حضرت اللہ جواد فاضل لنکرانی نے بھی جامعہ روحانیت کے وفد کو خوش آمدید کہنے ساتھ ساتھ مختصر نصیحت کرتے ہو‎ئے کہا کہ جامعہ روحانیت بلتستان کی حوزہ علمیہ میں ذمہ داری بنتی ہے کہ بلتستان کے طلاب کی علمی مشکلات اور کمزوریوں کو برطرف کریں اور علماء کی علمی قابلیت پاکستان میں تشیع کے اعتقادات مضبوط ہونے کا بھی باعث بنے گی۔ اور علماء کے پلیٹ فارم کو پورے پاکستان میں پھیلا‎ئیں اس سے تشیع کی حفاظت ہوگی۔
آپ نے نصیحت کرتے ہو‎ئے مرحوم آیت اللہ العظمی فاضل لنکرانی رضوان اللہ تعالی علیہ کا پاکستانی طلاب کے بارے میں ایک جملہ نقل کرتے ہو‎ئے فرمایا: ہمارے والد مرحوم فرماتے تھے پاکستانی طلاب کی کمزوری یہ ہے کہ حوزہ علمیہ میں آنے کے بعد جلدی سے واپس جاتے ہیں اور علمی عالی مراتب تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں اور یہ واپس جانا بھی انکی مجبوری ہے۔ چونکہ علاقے میں عالم کی ضرورت ہوتی ہے۔
آپ نے اس حوالے سے فرمایا کہ یہ صحیح ہے کہ جنہوں نے عالی مراتب کے علوم حاصل نہیں کرنا ہے یا جس میں اس کی صلاحیت موجود نہیں ہے وہ ایک عالم کی ابتدا‎ئی ضروریات کو حاصل کرنے کے بعد واپس چلا جا‎ئے اور دین کی تبلیغ کرے۔ لیکن جن افراد میں صلاحیت ہے وہ کم از کم دس سال تک دوسری تمام تر مصروفیات کو بالاے طاق رکھ کر صرف اور صرف ایک ہی فیلڈ میں کام کرے مختلف علوم میں محقق اور صاحب نظر افراد بن جا‎ئیں یہاں تک کہ ان چند سالوں میں رات دن محنت سے پڑھے اور تبلیغ کیلیے جانے سے بھی گریز کریں۔
آپ نے جامعہ روحانیت بلتستان کی طرف سے زا‎ئرین کے لیے کی جانی والی خدمات کو سراہتے ہو‎ئے فرمایا: چونکہ یہ زوار آپ کے پاس دو چار دن رہتے ہیں اس لیے کوشش کریں ایک دن میں ایک مہینے کی تبلیغ کریں تاکہ وہ اپڈیٹ ہوجا‎ئیں
آپ نے فقہ میں طلاب بلتستان کی تقویت اور قضاوت کے علوم کو حاصل کرنے میں مرکز فقہی ا‎ئمہ اطہار کے توسط جامعہ روحانیت بلتستان کے ساتھ تعاون کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
اس ملاقات کے آخر میں جامعہ روحانیت بلتستان کے صدر محترم حجت الاسلام سید احمد رضوی نے آیت اللہ جواد فاضل لنکرانی کا شکریہ ادا کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے