کیا اسیران کربلا شام سے کربلاء آیے تھے؟

مقدمہ:
تاریخ میں شھادت کےبعد اربعین کا مناناصرف حضرت اباعبداللہ الحسین علیہ السلام کےساتھ مختص ہے،اوریہ ایک شعائرالھی ہےکیونکہ اس دن کچھ خاص واقعات رونماہوئے جوکسی اور معصوم(ع)کےاربعین کےدن رونما نہیں ہوے،عصرعاشور جب اہل بیت علیہم السلام میدان کربلا میں واردہوئےاورشھدا‏‎ءسےوداع کررہےتھےتوانکےجنازےدفنایے نہیں گیےتھے۔
1:لیکن اربعین کےدن شھداء کربلاکیلیے ایک عظیم مجلس عزامنعقد کی جاتی ہے،جس میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام جناب ام المصائب زینب کبراء سلام اللہ علیہا اور جناب جابر بن عبداللہ انصاری وعطیہ مصائب پڑھنے والےہیں اور گریہ کرنےوالےو رونےوالے بھی ہیں۔
2:حضرت سیدالشھداءاور انکے جانثار اصحاب کے مقدس سروں کوجوانکے پاک جسموں سے چالیس دن سے جدا تھےاور دشمنوں نے کوچہ وبازارتماشایی کےلیے پھرایے تھے اربعین کےدن دفن کیے جاتے ہیں۔

حبّ الحسین هماری شناخت / تحریر:محمد حسین حافظی کندرک

ہر انسان کی ایک پہچان ہوتی ہے، ہمارا تشخص، ہماری شناخت اور ہماری پہچان حسین ابن علی علیه السلام کی محبت ہے( حب الحسینؑ ھویتنا) حسین کی محبت ہماری پہچان ہے ، اس لئے کہ حسین علیه السلام راز بقائے انسانیت کا نام ہے ۔ آج دنیا میں اگر شیعہ سر خرو ہیں تو یہ حسین علیه السلام کی بدولت ہے، حسین علیه السلام اس عظیم ہستی کا نام ہے کہ جس کی رضایت اور خوشنودی میں خدائے علیم و حکیم کی رضایت اور خوشنودی چھپی ہوئی ہے، حسین علیه السلام وہ ہے جس کے راضی ہونے سے اللہ کے محبوب حضرت محمد مصطفےﷺ راضی ہو تے ہیں، جیسا کہ رسول ختمی مرتبت ﷺ خود ارشاد فرماتے ہیں:

امام حسین علیہ السلام کا معاویہ کے نام خط/ تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

معاویہ خلفائے ثلاثہ کی طرح ظاہری طور پر امام حسین علیہ السلام کے لئے غیرمعمولی احترام کا قائل تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ امام حسین علیہ السلام مکہ اور مدینہ کے عوام کے یہاں بہت زیادہ ہر دلعزیز ہیں اور آپ کے ساتھ عام افراد جیسا رویہ نہيں اپنایا جاسکتا۔ معاویہ کو ہر وقت آپ کے قیام کا خوف رہتا تھا۔ چنانچہ اس نے امام کے سامنے قبض و بسط کی پالیسی اپنائی یعنی ایک طرف سے آپ کی منزلت کو مد نظر رکھتا تھا اور بظاہر آپ کے لئے احترام کا قائل تھا اور آپ کی تعظیم کرتا تھا اور اپنے کارگزاروں کو بھی ہدایت کرتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند کو نہ چھیڑیں اور ان کی بےحرمتی سے پرہیز کریں۔دوسری طرف سے امام کی مسلسل اور شب و روز نگرانی کو اپنی پالیسی کا حصہ بنایا اور سفر اور حضر میں آپ کی تمام حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی۔ اس نے حتی امام حسین علیہ اسلام کی عظمت اور معاشرتی منزلت کے پیش نظر اپنے بیٹے یزید کو بھی سفارش کی تھی کہ امام کے ساتھ رواداری سے پیش آئے اور آپ سے بیعت لینے کی کوشش نہ کرے۔۱۔