تازہ ترین

آغا راحت حسین الحسینی صاحب کے خطاب سے اقتباس

گلگت بلتستان کی موجودہ صورت حال اور ہماری ذمہ داریاں کے عنوان پر سیمینار سے خطاب فرمایا۔

ان کی فرمائشات سے چیدہ چیدہ نکات

علما صرف اللہ سے ڈرتے ہیں اور کسی سے نہیں ڈرتے۔

طالب علم ھزاروں لوگوں سے انتخاب ہوتا ہے۔

گلگت بلتستان میں علما اور طلاب کی کمی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔

شئیر
30 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1473

 مدارس علمیہ  میں انگشت شمار طلاب موجود ہیں۔  

نجفی اور مبارز علما کی تعداد کم ھو گئی ہے۔

میدان میں موجود علما کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنارہے ہیں۔

ہم خالص عقیدے کے حامل ہیں۔ ہمارے اندر کی کمی یہ ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں سے بطور احسن عھدہ  برآ نہیں ہورہے ہیں۔

 ہماری دیانت داری زبان زد عام ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے کے اندر تبلیغات دینی کی کمی ہے۔

ہمارے طلاب میں مہارت کی کمی ہے۔

ایک عالم دین کے لئےمبانی احکام ، تفسیر کا ایک دورہ،عرفان کا ایک دورہ کئے بغیر معاشرے میں قدم رکھیں تو  کما حقہ ذمہ داری  ادا نہیں کرسکتا۔

علمی میدان میں بھر پور استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔

عمل کے بغیر جو علم ہے اس کی مثال ایسا ہے جیسے طور کے ہاتھ میں روشنی ہو وہ تمام مال و اموال کو غارت کرے گا۔

معنویت انسان کو عمل پر مجبور کردیتی ہے۔

معاشرے میں ہمارا کردار مثبت ہونا ضروری ہے۔ 

اس حدیث کو اپنی زندگی کا سرمایہ حیات قرار دو۔

کونو دعاتا  الناس بغیر السنتکم۔ 

سیاسی موضوع کی طرف  اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا

نیوٹرل  سنی اور شیعہ طلاب کی تعداد بہت کم ہے حالانکہ سخت گیر اور تکفیری گروپ سے تعلق رکھنے والے ہر جگہ بھرا ہوا ہے۔

ایک حدیث بیان کی۔

یا علی کچھ خصوصیات مجھ سے یاد رکھو۔ اگر ان پر عمل نہیں کیا تو اپنی ملامت کرنا۔

بارہ نکات اس میں ہیں۔

الاول الصدق۔ ھرگز تمہارے منہ سے جھوٹ نہ نکلے۔

الثانی۔ الورع۔ (امانت داری)کبھی بھی خیانت نہیں کرنا۔ دنیا سے جتنا دور جاو گے اتنی ہی دنیا ہمارے پیچھے آتی ہے۔ اس کو ہم خود معاشرے  میں محسوس کررہے ہیں۔ 

انہوں نےطلبا کو مادیت سے دور رہنے پر زور دیتے ہوئے فرمایا۔ امر بآلمعروف و نہی از منکر جیسی عظیم ذمہ داری کو پورا کرے اور خدا اس کو بھوکا رکھے یہ ممکن نہیں۔

الثالث۔ اگر انسان کے خوف کا پہلو بڑھ جائے تو صداقت بڑھ جاتی ہے۔ 

الخوف من اللہ کام این تراہ۔

الرابع۔ کثرت البکاء من خشیت اللہ۔

آنسو کے ہر قطرے کے بدلے بہشت میں ایک گھر ملتا ہے۔

الخامس۔اپنے مال اور  جان کو دین پر قربان کرنا۔

السادس۔ میری سنت کو اپناو یا علی۔ دن میں 51 رکعت نماز پڑھنا میری سنت ہے۔ میری سنت یہ ہے کہ میں مہینے میں تین دن روزہ رکھتا ہوں۔

نماز تہجد کو ترک کرنے والا حقیقی طالب علم نہیں بن سکتا۔  

دنیا چاہیے تو نماز تہجد پڑھو اور اگر   دین چاہیے تو نماز تھجد پڑھو۔

صدقات دینا سیکھو۔ 

ہر حال میں تلاوت قرآن کرو۔  قرآن سے وابستگی کی وجہ سے آقای جوادی آملی جیسی شخصیات 66 جلد تفسیر قرآن لکھ  پائی ہیں۔

سیاسی حالات کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرمایا

سابقہ ادوار میں حاکم طبقات کی طرف اشارہ کی ڈوگرہ۔۔۔۔۔وغیرہ۔۔۔۔

1947 میں جب پاکستان وجود میں آیا تو وہاں کے قائدین نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا۔ کراچی میں قائد اعظم سے ملاقات کی اور بغیر کسی شرط کے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا۔

جب وہابیت اور مذہبی مشکلات نہیں تھی تو کوئی خاص مشکلات نہیں تہی۔ لیکن آئینی حیثیت دینے میں انتہا پسند گروپ  رکاوٹ رہا ہے۔

سٹیٹ سبجیکٹ رول کے  تحت  گلگت بلتستان میں کوئی غیر مقامی زمین خرید نہیں سکتا تھا۔ لیکن بعد میں اس قانون کو ہم نے لالچ میں آکر تڑوا  دیا۔یہ ہماری غلط پالیسی تھی۔ اب نوبت یہاں پہنچی ہے کہ وہی غیر مقامی لوگ ہم پر حکمران ہیں۔

2009 میں  دو حکومتیں کسی حد مستقل وجود میں آئییں۔

24 ارکان اسمبلی۔ اس کے علاوہ ٹیکنوکریٹس ملا کر 35 ارکان ہیں۔

دو ملین کی  آبادی ہے۔ دس اضلاع موجود ہین۔ہر ضلع میں مختلف تعداد میں انتخاباتی حلقہ ہے۔ منتخب افراد میں 4 بڑی پارٹیاں ہیں۔ ان تین پارٹی شیعوں کی۔

9 حلقے گلگت بلتستان میں پیور شیعہ ارکان آسکتے ہیں۔

اسماعیل برادری کے پاس 3 حلقے۔ نوربخشی برادری کے پاس 3 حلقے ۔

 ہم نے سب شیعہ پارٹیوں کے ساتھ دیا اس پر میرے ساتھ مشکلات بھی پیش آئی۔

تحریک جعفریہ میں گروپ بندی کی وجہ سے گلگت بلتستان پر بھی اثر ہوا۔اس لئے شہید ضیاء الدین نے تحریک کے ساتھ دیا۔

ہر پارٹی کی خواہش پر فیصلہ کرنا میرے لئے مشکل ہے۔ مجھ پر بھروسہ ہے تو مجھے کام کرنے دین۔

الیکشن کی وجہ سے جو صورت حال پیدا ھو ئی ہے وہ افسوسناک ہے۔

سب کی نگاہ جامعہ مسجد کے امام پر ہے۔ جو بھی ہے۔

ہمارے ووٹر تقسیم تھے۔ 5 سیٹیں ہمارے پاس آئیں۔

22 افراد برسر اقتدار۔۔۔۔۔

اپوزیشن بھی انکے اپنے۔۔۔۔۔???? 

جو وزیر لئے ہیں 4 سنی دو شیعہ۔

70 سے 75 فیصد شیعہ ہیں۔لیکن۔۔  افسوس۔

مین نے آل پارٹیز کانفرنس رکھی تاکہ جیت جائیں لیکن افسوس مجھے اتنا دکھ دیا کہ بیان نہیں کرسکتا۔

انتخابی عمل میں کس کی غلطی ہوئی بیان نہیں کرسکتا۔

غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہم ناکام رہے۔

ابھی ہر خشک و تر ان کے ھاتھ  میں ہیں۔ 11 سیکریٹری میں سے صرف 2 شیعہ ہیں۔ 

بہت کم ظرف اور بد نیت وزیر اعلی ہین شیعون کی بھرتی پر جلتا ہے۔

اجلال الحسین کے نام سے جلنے والا سربراہ۔  اور بھی بہت سے نمونے ہین جن کو بیان نہین کرسکتا۔

اس وقت ہمارے وہان ھادی چینل پر پابندی ہے۔ ھدایت چینل پر پابندی۔پریس تی وی پر بھی پابندی۔ اگر پابندی نہین ہے تو ناچ گانے والے چینل ہین۔ لوکل چینل پر بھی کوئی مذھبی پروگرام دکھائین تو بھی پابندی۔

خالصہ سرکار کے نام سے بندر بانٹ  اور زمین خواری کا بازار گرم۔

مقپون داس مین سے دو ھزار کنال زمین حکومت کے لئے الات کیا گیا ہے۔ حتی کہ میرے بنائے ہوئے یتیم خانے کو بھی ھکومت کے نام الات کیا ہے۔????

شیعہ آبادیون کی زمین پر کوئی کمپیسیشن نہین جبکہ دوسرون کو دینے مین سخاوت کا دریا بہہ رہا ہے۔

سکیورٹی کے حوالے سے خطرناک حالات درپیش ہیں۔

فورتھ شیڈول کا جال بچھایا گیا۔ جس مین شیخ محسن نجفی جیسی شخصیات تک کو اذتین دین۔ 

مین نے تین پارتیون تحریک۔۔۔ایم ڈبلیو ایم اور پیپلز پارتی کو متحد کرنے کی کوشش کی۔ آپ لوگون کو سیاست کرنا نہین آتا۔ 

آج کے بعد آپ خدا کے بندے ہوجائین نہ پارٹیون کے بندے۔

ہماری ناچاکی نااتفاقی سے ملت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ اگرچہ مین میں ان پارٹیون کے سربراہان کے خلوص نیت کو شک کی نگاہ سے نہین دیکھتا۔ 

گلگت بلتستان کے مدارس کو آباد کریں۔ ان مدارس کو بطور ہاستل استعمال مین لایا جارہا ہے۔ 

آخر مین آقا راحت حسین الحسینی  نے تاکیدا فرمایا کہ اخلاقی اور عملی میدان مین تقوی اور خشیت الہی سے مسلح ہو جائیں۔ ہہمیں گلگت اور بلتستان مین مسلحانہ جدو جھد کی ضرورت نہین۔ 

افسوس 70 فیصد کی آبادی کا استحصال ہورہا ہے۔ ایک ہفتہ جدو جھد سے اس ظالم حکمران کا کایا پلٹ سکتے ہیں۔

یہان ھمفکری سے کام کریں۔ 

یوم الحسین کے حوالے سے انہون نے کہا کہ شیعون کے دشمن اس معاملے مین آگے آگے ہیں۔ یوم الحسین کے حوالے سے میں ہمیشہ ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ہمارے اندر کچھ بکے ھوئے افراد ہین یونیورستی اور کالج کے کچھ جوان  خودسرانہ کام کر کے کام خراب کرا دیا۔ پہر سب کے خلاف پرچے کٹے۔ متنازع بنانے کے لئے انجان لوگون نے کام کیا۔

آخر میں امام جمعہ مرکزی جامع مسجد گلگت آغا سید راحت حسین الحسینی  نے شرکاء کے مختلف سوالوں کا جواب دیا۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *