یوم القدس کا عالمگیر اہتمام کیوں؟

بالفور ڈیکلریشن(2 نومبر 1917 کو برطانوی وزیرخارجہ آرتھرجیمز بالفور کا اعلامیہ ) برطانوی استعمار کے انسانیت سوز مظالم کا سیاہ ترین باب ہے جس کے ذریعے صیہونی فسطائیت کو فلسطین جیسی اسلامی سرزمین ہتھیانے کا غیر قانونی راستہ فراہم کیا گیا۔ انسانی حقوق کا ناٹک رچانے والے امریکی استکبار اور برطانوی سامراج نے ایک آزاد قوم کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے ارض فلسطین کی بندر بانٹ کر کے انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی، جبکہ بین الاقوامی قانون کی رو سے برطانیہ اپنے زیرانتداب مقبوضہ جات سے متعلق علاقے کے عوام کی رائ اور حق خودارادیت کے احترام کا پابند قرار پاتا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ نام نہاد تہذیب کے فرزندوں نے اس وحشتناک جرم پر معافی مانگنے کی بجائے ناجائز صیہونی قبضے کو لیگ آف نیشن کے ذریعے قانونی جواز فراہم کرنے کی بھونڈی کوشش کی۔ عالم اسلام کے قلب اور انبیاء کی سرزمین پر نسل پرست صیہونی جرثومہ اعظم کا غاصبانہ قبضہ ایک ایسا جارحانہ عمل ہے جس کے خلاف آج دنیا بھر کے منصف مزاج، آزاد انسان سراپا احتجاج ہیں۔ یہ احتجاج اسرائیل کے جرائم اور توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف فلسطین کی آزادی کے حق میں عالمگیر آواز بن کر استکباری قوتوں اور ان کے لوکل گماشتوں کی نیندیں حرام کر چکا ہے۔ امام خمینی عالمی مسائل کے دقیق اور گہرے تجزیے کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کرچکے تھے کہ مسئلہ فلسطین اور کشمیر سمیت تمام بین الاقوامی تنازعات کا حل استکباری طاقتوں کے خلاف مستضعف اقوام کی مزاحمت اور استقلال طلب جدوجہد میں ہی مضمر ہے۔ لہذا فلسطینی مظلوموں کی آواز کو عالمگیر جہت دے کر عالمی ضمیر کو جگا نے کے لیے خمینی بت شکن نے یوم القدس منانے کا حکم دیا۔امام راحل نے نام نہاد مسلم حکمرانوں کی طرح صرف زبانی جمع خرچ کو کافی نہیں سمجھا بلکہ استقامتی بلاک کو اسٹریٹیجک گائیڈ لائن اور مصافیاتی نظام العمل فراہم کر کے مقاومت اور مزاحمت کا راستہ دکھایا۔ الفتح اور پی ایل او جیسی تنظیمیں جو کبھی پرامن ٹیبل ٹاک کے ذریعے فلسطین کاز کے حل کا خواب دیکھتی تھیں،آج مقاومت اور انتفاضہ کی زبان میں بات کرنے پر مجبور ہوچکی ہیں۔