تازہ ترین

شہید علامہ سید ضیاءالدین کی مختصر سوانح حیات/تحریر: عین الحیات

علامہ شہید سید ضیاء الدین رضوی ایک مذہبی ، علمی اور سادات گھرانے میں گلگت شہر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی حضرت حجت الاسلام والمسلمین علامہ سید فاضل شاہ رضوی تھے ۔ انہوں نے ملت تشیع کے لئے عظیم خدمات انجام دیں ۔ آپ نے ایک مجاہد اور عظیم بیٹے یعنی سید ضیاء الدین رضوی کو ملت تشیع کے لئے عظیم سرمایہ و تحفہ کے طور پر چھوڑ دیا۔۱؂

شئیر
40 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4262


شہید کا خاندان
شہید سید ضیاء الدین رضوی کے نانا جناب میر احمد شاہ رضوی صاحب تھے کہ جو ۱۸۸۴ میں جناب سید شاہ صفی کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ یہ گھرانہ گلگت کے معروف خاندان ،سادات رضوی کے نام سے مشہور تھا۔ جناب میر احمد شاہ رضوی ایک معروف عالم اور خطیب تھے۔ آپ کی مجلس میں شیعہ اور سنی ہر دو فرقے شرکت کرتے تھے۔ آپ جو دعا لوگوں کے لئے کرتے تھے ، وہ پوری ہوجاتی تھی۔ شہید رضوی کے والد گرامی حجت الاسلام علامہ سید فاضل شاہ رضوی ایک متقی ،پارسا اور با عمل عالم تھے۔ ان کی پوری زندگی پانچ وقت کی نماز کی امامت کرانے ، قرآن اور حدیث کا درس دینے، فقہی مسائل بیان کرنے اور صرف، نحو کے پڑھانے میں صرف ہو گئی۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی میں نماز شب کو کبھی ترک نہیں کیا۔ انتہائی خلوص اور سچائی کے ساتھ زندگی بسر کی جس کی بنا پر لوگوں کے درمیان ان کا بڑا احترام تھا۔

 

شہید کی شخصیت میں والد کا کردار
شہید سید ضیاء الدین رضوی ایک دانشمند اور روحانی باپ کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی زندگی سے ہی ایک پاک ماحول میں رہے ۔ ایک پاک خانوادے جو علم دوست اور خاندان پیامبر سے دوستی اور محبت رکھنے والا تھا۔ شہید اپنے بچپن کے زمانے میں اپنے والد کے ساتھ رفت و آمد کرتے تھے۔ مذہبی اور تبلیغی مجالس میں شرکت کرتے تھے۔ شہید کے والد نے شہید کی اس طرح تربیت کی کہ نوجوانی میں شہید مسجد میں نماز مغربین کی امامت کراتے تھے۔ چھوٹے بڑے سب ذوق وشوق کے ساتھ ان کی اقتدا میں نماز جماعت ادا کیا کرتے تھے۔شہید کے والد ہمیشہ اپنے فرزند کے تربیتی امور خصوصا حلقہ احباب پر نظر رکھتے تھے۔۳؂

 شہید کا بچپن اور نوجوانی کا دور
شہید کا بچپن ان کے ہم عمر بچوں سے مختلف تھا ۔ ان کا اخلاق، رفتار اور گفتار ان کے درخشاں مستقبل کی حکایت کرتا تھا۔کھیل کود اور وہ کام جو عام بچے انجام دیتے ہیں وہ بہت ہی کم انجام دیا کرتے تھے ۔ وہ زیادہ تر سوچ بچار اور فکر میں لگے رہتے تھے ان کی عقل جو کام کرتی تھی وہ ان کی عمر کے تقاضے سے زیادہ تھا۔۴؂

 ابتدائی اور اعلی تعلیم
شہید نے دوران شیر خوارگی سے ہی معنویت کے سائے میں علم حاصل کیا ۔ اپنے عالم با عمل والد اور پاکدامن ماں کی گود میں ہی لباس علم سے آراستہ ہوئے۔ شہید نے اپنے بچپن اور نوجوانی میں ابتدائی تعلیم کو اپنے علاقے کے علماء سے حاصل کیا۔ شہید نے ہائی سکول نمبر ۱ گلگت سے میٹرک پاس کیا ۔ ہر سال کلاس میں پہلی پوزیشن حاصل کرتے تھے۔ انہوں نے ۱۹۷۴ میں اچھے نمبروں کے ساتھ میٹرک سائنس کے ساتھ پاس کیا ۔ پورے سکول میں پہلی پوزیشن لی۔ وہ معارف اہل بیت کے ساتھ عشق رکھتے تھے ۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد علوم دینی کے حصول کی خاطر ۱۹۷۴ میں لاہور شہر کی طرف روانہ ہوئے ۔جامعہ المنتظر(عج (لاہور میں حصول علوم آل محمد میں مصروف ہوگئے۔۵؂

حوزوی دروس کی ابتداء
شہید نے اپنے ابتدائی علوم من جملہ مقدمات کو اپنے والد گرامی کے پاس حاصل کیا ۔ ۱۹۷۴ میں لاہور شہر کی طرف حصول علم کے لئے ہجرت کی۔ مدرسہ جامعہ المنتظر (عج(میں جس کے بانی مرحوم آیت اللہ سید صفدر حسین نجفی صاحب تھے ، دوسرے طلاب کی طرح رہنے لگے ۔ سنجیدگی اور انتہائی کوشش کے ساتھ دینی علوم اور معارف کو کسب کرتے رہے۔ شہید رضوی نے اعلی اور قابل اساتذہ کی کاوشوں اور محنتوں اور ان کی نگرانی میں ۱۹۸۰ میں پہلی سطح کے دینی دروس کو بطور احسن حاصل کیا ۔ ساتھ ساتھ لاہور یونیورسٹی سے بی اے کا سرٹفیکٹ بھی حاصل کر لیا۔ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ۱۹۸۰ میں حوزہ علمیہ قم کی طرف روانہ ہوئے۔۶؂

حوزہ علمیہ قم اور پاکستان میں شہید کا اساتذہ

الف: پاکستان میں شہید کے اساتذہ:
۱۔ مرحوم حجت الاسلام والمسلمین علامہ شیخ اختر عباس نجفی
۲۔ مرحوم حجت الاسلام والمسلمین علامہ سید صفدر حسین نجفی۔
۳۔ حجت الاسلام والمسلمین علامہ محمد شفیع نجفی۔
۴۔ حجت الاسلام والمسلمین علامہ حافظ ریاض حسین نجفی۔
۵۔ حجت الاسلام والمسلمین علامہ موسی بیگ نجفی۔۷؂

ب: ایران میں شہید کے اساتذ:
ا۔مرحوم آیت اللہ العظمی فاضل لنکرانی۔ 2۔ مرحوم آیت اللہ العظمی میرزا جواد تبریزی۔۔3۔مرحوم آیت اللہ سید حسن طاہری خرم آبادی۔۸؂

فرزندان شہید
شہید سید ضیاء الدین رضوی نے اپنی مختصر سی حیات میں دو شادیاں کی ۔ شہید کی پہلی شریک حیات سے خدا نے دو بیٹیاں اور ایک بیٹا (حسین) عطا کیا ۔ شہید کی پہلی شریک حیات اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ اس کے بعد شہید نے دوسری شادی سید محمد عباس کی بیٹی سے کی۔ ان سے خدا نے شہید کو دو بیٹے علی اور حسن عطا کیے۔۹؂

شہید کی اخلاقی اور شخصی خصوصیات

الف: گھر والوں کے ساتھ شہید کا اخلاق:
شہید کے فرزند ’’حسین رضوی‘‘ اس بارے میں بیان کرتے ہیں کہ شہید کا اخلاق اور برتاو گھر والوں کے ساتھ مثل اخلاق محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ تھا۔وہ کبھی بھی گھر والوں سے غصہ نہیں ہوتے۔ کبھی بھی گھر والوں کے ساتھ اونچی آواز میں بات نہیں کی۔ بہت کم بولا کرتے تھے۔ دوسروں کو بھی کم بولنے کی سفارش کیا کرتے تھے۔ بہت ہی سادگی سے بات کرتے تھے ۔ لوگوں کے ساتھ بہت احترام کے ساتھ پیش آتے تھے۔ لوگوں کے ساتھ دوستانہ برتاؤ کیا کرتے تھے۔۱۰؂

ب: عبادت اور بندگی:
عبادت اور بندگی میں شہید ایک عالی مثال رکھتے تھے۔جناب سید اظہر کاظمی فرماتے ہیں کہ جب شہید قم المقدسہ میں حصول علم میں مشغول تھے اس وقت جب کبھی وہ حرم مطہر حضرت معصومہ (ِس)سے گزرتے تھے تو وہ ضرور دو رکعت نماز پڑا کرتے تھے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ایک دن عاشور کی رات کو شہید کی خدمت میں حاضر ہوا تو شہید نے مجھ سے کہا آپ یہاں آرام کریں۔وہ خود دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ عبادت میں مشغول ہو گئے۔ اتنے میں ، میں نے دیکھا کہ شہید نے بہت گریہ کیا کہ جو میرے لئے بہت تعجب کا باعث تھا کیونکہ اس سے پہلے میں نے کسی کو اتنا زیادہ عبادت خدا میں روتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔۱۱؂

ج: آئینہ اخلاص:
شہید اخلاص کے پیکر تھے۔یہی وجہ تھی کہ شہید نے تھوڑے ہی عرصے میں ہمارے دلوں بلکہ ہر پاکستانی مؤمن کے دل پر حکومت کی۔ ایمان باللہ کے بعد، شہید کی واضح ترین صفت ان کا اخلاص تھا۔اسی لئے شہید کے سامنے کوئی ان کی تعریف کرتا تو وہ خوش نہیں ہوتے تھے ۔ ہمیشہ حق بات کرنے کی تاکید کرتے تھے۔ شہید نے قوم اور ملت کے لئے بہت زیادہ خدمات انجام دیں۔اس کے باوجود انہوں نے کبھی بھی اپنے ان کاموں کا کسی سے تذکرہ نہیں کیا۔۱۲؂

د: قبول حق
شہید کی نیک صفات میں سے ایک صفت یہ تھی کہ وہ حق کو قبول کرتے تھے،چاہے یہی حق بات ان کے نقصان میں ہی کیوں نہ ہو۔جب بھی ان کو معلوم ہوتا کہ یہ حق بات ہے وہ اس کو قبول کر لیتے۔ یہی ان کی روح کی پاکیزگی کی ایک عمدہ دلیل ہے۔۱۳؂

ھ: بردباری و صبر
شہید کی پسندیدہ صفات میں سے ایک صفت یہ تھی کہ وہ ہر مشکل میں صبر اور استقامت سے کام لیتے تھے۔جب بھی کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا تھا تو وہ غصہ نہیں ہوتے تھے ۔ صبر اور استقامت کے ساتھ اس مشکل کو حل کرتے تھے۔ گلگت بلتستان کے وہابیوں اور حکومت کی طرف سے گلگت بلتستان کے مظلوم شیعوں کے اوپر بڑی سختیاں تھیں جیسا کہ مذہی  رسومات سے روکنا، بڑے شیعہ افسروں کو ان کے عہدوں سے ہٹادینا، شیعوں کے اوپر مختلف قسم کے الزامات لگانا، شیعہ نوجوانوں کو بغیر کسی دلیل کے گرفتار کرنا اور ان کو زندانوں میں رکھنا اور شہید کرنا وغیرہ وغیرہ ۔ ان سب مشکلات کے سامنے شہید نے بردباری اور صبر و تحمل سے کام لیا ۔ ان سب کا سامنا کیا۔۱۴؂

و: عاشق خاندان اہل بیت
شہید سید ضیاء الدین رضوی، پیامبر اور اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ بہت بڑی انس و محبت رکھتے تھے۔ خصوصا مولاے متقیان حضرت علی علیہ السلام اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ بڑا عشق اور محبت رکھتے تھے۔ شہید کی مولا علی علیہ السلام کے ساتھ محبت کی ایک مثال موجود ہے۔ گلگت اور بلتستان میں رسم ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام خصوصا مولاے متقیان کی ولادت پر گھروں، سڑکوں اور خصوصا پہاڑوں پر چراغاں کیا جاتا ہے ۔ وہابی حضرات اور حکومت اس بات پر راضی نہیں ہوتے۔ اسی بنا پر ایسے مواقع میں مختلف قسم کی رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ ایک سال حکومت نے مولا علی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر ایک پہاڑی پر چراغاں کرنے پر پابندی لگادی اس پر وہاں کے مؤمنین بہت رنجیدہ تھے ۔اس انتظار میں تھے کہ قائد گلگت بلتستان اس بارے میں کیا حکم دیتے ہیں؟اس دوران لوگوں نے دیکھا کہ سید ضیاء الدین رضوی غا یب ہیں۔ آپکو تلاش کیا گیا تو سید کو اسی پہاڑی پر جس پر حکومت نے چراغاں کرنے سے منع کیا تھا، چراغان کرتے ہوئے پایا۔۱۵؂

ر: شہید کی شجاعت
شہید رضوی مؤمن شجاع تھے۔ وہ کسی بھی طاقت سے نہیں ڈرتے تھے۔ ان کی شجاعت کے حوالے سے محسن ملت مرحوم حجت الاسلام و المسلمین شیخ غلام حیدر نجفی صاحب نے فرمایا کہ ایک دفعہ وہابیوں کے اشارے پر حکومت نے شہید کو ان کے گھر کے اندر محصور کیا ۔ حکومت اس طریقے سے ان کو گرفتار کرنا چاہتی تھی، لیکن ملت تشیع کے غیور اور با وفا نوجوانوں نے حکومتی کارندوں کے سامنے مقاومت کی۔ اور شہید کو گرفتار کرنے نہیں دیا جس پر حالات بہت خراب ہوئے ۔ حکومت اور آپ کے باوفا شیعہ نوجوانوں کے درمیان بہت بڑے خون خرابے کا خطرہ پیدا ہوا ۔ شیخ حیدر فرماتے ہیں کہ اسی اثناء میں ، میں شہید رضوی کی خدمت میں پہنچا اور دیکھا کہ شہید کو کسی قسم کا خوف اور ڈر نہیں۔انہوں نے خوشی اور اطمینان کے ساتھ میرا استقبال کیا گویا کہ کسی قسم کا حادثہ نہیں ہوا ہے۔۱۶؂

 گلگت بلتستان کی مختصر جغرافیایی حالت
گلگت کا علاقہ پاکستان کے شمال کے انتہا میں واقع ہے۔ اور یہ علاقہ دنیا کے تین معروف بلند پہاڑی سلسلوں، کوہ ہمالیہ، کوہ ہندوکش اور کوہ قراقرم کے درمیان واقع ہے۔گلگت کا علاقہ پاکستان کے حساس علاقوں میں سے ایک ہے کیونکہ یہ گلگت بلتستان کا مرکز کہلاتا ہے اور پاکستان کی مرکزی حکومت کا نمایندہ گلگت میں اپنی مسؤلیت کو انجام دیتا ہے۔ گلگت بلتستان کا رقبہ تقرییا ۶۵۶۸۶ مربع کلو میٹر ہے۔گلگت کے شمال مغرب میں افغانستان کا بارڈر ملتا ہے اور شمال مشرق میں چین کا بارڈر ملتا ہے ۔ اونچے اونچے برف پوش پہاڑی سلسلے جیسے راکاپوشی، ننگاپربت واقع ہیں۔ جدید تحقیقات کے مطابق یہ دنیا کے بلند ترین پہاڑوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ دنیا بھر کے سیاح ان پہاڑوں کو دیکھنے کے لئے ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں اور اسی سیاحت کی بنا پر حکومت پاکستان سالانہ اربوں ڈالر کماتی ہے۔۱۷؂

 گلگت بلتستان کی سات اضلاع میں تقسیم بندی
اس وقت گلگت بلتستان کو ۷ اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے جن کے نام یہ ہیں: ۱۔ضلع گلگت ۲۔ ضلع سکردو ۳۔ ضلع استور ۴۔ ضلع ہنزہ نگر ۵۔ ضلع گانچھے ۶۔ ضلع غذر ۷۔ ضلع دیامر ۔ گلگت بلتستان میں مجموعی طور پر شیعوں کی اکثریت ہے لیکن ہر ضلع کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ضلع غذر میں اسماعیلی برادری کی اکثریت اور تھوڑی مقدار میں اہل سنت برادری پائی جاتی ہے، ضلع دیامر میں سب اہل سنت ہیں اور ضلع استور میں اہل سنت اکثریت میں ہیں اور تقریبا ۳۲ فیصد اہل تشیع ہیں۔۱۸؂

 شہید ضیاء الدین سے پہلے گلگت بلتستان کی حالت
گلگت شہر، گلگت بلتستان کے سیاسی اور انتظامی امور کا مرکز ہے۔ گلگت بلتستان کو ۱۹۴۸ میں سینکڑوں شیعہ جوانوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے ڈوگرہ راج سے آزاد کرایا۔۱۹؂ پاکستان کی آزادی کے چودہ ماہ بعد میرزا حسن خان، احسان علی اور بابر خان کی سرپرستی میں شیعہ نوجوانوں نے اپنی جان ہتھیلی میں رکھ کر اور بہت سے نوجوانوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اس علاقے کو ڈوگرہ راج سے آزاد کرایا۔ اس علاقے کو آزاد کرانے کے دو ہفتے بعد وہاں کے سیاسی قائدین نے علاقے کو پاکستان کے ساتھ ملحق کیا کیونکہ حکومت پاکستان وہ پہلا ملک تھا جو جمہوریہ اسلامی پاکستان کے نام سے معرض وجود میں آیا تھا۔ اس وقت حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کے سیاسی امور کو چلانے کے لئے ایک سنی اور متعصب فرد کو نمایندہ بنا کر بھیجا ۔اس نے وہاں جا کر اپنی دشمنی وہاں کے شیعوں پر ظاہر کی ۔ وہا ں کے سنیوں اور شیعوں کو مذہبی بنا پر ایک دوسرے سے لڑایا۔ اس کے گلگت جانے سے پہلے وہاں کے مقامی شیعوں اور سنیوں نے ایک مسجد بنائی تھی۔ اکھٹے ایک ہی مسجد میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ برادرانہ طور پر سب اس مسجد میں اپنے اپنے عقیدے کے مطابق عبادت انجام دیتے تھے لیکن اس متعصب وزیر نے اس مسجد کو شیعوں کے لئے ممنوع قرار دیا۔اس کے سبب وہ مسجد آج شہر کے مرکز میں وہابیوں کے ہاتھ میں ہے۔ آج اس مسجد کو وہابی ایک اہم مورچہ کے طور پر وہاں کے شیعوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔

اسی طرح ۷۸ فیصد بڑی بڑی پوسٹیں مخالفین اہل تشیع کے ہاتھ میں تھیں ۔ گلگت بلتستان کے شیعوں کی آبادی ۶۵ فیصد تھی ۔ باقی آبادی سنی، اسماعیلی اور نوربخشیوں کی تھی۔ حکومت پاکستان نے وہاں کی زمینوں کو شیعہ مخالفین کے ہاتھوں فروخت کیا جس کی وجہ سے اب وہاں کے شیعوں کی آبادی تقریبا ۵۵ فیصد ہوگئی ہے ۔ اقتصادی اور تجارتی حوالے سے وہاں کے بازار بھی زیادہ تر وہابیوں کے ہاتھ آگئے ہیں جن میں سے بعض مقامی وہابی ہیں اور بعض دوسرے علاقوں سے آکر کاروبار کر رہے ہیں۔ چونکہ گلگت ایک پرامن، خوبصورت اور اچھی تجارت کا حامل تھا لیکن وہاں پر وہابیوں کے انتہائی زور و شور کی تبلیغات کہ وجہ سے اور شہید رضوی سے پہلے وہاں کے شیعوں میں قیادت کے فقدان کی بنا پر مختلف دیہاتوں میں وہابیوں نے اسلحہ کے زور پر بہت سارے مظلوم شیعوں کو سنی مذہب اختیار کرنے پر مجبور کیا اور ان کو مجبورا سنی طریقے سے نماز پڑھنا پڑا اور ان شیعوں سے وہابی کہا کرتے تھے کہ شیعوں کا نکاح باطل ہے اسی طرح ۸۸ کی ٹینشن کسی سے مخفی نہیں ہے۔جنرل ضیا الحق کی حکومت کے دوران ان کی حکومت کی سرپرستی میں ۵۰ ہزارنفر پر مشتمل دہشت گرد ٹولے(جنہیں وہ خود مجاہدین کہا کرتے تھے) نے گلگت کے مظلوم اور نہتے شیعوں پر لشکر کشی کی جس میں بہت سے شیعہ نشین علاقوں جیسے بونجی، پڑی، سکوار، حراموش، جلال آباد اور مناور کو گھر بار اور مال مویشی سمیت جلا دیا گیا۔سینکڑوں مظلوم شیعوں کو کلاشنکوف کی گولیوں سے شہید کیا گیا اور جن کے پاس اسلحہ نہیں تھا انہوں نے کلہاڑیوں کا وار کر کے مومنین کو شہید کیا اور بعض عمر رسیدہ مومنوں کو مٹی کا تیل چھڑکا کر زندہ جلا دیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق اس سانحے میں لشکر کشی کرنے والے وہابیوں کے جنازوں کو ۲۲ ٹرکوں میں بھر کر لے جایا گیااور کچھ جنازوں کو دریا میں ڈال دیا گیا اور اس لشکر کشی میں شریک مرنے والے حملہ آوروں کی تعداد دس ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے، جبکہ اس سانحہ میں شہید ہونے والے شیعہ مومنین کی تعداد ۹۵ تھی۔ ایک اندازے کے مطابق اس سانحے میں شیعوں کی ۱۰۰ مساجد ۵۰ امام بارگاہیں اور ہزاروں قرآن مجید کو نذر آتش کیا گیا۔۲۰؂ اور راقم الحروف خود ۸۸ کی ٹینشن کا زندہ راوی ہے۔ ۸۸ کی ٹینشن کو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور ہم اس سانحے کے متاثرین میں سے ہیں۔ اس سانحہ سے پہلے ہم تقریبا ۱۰۰ گھرانوں پر مشتمل مومنین کا گاؤں سئی جگوٹ میں رہتے تھے، لیکن ۸۸ کی ٹینشن میں ہمیں اسلحہ کے زور پر سنی مذہب اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا اور چونکہ ان کے عقیدے کے مطابق ہم پہلے کافر تھے اور نئے مسلمان بنے تھے اسی لئے تقریبا ہمیں ۶ مہینوں تک سنی مذہب کو اختیار کرنا پڑا (البتہ اندر سے تقیہ کیا ہوا تھا) اور ۶ مہنے بعد وہاں سے ہجرت کر کے گلگت آنا پڑا اور اس وقت وہاں کے مظلوم شیعہ گلگت کے مختلف علاقوں گلگت شہر، سکوار، جتل اور دنیور کے علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور آزادی کے ساتھ اپنے عقیدے پر عمل پیرا ہیں۔ ۸۸ کی ٹینشن کی اس خطرناک صورتحال کے بعد وہاں کے شیعوں میں خوف اور ہراس اور ناامیدی پھیل گئی تھی جس کے نتیجے میں سئ جگوٹ کے باشندوں کے علاوہ بونجی، مناور، پڑی اور شکیوٹ کے شیعوں نے بھی اپنے علاقوں سے گلگت شہر کی طرف ہجرت کی۔

اسی طرح ۱۹۹۰ میں یوم ولادت امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے موقع پر چراغاں کرنے کے جرم میں وہابیوں نے چند شیعہ غیور، فعال اور مذہبی جوانوں کو شہید کیااور وہاں کے شیعہ مومنین اس کے جواب میں کچھ نہیں کر سکتے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کے اس وقت وہاں پر قیادت کا فقدان تھا اس وقت کے علما فقط صبر کی تلقین کیا کرتے تھے۔۲۱؂

اسی طرح شہید رضوی کے گلگت میں قیادت سنبھالنے سے پہلے شیعوں کی شرافت اور امن پسندی سے فایدہ اٹھاتے ہوئے وہابی لوگ فعال شیعہ نوجوانوں کو آئے دن گولی کا نشانہ بناتے تھے جس میں آئی ایس او کے صدر سید شمس الدین رضوی جیسی شخصیت جو خود شہید کے ماموں تھے کو شہید کیا گیا۔اسی طرح آئی ایس او کے فعال اور غیور رکن ناصر الدین کو شہید کیا گیا۔ اسی طرح واجد علی کو ان کے گھر کے سامنے جو اپنے بھائی برکت علی کی شہادت پر گریہ کناں تھے کو بھی شہید کیا گیا فقط اس پر اکتفا نہ کیا گیا بلکہ علاقے کے نامور مذہبی ، سیاسی اور حکومتی عہدوں پر فائز شخصیات کو یکی بعد دیگری شہید کیا گیا۔ ۲۲؂

 شہید کی قیادت کے بعد گلگت کے حالات
شہید ملت و سالار شہیدان گلگت آقای سید ضیاء الدین رضوی نے ۱۹۹۰ میں گلگت کی سرزمین پر اپنے قدم مبارک رکھے۔در اصل وہ تبلیغ کی غرض سے گلگت آئے تھے اور واپس حوزہ علمیہ قم جانا چاہتے تھے لیکن وہاں کے شیعہ جوانوں نے ان کی تبلیغ سے متاثر ہو کر ان کو واپس قم جانے نہیں دیااور ان سے مرکزی جامع مسجد گلگت میں امام جمعہ والجماعت اور علاقے کی قیادت سنبھالنے کی درخواست کی جس پرآپ نے ان کے جوش اور ولولے کو دیکھ کر اپنی رضایت کا اعلان کیا۔ شہید والا مقام نے اپنے بصیرت اور قابلیت سے تھوڑی مدت میں وہاں کے مومنین کو منسجم اور متحد کیا اور وہاں کے شیعوں کے دلوں کو جذبہ شہادت اور ایثار سے زندہ کیا ۔ تھوڑے ہی عرصے میں جامع مسجد گلگت میں اپنے شعلہ بیان خطبوں کے ذریعے سے وہاں کے شیعوں کو روحانی طاقت بخشی۔    ۱۹۹۱ سے لیکر ۱۹۹۴ تک ۴ سال کی مدت میں شہر گلگت کا بازار میدان جنگ میں تبدیل ہو چکا تھا۔ وہاں کی پولیس اور فوج جگہ جگہ وہابیوں کی حفاظت کے لئے مورچہ زن تھیں، لیکن اس کے مقابلے میں شہید کی سرپرستی میں اگر ایک شیعہ نوجوان کو شہید کیا جاتا تو اس کے بدلے میں ۱۰ سے ۲۰ تک وہابیوں کو ہلاک کر دیا جاتا اور اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جاتا تھا اور شیعوں کی طرف سے دندان شکن جواب دیا جاتا تھا۔ یہی عمل سبب بنا کہ ملک اور علاقے کے کونے کونے سے یہ صدا آنے لگی اور یہ نعرے بلند ہونے لگے کہ شیعہ سنی بھائی بھائی اور کہا جانے لگا کہ شیعہ اور سنی دونوں مسلمان ہیں اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔اور دوسری طرف سے وہاں کے مخالفین شہید بزرگوار کے گھر میں گروہ در گروہ آنے لگے اور سید بزرگوار سے دست بستہ منت اور سماجت کرکے علاقے میں امن برقرار کرنے کی بھیک مانگتے رہے اور کہتے تھے کہ مسلمانوں کا خون ضائع ہو رہا ہے۔جس پر شہید ان سے فرماتے تھے کہ اس سے پہلے تم کہاں تھے جب شیعہ جوانوں کو ایک ایک کر کے شہید کیا جاتا تھا۔اور ان سے پوچھتے تھے کہ۱۹۷۰ سے ۱۹۹۱ تک تم لوگ کہاں تھے آیا اس وقت مسلمانوں کا خون بہایا نہیں جارہا تھا۔آیا جس وقت شیعہ جوانوں پر گولیاں چلائی جارہی تھی تو ہم مسلمان نہیں تھے اور جب تمہارے اوپر مصیبت آگئی تو پھر کہتے ہو کہ یہ برادر کشی اور مسلمان کشی ہے۔۲۳؂

شہید سید ضیاء الدین رضوی کی شہادت کے بعد مناور، شکیوٹ اور کونوداس کالونی کے شیعوں نے اپنی جان و مال ، ناموس اور عقیدے کی حفاظت کی خاطر دوسرے پر امن علاقوں کی طرف ہجرت کی چونکہ ان علاقوں میں شیعہ اقلیت میں تھے۔اسی طرح برمس، قاسم پورہ اور مجینی محلہ اور نگرل کے کچھ سنیوں نے اپنا گھر بار چھوڑ دیا اور دوسرے علاقوں کی طرف منتقل ہوئے۔ شہید سید ضیاء الدین رضوی ہر عام و خاص کے دلوں میں جگہ بنا چکے تھے ۔ آپ پاکستان کے سارے علما اور اکابرین کے لئے قابل قبول تھے ۔ لوگ آپ کو امام زمانہ علیہ السلام کا مخلص ترین سپاہی سمجھتے تھے۔

 شہید کے مختلف شخصیتی پہلو

الف: شہید کی فردی خصوصیات:
شہید سید ضیاء الدین رضوی سادگی کے ساتھ زندگی گزاتے تھے ۔انہیں ان کے والد بزرگوار کی طرف سے تھوڑی سی زمین وراثت میں ملی تھی۔ ان کی سادہ زیستی کی ایک مثال یہ ہے کہ جب انہوں نے ۱۹۹۰ میں جامع مسجد گلگت کے امام جمعہ و الجماعت کی ذمہ داری قبول کی تو مسجد کی انتظامیہ کی طرف سے دی جانے والی تھوڑی بہت رقم کو بھی انہوں نے قبول کرنے سے انکار کیا حالانکہ اس وقت ان کی کوئی ذاتی انکم نہیں تھی۔ اسی طرح انہیں مختلف دینی مدارس میں اچھی تنخواہ کے ساتھ تدریس کرنے کی پیش کش کی گئی لیکن انہوں نے اسے ٹھکرادیا اور دوسری طرف سے لندن میں بھی کسی مدرسے کی مسولیت سنبھالنے کی دعوت دی گئی لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا۔ اور ہر طرح کے خوف میں گھرے ہوئے گلگت میں رہ کر مقامی مومنین کی خدمت کرنے کو ترجیح دی تا کہ وہاں رہ کر بکھری ہوئی قوم کو متحد کرسکیں۔ ان کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ محرم الحرام کا عشرہ پڑھنے کے بعد معمولا علما حضرات کو تھوڑی بہت رقم دی جاتی ہے وہ اسے بھی قبول نہیں کرتے تھے۔ ۲۴؂ اور اگر کوئی انہیں ہدیہ دیتا تو اسے فقرا میں تقسیم کر دیتے تھے۔حجت الاسلام جناب زمانی کا کہنا ہے کہ آیت اللہ صافی گلپائگانی کے دفتر کی طرف سے ۲۰۰۰ ڈالر آقای ضیاء الدین کے ذاتی مخارج کے لئے بھیجے تھے اور شہید نے اسے کہیں خرچ نہیں کیا تھا حتی که ان کی شہادت کے بعد بھی وہ ۲۰۰۰ ڈالر باقی پڑے تھے، ان مثالوں سے پتہ چلتا ہے کہ شہید مال امام کو صرف کرنے میں کتنا احتیاط کرتے تھے۔۲۵؂

ب: شہید کی علمی خصوصیات
علمی اعتبار سے شہید گلگت میں علما کے درمیان مانی ہوئی شخصیت تھی۔ انہوں نے ۶ سال تک پاکستان کے دینی مدارس میں کسب علم کیا ۔اس کے بعد ۱۰ سال تک حوزہ علمیہ قم میں علوم آل محمد کے زیور سے آراستہ ہوئے اور انہی ۱۶ سال کے مختصر عرصے میں شہید نے واقعاً علم کا سمندر اپنے اندر سمو لیا ۔ کیوں نہ علم کا سمند ر ہوتے جبکہ قم میں انہوں نے آیت اللہ فاضل لنکرانی، آیت اللہ میرزا جواد تبریزی اور آقای کاشانی اور حسین خرم آبادی جیسی شخصیات سے کسب فیض کیا۔ اگرچہ شہید کی مدت تحصیل بہت کم اور مختصر تھی لیکن انہوں نے اس مختصر عرصے میں بہت ہی محنت کے ساتھ علم حاصل کیا ۔ جو استعداد خدا نے انہیں دی تھی واقعاً وہ اسے بروی کار لائے جس کے نتیجے میں وہ ایک ماہر استاد، توانا خطیب اور قوی مناظر کے طور پر معاشرے میں ابھرے۔ ۲۶؂ اس سلسلے میں آپ کے نماز جمعہ کے خطبوں سے بعض جملے نقل کئے جاتے ہیں:

’’ میں نے کئی بار کہا ہے اور اب بھی اعلان کرتا ہوں کہ آجاؤ وہابیو مجھ سے شیعہ مذہب کے بارے میں وضاحت طلب کرو یا ثابت کرو کہ سنی مذہب حق ہے یا مجھے اجازت دو تاکہ ثابت کروں کہ مذہب شیعہ حق ہے، اور اگر میں اس مناظرے میں ہار گیا تو پوری شیعہ قوم کو لیکر اہل سنت مذہب اختیار کروں گا‘‘۔

ج: تدریس
شہید حوزہ علمیہ قم میں تحصیل کے ساتھ ساتھ طلاب کو پڑھاتے بھی تھے۔ گلگت شہر میں بھی ایک مدرسہ تھا جس میں شہید تدریس کیا کرتے تھے۔بعض طلبا اپنا درس شہید کے گھر میں رکھتے تھے۔ اور تقریبا دو سال تک مرحوم صفدر حسین نجفی کے حکم سے لندن کے ایک مدرسے میں جو جامعہ المنتظر کی شاخ تھا، تدریس کیا کرتے تھے اور وہاں کے بہت سے طلاب کی تربیت کی۔

د: تبلیغ
حقیقت میں شہید بچپن ہی سے دین اسلام کی تبلیغ میں سرگرم رہے۔ بچوں کو قرآن مجید پڑھایا کرتے تھے ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو انجام دیتے تھے۔ حوزہ علمیہ قم میں وارد ہونے کے بعدماہ مبارک رمضان اور محرم الحرام میں تبلیغ دین کی خاطر اپنے علاقے کی طرف جاتے تھے۔جب آپ حوزہ علمیہ قم میں حصول علم میں مشغول تھے تو مرحوم سید صفدر حسین نجفی نے آپ کو تبلیغ کے لئے لندن بھیجا دو سال تک انہوں نے لندن میں تدریس اور تبلیغ کے فرائض انجام دئے، ان کی علمی صلاحیت، تقوا اور پارسائی کو دیکھ کر دنیا کے مختلف علاقو ں سے ان کو تدریس اور تبلیغ کرنے کی پیشکش آئی لیکن انہوں نے ان سب کو ٹھکرا کر اپنے آشوب زدہ علاقے کے مظلوم مومنین کی خدمت کرنے کو ترجیح دی! ۲۷؂

ھ: تالیفات
شہید گلگت کے مختلف علاقوں میں لوگوں کو وعظ و نصیحت ،تبلیغ اور اسی طرح دینی مدارس میں تدریس میں مصروف رہا کرتے تھے ۔ ساتھ ہی حکومت اور وہابیوں کے ساتھ مختلف امور پر محاذ آرا تھے ۔ان سب مصروفیات کے باوجود علمی تحقیقات اور تالیفات کے میدان سے بھی غافل نہیں رہے ۔بڑی گرانقدر کتابیں لکھ کر ملت تشیع کے لئے ایک بہت بڑا علمی سرمایہ یادگار کے طور پر چھوڑا ہے۔ ان کی تالیفات میں درج ذیل کتابیں قابل ذکر ہیں:

۱۔ عبد اللہ ابن سبا ایک افسانوی کردار۔
۲۔ صحابہ در سایہ آیات و روایات۔
۳۔ آئینہ حقیقت۔۲۸؂

شہید رضوی کے افکار
شہید سید ضیاء الدین رضوی )اعلی اللہ مقامہ) انقلاب اسلامی ایران، حضرت امام خمینی (قدس سرہ ( اور رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے عاشق تھے۔ شہید کا عقیدہ تھا کہ مسلمانوں کی نجات اور عزت صرف اور صرف حضرت امام خمینی (رضوان اللہ )کے نورانی افکار کی پیروی اور ولی فقیہ کی اطاعت کرنے میں ہے۔ شہید کا نظریہ تھا کہ جو نظام حقیقی معنوں میں مسلمانوں کا دفاع کرتے ہوئے اسلام کے دشمنوں کے سامنے ڈٹا ہوا ہے وہ اسلامی جموریہ ایران کا نظام ہے۔شہید بزرگوار کسی کو بھی اسلامی جمہوریہ ایران اور رہبر معظم انقلاب کی چھوٹی سی بھی اہانت کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ شہید کے گلگت آنے سے پہلے وہابی یہ نعرہ لگاتے تھے ’’کافر کافر شیعہ کافر ، خمینی کافر‘‘ لیکن شہید کے گلگت آنے کے بعد کسی کی جرائت نہیں تھی کہ اس قسم کی غلیظ زبان استعمال کرے۔ ۲۹؂ اس کے علاوہ شہید سید ضیاء الدین رضوی نے علامہ شہید سید عارف حسین الحسینی(رہ)کی سیرت اور ان کے کردار اور افکار کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دیا تھا۔ شہید کی نظر میں عارف حسینی کی شہادت پاکستان کی شیعہ قوم کے لئے ان کی زندگی کا سب سے بڑا نقصان تھا در حالیکہ خود شہید سید ضیاء الدین رضوی کی شہادت سے جو نقصان گلگت بلتستان کے شیعوں کو ہوا وہ نقصان علامہ سید عارف کی شہادت سے کم نہ تھا ۔ بلکہ شہید بزرگوار عالم و مجاہد اور قائد ہر دل عزیز شیعیان پاکستان علامہ عارف حسین الحسینی کی شہادت کے بعد شہید سید ضیاء الدین رضوی کی شہادت شیعیان پاکستان بالخصوص شیعیان گلگت بلتستان کے لئے بہت بڑا المناک اور ناقابل فراموش سانحہ تھا۔ یہ بات مخفی نہ رہے کہ شہید سید ضیاء الدین رضوی نے علامہ عارف حسین الحسینی کی شہادت کے بعد قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کے خط کو اپنایا ہوا تھا۔ وہ ہر وقت قائد ملت کی حمایت کرتے تھے اور وہ بھی ان کو اپنا دست راست سمجھتے تھے۔شہید کا فرمان تھا : ’’ کوئی بھی شخص مرکز سے رابطہ رکھے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا‘‘۔ اس بارے میں بہت سی ویڈیو کیسٹس بھی پائی جاتی ہیں جہاں پر انہوں نے بھر پور انداز میں قائد ملت کی حمایت کی ہے اور قائد محترم پر لگائے گئے الزامات کی سخت مخالفت اور شیدید مذمت کی ہے۔قائد محترم ساجد علی نقوی کی حمایت اور شجاعانہ قیادت کے سلسلے میں شہید سید ضیاء الدین رضوی کی طرف سے کی گئی تقریر کے ایک حصے کو ایک ویڈیو کیسٹ سے بندہ حقیر اس مقالے میں نقل کرتا ہوں:

’’قائد محترم علامہ سید ساجد علی نقوی کو ہر طریقے سے مرعوب کرنے اوردبانے کے لئے ان کو پابند سلاسل کیا گیا۔ پھر کیسی شرایط رکھیں وہ شرایط کیا تھیں، لوگ کہتے تھے کہ یہ قتل کیس ہے فلاں ہے، نہیں، مسئلہ قتل کیس نہیں تھا، مسئلہ یہ تھا کہ حکومت دشمن کی ہمنوا بن کر يه چاہتی تھی كه کل دشمن جومطالبہ کر رہا تھا، آج قائد سے حکومت خود وہ مطالبہ کر رہی ہے، کہ جناب یہ شرط بھی مان لیں، یہ شرط بھی مان لیں، لیکن قائد محترم نے فرمایا کہ میرے لئے ان شرایط کو قبول کرنے سے آسان مسند شہادت ہے۔ میں مسند شہادت کو قبول تو کر سکتا ہوں لیکن اس ذلت آمیز ان شرایط پر میں کبھی بھی دستخط نہیں کر سکتا.چنانچہ وہی آپ نے ثابت کر کے دکھایا۔ کیس کا سلسلہ چل رہا ہے۔انشاء اللہ حق کی نصرت ہو گی دشمنوں اور حکام کا یہ ستم اور ان کا یہ ظلم جو چلا آرہا ہے۔ برادران ہمیں ان ساری چیزوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت پاکستان کے اندر تشیع کا وجود بہت بڑے خطرے سے دوچار ہے۔ اس وقت اگر ہم نے اپنے وجود کے تحفظ کی کوشش نہ کی تو کل کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتاہے۔ خدا ہمیں توفیق دے کہ ہم بیدار اور ہوشیار ہو جائیں۔اور پاکستان کے اندر مذہب اہل بیت علیہم السلام پر خود بھی پابند رہتے ہوئے اس مذہب کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھتے ہوئے میدان عمل میں ہمیشہ آمادہ و تیار رہیں اور جب تک زندگی ہے حق پر عمل ہوتا رہے اور اگر زندگی جائے تو حق پر قربان ہو جائے ۔‘‘۳۰؂

 شہید کی دینی اور فرہنگی خدمات
شہید مظلوم نے اپنی ساری زندگی قوم کی خدمت اور خدا کی عبادت میں گزاری۔ وہ سفر میں ہوتے یا حضر میں، مریض ہوتے یا سالم، مشکل میں ہوتے یا آسانی میں انہوں نے اپنی عبادت میں کبھی سستی نہیں کی۔ اسی طرح وہ اپنی فعالیتوں میں بھی خواہ وہ دینی فعالیت ہو یا مذہبی، سیاسی فعالیت ہو یا ثقافتی بغیر کسی سستی کے سرگرم عمل رہتے تھے۔ ذیل میں ان کی چند فعالیتوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

الف : دینیات سینٹرز کا قیام:
شہید نے گلگت، نگر، ہنزہ، جلال آباد ، دنیور اور دوسر ے سینکڑوں دیہاتوں میں جوانوں کو دینی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لئے کئ دینیات سینٹرز کی بنیاد رکھی ان سینٹروں میں اساتذہ کا بھی معقول انتظام کیا گیا اور ان کے لئے معقول تنخواہ کا بھی انتظام کیا گیا۔

ب: خواہران کے لئے حوزوی مدارس کا قیام
شہید نے گلگت شہر میں خواہران کی دینی تربیت کے لئے جامعۃ الزہرا (سلام اللہ علیہا)کی بنیاد رکھی اسی طرح نومل، جلال آباد، ہنزہ، نگر اور دنیور میں بھی خواہران کے دینی مدارس کی سرپرستی کرتے تھے۔ اور ان مدارس کے معلمین کی ماہانہ مالی امداد بھی کیا کرتے تھے۔فی الحال خواہران کے آٹھ مدرسے ہیں جو شہید کی کوششوں سے تاسیس ہوئے تھے۔ تقریبا ۲۰ سے زیادہ دینیات سینٹرز ہیں جن میں دس ہزار سے زیادہ طالب علم کسب فیض کر رہے ہیں۔۳۱؂

ج: برادران کے حوزوی مدرسوں کی سرپرستی
شہید گلگت شہر میں برادران کے ایک حوزوی مدرسے کی سرپرستی کرتے تھے۔ بہت زیادہ مصروف ہونے کے باوجود طلاب کرام ایک درس کو سید کے گھر میں رکھتے تھے۔ اور شہید کسی بھی وقت درس کی چھٹی نہیں کرتے تھے۔ حال ہی میں یہ مدرسہ جناب حجت الاسلام والمسلمين سید راحت حسین الحسینی صاحب کی زیر نگرانی ہے ۔ اس مدرسے میں اب حفاظ کرام حفظ قرآن میں مصروف ہیں۔

د: دور دراز علاقوں میں علماء کو تبلیغ پر بھیجنا
وہ علاقے جہاں لوگوں کے لئے علما میسر نہیں تھے وہاں پر نماز جماعت کے قیام اور دوسری دینی خدمات انجام دینے کے لئے مبلغین کو بھیجتے تھے۔ ہر طریقے سے مبلغین کی حمایت کرتے تھے۔ تقریبا ۳۰۰۰ روپے سے ان کی مالی امداد کرتے تھے۔

ہ: اخلاقی دروس کا انعقاد
دینی طالب علموں اور عام نوجوانوں کے لئے اخلاقی دروس کا انعقاد کرتے تھے۔ وہ ضرور ہفتے میں ایک دفعہ گلگت کی جامع مسجد اور مختلف علاقوں میں نوجوان طبقہ کے لئے درس اخلاق کا بندوبست کرتے تھے جس میں بے شمار نوجوان شرکت کرتے تھے اور معنوی تربیت حاصل کرتے تھے، بندہ خود اس بات کا گواہ ہے کہ میں نے خود دنیور اور گلگت میں شہید کے کئی دروس اخلاق میں شرکت کی اور معنوی استفادہ کیا۔

و: مساجد کی تعمیر
شہید نے اپنی زندگی میں گلگت کے مختلف علاقوں میں جہاں مساجد کی اشد ضرورت تھی، مساجد بنوائیں، بلکہ جہاں دوسروں کے لئے مسجد بنانا ممکن نہیں تھا، شہید نے وہاں پر بھی مسجد بنا کر غیر ممکن کو ممکن بنایا، گاہکوچ میں جہاں ۱۰۰ فیصد اسماعیلی زنذگی کرتے ہیں وہاں پر شیعہ مسافروں اور ملازمین کے لئے مسجد بنوائی بلکہ ایک مکان بھی وہاں خریدا تا کہ مبلغ وہاں رہ کر اس مسجد میں نمازیوں کے لئے تبلیغ کریں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہنزہ علی آباد میں بھی مسجد بنوائی اور خود گلگت شہر میں مرکزی جامع مسجد کی تعمیر نو کرائی جو تین منزلوں پر مشتمل ہے پہلی منزل میں ۵۰۰ دوسری منزل میں ۳۵۰ اور تیسری منزل میں ۱۵۰ نمازیوں کے لئے گنجایش ہے۔ ۳۲؂ یہ مسجد اہل تشیع کے لئے شہید کا ایک شاہکار اور یادگار تحفہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی شہید نے بہت سارے فلاحی کام انجام دئے جن کو تفصیلات بیان کرنے کی اس مقالے میں گنجایش نہیں ہے ، فقط ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے:

ز: تعمیر ملت پروگرام
شہید ضیاء الدین کی جامع مسجد گلگت کی ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے وہاں پر حجت الاسلام والمسلمین سید عباس علی شاہ حسینی نجفی امام جمعہ و الجماعت تھے۔ وہ ایک با عمل عالم اور زبردست خطیب ہیں انہوں نے مذہب اہل بیت علیہم السلام کی تبلیغ اور ترویج کے لئے ہر قسم کی قربانی دی ہے ۔لوگوں کی اقتصادی حالت بہتر بنانے کے لئے بہت سارے امور انجام دئے ہیں۔ ان امور میں ایک اقتصادی نظام کی تنظم نو ہے ۔ اس نظام کو پہلے سید عباس علی شاہ چلا رہے تھے ۔یہ اقتصادی نظام بغیر کسی خاص نام کے چل رہا تھا لیکن شہید بزرگوار نے ۱۹۸۹ میں مرکزی امامیہ مسجد گلگت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد باقاعدہ طور پر انتخابات کے ذریعے مسجد کمیٹی بنائی۔اس نظام کو تعمیر ملت پروگرام نام دیا ۔یہ نظام ملت تشیع کے لئے ایک مفید کام ثابت ہوا۔ البتہ سید کی شہادت کے بعد اس منصوبے کو سید راحت حسین الحسینی احسن طریقے سے چلا رہے رہیں۔

ح: شادی بیاہ میں آسانی
شہید بزرگوار کے گلگت آنے سے پہلے علاقے میں شادی بیاہ میں ایسی رسومات تھی جو دین اسلام کے خلاف تھیں۔ مثلا ناچ گانے وغیرہ اس کے علاوہ شادی کو پر رونق بنانے یا شہرت بنانے کے لئے اپنی قلیل سی جایداد کو لٹاتے تھے۔علاوہ بر این نکاح کے دوران مہر حد سے زیادہ رکھتے تھے۔ شہید کی بدولت یہ ساری غلط رسومات ختم ہوگئیں ۔ لوگ سادگی کے ساتھ شادی بیاہ کو اختتام تک پہنچانے لگے۔ ناچ گانے کا سلسلہ ختم ہوا۔ اپنی دولت کو لٹانے کے بجائے چند کلو شیرینی سے مسجد میں مہمانوں کی خاطر تواضع کرنے لگے اور نکاح کے دوران مہر بھی مناسب رکھا جانے لگا۔

شہید کے مختلف محاذ
شہید سید ضیاء الدین رضوی اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لئے اور مذہب اہل بیت علیہم السلا م کے دفاع کے لئے بہت سارے محاذوں پر لڑتے رہے جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

الف: ایران عراق کی ۸ سالہ جنگ میں شرکت
شہید سید ضیاء الدین رضوی پورے وجود کے ساتھ امام زمانہ (عج)کے مخلص سپاہی اور اسلامی انقلاب کے باوفا ساتھی تھے۔ جب ۱۹۷۹ میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تو شہید بزرگوار حوزہ علمیہ قم میں وارد ہوئے ۔ اسی دوران عراق نے زبردستی اسلامی جمہوریہ ایران پر حملہ کیا ۔ کئی مرتبہ شہید سید ضیاء الدین رضوی نے ایران کی طرف سے ہونے والی دفاعی جنگ میں شرکت کی۔

ب: متنازعہ نصاب تعلیم کے سلسلے میں شھید کا موقف:
بنیادی قانون کے مطابق شیعہ اور سنی  دونوں پاکستان کے رسمی مذہب ہیں۔ پاکستان کو شیعہ اور سنی دونوں نے مل کربنایا ہے ۔ خصوصا شیعوں کی قربانیاں حصول پاکستان کے لئے کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ بنیادی قانون کے مطابق نصابی کتابوں کے اندر ہر دو فرقوں کے عقائد مندرج ہونے چاہیے ۔ یہ بھی ذکر ہوا ہے کہ کتابوں کے اندر ایسا درسی مواد لانے سے پرہیز کیا جائے جو مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پھیلائے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ۱۹۹۷ کے بعد پہلی کلاس سے لیکر یونیورسٹی تک تمام کتابوں میں اس قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نصابی کتابوں میں ایسے زہریلے افکاردرج کئے گئے ہیں کہ جو شیعہ عقائد کے خلاف ہیں۔۳۳؂

  لہذا شہید بزرگوار نے اس زہریلے درسی مواد کے خلاف زبردست تحریک اور مہم چلائی ۔حکومت سے مطالبہ کیا کہ نصاب تعلیم کے اندر ایسا درسی مواد کو رکھا جائے جو سب فرقوں کے لئے قابل قبول ہو۔ اس تحریک کی شیعوں کے علاوہ عام سنی برادران نے بھی بھر پور حمایت کا اعلان کیا اس پر ساری عوام سڑکوں پر آئی سارے حکومتی ادارے بند ہوئے۔ سکول کے طالب علموں نے سکولوں کو بند کیا ۔بازار بھی بند ہوگئے۔

شھید کی شھادت:
اس کے نتیجے میں حکومت پاکستان بے بس ہوئی ۔ہر طرح سے شہید کو دبانے کی کوشش کی گئی ۔کئی بار گرفتار کیا گیا لیکن شہید کسی طرح سے حکومت کی دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوئے بلکہ دن بہ دن یہ تحریک شدت پکڑتی گئی جس پر شہید کو خاموش کرنے کے لئے آخری حربہ استعمال کیا گیا اور شہید کو جنوری ۲۰۰۵ کے دن تقریبا ۱۲ بجے نماز ظہر پر جاتے ہوئے کلاشینکوف کی گولیوں اور گرنیٹ سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں موقع پر شہید کے دو وفادار محافظ حسین اکبر اور عباس علی شہید ہو گئے ۔خود شہید اور آپ کا تیسرا محافظ شدید زخمی ہوئے۔ ان کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے راولپنڈی سی ایم ایچ ہسپتال منتقل کیا گیا، لیکن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے گلگت بلتستان کے محبوب قائد سید ضیاء الدین رضوی اپنے محافظ سمیت جام شہادت نوش کرتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ہزاروں چاہنے والوں نے الوداع کرنے کے بعد جامع مسجد گلگت کے صحن میں ان كوسپرد خاک کیا۔ خدا ان کی قبر پر اپنی رحمت کی بارش نازل کرے۔

………………………………………………………………………………………
حوالہ جات:
۱۔ انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص ۱۵۰
۲۔ ایضاً۔
۳۔ رجائی، محمد علی حسن ، بررسی شخصیت شہید ضیاء الدین، ص ۱۰۔
۴۔ رجائی، محمد علی حسن ، بررسی شخصیت شہید ضیاء الدین، ص ۱۱۔
۵۔ ماہنامہ ہادی، ۲۰۰۸، ص ۸۔
۶۔ رجائی، محمد علی حسن ، بررسی شخصیت شہید ضیاء الدین، ص۱۳۔
۷۔ ایضاً، ص ۱۴، ۱۵، ۱۶،۱۷،۱۸۔
۸۔ ایضاً، ص ۱۹، ۲۰،۲۲۔
۹۔ قیصر، محبت حسین، شہدای گلگت بلتستان، ص ۵۰۲۔
۱۰۔ حسین رضوی، فرزند شہید ضیاء الدین رضوی۔
۱۱۔ سید اظہر کاظمی، ہم زلف سید ضیاء الدین رضوی۔
۱۲۔ سخنرانی حجت الاسلام سید راحت حسینی، مدرسہ امام علی علیہ السلام قم، سال ۲۰۱۰۔
۱۳۔ رجائی، محمد علی حسن ، بررسی شخصیت شہید ضیاء الدین، ص ۲۷ و ۵۔
۱۴۔ ایضاً، ص ۲۸۔
۱۵۔ رجائی، محمد علی حسن ، بررسی شخصیت شہید ضیاء الدین، ص ۹۲۔
۱۶۔ ایضاً، ص ۳۰۔
۱۷۔ ایضاً، ص ۳۳۔
۱۸۔ ایضاً، ص ۳۶۔
۱۹۔زندگی نامہ شہید سید ضیاء الدین رضوی، طلاب شمالی علاقہ جات حوزہ علمیہ قم، ص ۲۔
۲۰۔ قیصر، محبت حسین، شہدای گلگت بلتستان، ص۴۷۔
۲۱۔ زندگی نامہ شہید سید ضیاء الدین رضوی، طلاب شمالی علاقہ جات حوزہ علمیہ قم، ص۵۔
۲۲۔ رجائی، محمد علی حسن ، بررسی شخصیت شہید ضیاء الدین، ص۴۴۔
۲۳۔ زندگی نامہ شہید سید ضیاء الدین رضوی، ص ۷۔
۲۴۔ زندگی نامہ شہید سید ضیاء الدین رضوی، ص ۷۔
۲۵۔ اطلسی، محمد نذیر، گلگت۔
۲۶۔ حجت الاسلام سید راحت حسینی کی تقریر سے اقتباس۔
۲۷۔ رجائی، محمد علی حسن ، بررسی شخصیت شہید ضیاء الدین، ص ۵۲۔
۲۸۔ ایضاً۔
۲۹۔ زندگی نامہ شہید سید ضیاء الدین رضوی، طلاب شمالی علاقہ جات حوزہ علمیہ قم، ص ۱۳۔
۳۰۔ مرکزی جامع مسجد گلگت میں نمازیوں سے خطاب۔
۳۱۔ رجائی، محمد علی حسن ، بررسی شخصیت شہید ضیاء الدین، ص۶۱۔
۳۲۔ ایضاً۔
۳۳۔ رجائی، محمد علی حسن، بررسی شخصیت شہید ضیاء الدین، ص ۸۳ و ۸۴۔ 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *