تازہ ترین

اربعین حسینیؑ نئی اسلامی تہذیب کی جانب ایک مؤثر قدم

اسلامی تہذیب اس نظام عمل اور طرزِ زندگی کا نام ہے جس کی بنیادنبی کریمﷺ نے وحی کی تعلیمات پر رکھی ۔ یہ تہذیب قدیم جاہلی تہذیب کے مقابلے میں بشریت کے لیے نسخہ کیمیا ثابت ہوئی اور مختصر عرصے میں اقوام عالم کی اکثریت نے اسے اپنا حرزِ جاں بنا لیا۔ اسی میں انسان کی دنیوی اور اخروی تعمیر و ترقی، عزت و سربلندی اور سعادت و خوشبختی کا راز مضمر ہے
شئیر
10 بازدید
مطالب کا کوڈ: 10210

اربعین حسینیؑ نئی اسلامی تہذیب کی جانب ایک مؤثر قدم
نادم شگری
nadim.shigri@gmail.com
خلاصہ
مسلمانوں کے بہت سارے آداب و رسومات میں اچھی بودوباش کے قابل تقلید نمونے پائے جاتے ہیں؛ لیکن ایک عالمی تہذیب کے لیے اپنائے جانے کے حوالے سے ان میں بحث و گفتگو کی گنجائش پائی جاتی ہے۔ تہذیبوں کے ترکیبی عناصر کو مدنظر رکھتے ہوئے اربعین حسینی ؑ میں شائستہ بودو باش اور رہن سہن کے کچھ ایسے نمونے پائے جاتے ہیں اگر ان کو وقت اور جگہ کی محدودیت سے نکال کر عالمی اور بین الاقوامی سطح پر متعارف کرایا جائے تو وہ اسلامی تہذیب کی تشکیل اور اسے عالمی سطح پر پذیرائی ملنے میں ممد ومعاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ اسی مقصد کے تحت اس مختصر تحریر میں عالم اسلام کے عظیم رہبر حضرت آیت اللہ خامنہ ای مدظلہ کے افکار کی روشنی میں نئی اسلامی تہذیب کے کچھ عناصر ترکیبی کو بیان کرنے اور اربعین حسینی ؑ کے بین الاقوامی ملین مارچ میں پائے جانے والے کچھ ایسے نمونے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جواس تہذیب کی تشکیل میں معاون ہو سکتے ہیں۔
1۔مقدمہ
اسلامی مفکرین میں سے اکثریت کی توجہ مسلمانوں کی کھوئی ہوئی تہذیب اور احیائے فکر دینی پر مرکوز رہی ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کے افکار کا محور مسلمانوں کی “خودی” اور اسلام کے اصل چہرے کی بازیابی ہے۔ اس طرز فکر کو امام خمینیؒ نے اسلامی انقلاب کی شکل میں عملی جامہ پہنایا اور طویل بدتہذیبی کی اوٹ میں کھوئی ہوئی اسلامی تہذیب کا ایک بار پھر احیاء کرکے بشریت پر احسان کیا۔آج عالم اسلام کے عظیم قائد آیت اللہ خامنہ ای مدظلہ کے فرامین میں “نئی اسلامی تہذیب” کی اصطلاح بکثرت ملتی ہے جو اسی اسلامی تہذیب کا تسلسل اور اس کی ترقی یافتہ صورت کا نام ہے جس میں مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کی بحالی سرفہرست ہے ؛ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ نئی دنیا کی قیادت اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ایک نیا مرحلہ بھی پیش نظر ہے جو کسی قسم کی دنیوی طاقت کے دباؤ میں آئے بغیر اور کسی پر تسلط جمائے بغیر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں علم وٹیکنالوجی کی ترقی، سیاسی و سماجی نظم و نسق ، معاشی اور اقتصادی استحکام اور خاص طور پر شائستہ طرزِ زندگی کا اسلامی نمونہ پیش کرنے کے حوالے سے دنیا کے سامنے نئے نئے آفاق کھولنے اور دنیا کی بظاہر متمدن طاقتوں کےہاتھوں سسکتی انسانیت کی فریادرسی کرنے کا مرحلہ ہے۔آپ کی نظر میں نئی اسلامی تہذیب “ایک جامع پیشرفت” ہے(صوبہ خراسان شمالی کے نوجوانوں سے ملاقات کے موقع پر خطاب : 23/07/1391) اور فضیلت و معنویت کے سائے میں مادی ترقی حاصل کرنے کی وجہ سے اس میں جدت بھی ہے جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔( مدرسہ آیت اللہ مجتہدی کے طلباء سے خطاب: 22/03/1383)
رہبر معظم مدظلہ کی نگاہ میں نئی اسلامی تہذیب کے دو حصے ہیں:1۔ ذرائع اور اوزار کا حصہ ، جسے تہذیب کا ہارڈ وئیر بھی کہا ہے۔ اس حصے میں علم و ٹیکنالوجی اور دنیوی ترقی کی تمام اعلیٰ مثالیں آتی ہیں۔ 2۔بنیادی اور اصلی حصہ ، جسے سوفٹ وئیر کہا ہے۔ یہ حصہ انسان کی “شائستہ طرزِ زندگی ” پر مشتمل ہے؛ جبکہ یہ حصہ اب تک مسلمانوں کی بے توجہی کا شکار رہنے اور اس سلسلے میں غیر تسلی بخش کارکردگی دکھانے کا شکوہ کرتے ہوئے انہوں نے اس پر زیادہ توجہ دینے کی تاکید کی ہے۔( صوبہ خراسان شمالی کے نوجوانوں سے ملاقات کے موقع پر خطاب : 23/07/1391)خوش قسمتی سے اربعین کے پیدل مارچ میں اسلامی طرزِ زندگی کے اعلیٰ نمونے پائے جاتے ہیں اور دنیا بھر سے امام حسین ؑ کی زیارت کی نیت سے عراق کی سرزمین پر قدم رکھنے والے تمام مسلمان رنگ و نسل اور مذہب و مسلک کی تفریق کے بغیر ایک شائستہ طرزِ زندگی کی عمدہ مثال پیش کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے شیعہ ثقافت کی یہ رسم اسلامی تہذیب کے ظہور و نمود کی راہ میں بڑی اہمیت کی حامل ہے؛ لہٰذا عقل و منطق کا تقاضا یہی ہے کہ انسانی اور اسلامی اقدار کی نشرو اشاعت کے لیے اس رسم پر بھرپور توجہ دی جائے اوراس مختصر عرصے میں دکھائی دینے والے شائستہ طرزِ زندگی کو اپنی ساری زندگی پر پھیلانے اور دنیا بھرکے تمام معاشروں میں اسے پروان چڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش کی جائے۔ اسی لیے رہبر معظم مد ظلہ فرماتے ہیں: ہمیں اس (اربعین پیدل مارچ کی)رسم کو زیادہ سے زیادہ نتیجہ خیز اور روحانی بنانا چاہیے ۔ اس کے معنی اور مضمون کو روز بروز بڑھانا چاہیے۔اہل فکر، اہل ثقافت، ثقافتی اور فکری میدانوں میں اقدامات کرنے والے لوگ مل بیٹھ کر اس عظیم تحریک کے لیے منصوبہ بندی کریں۔ آج ہر مسلمان کا ہدف ایک نئی اسلامی تہذیب کی تشکیل ہونا چاہیے۔ ہم آج یہ چاہتے ہیں۔ اسلامی اقوام کے پاس بہت بڑی صلاحیتیں ہیں کہ اگر انہیں بروئے کار لایا جائے تو ملت اسلامیہ عزت کی چوٹی پر پہنچ جائے گی۔ ہمیں اس بارے میں سوچنا ہے، اس کے بارے میں فکرکرنی ہے۔ ہمارا آخری مقصد ایک عظیم اسلامی تہذیب کی تشکیل ہے۔(بیانات: 27/06/1398)
اس مختصر تحریر کا بنیادی مقصداسلامی تہذیب کی تشکیل میں مؤثر کچھ اہم عناصر کی پہچان اور اربعین پیدل مارچ میں ان عناصر کے مجسم نمونوں کو پیش کرنا ہے تاکہ ان سے آشنائی کے ذریعے مستقبل میں ان کی تقویت کا مقدمہ فراہم ہو اور نئی اسلامی تہذیب تک رسائی کا دورانیہ مختصر سے مختصر تر ہو۔
2۔تہذیب و تمدن
تہذیب عربی زبان کے “ہ،ذ،ب” سے باب تفعیل کا مصدر ہے ۔ جس کا مطلب پاک صاف کرنا اور خالص بنانا ہے۔(لسان العرب: ج1، ص 782) اسی سے “مہذب” اس کو کہا جاتا ہے جو عیوب و نقائص سے پاک ہو۔( کتاب العین: ج4، ص 40؛ معجم مقاییس اللغۃ: ج6، ص 46) تمدن بھی عربی زبان کا لفظ ہے جو “م، د، ن” سے باب تفعل کا مصدر ہے۔ جس کے معنی شہری زندگی کے خلق و خو سے آراستہ ہونے کے ہیں۔(التحقیق فی کلمات القرآن الکریم: ج11، ص55)
اصطلاح میں تہذیب سے مراد انسان کا نظام فکر ہے؛ یعنی: انسان کے وہ عقائد ،نظریات اور افکار جن سے اس کی شخصیت بنتی اور سنورتی ہے اور تمدن وہ نظام عمل ہے جو انسان کے نظام فکر (تہذیب ) کے تابع ہوتا ہے ۔(مطالعہ تہذیب: ص17۔18)دوسرے لفظوں میں تہذیب،انسان کےنظریات اور افکار کا نام ہےجس کی کیفیت نظریاتی، فکری اور روحانی ہوتی ہے اور وہی افکار و نظریات جب عملی صورت میں ڈھل جائیں تو اسے تمدن کہا جاتا ہےجو انسان کی شائستہ بودو باش میں جھلکتا ہے؛ لہٰذا اس کی حیثیت عملی، ظاہری اور مادی ہوتی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ تہذیب کےبغیر کوئی تمدن وجود میں آ ہی نہیں سکتا۔
کسی بھی انسان کے مہذب اور غیر مہذب ہونے کا معیار اس کا علمی اور منطقی ہونا ہے؛ لہٰذا جو اپنے عقائد و نظریات ، اخلاق اور رفتار و کردار سے لحاظ سے جتنا علمی اور منطقی ہوتا ہے اتنا ہی مہذب کہلاتا ہے اور جتنا غیر علمی اور غیر منطقی ہوتا ہے اتنا ہی وہ غیر مہذب کہلاتا ہے۔( گفتگوی تمدن ہا: ج1، ص 9)
انگریزی زبان میں تہذیب کے لیے کلچر (Culture) اور تمدن کے لیے سولائزیشن (Civilization) کے الفاظ مستعمل ہیں۔اگرچہ یہ دو الگ الگ الفاظ ہیں، لیکن اردو زبان میں دونوں یکساں معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔(اسلامی تہذیب و تمدن: ص11) البتہ اردو میں دونوں کے لیے صرف ایک لفظ “تہذیب” کو اختیار کیا جاتا ہےجس میں مادی اور غیر مادی دونوں پہلو شامل ہوتے ہیں۔
3۔نئی اسلامی تہذیب
اسلامی تہذیب اس نظام عمل اور طرزِ زندگی کا نام ہے جس کی بنیادنبی کریمﷺ نے وحی کی تعلیمات پر رکھی ۔ یہ تہذیب قدیم جاہلی تہذیب کے مقابلے میں بشریت کے لیے نسخہ کیمیا ثابت ہوئی اور مختصر عرصے میں اقوام عالم کی اکثریت نے اسے اپنا حرزِ جاں بنا لیا۔ اسی میں انسان کی دنیوی اور اخروی تعمیر و ترقی، عزت و سربلندی اور سعادت و خوشبختی کا راز مضمر ہے۔آیت اللہ خامنہ ای مدظلہ اس تہذیب کی تعریف میں فرماتے ہیں: اسلامی تہذیب سے مراد وہ فضا ہے جس میں انسان روحانی اور مادی طور پر پروان چڑھ سکتا ہے اور ان مطلوبہ اہداف تک پہنچ سکتا ہے جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے۔ یہی اسلامی جمہوریہ کے نظام کا ہدف اور مطلوبہ مقصد ہے۔( مجلس خبرگان کے اراکین کے ساتھ ملاقات کے موقع پر خطاب: 14/06/1392)
دنیا پر مادی تہذیبوں کے غلبے کے بعدکھوئی ہوئی اسلامی تہذیب کےخدوخال نئی اسلامی تہذیب کے روپ میں نکھرنا چاہتے ہیں جو آج کی ماڈرن جاہلیت کے مقابلے میں بشریت کی نجات کا ضامن قرار پائے گی۔ آیت اللہ خامنہ ای مد ظلہ فرماتے ہیں: آج عالم اسلام کا فرض ہے کہ خود اسلام کی طرح اور خود نبی کریم ﷺ کی طرح آج کی دنیا میں ایک نئی روح پھونکے، ایک نئی فضا پیدا کرے، ایک نیا راستہ کھولے۔ ہمیں آج جس چیز کی توقع ہے وہ “نئی اسلامی تہذیب” ہے۔ ہمیں انسانیت کے لیے “نئی اسلامی تہذیب” کی فکر کرنی ہوگی۔ ہماری یہ فکر بنیادی طور پر اس سوچ سے مختلف ہے جو عالمی طاقتیں انسانیت کے بارے میں رکھتی ہیں اور اس پر عمل پیرا ہیں۔ہماری اس فکر کا مطلب دوسروں کی سرزمینوں پر قبضہ کرنا، یا دوسروں کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے اورنہ اپنی ثقافت اور آداب و رسومات کو دوسری اقوام پر مسلط کرنا ہے؛ بلکہ اس کا مطلب اقوام عالم کو ایک خدائی تحفہ پیش کرنا ہے، تاکہ قومیں اپنی تشخیص اور اپنی رضا و رغبت کے ساتھ صحیح راستے کا انتخاب کر سکیں۔ آج عالمی طاقتوں نے قوموں کو جس راستے پر دھکیلا ہے وہ غلط اور گمراہی کا راستہ ہے۔(حکومتی عہدیداروں اور اسلامی اتحاد کانفرنس کے مہمانوں سے خطاب: 08/10/1394)
4۔ اربعین حسینیؑ اور نئی اسلامی تہذیب کے عناصر
نئی اسلامی تہذیب کی تشکیل میں بہت سارے اسباب و عوامل اثر انداز ہو سکتے ہیں، جن میں سے چند اہم عناصر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان کے مجسم نمونوں کو اربعین پیدل مارچ کےاندر ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں:
4۔1۔ نظریہ توحید اور ایمان کی جانب سفر
نظریہ توحید،اسلامی تہذیب کی بنیاد اور اساس ہے، کہ انسان اللہ تعالیٰ کی جانب سے آیا ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے؛ لہٰذا اس کی بودو باش اور رہن سہن بھی توحید کے سائے میں ہونا ضروری ہے۔ توحید کے ذریعے انسانی زندگی میں مقصدیت کا تصور ابھرتا ہے کہ وہ عبث اور خواہ مخواہ پیدا نہیں ہوا، بلکہ اس کی تخلیق کسی مقصد کے تحت ہوئی ہے ۔ اسی نظرئیے نے مختلف اقوام و قبائل ، رنگ ونسل اور ذات پات کی مختلف ٹولیوں اور بے مقصد گروہوں میں بٹے اور بکھرے ہوئے لوگوں کی شیرازہ بندی کرکے انہیں ایک لڑی میں پرویا اور انہوں نے توحید کے ہی جھنڈے تلے جمع ہوکر ایک عظیم تہذیب کی بنیاد رکھی جس کا بے نظیر سفرتقریبا پانچ صدیوں تک جاری رہا۔نئی اسلامی تہذیب کی تشکیل میں رہبر معظم کی تاکید “ایمان اور معنویت” پر ہے ۔ ان کے عقیدے میں طرزِ زندگی کی بنیاد ایمان پر ہوتی ہے ، آئیڈیالوجی کے بغیر کسی تہذیب کا ایجاد کرنا ممکن نہیں ہےاور جس تہذیب کی بنیاد ایمان پر ہوگی اس کی جڑیں اتنی مضبوط ہوں گی کہ وہ اپنی فکر اور ثقافت کو پوری دنیا میں پھیلا سکے گی۔ (صوبہ خراسان شمالی کے نوجوانوں سے ملاقات کے موقع پر خطاب : 23/07/1391)
ابتدائے اسلام میں توحید کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے دنیا کے گوشہ و کنار سے مسلمانوں کے قافلے مرکز توحید” خانہ کعبہ” کی طرف جوش و خروش سے بڑھتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کے مشاہدے سے اپنی قوت ایمانی میں اضافہ کرتے اور قرب الٰہی کے مراتب پر فائز ہوتے تھے۔ آج انہی مناظر کا مشاہدہ اربعین حسینیؑ میں کیا جا سکتا ہے۔دنیا بھر سے پیدل مارچ کرنے والےقافلہ در قافلہ کربلائے معلیٰ کی سمت رواں دواں ہیں اور رہبر معظم مد ظلہ کی تعبیر کے مطابق وہاں دلوں کا کعبہ موجود ہے۔(زائرین کربلا سے خطاب: 23/08/1378) اللہ تعالیٰ نے”وَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ”(سورہ انفال: 63) کے مصداق بناکر ان زائروں کے دلوں کو باہم جوڑ دیا ہے، وہ اسلامی اخوت و بھائی چارگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امام حسین ؑ کے روضہ اقدس کی جانب بڑھتے ہیں اور اس معنوی سفر میں “رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ” (سورہ فتح: 29)کی عملی تصویر بن کر ایک دوسرے کے آرام و سکون کا بھی بہت خیال رکھتے ہیں۔ان کی پوری توجہ اللہ تعالیٰ پر ہوتی ہے، اسی لیے قدم قدم پر دعاؤں اور مناجاتوں کے ذریعے خود کو بارگاہ الٰہی کا مقرب بنانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ ہر مکتب اور مذہب سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کا بلا تفریق اس پیدل مارچ میں شریک ہونا اور نظریہ توحید کے مدافع و محافظ ہونے کے عنوان سے امام حسین ؑ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ آج نظریہ توحید کوہی اپنا مرکزو محور سمجھتے ہیں اور اس مرکزی نقطے پر جمع ہوکر اسلامی تہذیب کے خدوخال نکھارنے کے لیے کمربستہ ہوچکے ہیں؛ لہٰذا جیسا کہ عرض ہوا کہ اس کے لیے مناسب منصوبہ بندی کی ضرورت ہےجس کے ذریعے نئی اسلامی تہذیب کے ظہور اور نمود پر اربعین پیدل مارچ کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔
4۔ 2۔ باہمی تعاون کے جذبے کا فروغ
انسانوں کا باہمی تعاون کسی بھی تہذیب کے اہم ستونوں میں سے ہے۔ ایک مدنی الطبع مخلوق ہونے کے ناطے انسانی زندگی کا پہیہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور ہم آہنگی کے ذریعے گھومتا ہے۔ اسی کے ذریعے اجتماعی زندگی کی جانب انسان کی رغبت بڑھ جاتی ہے اور اس کے احساس تنہائی میں کمی آجاتی ہے۔ کوئی بھی تہذیب اپنے آپ کو اس وقت تک نہیں بچا پاتی جب تک اس کے زیر سایہ زندگی گزارنے والے افراد ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کریں۔ نئی اسلامی تہذیب کی تشکیل میں اس عنصر کے فقدان کی شکایت کرتے ہوئے رہبر معظم فرماتے ہیں: ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کا کلچر کیوں کمزور ہے؟ یہ ایک نقص ہے۔ اگرچہ مغربیوں نے اجتماعی صورت میں کام کرنے کی روش کو اپنا خاصہ بنایا ہے؛ لیکن اسلام نے ان سے پہلے اس کا حکم دے رکھا ہے:”تَعاوَنُوا عَلیَ الْبِرِّ وَالتَّقْوی”،(سورہ مائدہ: 2) یا: ” وَاعتَصِمُوا بِحَبلِ اللهِ جَميعًا”(سورہ آل عمران: 103) اس کا مطلب یہ ہے کہ حبل اللہ کو بھی اجتماعی صورت میں تھامنا چاہیے۔ (صوبہ خراسان شمالی کے نوجوانوں سے ملاقات کے موقع پر خطاب : 23/07/1391)
امت مسلمہ کے باہمی تعاون کو رہبر معظم نے اسلامی اتحاد کی ایک صورت قرار دیا ہے کہ اسلامی ممالک اور اسلامی اقوام ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں ، ایک دوسرے کی ضروریات پوری کریں؛ کیونکہ تمام اسلامی ممالک علمی لحاظ سے یا ثروت و دولت یا امن و امان کے مسائل اور سیاسی طاقت کے لحاظ سے برابر نہیں ہیں۔وہ ایک دوسرے کی مدد بھی کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے کی ضروریات کی تکمیل بھی کر سکتے ہیں۔جو ممالک جس شعبے میں بلند سطح پر ہیں وہ خود سے نچلی سطح پر پائے جانے والے ممالک کی دست گیری کریں، یہ بھی اتحاد کا ایک مرحلہ ہے۔ (حکومتی عہدیداران اور اسلامی اتحاد کانفرنس کے مہمانوں کے اجلاس میں بیانات : 24/08/1398)
اربعین پیدل مارچ میں انسانوں کی باہمی ہمدردی اور تعاون قابل دید ہے۔ مثلا : ایک اندازے کے مطابق راستے میں ایک لاکھ سے زائد موکب (https://www.tasnimnews.com/fa/news/1398/07/28/2124033) کا قیام اور ان میں زائرین حسینیؑ اورشرکائے جلوس کے لیے بہترین قیام و طعام کی سہولیات سے لے کر ان کے کپڑے دھونے یہاں تک ان کے پاؤں کے مساج تک کا بندوبست کرنا انسانی ہمدردی اور تعاون کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔ اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ آشنا ہونے کے علاوہ باہمی الفت و محبت، تعاون، ہمدردی اور اجتماعی صورت میں اپنے اہداف کی جان بڑھنے کے جذبے کو فروغ ملتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اربعین پیدل مارچ کوئی ہزاروں یا لاکھوں افراد کا اجتماع نہیں ؛ بلکہ کروڑوں انسانوں کا ایک موجزن سمندر ہے جس میں بوڑھے ، بچے، جوان، خواتین یہاں تک کہ معذور افراد بھی شرکت کرتے ہیں۔ جس کے انتظامی امور کی نگرانی کسی خاص ادارے یا تنظیم کی جانب سے نہیں ہوتی؛ لیکن باہمی تعاون کے جذبے سے ہی کسی قسم کی بدنظمی اور ہنگامہ آرائی کے بغیر محبت و دوستی کے ماحول میں تمام امور انجام پاتے ہیں اور انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ اس کا اختتام ہوتا ہے۔
4۔3۔ امت مسلمہ کے اتحادو اتفاق کا حصول
نئی اسلامی تہذیب کی تشکیل کے اہم اسباب و عوامل میں سے ایک امت مسلمہ کا اتحاد اور ان کی باہمی وحدت ہے۔ اسلامی اتحاد صرف وقت کی ضرورت نہیں ، بلکہ ایک قرآنی حکم بھی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: “وَاعتَصِمُوا بِحَبلِ اللهِ جَميعًا وَلا تَفَرَّقوا ۚ وَاذكُروا نِعمَتَ اللَّهِ عَلَيكُم إِذ كُنتُم أَعداءً فَأَلَّفَ بَينَ قُلوبِكُم فَأَصبَحتُم بِنِعمَتِهِ إِخوانًا وَكُنتُم عَلىٰ شَفا حُفرَةٍ مِنَ النّارِ فَأَنقَذَكُم مِنها ۗ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُم آياتِهِ لَعَلَّكُم تَهتَدونَ” (سورہ آل عمران: 103)اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو اور تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی اور اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا، اس طرح اللہ اپنی آیات کھول کر تمہارے لیے بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔
رہبر معظم نئی اسلامی تہذیب کی تشکیل کے لیے امت مسلمہ کے اتحاد کی ضرورت کو مختلف مراتب کی شکل میں یوں بیان فرماتے ہیں: عالم اسلام کے اتحاد کے مختلف مراتب ہیں۔ اس کا ادنیٰ ترین مرتبہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرے، اسلامی ممالک، اسلامی ریاستیں، اسلامی اقوام اور اسلامی مذاہب ایک دوسرے پر تجاوز نہ کریں، ایک دوسرے کی مخالفت نہ کریں اور ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچائیں۔ یہ پہلا قدم ہے۔ اس کے بعد کا مرتبہ یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچانے کے علاوہ اپنے مشترکہ دشمن کے مقابلے میں شانہ بشانہ کھڑے ہوں ،حقیقی اور خود کفیل اتحاد و اتفاق وجود میں لائیں اور ایک دوسرے کا دفاع کریں۔ اس سے بڑا مرتبہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک اور اسلامی اقوام ایک دوسرے کی ضروریات پوری کریں۔ کیونکہ تمام اسلامی ممالک علمی لحاظ سے یا ثروت و دولت یا امن و امان کے مسائل اور سیاسی طاقت کے لحاظ سے برابر نہیں ہیں۔وہ ایک دوسرے کی مدد بھی کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے کی ضروریات کی تکمیل بھی کر سکتے ہیں۔
جو ممالک جس شعبے میں بلند سطح پر ہیں وہ خود سے نچلی سطح پر پائے جانے والے ممالک کی دست گیری کریں، یہ بھی اتحاد کا ایک مرحلہ ہے۔ اتحاد کا سب سے اعلیٰ ترین مرحلہ نئی اسلامی تہذیب تک پہنچنے کے لیے تمام عالم اسلام کا متحد ہونا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنا حتمی مقصد یہی رکھا ہے کہ :اسلامی تہذیب تک پہنچنا،البتہ ایک ایسی تہذیب جو آج کے زمانے کے لیے موزوں ہے جسے نئی اسلامی تہذیب کہتے ہیں۔ (حکومتی عہدیداران اور اسلامی اتحاد کانفرنس کے مہمانوں کے اجلاس میں بیانات : 24/08/1398)
اربعین پیدل مارچ امت مسلمہ کے بے مثال اتحاد کا مظہر بھی ہے۔ دنیا بھر سے مسلمان کسی قسم کے مذہبی و مسلکی اختلافات اور رنگ و نسل کے امتیازات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اربعین حسینیؑ کے جلوس میں شریک ہوتے ہیں ۔ کوئی کسی سے اس کی ذات پات ، رنگ ونسل اور مذہب و مسلک کے بارے میں نہیں پوچھتا۔ کروڑوں افراد ہیں؛ لیکن ان کی صرف ایک ہی پہچان ہے اور وہ ہے: توحید کے راستے پر حسین ؑ کے ہم قدم ہونا۔ اگرچہ اتحاد و اتفاق کا یہ عظیم مظاہرہ محدود وقت تک قابل مشاہدہ ہے؛ لیکن امت مسلمہ اس کو وقت اور جگہے کی محدودیت سے نکال کر عالمی اور بین الاقوامی سطح پر متعارف کراکے اس کے ثمرات و فوائد سے بہرہ مند ہوسکتی ہے۔
4۔4۔نوجوان نسل کی ہمراہی
کسی تہذیب کی بنیاد رکھنے ، اس کے خدوخال نکھارنے اور اس کو نسل در نسل منتقل کرنے کے لیے افرادی قوت کی ضرورت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ان امور کے لیے انتھک محنت و مشقت ، خود اعتمادی، صبر و شکیبائی اور مسلسل جدو جہد کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کے لیے نوجوانوں کی تربیت کرنا اور نوجوان افرادی قوت سے کام لینا کئی پہلوؤں سے اہمیت کا حامل ہے۔نوجوان نسل کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر اچھے کام میں سبقت کرتی ہے؛ جیسا کہ حضرت امام صادق ؑنے ابو جعفر احول سے فرمایا: “وَ أَنَا أَسْمَعُ أَتَيْتَ الْبَصْرَةَ فَقَالَ نَعَمْ قَالَ كَيْفَ رَأَيْتَ مُسَارَعَةَ النَّاسِ إِلَى هَذَا الْأَمْرِ وَ دُخُولَهُمْ فِيهِ قَالَ وَ اللَّهِ إِنَّهُمْ لَقَلِيلٌ وَ لَقَدْ فَعَلُوا وَ إِنَّ ذَلِكَ لَقَلِيلٌ فَقَالَ عَلَيْكَ بِالْأَحْدَاثِ‏ فَإِنَّهُمْ أَسْرَعُ إِلَى كُلِّ خَيْر” یعنی: مجھے خبر ملی ہے کہ تم بصرہ گئے تھے؟ عرض کیا: جی ہاں! فرمایا : امر (امامت) اور اس (نظام) کو قبول کرنے کے لحاظ سے لوگوں کی سبقت کیسی تھی؟ اس نے کہا: خدا کی قسم! وہ (امامت کو قبول کرنے والے)انتہائی کم تعداد میں ہیں ، اگرچہ وہ کوشش کرتے ہیں، لیکن ان کی کوشش بھی ناچیز ہے۔ اس وقت امام ؑ نے فرمایا: لازم ہے کہ تم نوجوانوں کی تلاش میں نکلو کہ وہ ہر اچھائی کی طرف سبقت لیتے ہیں۔(الکافی: ج8، ص 93)
اس سلسلے میں رہبر معظم اپنے تجربات کی روشنی میں فرماتے ہیں: نوجوانوں پر اعتماد کرتے ہوئے امور کو سنبھالنے کا فریضہ انہیں سونپا جائے تو وہ دوسرے طبقوں کے مقابلے میں انتہائی ذمہ دار اور بہتر ثابت ہو سکتے ہیں، اسی طرح امور کی انجام دہی میں جدت و ابتکار اور تیزی بھی آسکتی ہے۔( بعض نوجوانوں کے ساتھ ملاقات کے موقع پر خطاب: 07/02/1377)اسی طرح آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ کو یہ الہام ہوا کہ انہوں نے بسیج کی تشکیل کے ذریعے اسلامی انقلاب کی امانت کو نوجوان نسل کے سپرد کیا۔ یہ صرف انقلاب کی پہلی نسل کے ساتھ مختص نہیں ہے؛ بلکہ اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر دور کے نوجوان اس امانت کو اپنے کندھوں پر اٹھائیں گے اور اگلی نسل تک اسے منتقل کرتے جائیں گے۔ (بسیجیوں کے ساتھ ملاقات کے موقع پر خطاب: 03/09/1395)
اربعین پیدل مارچ میں نوجوان نسل کی بے مثال شرکت اور ہر سال ان کی بڑھتی ہوئی تعداد نئی اسلامی تہذیب کے ظہور اور اس کے خدوخال نکھارنے میں انتہائی حوصلہ افزا ثابت ہو رہی ہے۔ اربعین حسینی ؑ میں نوجوانوں کے شریک ہونے سے وہ دنیا کے مختلف گوشہ و کنار میں بسنے والے مسلمانوں کی مقامی ثقافت اور رہن سہن کے آداب سے آشنا ہوتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ مشترک نقاط کو تقویت دیتے ہوئے ایک مطلوب اور شائستہ بودوباش تک رسائی میں بھی مدد ملتی ہے۔ چونکہ تہذیب یکبارگی وجود میں نہیں آتی ، بلکہ اس کی بنیادیں پختہ ہوتے ہوتے زمانہ گزر جاتا ہے اس لیے نوجوان نسل اس امانت کو بحفاظت اگلی نسل تک منتقل کرتی رہے گی اور ان کی بلند ہمت اور حوصلے کے باعث مختصر وقت میں اس تہذیب کی نشرواشاعت ہوگی اور پوری دنیا ایک بار پھر اسلامی تہذیب کا نظارہ کرے گی۔ ان شاء اللہ
5۔ نتیجہ
اسلامی تہذیب کی بنیادنبی کریمﷺ نے وحی کی تعلیمات پر رکھی ۔اس سے مراد وہ فضا ہے جس میں انسان روحانی اور مادی طور پر پروان چڑھ سکتا ہے اور ان مطلوبہ اہداف تک پہنچ سکتا ہے جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے۔ دنیا پر مادی تہذیبوں کے غلبے کے بعدکھوئی ہوئی اسلامی تہذیب کےخدوخال نئی اسلامی تہذیب کے روپ میں نکھرنا چاہتے ہیں جو آج کی ماڈرن جاہلیت کے مقابلے میں بشریت کی نجات کا ضامن قرار پائے گی۔ یہ تہذیب یکبارگی وجود میں نہیں آتی ، بلکہ شائستہ طرزِ زندگی کے دائمی عمل کے ذریعے رفتہ رفتہ اس کی بنیادی پختہ تر ہو جاتی ہیں ۔ اربعین حسینیؑ میں نئی اسلامی تہذیب کو تشکیل دینے میں بہت سے معاون عناصر پائے جاتے ہیں۔ خصوصا اس پیدل مارچ کے ذریعے نظریہ توحید اور ایمان و معنویت کی جانب مسلمانوں کی بازگشت نمایاں ہوتی ہے جو اسلامی تہذیب کی بنیاد ہے۔مسلمانوں کے باہمی تعاون اور ہمدردی کاقابل تقلید جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے جو اسلامی طرز زندگی کا ایک اہم ستون ہے۔ امت مسلمہ کا بے مثال اتحاد و اتفاق اور ان کی قابل رشک اخوت و بھائی چارگی اربعین کے اجتماع میں ہر ایک کے لیے قابل مشاہدہ ہے جو اسلامی تہذیب کی بنیاد کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہےاور اس پیدل مارچ میں نوجوان نسل کی شرکت اور ہر سال بڑھتی ہوئی تعداد کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے؛ کیونکہ نوجوان نسل اسلامی طرز زندگی کی راہ میں آنے والی مشکلات کو ہمت ، صبر اور حوصلے کے ساتھ برداشت کرتی ہے اور تہذیب کی اقدار کو بحفاظت آئندہ نسلوں تک منتقل کرتی ہے۔
منابع و مآخذ
قرآن مجید
1. ابن فارس، احمد بن فارس (395ق)، معجم مقاییس اللغہ، مکتب الاعلام الاسلامی، قم 1404 ھ ق
2. ابن منظور، محمد بن مکرم(711ھ)، لسان العرب، دارالفکر، بیروت، 1414ھ
3. خامنہ ای، حسینی، سید علی، مجموعہ بیانات و خطبات WWW.LEADER.IR
4. راغب اصفہانی،حسین بن محمد، مفردات الفاظ القرآن، دار القلم ، بیروت، 1412 ھ ق
5. ری شہری، محمد محمدی، گفتگوی تمدن ہا، دار الحدیث، قم، 1383ش
6. ظہیر، ڈاکٹر نگار سجاد، مطالعہ تہذیب، قرطاس، کراچی،اول، 1993ء
7. فاروقی، عماد الحسن، اسلامی تہذیب و تمدن، نگارشات، لاہور، 1996ء
8. فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، نشر ہجرت، قم، دوم ، 1409ق
9. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، الاسلامیہ، تہران، چہارم، 1407 ق
10. مصطفوی، حسن ، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، دار الکتب العلمیہ، بیروت 1430 ھ ق

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *