آفتاب کربلا جناب حضرت علی اکبر علیہ السلام/ تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی اس فانی زندگی کو راہ خدا میں قربان کر دیتے ہیں اور اس کےعوض ابدی زندگی حاصل کرلیتے ہیں۔خدا کی خوشنودی کی خاطر ہر وقت ہر لمحہ ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں اورباطل قوتوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کر کے خدا کی معرفت اوراحکام خداوندی کی ترویج کرتے ہیں۔ کربلا بھی معرفت خداوندی رکھنے والوں اورراہ حق کے متلاشیوں کی امتحان گاہ تھا۔جس نے حق و باطل کو قیامت تک کے لئے جدا کر دیا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کو باطل قوتوں کے ساتھ نبرد آزما ہونے کا درس دیا۔کربلا وہ عظیم درسگاہ ہے جہاں ہر انسان کے لئے جو جس مکتب فکر سے بھی تعلق رکھتا ہو اور جس نوعیت کی ہو درس ملتا ہے یہاں تک غیر مسلم ہندو ،زرتشتی،مسیحی بھی کربلا ہی سے درس لے کر اپنے اہداف کو پہنچے ہیں ۔

حجۃ الاسلام شیخ حافظ حسین نوری اعلی اللہ مقامہ

حجۃ الاسلام شیخ حافظ حسین نوری اعلی اللہ مقامہ
تحریر ترتیب وپیشکش: علی احمد نوری وعبدالغفار توحیدی
مرحوم حجۃ الاسلام شیخ حافظ حسین نوری ۱۷ رجب ۱۳۸۲ھ ق بمطابق ۱۹۶۲ ء کو بلتستان کے ضلع گنگ چھے تحصیل مشہ بروم کے گاوں سینو میں پیدا ہوئے۔مرحوم کے دادا ایک دیند ار دور اندیش اور سخی انسان تھے مرحوم نےبتدائی تعلیم ماسٹر قنبر علی کے پاس پرائمری سکول کندوس سے جبکہ مڈل اور میٹرک کی تعلیم ہائی سکول خپلو سے حاصل کی۔ گورنمنٹ ڈگری کالج سکردو سے انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کی تعلیم مکمل کی۔ موصوف کا نام کالج کے پوزیشن ہولڈٖروں کی لسٹ میں آج بھی شامل ہے۔ وہ سکول اور کالج کی تعلیم کے دوران ہر کلاس کے ممتاز طالب علم رہے۔ان کے استاد کے بقول وہ شروع ہی سے اسلامی آداب کے پابند، محنتی اور عظیم شخصیت کے مالک تھے چنانچہ وہ کبھی گاؤں کے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے نہیں دیکھے گئے۔ ازاں بعد موصوف نے اپنے دینی رحجانات کے باعث جامعۃ المنتظر لاہور میں دینی علوم کے حصول کا سلسلہ شروع کیا۔

عزاداری، انسانیت سازی کا اہم وسیلہ / تحریر: محمد حسن جمالی

عزاداری ہدف نہیں انسانیت سازی کا اہم وسیلہ ہے ، انسانیت جوہرہ انسان ہے، اس سے قطع نظر وہ ایک چلتی پھرتی لاش کے سوا کچھ نہیں، تمام انبیاء اور اولیاء الہی کی آمد کاہدف انسان کی تربیت کرکے اس میں انسانیت کو پروان چڑھانا تھا ،بدون تردید یہ بہت سخت، پیچیدہ اور دشوار کام تھا اور ہے ،چنانچہ کہا جاتا ہے انسان بننا آسان ہے مگر انسانیت کا خوگر بننا انتہائی سخت ـ اس گوہر ناب کو پانے کے لئے انسان کو بہت ریاضت اور محنت کرنا پڑتی ہے ،خواہشتات نفسانی پر کنٹرول کرکے عقل کے حکم کے مطابق چلنا پڑھتا ہے ، ہدایت کے وسیلوں سے متمسک ہوکر اسے حاصل کرنے کے لئے تگ ودو کرنا پڑھتا ہے، مادیات کی دلدل میں پھنسنے کے بجائے معنویات پر بھی توجہ دینا پڑھتا ہے اور دائرہ اسلام کے اندر مقید رہ کر اس کے اصولوں کو چراغ زندگی قرار دینا پڑھتا ہے تب جاکر انسان کے اندر انسانیت کا نشونما پانا ممکن ہوجاتا ہےـ