دولتِ اسلامیہ کے جنگجو اس وقت عراق اور شام کے کچھ حصے پر قابض ہیں جبکہ پاکستانی طالبان ڈیڑھ دہائی سے زیادہ عرصے سے ملک میں شدت پسندی کی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔

تنظیم کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد کی جانب سےجاری کیے گئے بیان میں فضل اللہ نے شام اور عراق میں لڑائی میں مصروف شدت پسندوں کو ’اپنا بھائی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’وہ اپنی صفوں میں وحدت پیدا کریں اور آپسی اختلافات بھلا کر عالمی کفری اتحاد کے خلاف پوری قوت سے محاذ آرا ہو جائیں۔‘

بیان میں پہلی مرتبہ اپنے نام کے ساتھ ’خراسانی‘ کا لاحقہ استعمال کرتے ہوئے فضل اللہ نے ان شدت پسندوں کو ’حتی المقدور‘ مدد کا یقین بھی دلایا ہے۔

بیان میں ملا فضل اللہ نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ڈیورنڈ لائن کو ’دیوارِ برلن‘ سے تشبیہ دی ہے جس نے پختون مسلمانوں کو ایک دوسرے سے جدا کیا ہوا ہے۔

انہوں نے اس موقع پر خالص اسلامی نظام اور خلافت کے قیام تک جنگ جاری رکھنے کا اعلان بھی دہرایا اور بقول ان کے لوگوں کو پریشان کرنے کے لیے ان کے بارے میں پروپیگنڈا کرنے والی پاکستانی حکومت اور میڈیا کے خلاف بھی لڑنے کا اعلان کیا ہے۔

یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جو تحریکِ طالبان پاکستان سے علیحدہ ہونے والے مہمند ایجنسی کے شدت پسندوں کے رہنما عمر خالد خراسانی نے بھی سنیچر کو ایک بیان میں عراق و شام کے عسکریت پسندوں کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ہے۔

ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے عسکریت پسند بھی عراق و شام کی صورتحال میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے