إِذَا قَدَرْتَ عَلَى عَدُوِّکَ…. نہج البلاغہ صدائے عدالت سیریل/اثر: محمد سجاد شاکری
درس نمبر 11، ترجمہ و تفسیر کلمات قصار نمبر ۱۱
وَ قَالَ امیر المؤمنین علی علیہ السلام: إِذَا قَدَرْتَ عَلَى عَدُوِّکَ فَاجْعَلِ الْعَفْوَ عَنْهُ شُکْراً لِلْقُدْرَةِ عَلَیْهِ.
حضرت امیر المومنینؑ فرماتے ہیں: ’’جب اپنے دشمن پر غلبہ پاؤ تو معاف کردینے کو اس کا شکرانہ قرار دے دو۔‘‘
حصہ اول: شرح الفاظ
۱۔ قَدَرْتَ: تو قادر ہوا، تو نے قابو پایا۔
۲۔ عَدُوِّکَ: تیرا دشمن۔
۳۔ اجْعَل: قرار دو۔
۴۔ الْعَفْوَ: درگزر، بخشش، معاف کرنا۔
۵۔ شُکْر: شکر، سپاس۔
۶۔ الْقُدْرَةِ: قدرت، طاقت، غلبہ۔
حصہ دوم: سلیس ترجمہ
حضرت امیر المومنینؑ فرماتے ہیں: ’’جب اپنے دشمن پر غلبہ پاؤ تو معاف کردینے کو اس کا شکرانہ قرار دے دو۔‘‘
حصہ سوم: شرح کلام
ہم سب ہی جانتے ہیں کہ ہماری زندگی کا ہر لمحہ خداوند عالم کی مہربانی، لطف اور نعمت سے خالی نہیں ہے۔ حتی خود خداوند عالم نے انسان کو چیلنج کیا ہے کہ اگر تم میری نعمتوں کو گننا چاہو تو نہیں گن پاؤ گے۔ ’’ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ اللَّهَ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ‘‘، ’’ اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنے لگو تو انہیں شمار نہ کر سکو گے، اللہ یقینا بڑا درگزر کرنے والا، مہربان ہے۔‘‘ (سورہ نحل: 18) نعمتوں کی بارش برسانا خدا کا کام ہے اور ان تمام نعمتوں اور مہربانیوں کے بدلے میں شکر ادا کرنا بندے کا کام۔ جس طرح خدا اپنا کام بڑے خوش اسلوبی سے انجام دیتا ہے بندہ بھی اپنا کام اچھے انداز میں بجا لائے تو خدا کا لطف دوگنا ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا ہے: ’’ وَ إِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ‘‘، ’’ اگر تم شکر کرو تو میں تمہیں ضرور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب یقینا سخت ہے۔ ‘‘ اس سے پہلے کہ ہم شکر کے بارے میں کچھ نکات بیان کریں۔ خود نعمت کے بارے میں کچھ مطالب عرض کریں گے۔
نعمت کی قسمیں
جیسا کہ عرض کیا خدا کی نعمتیں بے پناہ ہیں۔ لیکن اگر ان تمام نعمتوں کو کلی طور پر تقسیم کرنے کی کوشش کی جائے تو نعمتوں کی دو قسمیں بنتی ہیں۔
۱۔ محسوس نعمتیں
یہ وہ نعمتیں ہیں جو انسان باقاعادہ محسوس کرتا ہے، دیکھتا ہے، چکھتا ہے، لمس کرتا ہے وغیرہ۔ دوسرے الفاظ میں مادی نعمتیں۔
غالبا ہماری اکثریت فقط انہی چیزوں کو نعمت سمجھتی ہے۔ باقی بہت ساری ایسی نعمتیں جو خدا غیر محسوس طور پر ہماری زندگی کا حصہ بناتا ہے اسے ہم نعمت ہی نہیں سمجھتے۔
۲۔ غیر محسوس نعمتیں
یہ وہ نعمتیں ہیں جو غیر محسوس طور پر ہماری زندگی میں آتی ہیں اور غیر محسوس طریقے سے ہی چلی جاتی ہیں۔ اگرچہ اس کے آثار ہماری زندگی میں نمودار ہو رہی ہوتی ہیں۔ لیکن ہم میں سے بہت ہی کم لوگ اس چیز کا احساس کرتے ہیں۔ اور بیشتر لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے بغیر گزر جاتے ہیں۔
مثلا ہمیں کھانے پینے کی چیزیں، پیسے، دولت، گھر، گاڑی، اولاد، الغرض محسوس چیزیں ملتی ہیں تو ہم سمجھتے ہیں ہمیں نعمتین ملی ہیں اور اگر یہ چیزیں چھن جاتی ہیں تو سمجھتے ہیں نعمتیں چھن گئی ہیں۔ لیکن غموں میں گرے وقت میں خوشی ملنا، پریشانی کے عالم میں سکون میسر ہونا، اچھا ماحول فراہم ہونا، اچھا استاد ملنا، اچھے عالم کی ہم نشینی نصیب ہونا، مشکلات سے نجاپ پانا، نیک دوستی پانا وغیرہ کو ہم نعمت محسوب ہی نہیں کرتے۔ جبکہ یہ بھی خدا کی بے پناہ نعمتوں میں سے کچھ ہیں۔ اور مولا امیر المومنین نے بھی انہی نعمتوں کے نمونوں میں سے ایک کو اس کلام مبارک میں بیان فرمایا ہے۔ اور وہ ہے اپنے دشمن پر غلبہ پا لینا۔ اس پر قدرت حاصل کر لینا۔
شکر کی قسمیں
جس طرح نعمتوں کی بہت ساری قسمیں ہیں اسی طرح ہر نعمت کے حوالے سے اس کا شکر بھی مختلف ہوتا ہے۔ ہر نعمت کا شکر ایک جیسا نہیں ہے۔ شکر کے معنی وہ نہیں ہے جو ہمارے معاشرے میں رائج ہے۔ یعنی ہم شکر کا معنی فقط زبان سے شکریہ کہنا یا الحمد للہ کہنے کو سمجھتے ہیں۔ جبکہ یہ شکر کی ادنی مثال ہے۔ یعنی اس سے کمتر کوئی شکر نہیں ہے۔ لیکن اصل شکر اس کے علاوہ ہے۔ عرفاء اور علمائے اخلاق شکر کی تین قسمیں بیان کرتے ہیں۔
اول) شکر زبانی
دوم) شکر قلبی
سوم) شکر عملی
یعنی اگر انسان خدا کی نعمتوں پر شکر کرتا ہے تو اس کا شکر اور قدردانی اس کے قلب، زبان اور عمل تینوں سے نمایاں ہونا چاہے۔ مثلاً خداوند اگر کسی کو مال کی نعمت عطا کرتا ہے تو بندے کو دل و زبان کی قدردانی کے ساتھ ساتھ عملا بھی قدردان ہونا چاہئے۔ عملی شکر ہر نعمت کے حوالے سے مختلف ہوتا ہے۔ مال کا شکرانہ یہ ہے کہ انسان اس مال کو خدا کے بتائے ہوئے راہ میں خرچ کرے۔ اولاد کی نعمت کا شکرانہ یہ ہے کہ اس کی اچھی تربیت کرے۔ علم کا شکر یہ ہے کہ اس پر عمل کرے اور دوسروں تک منتقل کرے۔ وغیرہ
عفو قدرت کا شکرانہ
اسی طرح امیر المومنین نے اپنے اس کلام میں قدرت و غلبہ کا شکرانہ عفو و در گزری کو قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ جب کبھی تمہیں اس شخص پر قدرت حاصل ہوجائے جس نے تمہارے ساتھ نا انصافی کی ہے اور ظلم کیا ہے تو کمال یہ نہیں ہے کہ تم اس سے انتقام لے لو۔ بلکہ کمال شکر یہ ہے کہ تم اسے معاف کردو۔ کیونکہ یہ ہماری عظیم الہی ہستیوں کی زندگی میں بھی دیکھتنے کو ملتا ہے کہ اپنے سرسخت ترین دشمن کو بھی مغلوب کرنے کے بعد معاف فرمایا کرتے تھے۔
فتح مکہ کے وقت جب سارے کفار قریش مسلمانوں کی لشکر سے ڈر کر اپنے اپنے گھروں میں چھپ گئے تو اور مسلمانوں کا لشکر پیغمبر اکرم کے ساتھ فاتحانہ انداز میں شہر مکہ میں داخل ہوا تو لشکر کے سپاہیوں نے اپنی جاہلانہ سوچ کے مطابق یہ نعرہ لگانا شروع کر دیا تھا: ’’أَلْیوْمُ یوْمُ الْمَلْحَمَةِ‘‘، ’’آج انتقام کا دن ہے‘‘
حضور اکرم نے جب یہ نعرہ سنا تو سختی سے لوگوں کو منع کرنے کے بعد ایک نیا نعرہ آپ نے مسلمانوں کو دیا ’’أَلْیوْمُ یوْمُ الْمَرْحَمَةِ‘‘، ’’آج رحمت و مہربانی کا دن ہے‘‘ (شرح نهجالبلاغهی ابنابیالحدید، ج17، ص272)
اور آپ نے نہ فقط اس نعرے پر اکتفا کیا بلکہ مکہ والوں میں اعلان کروایا جو کوئی اپنے گھر میں چھپ جائے(جو کہ بہت سارے پہلے سے ہی چھپ چکے تھے)، جو بھی خانہ کعبہ میں پناہ لے جائے اور حتی کہ جو بھی ابوسفیان کے گھر (جو کہ پیغمبر کے خلاف جنگوں اور سازشوں کی پلاننگ روم تھا) میں پناہ لے جائے وہ امان میں ہے۔ اور یہ امان کوئی موقتی امان نہیں تھا۔ بلکہ پورے مکہ پر مسلمانوں کا کنٹرول قائم ہونے کے بعد پیغمبر اکرم نے فاتح لشکر اور مکہ والوں سے خطاب کرنا چاہا تو سب سے پہلے آپ نے مکہ والوں سے یہ سوال کیا: مجھ سے کیا توقع اور امید رکھتے ہو؟ تو مکہ والوں نے کہا ہم آپ سے نیکی کے علاوہ کچھ اور توقع نہیں رکھتے۔ لہذا آپ نے فرمایا: میں آج اپنے بھائی حضرت یوسف کی بات کو ہی تکرار کروں گا جو انہوں نے اپنے بھائیوں سے فرمایا تھا: ’’آج تم پر کوئی ملامت نہیں ہے۔‘‘ پھر اعلان فرمایا: ’’اذْهَبُوا فَأَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ‘‘، ’’جاؤ تم آزاد ہو۔‘‘ لہذا اس کے بعد سے مکہ والوں کو طلقاء یعنی آزادہ شدہ کہا جانے لگا۔ جیسا کہ امیر المومنین نے بھی مختلف جہگوں پر معاویہ کو اس کی اپنی اور اپنے خاندان کی اصلیت یاد دلانے کے لئے طلقاء اور ابن طلقاء کا طعنہ دیا ہے۔
پس امیر المومنین کے اس کلام کی بہترین مثال فتح مکہ کے موقع پر پیغمبر کا مشرکین مکہ کے ساتھ برتاؤ ہے۔ کیونکہ یہ وہ دشمن تھے جنہوں نے پیغمبر کو تیرہ سالہ مکی زندگی میں جینا حرام کردیا تھا اور آپ سمیت آپ کے اصحاب اور تازہ مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے تھے۔ اور مدینہ کی تازہ حکومت کو بھی نابود کرنے کے لئے دسیوں جنگیں مسلط کی تھی۔ در واقع دشمنی کی تمام راہوں کو یہ لوگ چل چکے تھے اور آج اسی پیغمبر کے قدموں میں غلاموں کی طرح پڑھے تھے۔ پیغمبر جو بھی چاہتے کر سکتے تھے۔ لیکن آپ نے ایک ہی راستہ اپنایا اور وہ تھا عفو و درگذر کا راستہ، کیونکہ آپ رحمت للعالمین تھے۔
عفو و انتقام کا مقایسہ
آخر میں سماجی طور پر عفو اور انتقام کے درمیان ایک مختصر مقایسہ کرتے ہیں تاکہ عفو و بخشش کی اہمیت اور انسانی معاشرے پر اس کے گہرے اثرات نمایاں ہوجائیں۔
انتقام اگرچہ ہر انسان کا انسانی اور قانونی حق ہے لیکن قدرت اور غلبہ پانے کے بعد انتقام کا راستہ اختیار کیا جائے تو شاید اس کا دل ٹھنڈا ہوجائے لیکن یہ نہ سمجھے کہ انتقام لینے کے بعد مسئلہ حل ہوگیا۔ نہیں، بلکہ معاملہ مزید خراب ہوجاتا ہے۔ کیونکہ کینہ و کدورت اور دشمنیان مزید بڑھ جاتی ہیں۔ پھر جرائم کا باقاعدہ ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
جبکہ عفو و درگذر بھی انسان کا ایک حق ہے لیکن بخشش کا راستہ اختیار کرنے سے کینے کم اور دشمنیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ عفو و درگذر سے معاشرے میں محبتیں عام ہوجاتی ہیں۔ دشمنیوں کی کمی اور محبتوں کے عام ہونے سے معاشرے میں جرائم کا ریشو بھی بہت کم ہوجاتا ہے۔ پس قدرت حاصل کرو تو انتقام کی بجائے عفو و درگذر کا راستہ انتخاب کرو۔
دیدگاهتان را بنویسید