إِذَا أَقْبَلَتِ الدُّنْيَا عَلَى أَحَدٍ،…. نہج البلاغہ صدائے عدالت سیریل/ اثر: محمد سجاد شاکری
درس نمبر 9
وَ قَالَ امیر المؤمنین علی علیہ السلام: إِذَا أَقْبَلَتِ الدُّنْيَا عَلَى أَحَدٍ، أَعَارَتْهُ مَحَاسِنَ غَيْرِهِ، وَ إِذَا أَدْبَرَتْ عَنْهُ، سَلَبَتْهُ مَحَاسِنَ نَفْسِه
امیر المومنین فرماتے ہیں: جب دنیا کسی کا رخ کرے، تو دوسروں کی خوبیاں بھی اسے عاریت دیتی ہے۔ اور جب دنیا کسی سے رخ موڑ لے تو، اس کی اپنی خوبیان بھی اس سے چھین لیتی ہے۔
? حصہ اول: شرح الفاظ
۱۔ أَقْبَلَت: رخ کیا، کسی کی طرف بڑھا، سامنا کیا۔
۲۔ أَحَدٍ: ایک، تنہا، کسی ایک۔
۳۔ أَعَارَتْ: عاریت دی۔
۴۔ مَحَاسِن: خوبیاں، اچھائیاں، نیکیاں۔
۵۔ أَدْبَرَتْ: پشت کیا، منہ موڑا، رخ موڑا۔
۶۔ سَلَبَتْ: چھین لی، سلب کی۔
? حصہ دوم: سلیس ترجمہ
امیر المومنین فرماتے ہیں: جب دنیا کسی کا رخ کرے، تو دوسروں کی خوبیاں بھی اسے عاریت دیتی ہے۔ اور جب دنیا کسی سے رخ موڑ لے تو، اس کی اپنی خوبیان بھی اس سے چھین لیتی ہے۔
? حصہ سوم: شرح کلام
مولائے متقین اپنے اس کلام میں ایک ایسے معاشرے کی عمومی صفت کی طرف اشارہ فرمارہے ہیں جس کی روح ابھی تک اسلامی نہیں ہوئی۔ جس معاشرے کی اکثریت قرآنی تعلیمات اور اسلامی طرز معاشرت کو نہ اپنا چکی ہو تو یقینا ایسے معاشرے میں ایسی ہی طرز فکر پروان چڑھتی ہے۔ زندگی کے معیارات اور اصول بھی اپنا خودساختہ اپناتے ہیں۔ انہی خودساختہ اصولوں میں سے ایک کو مذکورہ کلام میں امام نے بیان فرمایا ہے کہ انسان کی تعریف اور مذمت کا معیار لوگوں کے پاس مال دنیا اور قدرت و نامداری ہے۔ اور مذمت کا معیار بھی فقر و تنگدستی اور گمنامی۔
تاریخ میں اس کے بے شمار نمونے ملتے ہیں کہ لوگ جب تک کسی انسان کا قدرت و سلطنت، مال و دولت یا علم و دانش میں نام تھا اس وقت تک اس کی اپنی خوبیوں کے علاوہ دوسروں کی بہت ساری خوبیوں کو بھی اسے عاریت کرتے تھے۔ ابن ابی الحدید اپنی شرح میں کہتے ہیں کہ حتی بہت سارے اشعار جو غیر معروف اور بعض اوقات نامعلوم شعرا نے کہے ہیں لیکن ان اشعار کی نسبت مشہور شعرا کی طرف دی گئی ہے۔ بلکہ مختلف علوم اور فنون کے بارے میں لکھی گئی بہت ساری کتابوں کے ساتھ بھی لوگوں نے یہی برتاو کیا ہے۔ کہ کسی غیر معروف یا نامعلوم شخص کی کتاب کو مشہور شخصیت کے ساتھ منسوب کیا ہے۔
ہارون الرشید کے بارے میں ذکر ہوا ہے کہ جس وقت ہارون رشید کی جعفر ابن یحییٰ بر مکی سے دوستی تھی تو قسم کھا کے کہتا ہے جعفر، قیس ابن ساعدہ سے زیادہ فصیح تر ،عامر ابن طفیل سے زیادہ شجاع ،عبد المجید ابن یحییٰ سے زیادہ خوش نویس ،عمر ابن خطاب سے زیادہ سیاست مدار اور مصعب بن زبیر سے زیادہ خوبصورت، حجاج سے زیادہ مخلص ،عبداللہ سے زیادہ سخی اور حضرت یوسف سے زیادہ عفت دار وپاک دامن ہے۔ اور جب ہارون کا نظریہ بدل گیا تو اس کی ہر چیز سے انکار کر دیا اور اس کو دردناک عذاب میں مبتلا کر دیا۔
? پیغام کلام
مولا کے اس کلام میں کچھ پیغامات ہمارے لئے موجود ہیں جن پر توجہ سے ہماری زندگی کے معیارات اور اصول میں بہت ساری تبدیلیاں آسکتی ہے۔ اور بہت ساروں کی زندگیاں اِدھر سے اُدھر ہو سکتی ہے۔
? ۱۔ معیار مدحت و مذمت
مذکورہ کلام کا ایک پیغام یہ ہے کہ کسی بھی انسان کی تعریف و تمجید یا مذمت و ملامت کا معیار مال و دولت، قدرت و سلطنت اور شہرت و نیک نامی یا ان چیزوں کا فقدان نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ انسانی و اسلامی اقدار کی پابندی یا عدم پابندی، انسانیت کا معیار ہے۔ جیسا کہ خداوند عالم نے مال و دولت، قبیلہ و خاندان، رنگ و نسل وغیرہ جیسے معیارات کی نفی کرتے ہوئے پاکیزہ زندگی گزارنے کو معیار قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے: ’’ تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔‘‘(حجرات: ۱۳)
? ۲۔ دنیا کی بے وفائی
ایک اور اہم پیغام جو اس کلام سے سمجھ میں آتا ہے وہ دنیا کی ناپائیداری اور بے وفائی ہے کہ اس دنیا نے کبھی کسی سے وفا نہیں کی اور نہ ہی کسی کے ساتھ وفا کرے گی۔ پس اگر کبھی دنیا نے کسی کا رخ کیا تو اتنا زیادہ دنیا میں مست نہ ہوجائے کہ اس کی جدائی کے دن کو بھی بھول جائے۔
? ۳۔ چابلوسی سے دھوکہ نہ کھانا
جب بھی انسان کسی تعریف کرنے والے کو دیکھے جو ناکردہ خوبیوں کو بھی بیان کر رہا ہے تو ایسے میں بجائے اس کے کہ خوشحال ہوجائے ناراض اور پریشان ہوجانا چاہئے۔ اگر اپنی ناکردہ نیکی اور تعریف سن کر انسان کو خوشی کا احساس ہوجائے تو سمجھ لیں یہی اس کی نابودی کے لئے کافی ہے۔ کیونکہ ایسا انسان جو اپنے اندر غیر موجود صفات اور تعریفیں سننے کا عادی ہوجاتا ہے وہ پھر دنیا کی بے رخی کے وقت اپنے اندر موجود خوبیوں کو بھی لوگ اس سے چھینتے ہوئے دیکھ کر برداشت نہیں کر پائے گا۔ پس چاپلوسوں سے بچ کے رہنا چاہئے۔ اور نہ نہی مذمت کرنے والوں کی بے جا مذمت سے خوفزدہ ہونا چاہئے۔
? ۴۔ ذمہ داری پر توجہ
ایک اور مہم پیغام اس کلام کا یہ ہے کہ چاہے کوئی آپ کی تعریف کرے یا مذمت، چاہے دنیا آپ کا رخ کرے یا آپ سے بے رخی اختیار کرے۔ آپ کو اپنی فردی اور اجتماعی ذمہ داری پر توجہ رکھنی چاہئے۔ کہ میری ذمہ داری کیا ہے اور اسے کس طرح بخوبی انجام دے سکتا ہوں؟ چاہے کوئی آپ کی تعریفوں کا پل باندھے یا مذمت کی بوچھاڑ کر دے۔ نہ کوئی تعریف کرنے والے کی تعریف آپ کو دھوکہ دے سکے اور نہ ہی کسی مذمت و ملامت کرنے والے کی مذمت آپ کا حوصلہ پست کردے۔ لہذا مولا امیر المومنین اپنے بھائی عقیل سے فرماتے ہیں:
’’نہ میرے اطراف میں لوگوں کا ہجوم لگنا میری عزت افزائی کا باعث ہے اور نہ ہی میرے اطراف سے لوگوں کا پراکندہ ہوجانا میری تنہائی کا باعث‘‘(ترجمہ و شرح نہج البلاغہ فیض الاسلام، ص 947)
مولا اس وقت بھی پورے آب و تاب کے ساتھ اپنی ذمہ داری انجام دیتے تھے جب دنیا اور اہل دنیا نے آپ کو تنہا چھوڑدیا تھا یہاں تک کہ آپ کے سلام کا جواب تک نہیں دیتے اور آپ اپنے سینے کی رازوں کو کنویں میں سر رکھ کر بیان فرمایا کرتے تھے۔
اور اس وقت بھی پوری قدرت سے اپنی ذمہ داری انجام دیتے رہے جب لوگ آپ کی بیعت کے لئے اس طرح ٹوٹ پڑے کہ آپ کے بقول آپ کو حضرات حسنین کے کچلے جانے کا خوف لاحق ہوا۔
نہ دنیا اور اہل دنیا کی بے وفائی کبھی آپ کو ذمہ داری کی ادائیگی میں سست کر سکی اور نہ ہی لوگوں کا ہجوم آپ کو دھوکہ دے سکا۔
? مولا کا کلام اور آج کا دور
اگر ہم ایک نگاہ اپنے زمانے پر ڈالیں اور مولا کے اس کلام کے پیرائے میں دیکھنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ آج ہمارے دور میں باقاعدہ طور پر پلاننگ کے ساتھ ایسا کیا جاتا ہے۔ خصوصا ہمارا دشمن اسی پالیسی کے تحت کچھ خاص افراد کو اپنے خاص اہداف کے ساتھ اسلامی معاشرے میں ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں اور ایسے ایسے کارنامے ان سے منسوب کرتے ہیں کہ جن کے ساتھ ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ جبکہ بڑے بڑے سیاسی و غیر سیاسی کارنامے تو دور کی بات، اپنے کرتے کا بٹن ٹوٹ جائے تو اسے سینے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے۔ جس طرح موسی(ع) کی غیر موجودگی میں سامری نے قوم موسی کے لئے گوسالہ بنا کر گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح آج ہمارے معاشرے میں بھی بیدار قیادت کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن نے سیاست، اقتصاد، کلچر اور حتی دین اور مذہب کے میدان میں بھی بہت سارے گوسالے بنا کر ہماری قوم کو ہر فیلڈ میں ناکام اور نامراد بنانے کی کوشش کی ہے اور وہ لوگ کسی حد تک اپنے ان اہداف میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔
جتنا جاہل اور کرپٹ انسان ہوتا ہے اسے کامیاب سیاست دان، اقتصاد کی الف با سے بھی نابلند انسان کو ماہر اقتصادیات اور دین و مذہب کے حروف تہجی سے بھی ناواقف انسان کو مذہبی اسکالر اور علامہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اور ان کی ایسی تعریف و تمجید ہوتی ہے جیسے ان سے بہتر سیاست دان، ان سے بہتر اقتصاد دان اور ان سے بہتر عالم دین دنیا میں کہیں نہ ہو۔
جبکہ اس کے مقابل دشمن ان اسلامی شخصیات کو جو واقعا سیاست، اقتصاد، ثقافت اور دین و مذہب کے میدان میں اسلامی معاشرے کی تھوڑی بہت خدمت کر سکتے ہیں، ان کی شخصیت کشی کرتے ہیں اور ان کی خوبیوں کا بڑی آسانی سے انکار کرتے ہیں۔ اور ان کی مدد کے لئے آج کا میڈیا سب سے آگے ہے۔
آخر میں ہم اپنی گفتگو امام زین العابدین کی دعائے مکارم الاخلاق کے اس حصے پر ختم کرتے ہیں:
خدایا!میری آبرو کو غنا و تونگری کے ساتھ محفوظ رکھ اور فقر وتنگ دستی سے میری منزلت کو نہ گرا۔ کہ تجھ سے رزق پانے والوں سے رزق مانگنے لگوں اور تیرے پست بندوں کی نگاہ لطف وکرم کو اپنی طرف موڑنے کی تمنا کروں اور جو مجھے دے اس کی مدح وثنا اور جو نہ دے اس کی بُرائی کرنے میں مبتلا ہوجاؤں۔ اور تو ہی عطا کرنے اور روک لینے کا اختیار رکھتا ہے نہ کہ وہ۔
دیدگاهتان را بنویسید