شیخ محسن کے اکاﺅنٹس منجمد ہونے سے درجنوں تعلیمی ادرے بند ہوں گے، ہمارا مستقبل تباہ ہونے سے بچایا جائے، طلباء
نامور عالم دین وسماجی شخصیت شیخ محسن علی نجفی کو فورتھ شیڈول میں شامل کر کے جابر بن الحیان ٹرسٹ کے بنک اکاونٹس منجمد کرنے کے خلاف بلتستان بھر کے اسوہ پبلک سکولز کے طلباءسڑکوں پر نکل آئے سکردو ، گانچھے ، شگر ،کھرمنگ اور روندو میں طلباءنے بدھ کے روز سڑکیں بلاک کر کے […]
امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کا واقعہ

امام علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئی تو پورا مدینہ امام علیہ السلام کے سوگ میں عزادار ہو گیا، مرد و زن، گورا کالا اور چھوٹا بڑا سب امام کے غم میں گریاں تھے اور زمین و آسمان سے غم کے آثار نمایاں تھے۔
امام علي بن الحسين عليہ السلام” جو "سجاد”، "زين العابدين”، اور "سيد الساجدين”، جیسے القاب سے مشہور تھے، کربلا میں آئے تو 22 سالہ نوجوان تھے۔
11 محرم کو عمر بن سعد نے اپنے مقتولین کی لاشیں اکٹھی کروائیں اور ان پر نماز پڑھی اور انہیں دفنا دیا مگر امام حسین علیہ السلام اور اصحاب و خاندان کے شہداء کے جنازے دشت کربلا میں پڑے رہے۔ عمرسعد نے کوفہ کی طرف حرکت کا حکم دیا۔ عرب اور کوفے کے قبیلوں کے افراد نے ابن زیاد کی قربت اور اللہ کی لعنت حاصل کرنے کے لئے شہداء کے مطہر سروں کو آپس میں تقسیم کرکے نیزوں پر سجایا اور کوفہ جانے کے لئے تیار ہوئے؛ اور حرم رسول اللہ (ص) کی خواتین، بچوں اور بچیوں کو بےچادر، اونٹوں پر سوار کیا گیا اور کفار کے اسیروں کی طرح انہیں کوفہ کی جانب لے گئے۔
جب یہ اسراء کوفے کے نزدیک پہنچے تو وہاں کے لوگ اسیروں کا تماشا دیکھنے کے لئے اکٹھا ہو گئے۔ ایک کوفی خاتون جو اپنے گھر کی چھت سے اسیروں کے کارواں کا تماشا دیکھ رہی تھی نے اسراء سے پوچھا: ’’تم کس قوم کے اسیر ہو؟‘‘۔
امام سجاد علیہ السلام اور لوگوں پر احسانات
امام ؑ فقیروں کے لئے افسوس کرتے ،ان کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے ،جب کسی سائل کو کچھ دیتے تو اس سے معانقہ کرتے تاکہ اس سے ذلت اور حاجت کااثر جاتا رہے، جب سا ئل کسی سوال کا قصد کرتا تو آپ ؑ مرحبا کہتے۔
امام زین العابدین علیہ السلام کی ایک ذاتی صفت لوگوں پر احسان اور ان کے ساتھ نیکی کرنا تھی ، آپ ؑ کا قلب مبارک اُن پر رحم و کرم کرنے کیلئے آمادہ رہتا تھا ،مورّخین کا کہنا ہے :جب آپ کو یہ معلوم ہوجاتا تھا کہ آپ کا کوئی چا ہنے والا مقروض ہے تو آپ ؑ اس کا قرض ادا فرما دیتے تھے ، اور آپ ؑ اس ڈرسے کہ کہیں آپ ؑ کے علاوہ کو ئی دوسرا لوگوں کی حا جتیں پوری کر دے اورآپ ثواب سے محروم رہ جائیں لہٰذا لوگوں کی حاجتوں کو پورا کرنے میں سبقت فرماتے تھے، آپ ؑ ہی کا فرمان ہے : ’’ اگر میرا دشمن میرے پاس اپنی حاجت لیکر آئے تو میں اس خوف سے اس کی حاجت پورا کرنے کیلئے سبقت کرتا تھا کہ کہیں اور کو ئی اس کی حاجت پوری نہ کردے یا وہ اس حاجت سے بے نیاز ہو جائے اور مجھ سے اس کی فضیلت چھوٹ جائے ‘‘۔آپ ؑ کے لوگوں پر رحم و کرم کے سلسلہ میں زہری نے روایت کی ہے :میں علی بن الحسین ؑ کے پاس تھاکہ آپ ؑ کے ایک صحابی نے آپ ؑ کے پاس آکر کہا :آج میں چارسو دینار کا مقروض ہوں اور میرے لئے اپنے اہل و عیال کی وجہ سے ان کو ادانہیں کر سکتا ،امام ؑ کے پاس اس وقت اس کو دینے کے لئے کچھ بھی مال نہیں تھا ،آپ ؑ نے اس وقت گریہ وزاری کرتے ہوئے فرمایا :’’ایک آزاد مو من کے لئے اس سے بڑی مصیبت اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے مو من بھا ئی کو مقروض دیکھے اور وہ ادا نہ کر سکے اور وہ اس کاایسے فاقہ کی حالت میں مشا ہدہ کرے جس کو وہ دور نہ کر سکتا ہو‘‘۔
