کرونا،من پسند باتیں اور ہماری ذمہ داریاں/ تحریر : محمد حسن جمالی

کرونا وائرس عالمگیر بیماری کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔ دنیا کے چیدہ دانشوروں نے اس وائرس کے عالمی وبا ہونے پر مہر تصدیق ثبت کی ہے ۔ اس بیماری سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں چین، اٹلی اور ایران کا نام سر فہرست ہےـ حالیہ دنوں میں دنیا کے سائنس دان کرونا پر تحقیق کرنے میں مگن ہیں، مگر تاحال ان کی تحقیق کا کوئی قطعی نتیجہ سامنے نہیں آیا ، امید ہے مستقبل قریب میں ہی اس بیماری کے بارے میں حقائق سامنے آجائیں گے۔ ظاہری قرینے سے یہ اندازہ ہورہا ہے کہ اس تحقیقی میدان میں چین اور ایران کے محققین دوسروں سے آگے ہیں،ان دو ملکوں کے خستہ ناپزیر ماہرین طب اس بیماری کی ویکسن تیار کرنے میں بہت جلد کامیابی حاصل کریں گے ،کیونکہ وہ شب وروز ایک کرکے اس پر کام کررہے ہیں، سرکاری سطح پر ان محنت کش ڈاکٹروں کی خوب حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران کے سپیشلسٹ ڈاکٹروں کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ اس ملک کے رہبر اعلی سمیت ایوان بالا کے مقتدر افراد نے انہیں وہ مقام دیا جس کے وہ مستحق تھے، انہوں نے ماہرین طب کی ہدایات کو واجب العمل قرار دیا ،ان کی احتیاطی تدابیر اپنانے کو ہر ایک کے لئے لازمی قرار دیا ۔جب ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ پھیلنے والی بیماری ہے ،ہر طرح کا اجتماع اس وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتا ہے تو مجتہدین عظام نے متفق ہوکر تمام مذہبی وغیر مذہبی اجتماعات کو وقتی طور پر معطل کروائے، یہاں تک کہ ڈاکٹروں کی ہدایات کے پیش نظر مقامات مقدسہ میں جمعہ اور نماز جماعت بھی بند رکھی گئی،جس سے ایران میں کرونا کی شدت سے پھیلتی لہر میں کمی آئی ہے۔

حقیقتِ انتظار اور اسکے تقاضے

حقیقتِ انتظار اور اسکے تقاضےہم اور آپ عصر انتظار میں جی رہے ہیں عصر انتظار میں جینے کے دو رخ ہیں ایک یہ کہ جس کے انتظار میں جی رہے ہیں اسکے لئے کیا کر ہے ہیں اگر انتطار کے تقاضوں کو پورا کر رہے ہیں تو ہمار ا یہ جینا عصرِ ظہور میں جینے […]

زائرین پر کورونا وائرس پھیلانے کا الزام اور اس کے اثرات

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب ایک عالمگیر وبا دنیا میں پھیلتی ہے تو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آتے ہیں اور انکی صنعتی ترقی اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی نظر آتی ہے ایسے میں پاکستان جیسا بےبس ملک کا ایسے وبا کو ملکی سرحدوں تک پہنچنے سے پہلے روکنے کی کوششیں خودفریبی کے سوا کچھ نہیں کیونکہ یورپ اور امریکہ وغیرہ میں جب کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والے افراد کی شرح آئے دن بڑھتی جارہی ہے اور وہ اسے سرحدوں سے باہر روکنے سے قاصر رہے ہیں تو بیچارہ پاکستان جس کے پاس جہاں ہسپتال نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو ہیں وہ بھی اکثر بنیادی سہولیات سے عاری، تو ایسی صورت میں انکا یہ کہنا کہ ہم کورونا کو بارڈرز سے باہر ہی روک دیں گے یہ ایک سہانا خواب ہی ہوسکتا ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ بنابر این کورونا وائرس جس طرح یورپ، امریکہ، افریقہ، خلیجی ممالک، ایران اور چین میں پھیلا اسی طرح سے پاکستان میں بھی اس نے پہنچنا تھا اور پہنچ گیا۔ لیکن کیسے اور کہاں سے آیا اسے مستقبل میں ماہرین خود تجزیہ کریں گے اور اس کا جواب تلاش کریں گے۔ خیر ،کورونا کو ملک کی سرحدوں سے باہر روکنے کی طاقت پاکستان میں نہیں تھی اور اس کے سامنے حکومت بےبس تھی اس کی بےبسی کے نتیجے میں پورا ملک اس کی لپیٹ میں آگیا۔