تازہ ترین

ہم پاکستانی تھے، ہیں، اور رہینگے، لیکن!

جی بی کے اخبارات میں آج کل ماینس بلتستان کی خبر ایشو بنی ہو‌‎ئی ہے اور ہر شخص دوسرے کو کسی طرح سے ملوث کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

چند سا ل پہلے کسی دعوت پر اس وقت کی قانون ساز اسمبلی کے ممبر جناب وزیر حسن صاحب سے گفتگو ہو رہی تھی اور بات پر بات نکلی اور سیاسی رنگ پکڑ گیی اور جناب وزیر صاحب نے فرمایا کہ ایک دن یہ سید مہدی شاہ(وزیر اعلی) جی بی کو بیچ دے گا۔ تو میں نے موصوف سے کہا تو قبلہ اس جرم میں آپ بھی برابر کے شریک ہیں کیونکہ آپ بھی تو پی پی پی کے نمایندہ ہیں اور آپ نے بھی تو وزیر اعلی کے لیے ووٹ دیا ہے یہ آپ کا جرم ہے کہ ایسے بندے کو کیوں انتخاب کیا؟
وزیر صاحب نے فرمایا: قبلہ بات صحیح لیکن یاد رکھنا اس جرم میں آپ بھی برابر کے شریک ہیں!

شئیر
35 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1326

وہ کیسے؟؟؟

تو فرمایا: آپ (عوام) نے ہی تو مجھے ووٹ دیا تھا اور اسمبلی بھیجا تھا  تو میرے گناہ میں اور مہدی شاہ صاحب کے گناہ میں ہم سب برابر کے شریک ہیں
تو موجودہ صورت حال بھی کچھ اس طرح ہے جب ووٹ دینے کی باری آ‎ئی تو جی بی والوں نے جس کی لاٹھی اسکو ووٹ کی بنیاد پر ن لیگ کو بھاری اکثریت سے جتوایا اور ممبران اسمبلی میں جانے کے ن لیگ کی مرضی کے مطابق حفیظ الرحمن کو وزیر اعلی بنا دیا اور اب وہ جی بی کا سودا کرنے جا رہا ہے۔
اس کے جرم میں ہر وہ شخص شامل ہوگا جس نے ن لیگ کو ووٹ دیا ہے یا انکے کسی نمایندے کی حمایت کی ہے یا ایسا کام کیا ہے جس کی وجہ سے وہ جیت گیے ہیں یا کسی کی غلط پالیسی کی وجہ سے ن لیگ جیت گیی ہے سب کے سب اس جرم میں شامل ہونگے۔

لیکن بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی کہ جرم کیا ہے اور مجرم کون ہے بلکہ اگلے مرحلے میں یہ بات بھی واضح کر لیں کہ جس سیسٹم میں پارٹی کا قانون ہو تو پارٹی ‎ڈسپلن کے مطابق چلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں پارٹی ‎ڈسپلن تو وہ بندہ زیر پا رکھتا ہے جس کے پاس معیار حق اور باطل ہو جس طرح سے یزید ابن معاویہ کا بیٹا معاویہ جس نے بنی امیہ کی سنت کو پا‌‎ئمال کرتا ہوا امام حسین کے خون سے آلودہ حکومت کو ٹھکرا دیا اور اپنے آپ کو اس نگ و عار سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پاک کیا۔
اس طرح کی دلیری کے لیے روح کی آزادی در کار ہوتی ہے جس طرح سے حر ابن یزید الریاحی نے کربلا میں آخر وقت میں امام حسین کی فوج میں شامل ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سرخرو ہوگیے

اب ہمارے منتخب نون لیگی نمایندوں کے پاس تین آپشنیز ہیں

1۔ اسمبلی میں رہ کر اپنا موقف ببانگ دھل اعلان کریں اور میثم تمار کی طرح ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید بنیں اور حق بات کی پرچار کریں قوم و ملت کی صحیح ترجمانی کریں اور ضرورت پڑھنے پر وزیر اعلی کی آنکھ میں آنکھوں میں آنکھ ‎ڈال کر کھڑے ہوجایں۔

2۔ ن لیگ کے انتخاباتی منشور کو مدنظر رکھتے ہو‌ۓ کہ جس میں جی بی کو آ‌‎ئینی حقوق دینے کا وعدہ دیا تھا اس وعدہ کے مطابق مرکزی قیادت سے وعدہ وفا‎ئی کا مطالبہ کریں اور نہ ماننے کی صورت میں اسمبلی سے استعفی دیں۔

3۔ ذلت اور حقارت کا ہار پہن کر خاموشی اختیار کریں اور اپنے پانچ سال کی کمایی کے پیچھے لگے رہیں اور حفیظ الرحمن کی ہر بات پر دم ہلاتے رہیں۔

جہاں تک اندازہ ہوتا ہے جی بی کے عوام میں ابھی تک جنگ آزادی کا ولولہ موجود ہے سنی شیعہ کے فرق کو بالای طاق رکھتے ہو‎ئے ہمارے نمایندے گلگت بلتستان کے عوام کی حقیقی ترجمانی کرتے ہویے پہلے آپشن پر عمل کرینگے اور نہ ماننے کی صورت میں دوسرے آپشن پر اتر آ‎ئینگے چونکہ ہمارے نمایندے بھی ہم میں سے ہیں۔

ن لیگ کے بہت سارے نمایندے جی بی کے لیے جان دینے کو تیار ہیں ان میں قومی جذبہ موجود ہے۔ مثال کے طور پر ‎فدا محمد ناشاد، ‎ڈپٹی اسپیکر جعفر اللہ وزیر ڈاکٹر اقبال، وزیر ثنا‎ئی اور دیگر ممبران جنہوں نے اب تک بہت سارے مواقع پر کھل کر بات کی ہے اور وزیر اعلی کی خاموشی کے باوجود یا انکے انکار کے بعد کہ ہم نے آ‎ئینی حقوق دینے کا وعدہ نہیں دیا ہے ان میں سے بعض ممبران نے واضح طور پر کہا ہے کہ عوام نے آ‎ئینی حقوق کے وعدے پر ہمیں ووٹ دیا ہے تو اب بھی ہمیں امید ہے کہ وزیر اعلی کی بات کو قانونی شکل میں پرکھ لیں اور انکی باز خاست کریں۔
لیکن اس حساس موڈ پر عوام اور دیگر سیاسی جماعتوں کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟
جہاں تک سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے وہ بھی وزیر اعلی کے اس جرم میں شریک ہیں گرچہ انکا حصہ کچھ کم تو ان سے بھی یہی توقع ہے کہ شریک جرم کا توبہ کرتے ہویے اپنے ممبران کو گا‎ئیڈ لاین دیں اور گورنمنٹ کے بجایے عوام کی ترجمانی کرنے پر مامور کریں۔

ان سب سے اہم اور پاورفل عنصر جو کم وقت اور کم زحمت پر اس مشکل کو حل کرسکتا ہے وہ عوامی طاقت ہے۔

اگر جی بی کی عوام یک صدا ہاتھوں میں ہاتھ دیکر ایکبار اٹھ کھڑے ہوجایں تو وزیر اعلی تو کیا پورا پاکستان سکون سے نہیں سو پایے گا ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو یہ شعور دیا جایے کہ وزیر اعلی کیا کرنے جا رہا ہے۔
اگرچہ عوام میں اس جرم میں کسی حد تک شریک ہے لیکن حدیث کے مطابق ( الناس علی دین ملوکھم) عوام الناس اپنے حکمرانوں کے دین پر ہوتے ہیں یعنی انکا اپنا کو‎ئی نظریہ نہیں ہوتا اس وجہ سے انکا جرم کمتر ہے اور ساتھ میں یہ بھی بتاتے چلیں کہ عوام نے کسی کو ووٹ دیا ہے تو قوم و ملت اور مملکت کو بیچنے کے لیے نہیں بلکہ ملک سنوارنے اور قومی مسا‎ئل کو حل کرنے کے لیے اسمبلی بھیجا ہے لذا امید ہے کہ وزیر اعلی ہوش کے ناخن لے وگرنہ ایک بار پھر یہ قوم بیدار ہوجایے تو پھر جس طرح سے گلگت بلتستان کو اپنے زور بازو سے آزاد کر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا اسیطرح سے ہر کسی ایرے غیرے کی احتیاج کے بغیر ہر کسی لولے لنگڑے سے محتاج ہویے بغیر، ہر ننگے اور گنجے کی منت کیے بغیر دنیا کے نقشے میں ایک اور ملک ((گلگت بلتستان)) کے نام سے منقوش کرینگے۔

یاد رکھنا ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان سے محبت ہے اور پاکستان کو ہم نے ہی بچایا ہے اور کرپٹ، جاہل، نالا‎ئق، بزدل اور بکے ہو‎ئے حکمرانوں کی غلط اور شیطانی چالاکیوں کی وجہ سے ہمیں پاکستانی بننے سے متنازع قرار دینے سے کچھ نہیں ہوتا ہم پاکستانی تھے، ہیں، رہینگے،

لیکن

کب تک؟
67 سالوں سے تمام تر صعوبتوں کو جھیلا، ظلم برداشت کیا، حقارت تحمل کیا، خون دل پی لیا، جوانوں کو قوم پرستی کے الزام پر لگام دیا، قوم کے بہادروں کو جیل بھیجنے پر چپ کا روزہ رکھا
کرگل کے محاذ پر جوانوں کا خون دیا، قوم کی بیٹیوں کو بیوہ ہونا برداشت کیا، معصوم بچے یتیم ہوگیے ان ساری مصیبتوں کو صرف پاکستان کے لیے بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے ہم نے تحمل کیا اور اب بھی ہمارے صبر کا امتحان لیا جا رہا ہے

لیکن
جبتک صبر کا مرحلہ تھا ہم نے و تواصوا بالصبر پر عمل کرتے ہو‎ئے 67 سال گزار لیے لیکن اب موت اور زندگی کا مسلہ ہے گلگت بلتستان کے ذبح کیا جا رہا ہے اور دو ٹکڑوں میں باٹنے کی باتیں کر رہے ہیں اب بات جب موت اور زندگی کی ہے تو اس صورت میں ہر قسم کا سکوت خیانت اور قوم و ملت پر ظلم تصور کیا جایے گا۔

جسطرح سے پاکستان کی بقا اور سالمیت کے لیے جانیں دی ہیں اور گھر بار لٹا دیا ہے اب گلگت بلتستان کی بقا کے لیے قربانی درکار ہے۔ اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے یہ ہماری موت اور زندگی کا مسلہ ہے۔
خیانت کھل کر سامنے آگیی ہے کیونکہ 67 سالوں سے جو حقوق ناممکن تھے اب چین کی خوشآمدی اور پاکستان کے مفادات کے لیے وہ حقوق ممکن بن چکے ہیں۔ اگر ناممکن تھے تو اب کیسے ممکن ہویے اور ممکن تھے تو اب تک ہمیں محروم کیوں رکھا
ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے ناممکن نہیں تھا بلکہ ہمیں اندھیرے میں رکھا گیا تھا۔
لذا وہ دن دور نہیں گلگت بلتستان کی فضاوں میں آ‎ئینی حقوق کا جشن منعقد ہوگا اور بصورت دیگر مملکت خداداد گلگت پاکستان ایک دم سے متولد ہوگا اور ہر شیطان صفت حکمران کی نیندیں حرام کرے گا۔

الیس الصبح بقریب
کیا صبح کی پو پھٹنے کے قریب نہیں؟؟؟؟

 

تحریر: مشتاق حکیمی

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *