”حج“اتحاد بین المسلمین کا عملی نمونہ/ نصر اللہ فخرالدین
مقدمہ
”اِنَّ أَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃ مُبَارَکًا وَّھُدًی لِّلْعٰلَمِیْن“
ترجمہ: ”سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لئے بنایا گیا وہ وہی ہے جو مکہ میں ہے جو عالمین کے لئے بابرکت اور راہنما ہے۔“(القرآن)
فریضہ حج کے اس عظیم پہلو (حج اتحاد بین المسلمین کا عملی نمونہ)کو اس مختصر مقالہ میں بیان کرنا اگر چہ مشکل ہے لیکن محال نہیں ہے لہٰذا ہماری کوشش یہی ہوگی کہ یہ پہلو واضح ہو۔
دین مبین اسلام کا کوئی بھی حکم حکمت سے خالی نہیں ہے تمام احکام اسلامی مبنی بر حکمت ہوتا ہے چاہے اس حکم میں موجود حکمت کسی کے سمجھ میں آئے یا نہ آئے،حکمت ضرور ہوتا ہے۔ چونکہ اسلام ایک جامع نظام ہے تو انسانی زندگی کے تمام پہلووں کی طرف توجہ رکھتا ہے اور انسانی معاشرہ جب تک اسلامی نظام کے مطابق زندگی نہیں کرتا تب تک کمال تک نہیںپہنچتا اور امن و امان قائم ہو کر ظلم اور قتل و غارتگری کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔
زائرین اربعین حسینی اور مفاد پرست ٹولے/تحریر : محمد حسن جمالی
زائرین حضرت سید الشھداء کی عظمت اور مقام بہت بلند ہے، مقامات مقدسہ کی زیارت کرنے والے لوگ اللہ تعالی کے محبوب اور مقرب بندے ہوتے ہیں ،ان کا یہ عمل خدا کے نذدیک پسندیدہ اعمال میں سرفہرست شمار ہوتا ہے ،جس کے عوض پروردگار نےعظیم اجر عطا کرنے کا وعدہ کر رکھا ہےـ اس حوالے سے نمونے کے طور پر کچھ روایات ملاحظہ فرمائیں ـ
اگر امام حسین علیہ السلام کا زائر جانتا ہے کہ اس زیارت کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور امیرالمؤمنین علیہ السلام اور سید فاطمہ سلام اللہ علیہا اور ہم اہل بیت کے شہداء کو کس قدر خوش اور مسرت ملتی ہے اور اگر جانتا کہ اس زیارت کے توسط سے ـ
اتحاد بین المسلمین کے عظیم داعی، شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی/ تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
راز ہستی راز ہے جب تک کوئی محرم نہ ہو
کھل گیا جس دم تو محرم کے سوا کچھ بھی نہیں
تاریخ اپنے زمانے کی روح پرور اور بلند ہمت ہستیوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔25نومبر 1948کے روز اذان صبح کے وقت لا الہ الا اللہ کا حقیقی عارف اپنی ماں کی گود میں جلوہ گر ہوا ۔شہید قائد ابھی بچہ تھا لیکن ان کی فکر اور سوچ ہر وقت اس خالق سے مربوط ہوتی کہ میں خالق حقیقی کے قرب اور بلند مقامات کو کیسے حاصل کروں۔ اسی مقصد کو لے کر دینی علوم حاصل کرنے میں محو ہوئے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ عارف صرف طالب علم ہی نہیں تھےبلکہ وہ معنوی طور پر ایک بلندمقام پر فائز ہو چکے تھے ۔
علوم دینی کو صحیح معنوں میں حاصل کرنے اور مختلف بزرگ اساتذہ سے کسب فیض حاصل کرنےکی غرض سےنجف اشرف اورقم المقدسہ کا انتخاب کیا۔ وہاں علمی وعرفانی معرفت کے اعلی مراتب طے کرنے کے بعد وطن عزیز کی محبت نے انہیں ایک دفعہ پھر پاکستان کھینچ لایا ۔
