سالم خانوادہ کی پہچان کا معیار

ذہنی تر بیت :
ابتدائے تولد میں بچہ ہر چیز سے بے خبر ہو تا ہے خانوادہ اس کی علم وآگاہی ، تر بیت اور صلاحیتو ں کواجاگر کرنے کا پہلا مر کز ہے ، اس مر حلے میں والدین خصوصا ما ں کا وظیفہ یہ ہے کہ اس کو محبت وعاطفت اور احساسات کے ساتھ اس کی کنجکاوی حس کا اپنی زبا ن او رعمل کے ذریعہ جواب دے جیسے قرآن مجید فرما تا ہے <واللّٰہ اخرجکم من بطون امھاتکم لا تعلمون شیئا وجعل لکم السمع والابصار والا فئدہ لعلکم تشکرون>(۱) آنکھ کان اور دل یہ تینوں شناخت اور پہچا ن کے مہم ذرائع ہیں اور یہ تینو ں خانوادہ کی فضا میں رشد پا تے ہیں۔
اگربچے کو نوزادی کے ابتدائی ایام سے ہی اس کی حالت پر چھوڑ دیاجائے ااور شنا خت کے اعتبا ر سے خانوادہ کی فضا بھی مناسب نہ ہو جیسے سر گرمی کے لئے منا سب کھیل کھلونے کا نہ ہو نا تو بہت ممکن ہے کہ بچہ عقب افتادگی کا شکا ر ہو جا ئے کیونکہ بچے کی شناخت کی صلاحیت اس کی زندگی کے پہلے مہینوں اور سالوں میں پھلتی اور پھولتی ہے اسی لئے سا لم خانوادہ اسی کو کہ سکتے ہیں جو بچوں کو ذہین اور با ہو ش تربیت کرے اس سے پہلے کہ وہ مدرسہ جا نے کے قابل ہو اس کی صلاحیتیں ثمر بخش ہو جا نا چاہیے بہت سی با تیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کو بغیر مدرسہ جائے سکھائی جاسکتی ہیں۔
”شوہر داري” يعنى شوہر كى نگہداشت اور ديكھ بھال

”شوہر داري” يعنى شوہر كى نگہداشت اور ديكھ بھال
از:ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق
حجۃ الاسلام والمسلمین ابراہیم امینی
بيوى بننا كوئي معمولى اور آسان كام نہيں كہ جسے ہر نادان اور ناہل لڑكى بخوبى بنھا سكے _ بلكہ اس كے لئے سمجھدارى ، ذوق و سليقہ اور ايك خاص دانشمندى و ہوشيارى كى ضرورت ہوتى ہے _ جو عورت اپنى شوہر كے دل پر حكومت كرنا چاہتى ہے اسے چاہئے كہ اس كى خوشى و مرضى كے اسباب فراہم كرنے اس كے اخلاق و كردار اور طرز سلوك پر توجہ دے اور اسے اچھے كاموں كى ترغيب دلائے ، اور برے كاموں سے روكے _ اس كى صحت و سلامتى اور اس كے كھانے پينے كا خيال ركھے اور اسے ايك باعزت ، محبوب اور مہربان شوہر بنانے كى كوشش كرے تا كہ وہ اس كے خاندان كا بہترين سرپرست اور اس كے بچوّں كا بہتريں باپ اور مربى ثابت ہو _ خداوند عالم نے عورت كو ايك غير معمولى قدر و صلاحيت عطا فرمائي ہے _ خاندان كى سعادت و خوش بختى اس كے ہاتھ ميں ہوتى ہے اور خاندان كى بدبختى بھى اس كے ہاتھ ميں ہوتى ہے _
بچوں کو بگاڑنے کے بجائے اُن کی اچھی تربیت کیجیے
بچوں کو بگاڑنے کے بجائے اُن کی اچھی تربیت کیجیے
قیصر محمود (ایکسپریس نیوز)
والدین کا اپنے بچوں سے پیار کرنا، انکی ضروریات کا خیال کرنا بجا ہے لیکن ان کیلئے کیا اچھا ہے کیا برا، کس شے کی کس عمر میں ضرورت ہے اس بات کا خیال کرنا والدین کے لیے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔
اُن بچوں کی عمریں بالترتیب 7، 10 اور 12 سے 13 سال کے لگ بھگ تھیں۔ ممکن ہے کہ ایک آدھ سال کا فرق ہو مگر میرا اندازہ یہی ہے کہ وہ بچے اس سے بڑے نہیں ہوں گے۔ تینوں بچے مجھ سے کچھ دور اسی پُر ہجوم سڑک پر ایک موٹر سائیکل پر سوار اڑتے چلے جا رہے تھے، یہ اُڑنے کا لفظ اسکوٹر کی رفتار کی وجہ سے استعمال کیا۔ موٹرسائکل چلانے والا بچہ بمشکل 13 سال کا ہوگا جبکہ پیچے بیٹھے دونوں چھوٹے ننھے مُنے بچوں نے اُسے کمر سے پکڑ رکھا تھا۔
