آخوند غلام محمد مرحوم امام جمعہ و الجماعت سلتر و [گانچھے] /تحریر: لقا ءعباس
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماء۔
حال حاضر میں اس آیت کریمہ کے مصداق واقعاً بہت کم ہیں جو دل و جان سےخدا کے سامنے خضوع و خشوع بجا لاتے ہوں۔ انہیں علمائے کرام میں سے جو اپنے علاقے میں عالم باعمل کہلاتے تھے آخوند غلام محمد مرحوم ہیں۔
آپ کا خاندان بلتستان میں اولین مبلغ اسلام حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی قدس سرہ کے ساتھ تشریف لایا تھا ۔ جس زمانے میں حضرت امیر کبیر نے بلتستان و کشمیر میں دین محمدی کی تبلیغ شروع کی تھی اس زمانے میں سید علی ہمدانی ہمدان سے اپنے سات سو مریدوں کو لے کر آئے تھے ۔ آپؒ نے ان مریدوں کو مبلغ و مربی کی حیثیت سے بلتستان کے مختلف علاقوں میں معین فرمایا۔
انہی میں سے ایک آخوند غلام محمد کے آباو اجداد تھے اورآپ ؒنے ان کے آباو اجداد کو لداخ میں مقرر کیا اس کے بعد آپ کے آباء واجداد فرا نو پھر پر توک اور اس کے بعد غورسے میں تشریف لائے اور اس کے ساتھ بلغار و تھلے میں بھی رہےاسی سلسلے کی ایک علمی شخصیت کا نام اخوند غلام محمد ہے۔
تعلیم و تربیت
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر سے حاصل کی اور اس کے بعد مزید معارف اسلامی کسب کرنے کے لئے اس وقت کےمشہور عالم دین سید شاہ عباس موسوی غورسے [المعروف بوا ٹلو] کے پاس گئے ۔
سید شاہ عباس مرحوم اپنے زمانے کے مشہور صاحب کرامت عالم دین تھےجنہوں نے دہلی اور لکھنو کے حوزات علمیہ سے کسب معارف کیا تھا اور معنوی اعتبار سے اس زمانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
دوران طالبعلمی آخوند غلام محمد مرحوم اپنے استاد کے قریبی شاگردوں میں شمار ہوتے تھے اور آپ نے ان کے پاس صرف و نحو مقدمات کی تعلیم حاصل کی تھی اور طالب علمی زمانے میں ہی آپ نے اپنے استاد کی اجازت سے درس دینا شروع کردیا تھا اور فارسی زبان باقی شاگردوں کو سکھایا کرتے تھے ۔
غورسے سے سلترو کی طرف ہجرت
جب آپ مشغول درس تھے اس زمانے میں کچھ لوگ سلترو سے بوا شاہ عباس کی خدمت میں آئےاورتبلیغ دین کے لئے ایک عالم دین کا مطالبہ کیا کہ وہ اسے اپنے گاوں لے کے جائیں تاکہ دینی معاملات میں لوگوں کی رہنمائی کریں ۔ ان کے اصرار کو دیکھ کر بوا شاہ عباس نے آخوند غلام کو جو کہ ان کے ایک برجستہ شاگرد تھے حکم دیا اور آپ استاد کے حکم پر فورا لبیک کہتے ہوئے اپنے علاقے کو چھوڑ کر سلترو کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب آپ سلترو تشریف لائے تو انہوں نے دیکھا کہ مسجدوں میں صرف کتوں کے پیروں کے نشان موجود ہیں لوگ دین کی تعلیم سے بہت دور ہیں تو انہوں نے واپس آکر اپنے استاد کو پورا واقعہ سنایا لوگوں کو صرف کلمہ کے علاوہ دین کی کوئی بات معلوم نہیں تھی آپ استاد کو حالات سے آگاہ کرنے کے بعد دوبارہ سلترو کی طرف روانہ ہوئے اور وہا ں کے آخری گاوں گونگما میں دو سال رہے اس وقت گونگماکے کچھ لوگ آپ کی حالت کو دیکھنے غورسے آئے جب انہوں نے دیکھا کہ آخوند صاحب غورسے میں اچھے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے جب آخوند صاحب کی زمین کو دیکھا تو سمجھے کہ سلترو میں نہیں رہ سکیں گے کیونکہ غورسے میں ان کی بہت ساری زمینیں ہیں اس وجہ سے آخوند صاحب اور سلترو گونگما والے زیادہ عرصہ ساتھ نہیں رہ سکے ۔
آپ نے وہاں دو یا تین سال خدمات کی ۔جب آپ وہاں سے واپس آرہے تھے تو راستہ میں غاغلو والوں نے آپ کو روک لیا اور غاغلو کے نمبردار کے پرزور مطالبہ پر آپ وہیں رہے ۔
تبلیغ و درس و تدریس
آپ نے دین کی ترویج کا باقاعدہ آغاز کیا اور اہل علاقہ نے آپ کا مکمل ساتھ دیا جس کی وجہ سے آپ اپنے عظیم مشن میں کامیاب ہوئے اور آپ نے پورے علاقے سلترو سے شاگردوں کو جمع کرنا شروع کیا اور سردیوں میں درس دینے کا رواج عام کیا اور آج بھی پورے علاقے سلترو کے تمام روحانی بلواسطہ یا بلاواسطہ آپ کے شاگرد ہیں ۔جن میں سید حبیب اللہ موسوی ، آخوند محمد امام جماعت ملاگرونگ اور آخوند روزی وغیرہ شامل ہیں ۔
آپ اہل علاقہ کے نزدیک اہل کرامت بھی مشہور تھے آپ کی عبادت کا یہ عالم تھا کہ سلترو کی اس برف باری میں بھی نماز تہجد 65 سال مسجد میں ہی ادا کرتے تھے ۔
آپ کو اہل بیت محمد سے بے انتہا محبت تھی اور اس محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ سارا سال ہر جمعرات کو مجلس امام مظلوم برپا کیا کرتے تھے۔ یہ تقریبا وہ کچھ باتیں ہیں جوآپ کی زندگی کے وہ پہلو تھے جن کی طرف نظر کرنا ضروری تھا اور اسی لیے عمر کے آخری حصے میں وقت وفات بھی اہل بیت کا ذکر کرتے ہوئے اس فانی دنیا سے کوچ فرما گئے۔
اولاد
آپ نے غورسے سے ہی شادی کی تھی جس کے نتیجے میں اللہ نے آپ کو چار بیٹے اور تین بیٹیوں کی نعمت سے نوازا ۔ ان میں سے سب بڑا بیٹا شیخ سکندر حسین ہیں جو اس وقت نوربخشی مسلک کے اہم مدرسہ جامعہ اسلامیہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کراچی کے مدیر و مہتمم ہیں ۔
دیدگاهتان را بنویسید