اے گنبد خضراء!(2) .

تحریر: ایس ایم شاه

گنبد خضریٰ سے چند قدم کے فاصلے پر ہی "بقیع قبرستان” ہے۔ جب آپ باب جبریل سے باہر نکلیں گے تو سامنے ہی بقیع قبرستان دکھائی دے گا۔ مسجد نبوی اور بقیع کے درمیان ایک چھوٹی سی سڑک ہے۔ بقیع ہی وہ پہلا قبرستان ہے، جسے صدر اسلام میں پیغمبر اکرم (ص) کے حکم پر مدینہ منورہ میں بنایا گیا۔ یہاں ازواج مطہرات، اصحاب کرام، پیغمبر اکرمؐ کے چچا جناب عباس، حضرت فاطمہ بنت اسد والدہ ماجدہ حضرت علیؑ، حضرت عباسؑ کی مادر گرامی حضرت ام البنین اور  چار ائمہ؛ امام حسن مجتبٰیؑ، امام زین العابدینؑ، امام محمد باقرؑ و امام جعفر صادق ؑ اور بعض تواریخ کے مطابق حضرت عثمان بن عفان بھی یہاں مدفون ہیں۔ مدینے کی طرف ہجرت کے بعد بقیع مسلمانوں کا واحد قبرستان تھا۔ مدینے کے لوگ اسلام سے پہلے اپنے مُردوں کو "بنی حرام” اور "بنی سالم” اور کبھی اپنے گھروں میں ہی دفناتے تھے۔ سب سے پہلی شخصیت جو رسول مقبولؐ کے حکم سے یہاں دفن ہوئیں، وہ عثمان بن مظنون ؓہیں۔ جو حضرت رسول خدا اور حضرت علیؑ کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔

اخلاق اور خود سازی عظیم مجاہدت

پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ایک سخت جنگ سے واپسی پر فرمایا کہ "یہ جہاد اصغر تھا اور اس کے بعد جہاد اکبر کی باری ہے” جہاد اکبر یعنی نفس سے جہاد۔ جہاد بالنفس کو انسان کی ذاتی حدود تک محدود نہیں سمجھنا چاہئے۔ شہوت، نفسانی خواہشات، لذت کوشی، آرام طلبی، زیادہ کی خواہش اور بری عادتوں کے خلاف مجاہدت اہم اور جہاد بالنفس ہے۔ یعنی انسان کو اپنے باطن میں موجود شیطان کے خلاف مستقل مجاہدت اور اس کو مغلوب کرنا چاہئے تاکہ وہ انسان کو برے کاموں پر مجبور نہ کر سکے۔