تازہ ترین

اسلامی مدیریت کی خصوصیات اور ایران، تحریر: محمد حسن جمالی

درست مدیریت کسی بھی ملک کی ترقی اور اس کے نظام کی مضبوطی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، وہ ممالک جن کے حکمران سہل انگاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خط مستقیم پر اپنے اداروں کی مدیریت کرنے سے قاصر وناتواں رہتے ہیں ان میں ترقی خواب بن کر رہ جاتی ہے ـ
آج نظری دنیا میں دوطرح کی مدیریت کا چرچا ہے جنہیں محقیقین اسلامی مدیریت اور غربی مدیریت کے نام سے جانے جاتے ہیں ـ وہ اس بات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کی اپنی الگ پہچان ہے، لیکن عملی میدان میں دیکھا جائے تو آج مختلف وجوہات کی بناء پر انگشت شمار ممالک کو چھوڑ کر سارے اسلامی ملکوں میں اسلامی مدیریت کے بجائے غربی مدیریت ہی حاکم دکھائی دیتی ہے ،جس کے نتیجے میں عزت نفس کی پائمالی، بدترین غلامی اور زلت ورسوائی ان کی تقدیر کا حصہ بنی ہوئی ہےـ

شئیر
30 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4941

آپ سعودی عرب کو ہی دیکھ لیں جو نہ فقط اسلامی ملک ہے بلکہ مسلمانوں کا مرکز شمار ہوتا ہے مگر اس کے حکمران مغربی طرز مدیریت اپنا کر سعودی مسلمانوں سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں کو زلت ورسوائی سے دوچار کرانے میں بھرپور کردار ادا کررہے ہیں ،خادم الحرمین کے دعویدار آل سعود نے اسلام کا حقیقی چہرہ مسخ کیا اور وہ انسانیت کو دین اسلام سے متنفر کرانے میں اپنی پوری توانائیاں صرف کررہے ہیں، وہ امریکہ واسرائیل کا بغل بچہ بن کر اسلامی اقدار کے ساتھ بازی کرکے استعماری طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنے میں مگن ہیں ـ بلاشبہ یہ سارا اسلامی مدیریت کو خیرباد کرکے مغربی طرز مدیریت اپنانے کا ہی نتیجہ ہے ،کیونکہ یہ بات ہر دانشمند کے علم میں ہے کہ مغربی مدیریت مفادات کے گرد گومتی ہے ،جس کے زیر سایہ ملکی نظام چلانے والوں کا مطمع نظر ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ مساوات اور انصاف کی بنیاد پر ہمیں ملک کا ادارہ کرنا چاہئے، قوم کی آسودگی اور خوشی حالی کے لئے کام کرنا چاہئے، غریبوں کا خیال رکھنا چاہئے ،ظلم وستم کا مقابلہ کرنا چاہئے، ظالم کی کھلی مخالفت اور مظلوم کی بھرپور حمایت کرنی چاہئے، ہماری داخلہ اور خارجہ پالیسیز ایسی ہوں جو ملک اور قوم کے مفاد میں ہوں اور ہمیں احترام انسانیت وآدمیت کا ہر حال میں خیال رکھنا چاہئے …. بلکہ ان کا ہم وغم مادی مفادات کے حصول تک رسائی حاصل کرنا ہوتا ہے خواہ اس راہ میں انسانیت کشی جیسے گھناؤنے کاموں کے لئے اقدام کرنا ہی کیوں نہ پڑے، یمن میں پانچ سالوں سے سعودی عرب کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام اس لئے ہورہا ہےکہ اس ملک کے جابر حکمرانوں نے مغربی طرز مدیریت کے مطابق اپنے ملک کا نظم ونسق چلانے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے ـ اس کے مقابلے میں اسلامیہ جمہوریہ ایران کے بارے میں بدون تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت ایران وہ واحد اسلامی ملک ہے جس میں اسلامی مدیریت حاکم ہے، حکومت اسلامی کے زیر سایہ ایرانی قوم پوری عزت سے سکون کی زندگی بسر کررہی ہے ـ
البتہ انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے ایران پر بھی ایسے افراد حکمرانی کررہے تھے جو مغربی طرز مدیریت میں اپنے اور ایرانی قوم کے لئے عافیت تلاش کرنے پر مصر تھے، جس کی وجہ سے مغربی ممالک کی طرح ایران میں بھی اسلامی اقدار تقریبا” ناپید ہوچکی تھیں، اسلام قوانین اور احکام ایک گوشے میں محدود ہوکر رہ گئے تھے، امریکہ کے اشارے سے نظام مملکت چلتا تھا ،اچھے کام سرانجام دینے والوں کی حوصلہ شکنی جب کہ برے کاموں میں فعال رہنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی تھی ،فحاشیت اور عریانیت اس قدر عام ہوچکی تھی کہ لوگ نوروز کے دنوں میں اپنی جنسی تسکین کے لئے اس ملک کی طرف سفر کرتے تھے، اداروں میں سفارش، کرپشن اور رشوت عام تھی، مختصر یہ کہ امریکہ نے ایرانی قوم سے حقیقی آذادی چھین کر اسے بدترین غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کررکھا تھا ـ
جب رہبر کبیر انقلاب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ رضا شاہ پہلوی اور اس کے ہمفکر خواہشات نفسانی کے اسیر افراد مغربی مدیریت کی تقلید کرکے ایران کو دوسرا امریکہ بنانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ، روز بروز وہ حکومتی سطح پر اسلامی اصولوں اور اقدار کی خلاف ورزی کرنے میں کوشاں ہیں تو آپ نے رضا شاہ پہلوی کی ظالم حکومت کا تختہ الٹنے کا مصمم ارادہ کرلیا ،آپ وارد میدان ہوئے اور ایرانی قوم کو بیدار کیا، مغربی طرز مدیریت کے نقصات اور اس کے نقائص سے عوام کو آگاہ کیا ،اس کے ساتھ ہی امام خمینی رح نے ہر خاص وعام کو اسلامی مدیریت کا روشن چہرہ دکھایا ،اس کے فوائد اور ثمرات کی وضاحت کی،اس کی برجستہ خصوصیات لوگوں کے دل ودماغ میں بٹھائیں، انقلاب کی طرف انہیں مائل کیا، استعماری طاقتوں اور مغربی آلہ کاروں کی سازشوں اور پریپیگنڈوں سے پردہ اٹھایا ،مسلمانان جہاں کی عزت اور سربلندی کے رازوں سے لوگوں کو آشنا کیا اور پورے اخلاص سے حق کی سربلندی اور باطل کی سرنگونی کے لئے ایرانی قوم کو یک زبان ہوکر آواز بلند کرنے کی دعوت دی چنانچہ امداد غیبی اور اس مرد الہی کی انتھک کوششوں سے ایران کی سرزمین پر انقلاب کا نور طلوع ہوا ، امریکہ اور اس کےاتحادیوں کے ناپاک عزائم خاک میں مل گئے ـ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انقلاب اسلامی کے ثمرات سے فقط مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والے مستفیض ہوئے ؟ کیا اس انقلاب کا ہدف مکتب تشیع کے علاوہ دوسرے مکاتب فکر کو کچلنا یا کمزور کرنا تھا ؟ کیا انقلاب کی کامیابی کے بعد اسلامی حکومت ایران کی داخلی وخارجی پالیسیز سے مسلمانان جہاں کو نقصانات پہنچے؟ کیا مشرق وسطی کی گھمبیر صورتحال اور ناگفتہ بہ حالات ایران کی وجہ سے پیش آئی ہیں ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر مسلم دانشوروں کو تمام تعصبات سے بالاتر ہوکر پوری دیانت داری اور سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے، انہیں اس حوالے سے افواہوں اور سنی سنائی باتوں پر اکتفا کرنے کے بجائے پوری تحقیق کرکے ان کے جوابات ڈھونڈ نکالنا ضروری ہے ـ
انقلاب اسلامی کے اہداف ومقاصد اور ایران کی داخلہ وخارجہ پالیسیز کے حوالے سے پاکستان کے قلمکاروں، تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کی اکثریت کا مطالعہ کمزور ہے، وہ ناقص معلومات کے بل بوتے پر ایران اور انقلاب اسلامی کے اہداف کے بارے میں شکوک وشبھات کا شکار ہیں ـ راقم نے اس حوالے سے بہت سوں کی تحریروں اور مقالات کا مطالعہ کیا جن میں مذکورہ بالا سوالات کے جوابات میں بے بنیاد باتیں اور غلط معلومات پڑھنے کو ملیں ـ پہلے سوال کے جواب میں ان کہنا یہ ہے کہ خمینی انقلاب کے فوائد اور ثمرات سے فقط مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والے ہی مستفیض ہوئے اور ہورہے ہیں ـ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس انقلاب کے ثمرات سے ایران کے اندر موجود تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے برابر مستفیض ہونے کے علاوہ ایران سے باہر کے مسلمانان بھی انقلاب ایران کے ثمرات سے استفادہ کررہے ہیں ـ آج فلسطین کے مظلوم وبے بس مسلمانوں کی فکری اور مادی جتنی مدد ایران اور فرزندان انقلاب کررہے ہیں وہ بے نظیر ہے ، پوری دنیا میں اسلامی بیداری اسی انقلاب کی بدولت آئی ،شام اور عراق میں شیطان بزرگ امریکہ کے آلہ کار داعش کو شکست سے دوچار کرکے قعر مذلت کی گہرائی میں اتارنے میں کامیابی ملی ہے تو اس کا کریڈیٹ سب سے پہلے ایران کو جاتا ہے ، یمن کے بے سروسامان غریب مسلمانوں کو سعودی عرب کی جارحیت کے مقابلے میں مقاومت اور استقامت کرنے کی جرات، ہمت اور حوصلہ ایران نے دیا ہے اور وہ انقریب فتحیابی اور ظفریابی سے ہمکنار ہونے والے ہیں تو کیا فسطین ،شام عراق اور یمن میں فقط مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں؟ دوسرے سوال کے جواب میں انہوں نے اپنی تحریروں میں اس بات کو عام کی ہے کہ انقلاب خمینی کا ہدف مکتب تشیع کو تحفظ کرنا اور دوسرے مکاتب فکر کو کمزور کرنا یا کچلنا تھا، جب کہ یہ کھلا پریپوگنڈہ ہے ـ تعصب کی عینک اتار کر تحقیق کرنے والوں کے لئے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کا ہدف بہت بلند و ارفع ہے ـ اس کا ہدف مستضعفین عالم کو استکبار جہاں کے چنگل سے آزاد کرانا اور اسلامی معاشرے میں انصاف پر مبنی نظام کا قیام تھا ـ اس سلسلے میں انقلاب کے بانی بت شکن رہبر کبیر انقلاب کے الہی وصیت نامے کا دقیق مطالعہ کرنا ضروری ہے ـ آپ ایک جگہ فرماتے ہیں: تم اے دنیا کے مستضعفو! اے اسلامی ملکو! اور دنیا کے مسلمانو! اٹھ کھڑے ہو اور اپنے زور بازو سے اپنا حق حاصل کرو اور بڑی طاقتوں کی تشہیراتی شوروغل اور ان کے حلقہ بگوشوں سے نہ ڈرو اور ان مجرم حکمرانوں کو جو کہ تمہاری زحمت سے حاصلہ آمدنی کو تمہارے اور اسلام عزیز کے دشمنوں کے حوالے کررہے ہیں اپنے ملک سے نکال باہر کرو اور خود نیز پابند عہد خدمت گزار لوگ اقتدار کو ہاتھ میں لے لیں اور سبھی لوگ اسلام کے پر افتخار پرچم کے نیچے جمع ہوکر اسلام دشمنوں کے خلاف اور دنیا کے محروموں کے دفاع کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور آزاد وخود مختار جمہوریتوں والی ایک اسلامی حکومت کی طرف قدم بڑھائیں کہ جس کو پورا کرکے دنیا کے سبھی مستکبروں کو شکست فاش دے دیں گے اور سبھی مستضعفوں کو زمین کی امامت اور وراثت سونپ دیں گے ـ تیسرے سوال کے جواب میں انہوں نے لکھا ہے کہ مشرق وسطی کی کشیدگی اور ابتر حالات کا ذمہ دار ایران ہے، جگہ جگہ ایران کی مداخلت سے صورتحال خراب ہورہی ہے وغیرہ اس حوالے سے عرض یہ ہے کہ یہ سراسر ایران پر تہمت ہے ـ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ سپر پاور طاقتوں نے جہاں کہیں بھی انسانیت پر مظالم ڈھائے ایران نے سسکتی اور بلکتی انسانیت کو نجات دلانے کی حتی المقدور کوشش کی ہے اور کررہا ہے ـ ایران نے جہاں کہیں بھی مداخلت کی ہے وہاں حالات کو سدھارنے کے لئے مالی اور افرادی قوت استعمال کی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ایران اسلامی نظام کا تابع ہے ، قرآن مجید کے احکام اور تعلیمات نبوی وعلوی اس مملکت کے نظام کا منشور ہیں ـ آج ایران تمام تر سختیوں اور پابندیوں کے باوجود امریکہ کے مقابلے میں کھڑا ہے اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے تو فقط اس وجہ سے ہے کہ یہ قرآن کا واضح حکم ہے ـ لہذا اپنے پاکستانی قلمکاروں محقیقین،سیاستدانوں ، تجزیہ نگاروں اور دانشمندوں سے ایک بار پھر گزارش کرتا ہوں کہ خدارا ایران اور انقلاب اسلامی کے حوالے سے تحقیق کرکے درست معلومات حاصل کریں ـ
امریکہ کے دباؤ کے باوجود ایران نے زندگی کے تمام شعبوں میں آنکھوں کو خیرہ کرنے والی ترقی اور پیشرفت کی ہے جس سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا، بلاشبہ یہ سب اسلامی مدیریت کی حاکمیت کا نتیجہ ہے ـ توجہ رہے کہ اسلامی مدیریت کی تین ایسی خصوصیات ہیں جن سے دوسری اقسام کی مدیریتیں محروم ہیں ـ پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اسلامی مدیریت میں محور اصلی حق ہوتا ہے ،البتہ اس طرز مدیریت کے مطابق ادارہ کرکے حق کی حفاظت اور اسے تقویت فراہم کرنے کے لئے ضروری ہے ایسے افراد مدیریت کریں جو اسلام شناس ہوں ، دینی تعلیمات سے کما حقہ آشنا ہوں، خدمت خلق کو وہ عبادت سمجھتے ہوں اور وہ اس بات کے بھی قائل ہوں کہ حق کا راستہ ہی وہ ہے جس پر چل کر انسان کو اپنی کامیابی پر اطمینان اور یقین حاصل ہوجاتا ہے ، مغربی معاشرے میں پلورالیزم ہی عمل اور کارکردگی کا معیار ہوتا ہے جس کی وجہ سے عملی میدان میں ان کا ہر قدم شک وتردید سے دوچار ہوتا ہے ـ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اسلامی مدیریت دینی تعلیمات کی مدد سے افراد کی ایسی تربیت کرتی ہے کہ وہ تمام تر سختیوں کے باوجود اپنے دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں ڈٹے رہتے ہیں ، پسپائی قبول کرنے کے لئے وہ کسی صورت میں تیار نہیں ہوتے ـ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اسلامی طرز مدیریت پر ملک اور معاشرے کا ادارہ کرنے والے اخلاص اور دینی واسلامی اصولوں کی بالادستی کے لئے میدان عمل میں متحرک ہوتے ہیں تو دنیا اور آخرت دونوں میں ان کا سرخرو ہونا یقینی ہےـ
جاپان کے وزیراعظم امریکہ کے صدر ڈولنڈ ٹرمپ کا پیغام لے کر جب تہران آئے اور رہبر معظم سید علی خامنہ ای سے ملاقات کے دوران بڑے افتخار سے ٹرمپ کے پیغام کا تذکرہ کیا تو رہبر معظم نے شجاعت حیدری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسا جواب دیا جس نے نہ فقط جاپانی وزیر اعظم کو حیران کردیا بلکہ پوری دنیا کے تجزیہ نگاروں ، سیاستدان اور حکمرانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا، جسے دیکھ اور سن کر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی نیندیں اڑگئیں، ان کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا،
اس موقع پر رہبر معظم انقلاب نے فرمایا کہ کسی کے پیغام پر غور کرکے جواب تب دیا جائے گا جب وہ حد اقل قابل اعتبار واطمینان ہو ، ہم امریکی موجودہ صدر ٹرمپ کو لائق جواب ہی نہیں سمجھتے ہیں ہماری نظر میں وہ قابل اعتبار ہی نہیں آپ نے مذید فرمایا کہ مسلسل 40 سال سے ایرانی اسلامی حکومت اور انقلاب کو کمزور کرنے کے لئے بلکہ ختم کرنے کے لئے امریکہ نے سر توڑ کوشش کی اس حوالے سے اس نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ـ ایران کے خلاف تمام سامراجی طاقتوں کو جمع کیا ،سازشوں اور پریپیگنڈوں کاجال بچھایا، ڈھونس دھمکیاں دیئں ، اقتصادی پابندیاں لگائیں ایران کے اندر گروہ منافقین کو ورغلا کر اپنے شوم ہدف تک پہنچنے کی کوشش کی ، مختلف بہانوں سے ایران اور اس کی قیادت کو دنیا والوں کے سامنے بدنام کروانے پر زور لگایا مگر خدا کی نصرت سے انقلاب اسلامی جمہوریہ ایران ان تمام موانع کا مقابلہ کرتا ہوا مسلسل ترقی اور پیشرفت کی طرف رواں دواں رہا ـ سامراجی طاقتوں نے پورے وثوق سے یہ پیشنگوئی کر رکھی تھی کہ انقلاب اسلامی ایران اپنے 30 سال بھی پورے نہیں کر پائے گا، مگر دنیا نے دیکھ لیا کہ انقلاب نے فقط 30 سال نہیں بلکہ 40 سال پورے کر کے افق عالم پر پوری عزت وشوکت سے چمک رہا ہے اور چمکتا رہے گا چشم دشمن کور ـ بے شک اسلامی مدیریت اور اسلامی حکومت کے زیر سایہ ہی مسلمانوں کے لئے امن اور سکون کی زندگی میسر آنا ممکن ہے جس کی بہترین مثال ایران ہے کاش اسلامی ممالک کے سربراہان اور حکمران ایران سے ہی کچھ سبق سیکھ لیتے !

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *