تازہ ترین

گلگت بلتستان اقتصادی راہداری منصوبہ

تحریر: انجینئر منظور حسین پروانہ

پاکستان چین اقتصادی راہداری CPEC))کا منصوبہ عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے ، اس منصوبے نے ایک طرف پاکستان اور چین کے لئے ترقی کی نئی راہیں کھولنے کے امکانات روشن کئے ہیں تو دوسری طرف پاکستان ، بھارت اور چین کے درمیان مفاداتی جنگ کے خدشات کو بھی واضع کر دئیے ہیں ۔ صورت حال کی نزاکت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت اس راہداری کے منصوبے کو پاکستان آرمی کی زیر نگرانی میں پایہ تکمیل تک پہنچانے کا بار بار عزم کا اظہار کر چکے ہیں اس منصوبے کے لئے خصوصی فورسس اور نئی چھاؤنیوں کے قیام کے لئے پالیسیاں مرتب کی جارہی ہیں ۔ پاکستان اور چین کی قیادت کا CPEC کے خلاف انٹر نیشنل سازشوں کی تدارک کے لئے کی جانے والی پیشگی اقدامات کے پس منظر میں جنگ و جدل کی خدو خال کو نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

شئیر
1121 بازدید
مطالب کا کوڈ: 278

پاکستانی میڈیا میں امریکہ اور بھارت کی اس منصوبے کے خلاف سازشوں کی خبروں نے بھی اس منصوبے کوغیر یقینی صورت حال سے دوچار کیاہے ۔ پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبہ کس حد تک قابل عمل ہے ، اس منصوبے سے پاکستان اور چین کوکتنا اقتصادی فائدہ ہوگا اور اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے کس طرح کی سازشیں ہو رہی ہے ، ان تمام پہلوؤں سے قطع نظر یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری نے ایک بار پھر گلگت بلتستان کو عالمی سیاسی منظر نامے کی شہ سرخی بنا دیا ہے۔
گلگت بلتستان جغرافیائی اور تاریخی اعتبار سے بنیادی طور پر وسطی ایشیاء کا حصہ ہے ، جسے (Gateway of Asia ) بھی کہا جاتا ہے ۔صدیوں کی رقابت کے باوجودگلگت بلتستان کی تاریخ و ثقافت ،تہذیب و تمدن اور روایات وسطی ایشیائی ملکوں سے ملتی جلتی ہیں ، گلگت بلتستان کو دنیا کی چار ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایک بفراسٹیٹ(Buffer State) کی حیثیت حاصل ہے ۔گلگت بلتستان دنیا میں تازہ پانی کا سب سے بڑا منبع بھی ہے اور پانی پر لڑی جانے والی تیسری عالمی جنگ کے بارے میں بھی ماہرین کا اشارہ گلگت بلتستان کی طرف ہی جاتا ہے۔ پاکستان چین اقتصادی راہداری نے گلگت بلتستان میں تازہ پانی (Fresh Water) پر جنگ یاگرم پانی(Hot Water) تک رسائی کے لئے جنگ کے خدشات کو نمایاں کر دیا ہے۔
گلگت بلتستان ایک متنازعہ خطہ (Disputed Territory )ہے، یہ پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں اپنی تشخص پہچان اور خودمختاری سے محروم ہو گئی ہے۔ یکم نومبر1947ء سے قبل مہاراجہ ہری سنگھ کی سلطنت ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہونے کی وجہ سے آج بھی اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر مسئلہ کشمیر سے منسلک ہے۔ حکومت پاکستان نے آزاد کشمیر کی قیادت سے معاہدہ کراچی 28اپریل 1949ء کے ذریعے اس خطے کا عارضی انتظامی کنٹرول سنبھالا تھا جو کہ ابھی تک چلا آرہا ہے۔ جب بھی گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کو تبدیل کرنے کی نا کام کوشش ہوتی ہے تو کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں آڑے آتی ہیں۔بھارت ، جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر کی قیادتوں کی طرف سے بھی مخالفت ہوتی ہے اور پاکستان بھی کشمیرپر اپنی اصولی موقف اور خارجہ پالیسی کے پیش نظر گلگت بلتستان کو آئینی حقوق نہیں دے سکی ہے۔
اسلام آبادسیلف گورنینس آرڈر 2009 ء کے تحت گلگت بلتستان میں اپنا انتظامی امور چلا رہا ہے۔گلگت بلتستان ایک ہی وقت میں دو انتظامی سیٹ اپ کا حامل ہے ایک سیٹ اپ ریاستی طرزکی ہے تو دوسری سیٹ اپ صوبائی طرز کی ہے۔ ریاستی طرز حکومت کے تحت گلگت بلتستان میں سینیٹ طرز کا ایک ادارہ موجود ہے جسے” گلگت بلتستان کونسل “کہا جاتا ہے جس کا سربراہ وزیر اعظم پاکستان ہے جبکہ صوبائی طرز کی سیٹ اپ کے تحت” گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی “موجود ہے جس میں وزیر اعلیٰ اور گورنر کے عہدے متعارف کرائے گئے ہیں ۔تاہم انتظامی کنٹرول میں ہونے کے باوجود گلگت بلتستان پاکستان کا آئینی حصہ نہیں ہے، یہ خطہ آزاد کشمیر اور جموں و کشمیر حکومتوں کے دائرہ کار سے بھی باہر ہیں ۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کو نہ اپنی یکم نومبر 1947ء کی آزادجمہوریہ گلگت(Gilgit Republic) کی بحالی کی اجازت دی جاتی ہے اور نہ ہی ریاست پاکستان کا حصہ بنایا جاتا ہے، اور نہ ہی آزاد کشمیر حکومت میں ملایا جاتا ہے اسی لئے یورپین یونین کی رکن ممبر ایما نکلسن کی رپورٹ 2007 ء میں گلگت بلتستان کو دنیا کے نقشے پر کالا دائرہ(Black Hole) کہا گیا ہے اور بین الاقوامی سطح پر گلگت بلتستان کو دنیا کی آخری نو آبادیات Last Colony of the World) ( سے بھی جانا جاتا ہے۔
گلگت بلتستان پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمکش کا میدان بھی ہے اور عالمی طاقتوں کو مداخلت کے لئے پر کشش سامان بھی۔ پاکستان اور چین کی اس خطے کی متنازعہ حیثیت کو نظر انداز کرتے ہوئے اقتصادی راہداری گزارنے کی حکمت عملی سے بھارت خاصا پریشان نظرآرہا ہے ۔جوں جوں پاکستان اور چین کی قربتوں میں اضافہ ہوگا بھارت بھی امریکہ کے ساتھ اپنی تعلقات کو مضبوط کرے گا ۔اگر پاکستان اور بھارت باہمی مذاکرات سے مسئلہ کشمیر کا حل نکالنے میں کامیاب نہیں ہوتا تو اقوام متحدہ اپنی قرار دادوں پر عمل در آمد کروانے کے لئے مستقبل قریب میں امن مشن بھیج سکتی ہے ، اقوام متحدہ کی امن مشن(UN Peace Mission) کا مسکن گلگت بلتستان ہی ہو سکتا ہے کیونکہ” مظفر آباد اور سری نگر “کے مسائل کا حل” گلگت” میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان تنازعہ کشمیر کی چابی(Key of Kashmir Dispute) ہے ، تنازعہ کشمیرکے تالے کو گلگت بلتستان کی چابی سے ہی کھولا جا سکتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ وہاں جائے گی جہاں امریکہ چاہے گا ۔ امریکہ وہاں جانا چاہے گا جہاں سے وہ اپنی معاشی حریف کو نکیل دے سکے ، چین کی معاشی اونٹ کو گلگت بلتستان کی بلند و بالا پہاڑی سلسلوں کے درمیان نکیل دی جا سکتی ہے ۔گلگت بلتستان ان دنوں تشخص کی بحران) (Identity Crisis سے گزر رہا ہے اور ان تمام صورت حال میں اگر اقوام متحدہ نے گلگت بلتستان کی تاریخی قومی تشخص(Historical National Identity) کو تسلیم کرنے کی حامی بھرلی تو تعجب کی بات نہیں ہوگی کیونکہ گلگت بلتستان کی قوم پرست جماعتیں کئی سالوں سے عالمی رائے عامہ کو اس بات پر قائل کرنے کے لئے موثر جد و جہد کر رہی ہیں۔حکومت کی طرف سے خطے کے عوام کی حقوق کے لئے کی جانے والی جد و جہد کو انڈیا سے جوڑنے اور سیاسی رہنماؤں پر غداری کے مقدمات قائم کرنے کی حکمت عملی سے حالات کی سنگینی اور غیرمحسوس دباؤ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
گلگت بلتستان پاکستان اور چین کو ملانے والا واحد خطہ ہے ، پاکستان چین اقتصادی راہداری گلگت بلتستان سے ہی ہوکر گزرتی ہے ۔ گلگت بلتستان ایک متنازعہ خطہ ہونے کی وجہ سے جہاں اس اقتصادی راہداری کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں اور CPEC دن بہ دن متنازعہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں کئی باتیں زیر غور آ سکتی ہیں۔ اولا اس اقتصادی راہداری کو گلگت بلتستان سے گزارے بغیر گوادر تک پہنچانے کے لئے متبادل راستہ تلاش کرے ثانیا اس اقتصادی راہداری سے قبل حکومت گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی حصہ بنائے ، ثالثا یکم نومبر 1947ء کی آزاد و خود مختار ریاست کوبحال کرنے کا اعلان کر کے گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیرسے الگ تھلگ کرے
اور گلگت بلتستان کی حکومت کے ساتھ معاملات طے کر کے CPEC پر عمل در آمد کو یقینی بنائے ۔یہ تینوں تجاویز فی الحال کسی بھی فریق کے لئے قابل قبول نظر نہیں آتی نہ پاکستان گلگت بلتستان کو اپنا حصہ بنانے کی پوزیشن میں ہے نہ انڈیا گلگت بلتستان پر اپنی دعوی ٰسے دستبردار ہونے والا ہے اور نہ ہی سرحد کے دونوںآرپارکی کشمیری قیادت اس طرح کی کسی بھی تجویز پر عمل ہونے دے گی ۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت میں ردو بدل کرنے کی تجویز دی تو سب سے بڑا رد عمل کشمیری قیادت کی طرف سے سامنے آیا اور وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے حریت رہنماؤں کے نام خط لکھ کروضاحت کر دی ہے کہ پاکستان
کشمیریوں کی مرضی کے خلاف گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کو کبھی نہیں چھیڑے گا۔
پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کے منصوبے گلگت بلتستان کے انسانی و بنیادی حقوق سے محروم عوام کے لئے فی الحال شادمانی کا باعث بن رہا ہے کیونکہ PTV کے خبروں میں سال میں ایک بار گلگت کا نام سن کر سارا سال خوش رہنے والے لوگ آج عالمی میڈیا میں ہر سیکنڈ میں گلگت بلتستان کا ذکر سن رہے ہیں جو کہ صرف اور صرف CPEC کی مرہون منت ہے۔ گلگت بلتستان کی مستقبل کا دار و مدار CPEC پر ہے کیونکہ یہ منصوبہ یا تو عالمی مداخلت سے گلگت بلتستان کی آزادی و خود مختاری کا سبب بنے گا یا گلگت بلتستان کی تباہی و بربادی کا شاہراہ ثابت ہوگا۔ اس بات کا فیصلہ ہونے میں اب وقت نہیں لگے گا کیونکہ پاکستان چین اقتصادی راہداری گلگت بلتستان کے سینے سے گزرنے والی ہے اور انڈیا گلگت بلتستان کارڈ (Gilgit Baltistan Card)کھیلنے کے لئے عالمی کھلاڑیوں سے ساز بازکرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ پاکستان چین اقتصادی راہداری میں گلگت بلتستان کا حصہ ہو یا نہ ہو البتہ گلگت بلتستان CPEC کا حصہ ضرور ہے ۔ آج اگرپاکستان کی حکومت گلگت بلتستان کے لوگوں سے زندہ باد یا مردہ باد کے نعرے لگوا رہی ہے یا بھارت کے صدر ناریندر مودی اپنی خطاب میں گلگت کا ذکرکرتا ہے تو یہاں کے عوام سے ہمدردی میں نہیں بلکہ یہ دو روایتی حریفوں کی سرد جنگ (Proxy War) کی جھلکیاں اور میڈیا وار(Media War) کا تسلسل ہے۔ پاکستان اور بھارت کی سیاسی بیانات پرگلگت بلتستان کے عوام کو کسی بھی خوش فہمی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ” دو مولوی کے درمیان مرغی حرام” کے مصداق گلگت بلتستان کسی بھی وقت ان دو حریف ریاستوں کی مفادات کی بھینٹ چڑھ سکتی ہے اور جنگی جنون کا نشانہ بن سکتاہے۔گلگت بلتستان کے عوام کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے گلگت بلتستان کی بقاء و سلامتی کا راستہ تلاش کرے یہ راستہ گلگت بلتستان اقتصادی راہداری(GBEC) کا منصوبہ ہی ہو سکتا ہے۔
گلگت بلتستان اقتصادی راہداری (Gilgit Baltistan Econmic Corridor) تصوراتی کہانی نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی عملی منصوبہ ہے ۔گلگت بلتستان اقتصادی راہداری ( جی بیک) گلگت بلتستان کو ہمسایہ ملکوں کی سیاسی و عسکری استحصالی پالیسیوں سے نجات دلانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔گلگت بلتستان اقتصادی راہداری کا منصوبہ گلگت بلتستان کی آزادی و خود مختاری اور یہاں کے بیس لاکھ مظلوم و محکوم عوام کی بقاء و سلامتی اور روشن مستقبل کی ضمانت ہے ۔ گلگت بلتستان کے عوام کو CPEC میں حصہ مانگنے کے بجائے اپنی قومی تشخص کے ساتھ گلگت بلتستان اقتصادی راہداری منصوبے پر کام کروانے کے لئے اجتماعی جد و جہد کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔
CPEC پر ہونے والی عالمی سازشوں اور اس کے پس منظر میں ہمسایہ ملکوں کے درمیان جنگ کے بڑھتے ہوئے خدشات اور بین الاقوامی طاقتوں کی اس آڑ میں گلگت بلتستان میں مداخلت کے مبینہ امکانات کو روکنے کے لئے گلگت بلتستان اقتصادی راہداری منصوبے) (GBEC کو عملی جامہ پہنانے کی اشدضرورت ہے۔ گلگت بلتستان اکنامک کوریدور منصوبے کو قابل عمل اور قابل قبول بنانے کے لئے مسئلہ کشمیر کے حل تک اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں گلگت بلتستان میں” آزاد و خود مختار ریاستی اسمبلی” کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے ۔ گلگت بلتستان میں اسٹیٹ سبجیکٹ رولز State Subject Rules 1927))کو فوری نافذالعمل کرکے مقامی آبادی کو اقلیت میں بدلنے اور لوگوں کی ملکیتی زمینوں کو بیرونی قبضے سے بچانے کے لئے قانون سازی کی جا سکتی ہے۔ پاکستان چین بھارت اور افغانستان کو ایک معاہدے کے ذریعے گلگت بلتستان کی سرحدوں کی پاسداری کرنے کا پابند بنا کر خطے کو غیر جنگی علاقہ(No War Zone) بنایا جا سکتا ہے۔ گلگت بلتستان کی تشخص ، آزادی ، خود مختاری اور سا لمیت کی بین الاقوامی گرانٹی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے دلائی جا سکتی ہے۔ گلگت بلتستان،آزاد کشمیر، پاکستان ، چین ،انڈیا، افغانستان ، اور تاجکستان پر مشتمل گلگت بلتستان اکنامک کوریڈور فورم کا قیام عمل میں لاکر گلگت بلتستان اکنامک کوریڈور منصوبے پر کام شروع کیا جا سکتا ہے۔
گلگت بلتستان اقتصادی راہداری کا منصوبہ اپنی انفرادیت اور افادیت کے پیش نظر ایک غیر متنازعہ منصوبہ ہوگا جس میں نہ صرف متنازعہ کشمیر کے سٹیک ہولڈرز شامل ہونگے بلکہ گلگت بلتستان کے تمام ہمسایہ ممالک برابری کی بنیاد پرشامل ہو سکیں گے، گلگت بلتستان اقتصادی راہداری جس طرح چین کو خلیجی ملکوں تک رسائی دے گی اسی طرح سینٹرل ایشین ممالک کو پاکستان، انڈیا اور بحرۂ ہند سے ملائے گی۔یہ خطہ وسطی ایشیائی ممالک اور جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرے گا۔گلگت بلتستان اکنامک کوریڈور ایک غیر متنازعہ اور موثر اقتصادی راہداری کا منصوبہ ہوگاجس کے معاشی فوائد CPEC سے ہزار گنا زیادہ ہو گا ۔گلگت بلتستان اکنامک کوریڈور منصوبے کے ذریعے چین کو پاکستان، انڈیا اور کشمیر، پاکستان کو افغانستان اورتاجکستان ، افغانستان کو چین اور انڈیا ،کشمیر کو چین، تاجکستان اور افغانستان، انڈیاکو چین اور تاجکستان، جبکہ گلگت بلتستان کو تمام ہمسایہ ملکوں سے ملایا جا سکتا ہے ۔گلگت بلتستان اکنامک کوریڈور زمختلف ممالک کو اسطرح ایک دوسرے سے زمینی راستوں کے ذریعے منسلک کرے گی۔۔
گلگت بلتستان اکنامک کوریڈورمنصوبے میں زمینی راستوں کے علاوہ فضائی راستے بھی شامل کئے جا سکتے ہیں ، سکردو ، گلگت ، دوشنبے، کاشغر، کابل، اسلام آباد، مظفر آباد اور سر ی نگر ائر پورٹس کو انٹر نیشنل ائیرپورٹس کا درجہ دے کر ائیر ٹریڈ (Air Trade)کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اس منصوبے سے نہ صرف ہمسایہ ملکوں کے درمیان تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا بلکہ باہمی تعلقات کو بھی فروغ ملے گا جس سے تمام ممالک کے عوام خوشحالی ہونگے ۔گلگت بلتستان اکنامک کوریڈور سے بین الملکی سیاحت کے شعبے کو فروغ ملے گا جس سے کروڑوں ڈالرزکا زر مبادلہ حاصل ہوگا۔اس راہداری منصوبے سے گلگت بلتستان معاشی حب (Economical Pivot)بن جائے گا ۔ یہاں کے عوام کی بنیادی و انسانی حقوق کو تحفظ ملے گا، معاشی حالت میں بہتری آئے گی اور گلگت بلتستان عالمی تجارتی مرکز کے طور پر ابھر کر سامنے آئے گا۔ گلگت بلتستان کی انتظامی امور چلانے کے لئے حکومت پاکستان کو گرانٹ دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ اس اقتصادی راہداری کی آمدنی گلگت بلتستان کی سالانہ ترقیاتی بجٹ سے لاکھ گنا زیادہ ہوگا۔
گلگت بلتستان اکنامک کوریڈور صدیوں پرانی تجارتی راستہ ” شاہراہ ریشم کی احیا ء نو (Renevation of Silk Routes) ہے ۔ جو 1947ء سے عوامی نقل و حمل اور تجارت کے لئے ممنوع قرار دیے جا چکے ہیں۔ گلگت بلتستان اکنامک کوریڈور مسئلہ کشمیر کو حل کرنے ، پاکستان بھارت چین اور افغانستان کے تعلقات کو خوشگوار بنانے اور گلگت بلتستان میں بین الاقوامی مداخلتوں کا راستہ روکنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ جس سے چار ہمسایہ ایٹمی ممالک کے درمیان ایٹمی تصادم کا خطرہ ٹل سکتا ہے ۔ سب سے بڑ ھ کرگلگت بلتستان اکنامک کوریڈورپاکستان ، چین ہندوستان ، افغانستان اور تاجکستان میں بسنے والے اربوں انسانوں کو امن و سکون اور
آشتی سے زندگی گزارنے کے لئے وسائل کی فراہمی کا عالمی منصوبہ ثا بت ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ چین ، پاکستان ، انڈیا، تاجکستان اورافغانستان اس عالمی معاشی راہداری کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سر جوڑ کر بیٹھیں تاکہ گلگت بلتستان اکنامک کوریڈور منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر سیاسی و معاشی فوائد حاصل کیا جا سکے۔گلگت بلتستان کے عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ CPEC کا”حصہ دار” بننا چاہتی ہے یا GBEC کا” مالک” کہلانا چاہتی ہے۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *