امام زمان(ع) کے ظہور کے وقت گزشتہ انبیاء (ع) کی کتابوں کو ساتھ لے آنے کے کیا معنی ہیں؟

آسمانی کتابیں، صحیح اور تحریف نہ شدہ صورت میں ائمہ اطہار (ع) کے پاس موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس وقت بھی امام زمانہ (عج) کے پاس ہیں۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل روایت میں آیا ہے:
امام مہدی (عج)خطبہ غدیر میں

مولف:علی اصغر سیفی
سلسلہ امامت امام علی(ع) سے امام مہدی(عج) تک
(۱)عالم اسلام میں حج کا حکم عام اور ایک لاکھ سے زائد افراد کا مکہ کی طرف روانہ ہونا
(۲)آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ نے حضرت علی (ع) کو یمن و نجران کی طرف بھیجا آپ بارہ ہزار احرام باندھے مسلمانوں کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے (کشف الیقین ص ۲۳۸)
(۳)مناسک حج ادا ہوئے اور عرفات میں ایک حکم نازل ہوا ۔
(۴)پیغمبر اکرم(صل) نے حضرت علی(ع) کی ولایت کے اعلان کے لئے اسباب مہیا کئے
(۵)حج کی ادایئگی کے بعد پیغمبر اکرم(صل) کی طرف سے بلال(رض) نے اعلان کیا کل ناتوان افراد کے علاوہ کوئی نہ رہے سب حرکت کریں تا کہ معین وقت میں غدیر خم میں حاضر ہوں (امالی الصدوق ص ۳۵۴)
انتظار کا صحیح مفہوم، رہبر معظم کی نگاہ میں

۹ جولائی ۲۰۱۱ کو عقیدہ مہدویت کے محققین اور اساتذہ سے خطاب کا ایک حصہ:
’’امام زمانہ علیہ السلام سے متعلق عقیدے کا جہاں تک تعلق ہے تو پندرہ شعبان (امام زمانہ علیہ السلام کی ولادت کی تاریخ) کے قریب ہونے کی وجہ سے اس موضوع پر گفتگو کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے، اس سلسلے میں بس اتنا عرض کرنا ہے کہ دینی عقائد اور معارف کی چند اہم ترین بنیادوں میں ایک یہی عقیدہ ہے، جیسے عقیدہ نبوت ہے۔ امام مہدی علیہ السلام سے متعلق عقیدے کی اہمیت اسی طرح کی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ یہ عقیدہ جس چیز کی نوید دیتا ہے وہ وہی شئے ہے جس کے لئے تمام انبیاء و رسل کو مبعوث کیا گیا۔ یہ نصب العین ہے انسان کو اللہ تعالی کی ودیعت کردہ تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے انصاف کی بنیاد پر توحیدی معاشرے کی تشکیل۔ امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کا زمانہ انہی خصوصیات کا حامل زمانہ ہے۔ یہ توحیدی معاشرے کا زمانہ ہوگا، یہ یکتا پرستی کی بالادستی کا زمانہ ہوگا یہ انسانی زندگی کے گوشے گوشے میں دین و روحانیت کی حقیقی فرمانروائی کا زمانہ ہوگا، وہ انصاف کے مکمل قیام کا زمانہ ہوگا۔ ظاہر ہے کہ انبیائے کرام کو اسی ہدف کے تحت بھیجا گیا تھا۔
