اقبال اور عاشورا/نصرالله فخرالدین
طول تاریخ میں اب تک واقعہ کربلا اور امام حسینؑ کے متعلق جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں اور جتنا تجزیہ و تحلیل اس موضوع پر ہوا ہے کسی اور واقعہ یا کسی اور شخصیت کے بارے میں نہ اتنی کتابیں لکھی گئی ہیں اور نہ اتنا تجزیہ و تحلیل ہوا ہے ۔ ہر ایک نے اپنی استعداد کے مطابق اس موضوع کے حوالے سے گفتگو کی ہے اور مقصد قیام امام حسین کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے حتی کہ بعض افراد نے حصول اقتدار ، بعض نے صرف شھادت ، بعض نے بیعت یزید، بعض نے کوفہ والوں کی دعوت اور بعض نے کچھ اور عوامل کو مقصد قیام امام قررار دیا ہے ۔
محققین ، مصنفین اور مورخین کے ساتھ ساتھ شعراء نے بھی اس موضوع کے حوالے سے اپنا اظہارنظر کیا ہے جن میں سے شاعر مشرق ، حکیم امت علامہ اقبال نے جس انداز سے اپنے اشعارمیں امام کی شخصیت اور امام کی فکری و انقلابی مقاصد کو بیان کیا ہے شاید کسی اور شاعر نے بیان کیا ہو۔ ہم ذیل میں علامہ اقبال کے کچھ منتخب فارسی اشعار کو جو انہوں نے اس موضوع کے متعلق فرمایا ہے ، بیان کریں گے۔
آن شنیدستی که هنگام نبرد عشق با عقل هوس پرور چه کرد
کیا تو نے کربلا کے واقعہ کے بارے میں سنا ہے عشق نے ہوس پرور عقل کے ساتھ کیا کیا
اقبال کی نظر میں کربلا میں پاک و پاکیزہ و مقدس عشق اور ہوس پرست ، دنیا پرست اور خواہشات کے دلدل میں پھنسی ہوی عقل کے درمیان جنگ تھی جس میں عشق نے ہوس پرست عقل کو شکست دی اور ذلیل و خوار کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ عمر سعد نے امام حسینؑ کی معرفت کے باوجود رے کی حکومت کے ہوس میں اپنا ہاتھ نواسہ رسولؐ کے خون سے رنگین کیا کیونکہ جب انسان کے عقل پر ہوا و ہوس کا پردہ پڑتا ہے تو وہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے کسی بھی کام سے گریز نہیں کرتا۔
آن امام عاشقاں پور بتول سروِ آزادی ز بستان رسول
حسین جو کہ عاشقوں کے امام اور حضرت بی بی فاطمہؑ کے بیٹے ہیں گلشن رسالت کے آزاد سرو (جو باطل کے آگے نہیں جھکا) ہیں
جب ہم معرکہ کربلا میں امام اور امام کے اصحاب کو دیکھتے ہیں تو عشق خدا میں شر شار نظر آتے ہیں کسی انسان کو جب اُس کی موت کی خبر دی جاتی ہے تو اُ س کی حالت خراب ہوجاتی ہے چہرے مرجھا جاتے ہیں بلکہ بعض افراد تو صرف یہ خبر سن کر ہی مر جاتے ہیں لیکن جب کربلا میں امام حسینؑ اپنے اصحاب کو شہادت کی خبردیتے تھے تو اُن کے چہرے خوشی سے پھول کی طرح کھل اٹھتے تھے اور شہادت کا وقت جتنا قریب ہوتا تھا اتنا زیادہ اُن کی خوشی میں اضافہ ہوتا تھااسی لئے امام حسینؑ نے اپنے اصحاب کو اصحاب بدر و احد اور اصحاب صفین وغیرہ پر ترجیح دی ہے۔
اللہ اللہ بائ بسم اللہ پدر معنی ذبح عظیم آمد پسر
اللہ اللہ والد بسم اللہ کی ب کی مثل ہیں اور بیٹا حسین ذبح عظیم کی صورت میں آیا
اس شعر میں اقبال تعجب آمیز لہجے میں فرماتےہیں کہ کیا مقام ہے! کہ باپ(حضرت علیؑ) مثل نقطہ باء بسم اللہ، یہ اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جس میں امیر المؤمنینؑ نے فرمایا تھا کہ ’’۔۔۔۔۔أنا نقطۃ تحت الباء‘‘ (۱) تمام آسمانی کتابوں کے اسرار قرآن کریم میں موجود ہیں ، قرآن کریم کے اسرار سورہ حمد میں ہیں ، سورہ حمد کے اسرار بسم اللہ ۔۔۔۔۔ میں ہیں اور تمام وہ اسرار جو بسم اللہ۔۔۔۔۔ میں ہیں وہ باء بسم اللہ میں ہیں اور وہ میں ہوں‘‘ پھر اقبال امام حسینؑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپؑ آیہ ’’و فدینٰہ بذبح عظیم‘‘(۲) کے مصداق ہیں۔
بهر آن شهزادہ ی خیرالملل دوش ختم المرسلین نعم الجمل
تمام اُمتوں سے بہترین اُمت کے شہزادے کے لئے خاتم الانبیا کے کندھے بہترین اُونٹ کی مانند تھے
اس شعر میں اقبال نےپیغمبر اکرمؐ کے نزدیک حسنینؑ کا مقام و مرتبہ اور حسنینؑ سے پیغمبرکی پیار و محبت کو بیان فرماتے ہوئے آپؐ کی ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ راوی کہتا ہے کہ میں پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا درحالیکہ پیغمبر حسن و حسین کو اپنے پشت پر بٹھا کر گٹھنوں کے بل چل رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ’’کیا ہی اچھی سواری ہے اور کیا ہی اچھا سوار‘‘ (۳) ۔
موسی و فرعون و شبیر و یزید این دو قوت از حیات آمد پدید
موسی و فرعون اور شبیر و یزید یہ دونوں حق و باطل کی قوتیں زندگی کے ساتھ ساتھ ہیں
یہ پروردگار کی سنت ہے کہ ازل سے ابد تک حق اور باطل ایک دوسرے کےمقابل میں ہو، یہی وجہ ہے جب فرعون آیا تو موسیٰ بھی آئے ، جب نمرود آیا تو ابراہیمؑ آئے، جب یزید پلید آیا تو اس کو رسوا کرنے اور اس کے منفور چہرے سے نقاب اٹھا کر قیامت تک آنے والے لوگوں کو اس کی حقیقت سے آگاہ کرنے کے لئے شبیرؑ آئے ، اور جب صدام و شاہ آئے تو خمینی بت شکن بھی آئے اور یہ سلسلہ تا ابد تک جاری رہے گا اسی لئے امام حسینؑ نے فرمایا : ’’مثلی لا یبایع مثلہ ‘‘ (۴) یعنی مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرتا۔ امام عالی مقام نے یہ نہیں فرمایا کہ : میں یزید کی بیعت نہیں کرتا۔ کیونکہ آپؑ کا مقابلہ ذاتی اور شخصی نہیں تھا بلکہ فکری اوراصولی تھا۔
زندہ حق از قوتِ شبیریست باطل آخر داغ حسرت میریست
حق قوت شبیری کی وجہ سے زندہ ہے باطل نے آخر کار حسرت کی موت مرنا ہے
یعنی اگر آج حق زندہ و پائندہ ، قوی ،آشکاراور حق کے پیروکار موجود ہیں تو یہ امام عالی مقامؑ کے اس قربانی کی وجہ سے ہے جس نے لوگوں کے دلوں کو جنجوڑا ، ضمیر کو بیدار کیا اور حق کی دفاع کرنے کی جرأت پیدا کی۔ تاریخ میں جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حق کی آبیاری ہمیشہ خون سے ہی ہوئی ہے اور جس خون نے سب سے زیادہ حق کو طاقت بخشی ہے وہ امام حسینؑ اور امام کے عزیزوں کا خون ہےجس نے حق کو زندہ کیا اور باطل کو رسوا کیا ۔ اور باطل کو تو آخر مٹنا ہی ہے کیونکہ باطل کا کوئی ریشہ نہیں ہوتا ’’ان الباطل کان زھوقاً‘‘(۵)۔
تا قیامت قطعِ استبداد کرد موج خون او چمن ایجاد کرد
قیامت تک کے لئے شخصی حکومت کا خاتمہ کر دیا اُن کے خون کی موجوں نے ایک نیا باغ تعمیرکردیا
امام عالی مقام ؑ نے اپنے خون کو زمین کربلا پر گرا کر آپ نے قیامت تک آنے والوں کو ظالم اور ستمگر کے ظلم و ستم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور صبر و استقامت اور شجاعت و بہادری کے ساتھ ظالم اور جابر لوگوں سے مقابلہ کرنے اور عدل و انصاف قائم کرنے کا جذبہ عطا کیا، آپؑ کے خون کے موجوں نے دین کی سوکھی ہوئی جڑوں ، شاخوں اور پتوں کو سرسبز و شاداب کر دیا اور مرجھائے ہوئے پھولوں کو تازگی عطا کی۔
بر حق در خاک و خون غلتیدہ است پس بنائ لا اله گردیدہ است
حق کے لئے انہوں نے اپنا خون خاک میں ملایا اس طرح سے انہوں نے لا الہ کی بنیاد ڈالی
حق و صداقت کی بلندی کی خاطر آپ ؑ نے اپنا خون ، خاک کربلا میں ملایا لیکن اس اصول کی بنیاد رکھ گئے کہ اللہ کے سوا کسی کے سامنے نہ جھکنا، لا الہ کی بنیاد کو آل امیہ نے متزلزل کر دیا تھا اور یزید اپنی پوری طاقت کے ساتھ لا الہ کی بنیاد کو گرانا چاہتا تھا جس کو بچانا ہر ایک کی بس میں نہیں تھا، لاالہ کی بنیاد کو بچانے اور مستحکم کرنے کے لئے قیمتی انسانوں کے خون کی ضرورت تھی جو فرزند زہرا نے اپنے اور اپنے عزیزوں کا خون دے کر انجام دیا۔
مدعایش سلطنت بودی اگر خود نکردی با چنین سامان سفر
اُن کا مقصد اگر سلطنت ہوتی تو اتنے کم سامان سفر کے ساتھ نہ جاتے
بعض ہوس پرست لوگوں نے مقصد قیام امام حسینؑ کو قدرت خواہی قرار دیا ہے علامہ اقبال اُن کے جواب میں فرماتے ہیں کہ اگر امام عالی مقام کا مقصد حصول اقتدار ہوتا تو آپ کے نکلنے کا انداز کچھ اور ہوتا اور آپؑ کا سامان سفر بھی اتنا کم نہیں ہوتا کیوں کہ جو شخص تیس ہزار لوگوں سے مقابلہ کرنے جا رہا ہو وہ بے سر و سامان اپنی ناموس کو لے کر نہیں جاتا ، وہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر نہیں جاتا بلکہ کم سے کم اتنے لوگوں کے ساتھ اسلحہ سے لیس ہوکر جائے گا کہ اس کی فتح کا امکان ہو ۔
دشمناں چون ریگ صحرا لا تعد دوستانِ او به یزدان هم عدد
اُن کے دشمنوں کی تعداد صحرا کے ذروں کے مانند ان گنت تھی جب کہ دوستوں کی تعداد یزداں اللہ کا ایک نام کے عدد کے برابر بہتر تھی
واقعہ کربلا میں دشمنوں کی تعداد کے بارے میں مختلف اقوال ہیں اور سب سے زیادہ جو مشہور ہے وہ تیس ہزار ہیں جبکہ امام کی فوج کی تعداد بہتّر ہیں اس شعر میں اقبال نے دشمنون کی کثرت کو بیابان میں موجود خاک کے ذروں کے ساتھ اور دوستوں کی قلّت کو یزداں (خدا) کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دشمنان امام کتنے زیادہ اور دوستان امام کتنے کم تھے۔
ما سواللہ را مسلماں بندہ نیست پیش فرعونی سرش افگندہ نیست
مسلمان خدا کے سوا کسی باطل قوت کا غلام نہیں بنتا وہ فرعونی قوتوں کے آگے سر نگوں نہیں ہوتا
مسلمان بننے کے لئے بنیادی شرط شہادتین کا اقرار ہے لہٰذا حقیقی مسلمان وہی ہے جو شہادتین کو اپنے عمل میں دکھا دے یعنی پہلے ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کے ’’لا‘‘ پر عمل کرتے ہوئے تمام فرعونی طاقتوں کا انکار کرے پھر ’’الا اللہ‘‘ پر عمل کرتے ہوئے صرف خدائے واحد کے سامنے سر تسلیم خم ہوجائے اگر چہ اس انکار اور اقرار کے لئے اپنی جان ، اپنی اولاد ، اپنی ناموس سب کچھ قربان کرنا پڑے۔اسی بات کو امام عالی مقامؑ نے کربلا میں ثابت کر کے دوسروں کو بتا دیا کہ حقیقی مسلمان طاغوت کے سامنے سرنگون نہیں ہوتا بلکہ سر بلند ہوتا ہے اور طاغوت کے سامنے مسلمان کا سر جھکتا نہیں بلکہ کٹتا ہے۔
خون او تفسیر این اسرار کرد ملتِ خوابیدہ را بیدار کرد
آپ کے خون نے کئی رازوں کی تفسیریں بیاں کیں اور سوئی ہوئی اُمت کو عملا بیدار کر دیا
امام عالی مقامؑ کے خون کے وہ کام کیا جو تلوار سے نہیں ہوتا اسی بات کی طرف امام خمینیؒ بھی اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’محرم ، تلوار پر خون کی فتح کا نام ہے‘‘ آپ نے اپنے خون کے چھینٹوں سے امت کو خواب غفلت سے بیدار کیا۔ جب فرد سوتا ہے تو اسے جگانے کے لئے پانی کے چھینٹوں سے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جب پوری قوم و ملت اور امت سو جائے تو وہاں پانی کے چھینٹوں سے کام نہیں چلے گا بلکہ خون کے چھینٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔امام حسینؑ کے زمانے میں امت مکمل طور پر سو چکی تھی جس کا اندازہ امامؑ کے اس فرمان سے لگایا جا سکتا ہےآپؑ فرماتے ہیں کہ ’’جب امت کا سربراہ یزید جیسا ہو تو اسلام پر فاتحہ پڑھنا چاہئے‘‘ (۶) یزید جیسا فاسق وفاجر انسان خلیفہ رسول کے نام پر سب کچھ کرتا ہے لیکن امت خاموش تماشا بنی رہتی ہے ایسے میں نواسہ رسولؐ و اسیر بسیرۃ جدی و ابی کا شعار بلند کرتے ہوئے یزیدیت کی بربادی اور امت کی آبادی کے لئے قیام کرتے ہیں۔
نقش الا اللہ بر صحرا نوشت سطرعنوان نجات ما نوشت
ہر قطرے سے صحرا پر الا للہ کا نقش لکھ دیا اور اُمت کی نجات کا مضمون لکھ دیا
آپؑ نے اپنے خون سے صحرا کی ریت پر الا اللہ کا نقش لکھا اور در اصل ہماری نجات کے عنوان کی سطر تحریر کر دی چونکہ یزید نے تو خدا و رو رسول اور وحی کا انکار شروع کیا تھا اگر آپؑ قیام نہ کرتے اور اپنا خون نہ بہاتے تو یزید دین اسلام کو نیست و نابود کرنے میں دیر نہیں کرتا یوں قیامت تک آنے والے لوگ گمراہ ہوتے اور عذاب الٰہی کا شکار ہوتے ، لیکن آپؑ کے قیام نے لوگوں کو گمراہی کی تاریکیوں سے نکال کر ہدایت کی روشنی میں لے آیا اسی لئے پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: ’’ان الحسین مصباح الھدیٰ ۔۔۔۔۔۔‘‘ (۷) ۔
اے صبا ای پیک دور افتادگان اشک ما بر خاک پاک او رسان
اے ہوا اے دور رہنے والوں کی پیغام رساں ہمارے آنسو(سلام و عقیدت) آپ کے مزار مبارک کی خاک پر پہنچا دے
آخر میں اقبال اپنے دل کی تمنا کو بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ اے باد صبا! اے بہت دور بسے والوں کی قاصد! جا اور حسینؑ کی قبر کی خاک تک ہمارے آنسوؤں کا نذرانہ پہنچا دے ، یہ کوئی لفاظی نہیں بلکہ اقبال کی دلی تمنا اور دیرینہ آرزو تھی کہ قبر حسینؑ پر جاکر آنسو بہا دیں اور اپنی عقیدت و احترام کا اظہار کریں۔
وما توفیقی الا بااللہ
—————–
منابع
۱۔ ینابیع المودّہ ص 69
۲۔ سورہ صافات آیہ 107
۳۔ تذکرۃ الحفاظ حدیث 449
۴۔ بحار ج 44 ص 324
۵۔ سورہ اسرا آیہ 81
۶۔ لھوف ص 11
۷۔ فرھنگ عاشورا بہ نقل از سفینۃ البحار ج 1 ص 257
۸۔ انتخاب اشعار از: رموز بی خودی صفحہ ۱۵۷و ۱۵۸
دیدگاهتان را بنویسید