اسلامی تعلیم و تربیت کے قواعد کی شناخت اور اہمیت
انسان اپنے خالق کا ایک منفرد شہکار ہے، اسے اپنی تخلیق کے بعد ایک خاص ہدف تک پہنچنا ہے، جو اپنے ہدف تک پہنچے گا، وہی انسان کامیاب کہلائے گا، اس ہدف تک پہنچنے کا واحد ذریعہ اسلامی تعلیم و تربیت ہے۔
انسان کو اس کی خلقت کے مقصد تک پہنچانے کیلئے، اللہ تعالیٰ نے کتابوں، معجزات اور روشن دلیلوں کے ساتھ ساتھ انبیائے کرام کو مبعوث کرنے کے علاوہ انسان کو عقل، ارادے، اختیار اور علم جیسے وسائل بھی عطا کئے ہیں۔ اس نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جہلا کی تعلیم و تربیت کو علماء پر لازم قرار دیا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے ہر سکول اور مدرسہ نیز نظامِ تعلیم و تربیت قابلِ اطمینان نہیں۔ تعلیم و تربیت دینی ہو یا دنیاوی، اس وقت مطلوبہ اور قابل اطمینان ہوگی، جب وہ اسلام کی مضبوط بنیادوں پر استوار ہوگی۔ بلاشبہ اتنی بڑی عمارت کی تعمیر سے پہلے ایک جامع منصوبے، مطلوبہ وسائل کے تخمینے اور درست نقشے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم مرحلہ اسلامی تعلیم و تربیت کے قواعد کی شناخت کا بھی ہے۔ بنیادی قواعد کو اصول بھی کہا جاتا ہے۔ ایسے قواعد اور اصول جن پر عمل کئے بغیر اسلامی تعلیم و تربیت ممکن نہیں، انہیں اسلامی تعلیم و تربیت کے مبانی بھی کہا جاتا ہے۔ اصول و قواعد اور منابع میں بھی فرق ہے۔ اصول و قواعد اُن ضوابط کو کہتے ہیں کہ جن کی بنیاد پر ہماری دلیل تشکیل پاتی ہے اور ان اصولوں کو ہم جن مدارک سے اخذ اور مستند کرتے ہیں، انہیں منابع کہتے ہیں۔
تعلیم و تربیت کا ہدف
ہدف کا مطلب مقصد ہے۔ کوئی بھی چیز جسے نشانہ بنایا جائے، اُسے ہدف کہا جاتا ہے۔ لیکن تعلیم و تربیت میں ہدف کا مطلب وہ آخری اور مطلوبہ صورتحال ہے، جس کا شعوری طور پر انتخاب کیا جاتا ہے اور اسے حاصل کرنے کے لئے مناسب تعلیمی و تربیتی سرگرمیاں انجام جاتی ہیں۔ مسلمان دانشمندوں نے تعلیم و تربیت کے لئے مختلف اہداف کا تذکرہ کیا ہے، تاہم ایک مشترکہ ہدف جسے سعادت حقیقی اور کمال مطلق کہا گیا ہے، وہ قربِ خداوندی ہے۔ پس اسلامی نظامِ تعلیم و تربیت میں کوئی انسان چاہے تجربی علوم پڑھے یا دینی متون، یہ علوم اُسے قربِ خداوندی تک پہنچانے کا وسیلہ ہیں اور اس جہت سے ان کے دینی و تجربی ہونے میں کوئی فرق نہیں۔ اس فرق کا خاتمہ نظامِ تعلیم و تربیت کی حقانیت اور جامعیت پر منحصر ہے۔
اب ہم اسلامی تعلیم و تربیت کے صرف تین جامع ترین اور اساسی اصولوں کو بطورِ نمونہ پیش کر رہے ہیں:
۱۔ علمی اصول ۲۔ فلسفیانہ اصول ۳۔ دینی اصول
اب آیئے ان اصولوں کی شناخت اور اہمیت پر قدرے روشنی ڈالتے ہیں:
1۔ علمی اصول
ایک مربی کیلئے انسان کی تعلیمی و تربیتی ضروریات کا جاننا ضروری ہے۔ اُسے ضروریات کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ کون سے علوم اس ضرورت کو پورا کرسکتے ہیں۔ ایسے علوم جو تعلیمی و تربیتی مقاصد کو پورا کرنے میں براہ راست استعمال ہوتے ہیں، وہ ایسے علوم ہیں جو انسانوں کی جسمانی اور ذہنی ضروریات سے بحث کرتے ہیں۔ لہذا تعلیم و تربیت کی موثر حکمت عملی کے تعین میں علمِ نفسیات سمیت دیگر معاشرتی علوم براہ راست مددگار ہیں۔ پس اسلامی نظام تعلیم و تربیت کو ان علوم کے قواعد و ضوابط کے عین مطابق ہونا چاہیئے۔
۲۔ فلسفیانہ اصول
ایک مربی کے مطالعات میں یہ ہونا چاہیئے کہ انسان اپنے بارے میں، کائنات کے بارے میں، موجودات کے بارے میں، اپنے اور دیگر موجودات کے درمیان تعلق اور وجود میں آنے کے بارے میں ماضی میں کیا سوچتا رہا ہے اور حال و مستقبل میں اس کی سوچ کا دائرہ کہاں تک وسیع ہونے کا امکان موجود ہے۔ ہر شعوری تحریک اور مکتب کے پیچھے اُس کا مخصوص فلسفہ ہوتا ہے۔ فلسفے کی مختلف تشریحات اور تعریفوں سے قطع نظر علم فلسفہ ایسے موضوعات کی تحلیل کرتا ہے، جو تجربی سائنس کے دائرے میں نہیں آتے۔ فلسفی گہری عقلی روش یعنی عمیق اور لچکدار تنقید کے ساتھ کائنات کے بارے میں انسانی سوچ، افراد کے انفرادی و اجتماعی رویّوں نیز ان کے عمل و ردعمل کا منظم طریقے سے جائزہ لیتا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ فلسفیانہ مکاتب کو سمجھے بغیر ہی کوئی شخص انسان کی تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھائے اور وہ مطلوبہ اہداف تک بھی پہنچ جائے۔
تعلیم و تربیت کے لئے فلسفیانہ اصولوں کا جاننا اور ان سے عملاً استفادہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ فلسفیانہ اصول و قواعد مزید تین قواعد میں تقسیم کئے جا سکتے ہیں:
الف:۔ اصول ِمعرفت، ب۔ شناختِ دنیا کا اصول، ج۔ شناختِ انسان کا اصول، د۔ اقدار کا اصول
الف: اصول ِمعرفت
تعلیم و تربیت کا مقصد ہی انسان کو ایک ہدف کی طرف لے جانا ہے۔ انسان کے ذہن اور دماغ کو سمجھے بغیر اسے اپنے ہمراہ کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ اس مقصد کیلئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کیا انسان کے اردگرد کچھ ایسے حقائق بھی موجود ہیں، جو اس کی عقل میں نہیں سما سکتے؟ اگر ہمارا جواب ہاں میں ہوگا تو ہم ان حقائق کی معرفت کو حاصل کرنے کی جستجو کریں گے اور انسان کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ہمارا تعلیمی پروگرام اُس شخص سے قطعاً مختلف ہوگا، جس کا یہ عقیدہ ہے کہ جو کچھ انسان کے دماغ میں آسکتا ہے، وہی حقیقت ہے اور اس سے ماوریٰ کچھ بھی نہیں۔
یہاں پر یہ جاننا ضروری ہے کہ معرفت اور شناخت کسے کہتے ہیں؟ معرفت کی شرائط اور لوازم کیا ہیں؟ کیا معرفت اور شناخت کے درجات اور اقسام ہیں؟ کیا معرفت گھٹتی اور بڑھتی ہے؟ کیا حقائق کے بارے میں سب افراد کو یکساں معرفت حاصل ہوسکتی ہے؟ کیا معرفت کو باطل بھی کیا جا سکتا ہے؟ معرفت اور شناخت کے حصول کے وسیلے کون سے ہیں؟ استاد، کلاس، مراقبہ، کتابیں، تجربہ، شہود، الھام، وحی۔۔۔ ان میں سے کونسا وسیلہ کس انسان کیلئے کن حالات میں کارآمد ہوتا ہے؟ کیا معرفت کو ایک مقام یا ظرف سے دوسرے میں منتقل کیا جا سکتا ہے؟ معرفت کا ڈھانچہ کیسا ہے؟ معرفت کی ماہیت مفرد ہے یا مرکب؟ یعنی معرفت بذات خود ایک مستقل علم ہے یا دیگر علوم سے مرکب ہے؟ انسان کی معرفت کا دائرہ کتنا وسیع ہے؟
کیا انسان اس جہان کے علاوہ کسی اور جہان کی معرفت اور شناخت بھی حاصل کرسکتا ہے؟ کسی کے بارے میں معرفت کا کیا مطلب ہے؟ کیا معرفت سچی اور جھوٹی بھی ہوسکتی ہے؟ ہمیں کسی چیز کی معرفت ہو یا نہ ہو تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ تعلیم و تربیت میں معرفت اور شناخت سے کیا مراد ہے۔؟ انسانی ذہن کو ایک ہدف تک پہنچنے کیلئے ایسے ہزاروں سوالوں کے جوابات چاہیئے ہوتے ہیں۔ معرفت اور شناخت کے اصولوں سے آگاہی کے بغیر انسان کو کسی قسم کی جامع اور حقیقی معرفت عطا نہیں کی جا سکتی اور حقیقی معرفت کے بغیر انسان اپنے حقیقی ہدف تک نہیں پہنچ سکتا۔ پس تعلیم و تربیت کے مربی کو معرفت کے اصولوں سے آگاہ ہونا چاہیئے۔
ب۔ شناختِ دنیا کا اصول
شناختِ دنیا کا اصول، اسے جہان بینی بھی کہا جاتا ہے۔ انسان اس دنیا کی مخلوق ہے، نسل انسانی کی حیات، بقاء اور ارتقاء کیلئے انسان مجبور ہے کہ اس جہان اور دنیا کو اچھی طرح پہچانے۔ دنیا کے بارے میں اس کے نظریات واضح اور روشن ہونے چاہیئے۔ اس سلسلے میں دانشمند مختلف آراء رکھتے ہیں، کچھ دنیا کو مادے کے علاوہ ایک روحانی حقیقت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ اس جہان کے اعتبار سے روح اور مادے کے اختلاط کے قائل ہیں۔ انہیں ہر ذرّے میں ایک روحانی توانائی جلوہ گر نظر آتی ہے۔ لہذا ان کے ہاں سائنس و مادہ اور تعلیم و تربیت سب کچھ روحانیت سے آمیختہ ہونا ضروری ہے۔ لیکن اس کے برعکس، کچھ دانشمندوں کے نزدیک یہ جہان اور دنیا ایک مادی حقیقت ہے۔ ان کے نزدیک سائنسی علوم اور تعلیم و تربیت کو مادے اور اس کی مختلف حالتوں تک ہی محدود رہنا چاہیئے۔ ظاہر ہے یہ دو طرح کی سوچ دراصل دو طرح کے نظام تعلیم و تربیت کو جنم دیتی ہے۔ لہذا ایک مربی کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی تعلیمی منصوبہ بندی میں آئیڈیالوجی اور نظریات کو مبہم نہ ہونے دے، ورنہ مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہونگے۔
ج۔ شناختِ انسان کا اصول
اسلامی تعلیم و تربیت کے قواعد کی رو سے انسان کی تعلیم و تربیت سے پہلے خود اس کی اپنی شناخت ضروری ہے۔ آیا انسان فقط مادی جسم کا نام ہے یا یا وہ مادی بدن اور روح سے مرکب ہے؟ وہ صرف مادی جسم اور ضروریات رکھتا ہے یا اس کی ایک روح بھی ہے اور اس کی روحانی تعلیم و تربیت کی بھی ضرورت ہے؟ اپنے بدن کا تو ہر انسان کو شعور ہے لیکن کیا روح کی معرفت، شعور اور تعلیم و تربیت و ارتقاء بھی اس کیلئے ممکن ہے؟ جب ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ انسان کیا ہے تو پھر ہم اس کی تعلیم و تربیت کا بھی ٹھیک طریقے سے بندوبست کر پائیں گے۔ انسان کی شناخت ایک بہت ہی پیچیدہ موضوع ہے، انسان شناسی کی اصطلاح انسان کے وجود کے طول و عرض کی وضاحت کے لئے استعمال ہوتی ہے، کسی بھی تعلیمی نظام میں سب سے زیادہ اہمیت انسانی ادراکات کی ہے۔ کیونکہ تعلیمی نظام کے تمام اجزاء، بشمول تصورات، اہداف، اصول اور طریق کار، سب کا تعلق انسانی ادراک کے احوال اور طول و عرض سے ہے۔ انسان کے بارے میں درست شناخت کے بغیر ہم انسان کو کسی مقصد یا ہدف کی طرف حرکت نہیں دے سکتے، یعنی انسان کو جانے اور پہچانے بغیر اُسے اس کے ہدف تک پہنچانا ممکن نہیں، لہذا انسان کو جاننا اور اس کی خصوصیات کو پہچاننا تعلیم کی اساسی شرائط میں سے ایک ہے۔ انسان کے بارے میں ہمارا مشاہدہ اور علم جتنا گہرا ہوگا، اس کی تعلیم کے لئے منصوبہ بندی اتنی ہی معیاری، موثر اور اسے مقصد تک پہنچانا اتنا ہی آسان ہوگا۔
د۔ اقدار کا اصول
دینی اقدار اور سیکولر اقدار کا فرق انسان کی عملی زندگی میں ظاہر ہوتا ہے۔ سیکولر اخلاق و کردار جلد اور زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاو کے علاوہ کچھ نہیں، جبکہ اسلامی اقدار میں انسان کا بااخلاق ہونا دراصل اس کا الِہیٰ تر ہونا ہے۔ الِہیٰ اور غیر الِہیٰ اقدار و اخلاق اور کردار کی شناخت بہت ضروری ہے، ایک مربی کیلئے اقدار کے منابع اور اقسام کو جاننا ضروری ہے۔ اسے معلوم ہونا چاہیئے کہ اقدار و اخلاق اور اقدار کے حسن و قبح کا تعین کیسے ہوتا ہے؟ اگر مربی اقدار و اخلاق اور کردار کے استخراجی و استنباطی قواعد سے آشنا نہ ہو تو وہ مطلوبہ اخلاق و کردار کے حامل افراد بھی تیار نہیں کرسکتا۔ پس اسلامی نظام تعلیم و تربیت کی عمارت الِہیٰ اقدار کی شناخت اور اُن کی پرورش کی بنیادوں پر کھڑی ہوتی ہے۔
3۔ دینی اصول
انسان کے اہداف کا تعین دین کرتا ہے۔ ایک دیندار انسان اپنے لئے صرف اسی ہدف کو قبول کرتا ہے، جس کی تصدیق اس کا دین کرے۔ انسان کے ہدف کے تعین اور تصدیق کے عمل کو ہدایت کہا جاتا ہے۔ جو شخص توحید کی شناخت اور اس پر ایمان رکھتا ہے، وہ کسی طور بھی کسی مادی ہدف کیلئے اپنی زندگی کو صرف کرنے پر راضی نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو شخص ملحد اور سیکولر نظریات کا ہوتا ہے، وہ صرف اُسی کام کو انجام دیتا ہے، جس میں اُس کا مادی فائدہ ہوتا ہے۔ پس اسلامی تعلیم و تربیت کی منصوبہ بندی کیلئے دینی عقائد اور اصولوں کی پیروی کرنا اشد ضروری ہے۔
نتیجہ اور حاصلِ بحث:
اسلامی نظامِ تعلیم و تربیت کے بغیر انسان کیلئے کمال مطلق یعنی خداوندِ عالم تک پہنچنا ممکن ہی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم و تربیت جیسے موضوعات پر قلم فرسائی کا رواج بہت کم ہے، دوسری طرف جملہ بندی کی اغلاط، پیچیدہ اور نامانوس اصطلاحات کا استعمال اور اختصار کے بجائے غیر ضروری تفصیلات سے بھی قارئین اکتا جاتے ہیں۔ چنانچہ بہت سارے تعلیمی و تربیتی کام تحقیقی و علمی بنیادوں کے بغیر ہی جاری و ساری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں اسلامی تعلیم و تربیت کے نام سے تعلیمی ادارے تو بہت زیادہ نظر آتے ہیں، لیکن عملاً ان کے نتائج و ثمرات بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ہیں۔ درحقیقت اسلامی تعلیم و تربیت وہی ہے، جو انسان کو قربِ الِہیٰ تک پہنچائے، یہ تعلیم و تربیت چاہے دینی مدرسے سے حاصل ہو یا یونیورسٹی سے۔ ہم دینی مدارس اور یونیورسٹیوں سے اتنا بڑا اور عظیم ہدف تبھی حاصل کرسکتے ہیں، جب ہمارا نظامِ تعلیم و تربیت اسلامی تعلیمات کے مطابق درست اصولوں اور ٹھوس قواعد پر مبنی ہو۔ ان قواعد اور اصولوں کا استنباط، ان کی شناخت، تاثیر اور اہمیت پر بحث آج کے اسلامی معاشرے کی اوّلین ضرورت ہے۔
nazarhaffi@gmail.com
دیدگاهتان را بنویسید