آغا سيد جعفر شاه تهگس

تحریر : سید بشارت حسین تھگسوی
قَالَ الله تَعالی : يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ الَّذينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجاتٍ.( سورہ مجادلہ ،آیت ١١)
ترجمہ :خدا صاحبان ایمان اور جن کو علم دیا گیا ہے ، ان کے درجات کو بلند کرنا چاہتا ہے۔
علم انسان کے نفس میں تحول ایجاد کرکے نفسانی حالات کو مضطرب کرتا ہے ۔ علم و دانش کی وجہ سے نفس میں ایجاد ہونے والا تحول ، انسان کو کمال کے درجات تک پہنچاتا ہے ۔ علم و دانش اور اعلیٰ مراتب پر فائز ہونا ، دانشمندوں کو جاہلوں سے ممتاز کرتا ہے ۔ خداوند متعال اس بارے میں ارشاد فرماتا ہے :
شیخ غلام رسول نجفی(کتی شو) کی حالات زندگی کا ایک جائزہ

مقدمہ:
الحمد الله الرب العالمين وصلوات واسلام على خير خلقه محمد وعلى اله طبيبين الطاهرين المعصومين اما بعد:قال امام علی عليه السلام "یا کمیل هلك خزان الأموال وهم أحياء والعلماء باقون ما بقي الدهر،اعيانهم مفقودة وامثالهم فى القلوب”[1] امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں "اے کمیل ؛ مال جمع کرنے والے ہلاگ ہوگئے اور علماء زندہ رہیں گے جب تک دنیا باقی ہے، ان کے اجسام موجود نہیں مگر ان کی امثال لوگوں کے دلوں میں ہیں”۔
آزاد مرد/تحریر: سید بشارت حسین تھگسوی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
آزاد مرد
تحریر: سید بشارت حسین تھگسوی
حضرت امام حسین علیہ السلام نے ایک عظیم مقصد اور ایک عظیم ترین نصب العین کے لئے شہادت کو گلے لگایا اور مقصد کی عظمت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ امام عالی مقام نے اپنے آبائی وطن مدینہ کو چھوڑا، تین دن کی بھوک و پیاس برداشت کی ،خود اپنی اور اپنے رفقاء کی قربانی دی یہاں تک کہ اہل حرم کی بے پردگی و اسیری برداشت کرنے کے لئے بھی آمادہ ہوئے۔آپ کے پیش نظر خدا کی خوشنودی ، دین و شریعت کی بقا اور انسانیت کا تحفظ جیسے اہم مقاصد تھے۔
