جنرل قاسم سلیمانی بعد از شہادت
جنرل قاسم سلیمانی بعد از شہادت
موت تجدید مذاق زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے۔
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
یہ ہے شام زندگی صبح دوامِ زندگی (علامہ اقبال)
کائنات کی متفق علیہ حقیقتوں میں سے ایک بڑی حقیقت موت ہے یعنی موت کا آنا، ہر ذی روح کے لیے موت کا واقع ہونا، دنیا کا ہر انسان موت کے یقینی ہونے پر ایمان رکھتا ہے چاہے وہ کسی دین و مذہب کا قائل ہو یا نہ ہو اگرچہ ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے موت نہ آئے مگر اپنی تمام تر خواہشوں اورتمناؤں کے باوجود موت کے آنے پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ یہ کائنات کی ایک ناقابل انکار اور اٹل حقیقتوں میں سے ایک ہے جس سے کسی کو مفر ممکن نہیں۔
جہاں ایک طرف عالمِ انسانیت کائنات کی اس بڑی حقیقت سے آگاہ ہے یعنی ہر ذی روح کے لیے موت کے حتمی ہونے پر یقین رکھتے ہیں دوسری طرف یہ بھی ایک بڑی حقیقت ہے کہ انسان اس موت کی آمد سے لے کر اس کے بعد واقع ہونے والے حساب و کتاب، ارواح مردگان کے احوال و اختیار و مقامات سے آگاہی بہت ہی کم رکھتے ہیں اور یہ کوئی اچھنبے کی بات بھی نہیں ہے کیونکہ موت انسان کا موجودہ عالم مادے سے دوسرے عالم مجردات میں انتقال کا عمل ہے اور وہ عالم ہمارے لئے عالم غیب ہے۔ ہم اس مادی و محدود دنیا میں رہتے ہوئے اس غیر مادی و غیرمحدود عالم کا ادراک کماحقہٗ نہیں کر سکتے جس طرح شکم مادر میں موجود بچہ باہر کی دنیا کو درک نہیں کر سکتا۔ اور جس طرح ماں کے پیٹ میں موجود بچہ باہر کی دنیا کو درک نہیں کرسکتا اس کا مطلب یہ نہیں کہ باہر کوئی دنیا موجود ہی نہیں بلکہ موجود ہے اور ہم سب یہاں زندگی بسر کر رہے ہیں اسی طرح اگر آج ہم بعد از موت کی حقیقتوں کو کماحقہٗ درک نہیں کرسکتے تو اس کا بھی یہ مطلب نہیں کہ بعد الموت کوئی زندگی، حیات یا نظام زندگی ہے ہی نہیں بلکہ پورا ایک اعلیٰ و عادلانہ نظام موجود ہے اور یقیناً ہے کیونکہ دنیا کا ہر مذہب اس کی تائید کرتا ہے چاہے وہ الہامی ادیان ہو یا غیر الہامی۔ اور دنیا کا 99 فیصد انسان کسی نہ کسی مذہب یا دین سے تعلق رکھتا ہے اگرچہ دنیا میں لامذہب یا دہریہ کہلانے والے افراد بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ لہذا ان کے خیالات کوئی قابل اعتناء نہیں ہے کم ازکم ان افراد کے لئے تو بالکل بھی نہیں جو کسی مذہب کا پیروکار کہلاتا ہے۔ بہرحال اس وقت میں جس حقیقت طرف اشارہ کرنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ انسان جب تک اس مادی دنیا میں ہے محدود ہے اور وہ یہاں رہتے ہوئے اس لا محدود دنیا کی حقیقت کو کماحقہ درک نہیں کرسکتے مگر مرنے کے بعد انسان اس مادی و محدود دنیا سے ایک مجرد و لامحدود عالم میں قدم رکھتا ہے اور وہاں اپنے عالم کی حقیقت سے بھی آگاہ ہوجاتے ہیں اور اس محدود مادی دنیا کو بھی دیکھ سکتے ہیں جس طرح ہم شکم مادر میں موجود بچے کے حوالے سے آگاہی حاصل کرسکتے ہیں اس کی ضرورت کے مطابق خوراک ادویات دے سکتے اسی طرح عالم برزخ کے افراد بھی اس مادی دنیا کو دیکھ سکتے ہیں یہاں کے حالات محسوس کرسکتے ہیں اور یہاں موجود افراد کی مدد و نصرت بھی کر سکتے ہیں لیکن یہ سب وہ کون لوگ کرسکتا ہے یا کس حد تک کر سکتا ہے اور کیسے کرتا ہے اس کا تعلق ان کی اپنی قابلیت، صلاحیت، لیاقت، اختیارات و مقام و منزلت کے حساب سے ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کسی کو قتل کرکے مار کے اسے اس کے مقاصد اہداف یا مشن سے روک سکتا ہے تو یہ سب سے بڑی نادانی اور نری حماقت کی بات ہوگی کیونکہ کوئی جب تک اس دنیا میں موجود ہے بہت ہی محدود ہے ہے وہ ہر وقت ہر جگہ جب چاہے جہاں چاہے نہیں جا سکتا، وہ ہر ادارے میں کام نہیں کر سکتا وہ ہر قسم کے افراد سے نہیں مل سکتا، وہ ہر ایک کو اپنا پیروکار نہیں بنا سکتا وہ ہر ایک کو اپنا ہم خیال نہیں بنا سکتا، کہیں قانونی پابندی ہوتی ہے اور کہیں سیاسی مسئلہ ہوتا ہے کہیں جغرافیائی پابندیاں ہوتی ہے ہوتی ہے تو کہیں پکڑے جانے کا خدشہ انسان کا قدم روکتا ہے۔ سو جب تک اس مادی دنیا میں ہے اس قسم کی پابندیوں حدبندیوں اور رکاوٹوں کا سامنا رہتا ہے لیکن جیسے ہی مر جاتا ہے یا موت واقع ہوتی ہے وہ ان تمام رکاوٹوں سے آزاد ہو جاتا ہے جو عالم مادہ کی محدودیت کی وجہ سے پیش آتی تھی کیونکہ موت جسم و روح کے درمیان جدائی کا نام ہی تو ہے۔ اور جسم سے جدا ہونے کے بعد روح کی طاقتِ پرواز کا اندازہ تو ہم اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی کر سکتے ہیں۔ کیا ہم خوابوں میں پل بھر میں دنیا کے گوشہ و کنار سے ہو کر واپس نہیں آتے؟ ایک لمحے میں کے_ٹو کے دامن میں تو اگلے لمحے سمندر کے کنارے پل میں امریکہ تو اگلے پل میں افریقہ کے جنگل میں۔ دنیا کے آخری کونے میں ہو اور کوئی ہمیں نیند سے اٹھانے لگے تو لمحوں میں واپس نہیں آجاتے؟ نہ کہیں جانے کے لیے ویزے کی ضرورت ہے اور نہ آنے کے لئے پاسپورٹ کی، نہ تو کسی کی پرمٹ چاہیے اور نہ ہی کوئی سرٹیفیکیٹ، یہ ہے عام روحوں کی طاقت پرواز جس کی ٹریلر ہم خوابوں میں مشاہدہ کرتے رہتے ہیں ۔
اور اگر ہم ان پاکیزہ ارواح کی بات کریں جو تہذیب یافتہ، خود سازی کے مراحل طے کیئے ہوئے، منازل عرفان میں قدم رکھتے ہوئے، اسی لباس مادی میں ہوتے ہوئے عالم ملکوت و جبروت کا مشاہدہ کرتے ہوئے اس عالم بقا و بالا تر میں قدم رکھتے ہیں، کیا کہنا ان کی طاقت پرواز کے بارے میں۔ خصوصاً اگر کوئی روح ملکوتی اس مادی قفس عنصری سے شہادت کے سبب آزادی پائے تو پھر ان کی طاقت پرواز ، قوت فاعلیت و قادر مطلق کی جانب سے ان کو ملنے والے اختیارات و اقتدار کا یہاں رہتے ہوئے اندازہ کر ہی نہیں سکتے۔ اسی لیے عالم غیبت کے حالات سے آگاہ کرنے والی مستند ترین کتاب قرآن مجید میں شہداء کے حوالے سے واضح اعلان ہے کہ انہیں تم مردہ نہ کہو۔ بلکہ سوچو بھی مت یعنی گمان تک نہ کرو کہ وہ مر گئے ہیں۔ وہ ایسی برتر زندگی کا حامل ہے جو تمھاری ادراک سے بھی بالاتر ہے۔ بلا شبہ ایسے ہی بلند مرتبہ ہستیوں میں سے ایک ہستی عالم اسلام کے بطل جلیل، پاسبان قدس کے کمان دار ، جنرل حاج قاسم سلیمانی تھے۔ آپ کے کمالات صفات اور خصوصیات اور اہل مشرق کے لیے بالعموم اور عالم اسلام کے لیے بالخصوص آپ کی خدمات کے بیان کے لیے الگ سے دفتر کے دفتر درکار ہے جو الگ کسی موقع پر بیان ہو گا انشاءاللہ۔
فی الحال میں اتنا بتانا چاہ رہا ہوں کہ امریکہ و دیگر اسلام دشمن قوتوں کے لیے ، زندہ حاج قاسم سلیمانی سے زیادہ شہید حاج قاسم سلیمانی بھاری پڑے گا۔
کیونکہ زندہ حاج قاسم سلیمانی اپنے مادی جسم کی تقاضا ئے محدودیت کے ساتھ اور مخصوص جغرافیے سے تعلق کے سبب محدود پیمانے پر ہی کام کر سکتا تھا اب جسم مادی سے آزاد ہو کر ، ہر قید و بند سے آزاد ہو کر پہلے سے کہیں زیادہ اقتدار و اختیار و طاقت پرواز کا مالک ہو کر اپنے مشن کو آگے بڑھا سکتے ہیں اس کی کچھ جھلکیاں تو ان کی تدفین سے پہلے ہی دنیا مشاہدہ کر چکی ہے، بقیہ آنے والے وقتوں میں دیکھیں گی۔ ان کی بلند مرتبہ روح اور پاکیزہ لہو جوانوں کے رگوں میں، بزرگوں کی فکروں میں، ماؤں کی شیروں میں ایسے سرائیت کر جائیں گے جیسے ہواؤں میں خوشبو ۔
پہلے وہ محدود دائرے میں رہ کر کام کر سکتا تھا اور کر رہا تھا مگر اب وہ ایرانی و تورانی کے دائرے سے نکل کر آفاقی بلکہ آسمانی ہو گئے۔ لہذا اب وہ اپنے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے شعراء سے اشعار ، خطباء سے تقریریں، مصوروں سے تصویریں، علماء سے کتابیں، تجزیہ نگاروں سے تجزیے ، کالم نگاروں سے کالمیں، مصنفین سے مقالے و تحریریں لکھوائیں گے۔ منبروں سے خطبے ، محرابوں سے تکبیریں ، میڈیا سے اشاعتیں، اسمبلیوں سے قراردادیں ، ماؤں سے تربیتیں، استادوں سے تہذیب نفس ، مجاہدین سے استقامت، اور دنیا کی ہر ذرائع کو اپنے پاکیزہ مشن کو آگے بڑھانے کے لیے بروے کار لائیں گے۔ اب ان کی طویل و جہد مسلسل سے بھری زندگی و مجاہدانہ کارناموں سے پرورش یافتہ روح جہاں دشمنوں کے دل میں خوف و وحشت پیدا کریں گی وہاں اہل ایمان کے دلوں میں ولولہ جوش اور جذبہ جہاد و شہادت ایجاد کرے گی۔ اور یوں شہید قاسم سلیمانی دشمنوں کے لیے پہلے اگر خطرناک تھا تو اب خطرناک تر ثابت ہوگا۔
تحریر؛ دانش بلتستانی مقپون
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید