی ہے اس لیے اُس نے سوچا کہ ایسی کتاب لکھے جس میں وہ یہ ثابت کرے کہ قرآن میں تناقض اور ضد و نقیض چیزیں پائی جاتی هیں، اس کے لکھنے میں وہ اس قدر سرگرم هوا کہ لوگوں سے الک تھلگ هوکر اپنے گھر کے اندر ایک گوشہ میں بیٹھ کر اس کام میں مصروف هوگیا، یهاں تک اس کا ایک شاگرد، امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب هوا، امام نے اس سے فرمایا: کیا تم لوگوں میں کوئی ایک عقلمند اور باغیرت انسان نہیں هے جو اپنے استاد کو دلیل و برہان کے ساتھ ایسی کتاب لکھنے سے روک سکے اور اُسے اس فیصلے پر پشیمان کرسکے۔ اس شاگرد نے عرض کیا: هم اس کے شاگرد هیں اس لئے اعتراض نہیں کرسکتے ۔ امام نے فرمایا: کیا جو کچھ میں تم سے کہوں گا اس تک پہنچا سکتے هو ؟۔
شام اور عراق میں داعش کی کمر شکن شکست/تحریر : محمد حسن جمالی
پوری دنیا میں کثرت سے اسلام کے پهیلاو کو روکنے کے لئے خصوصا عرب ممالک میں آئی ہوئی اسلام بیداری سے خوفزدہ ہوکر اسلام اور مسلمانوں کے حقیقی دشمن امریکہ واسرائیل نے داعش کی صورت میں ایک گروہ کو تشکیل دیا اور اس کے ذمہ یہ ذمہ داری ڈالی گئی کہ اسلام کا لبادہ اوڑھ […]
قیام امام حسین اور امت کی اصلاح تحریر : ڈاکٹر مشتاق حسین حکیمی

دنيا ميں کوئي بھي تحريک اچانک سے شروع نہيں ہوتي بلکہ اس کے وجود ميں آنے ميں بہت سارے علل و عوامل در کار ہونگے اور ان علل اور عوامل کے وجود ميں آنے ميں بھي سارا عرصہ گزر چکا ہوگا اس کے وجود ميں لانے کے کيا اہداف اور مقاصد تھے ان سب باتوں کااندازہ اس تحريک کي تاريخ کا مطالعہ کرنے سے ہي معلوم ہوگاـ امام حسين عليہ السلام کا قيام تاريخ انسانيت ميں ايک بے مثال اور لازوال قيام ہے جو 61 ہجري کو وجود ميں آيا اور صدياں گزرنے کے بعد بھي اس کے آثار باقي ہيں اور قيام پر بحث اور مباحثے ہوتے ہيں اس قيام کے اہداف، نتائج اور اس کي ضرورت پر سير حاصل بحث ہوتي رہي ہے. اور يہ قيام بھي بس يزيد نے اچانک بيعت مانگا اور امام حسين نے بيعت سے انکار کيا اور جس کے نتيجے ميں حادثہ کربلا رونما ہوا، ايسا کبھي بھي نہيں ہوسکتا ہے رحلت پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے بعد سے ليکر 61 ھ تک کے ان پچاس سالوں ميں کچھ ايسے کام ہوئے اور ايسي سازشيں ہوئيں جس کے نتيجے ميں حادثہ عاشورا کا واقع ہونا ناگزير ہوا اور سيد الشہداء عليہ السلام کے لئے يہ لاثاني اور لازوال قرباني پيش کرنا پڑي. البتہ امام حسين عليہ السلام نے اپنے قيام کے اہداف کو واضح طور پر بيان کيا ہے اگر ان اہداف پر توجہ کي جائے تو وہ علل اور عوامل بھي سامنے آتے ہيں جس کي وجہ سے ان اہداف کے تناظر ميں يہ قيام وقوع پذير ہوا. اس مختصر تحرير ميں قيام سيد الشہداء کے اہداف ميں سے صرف ايک ہدف؛ «اصلاح امت» پر مختصر روشني ڈالنے کي کوشش کي گئي ہے
