الہیٰ اور غیر الہیٰ ادیان میں مہدویت اور انتظار کا عقیدہ
دنیا جس بحران سے دوچار ہے، اس بحران سے نکالنے کیلئے ایک صالح اور بے عیب نظام کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ انسانوں کے بنائے گئے تمام نظام موجودہ صورتحال سے نمٹنے سے عاجز اور ناتواں ہیں۔ پوری دُنیا نے دیکھ لیا کہ دنیا کی تمام طاقتیں اپنی پوری کوششوں کے باوجود اس بحران سے نکالنے میں ناکام رہی ہیں اور ان حکومتوں کی صورتحال زیادہ خراب ہے، جو دنیا کو چلانے کا خواب دیکھ رہی ہیں۔
جب یہ حکمران ایک ملک کو بحران سے نکالنے میں ناکام رہے تو اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ اس بیماری کی اصل علت مذہب ہے۔ اس حالت سے مایوس انسانوں کو تب نجات ملے گی، جب الله کے دکھائے ہوئے ہادی کی اطاعت کریں گے۔ اس ہادی برحق پر عقیدہ کسی ایک مذہب کا نہیں بلکہ تمام ادیان کا مشترک عقیدہ ہے، جس کو کبھی مسیح، کبھی مہدی اور کبھی کسی اور نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ عالمی اور جہانی مصلح کے انتظار کا فلسفہ، روشن مستقبل کی امید ہے، یہ امید ہمیشہ سے انسان کی الہیٰ فطرت میں موجود تھی۔ ادیان الہیٰ اور بشری مکاتب کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف مکاتب کے پیروکار ایک آسمانی موعود کہ جس کے بارے میں دینی متون میں تذکرہ ملتا ہے اور وعدہ دیا گیا ہے، عقیدہ رکھتے ہیں۔
ہندووں کے عقیدے کے مطابق
حکومت جہانی اور شخص موعود کا عقیدہ ایک عالمی نظریہ ہے، تمام آسمانی ادیان یہاں تک کہ لادینی مکاتب فکر بھی اس عقیدے میں مشترک نظر آتے ہیں، لیکن اس شخصیت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ اس کے ظہور سے پہلے اور بعد کے حوادث کے بارے میں اور اس انقلاب کا بانی اور منجی عالم بشریت کون ہوگا؟ مختلف نظریئے پائے جاتے ہیں۔ یہاں چند ادیان کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اب ہم اختصار کے ساتھ آسمانی کتابوں سے چند نمونے ان آیات کے پیش کرتے ہیں، جو آخری زمانے میں عالمی حکومت زمین کے پاک اور صالح افراد کے ہاتھوں میں ہوگی اور دنیا والے خواہ جس مکتب سے بھی ہوں، اس منجی عالم بشریت کے ظہور کے لئے لمحہ بہ لمحہ انتظار کر رہے ہیں۔
دین مسیح میں مہدویت کا تصور:
عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ جس ہستی کے ہم سب منتظر ہیں، وہ جناب عیسیٰ مسیحؑ ہیں۔ یہودیوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے بعد ﷲ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندگی دی اور آسمان پر لے گیا، تاکہ آخری زمانہ میں انہیں دوبارہ زمین پر بھیج دیا جائے اور ان کے ذریعے ہی وعدہ الہیٰ پورا ہوگا۔
انجیل اور مہدویت کا تصور:
انجیل کی بہت سی جگہوں پر اس عقیدہ کا تذکر ملتا ہے، جن میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کریں گے: “اور عنقریب جنگوں اور اس کی افواہوں کو سنیں تو کبھی ایسا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے بے صبری کا مظاہرہ کریں، اس لئے کہ اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے، لیکن وہ دن تاریخ کا اختتامی زمانہ نہیں۔” دوسری جگہ آیا ہے: “اپنی کمر کو باندھ لو اور اپنے چراغوں کو روشن رکھو اور رات میں اس طرح رہو جیسے کوئی اپنے مالک کا انتظار کرتا ہے، کتنے خوش نصیب ہیں وہ افراد جن کا مالک آنے کے بعد ان کو جاگتا ہوا پائے۔۔۔” “مہدی اور عیسیٰ دجال اور شیطان کو قتل کریں گے۔”
زبور میں تذکرہ:
زبور کے نظریہ مہدویت کو قرآن میں بھی بیان کیا ہے۔ سورہ انبیاء آیت نمبر 105 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے!! “اور ہم نے ذکر(تورات) کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہونگے”، “آخری زمانے میں جو انصاف کا مجسمہ انسان آئے گا، اس کے سر پر بادل سایہ فگن ہوگا۔”، “آخری زمانے میں تمام دُنیا توحید کی ماننے والی ہو جائے گی، جو آخری زمانے میں آئے گا، اس پر آفتاب اثرانداز نہ ہوگا”، “ان کے ظہور کے بعد ساری دُنیا کے دُکھ مٹا دیئے جائیں گے۔” ظالموں اور منافقوں کو ختم کر دیا جائے گا، یہ ظہور کرنے والا کنیز خدا “نرجس خاتون” کا بیٹا ہوگا۔
دین زرتشتی کے ہاں مہدویت کا تصور:
زرتشتیوں کا عقیدہ ہے: “ایک مرد سرزمین نازیان سے جو ہاشم کی ذریت سے ہوگا، خروج کرے گا۔ اپنے جد کے دین اور فراوان لشکر کے ساتھ قیام کرے گا۔”، زمینوں کو آباد کرے گا اور اس کو عدل سے بھر دے گا۔ ایک اور جگہ رسول خدا (ص) کی نبوت کی بشارت کے بعد آیا ہے: وہ پیامبر جو خورشید عالم اور شاہ زمان سے معروف ہیں، اس کی بیٹی کی نسل سے ایک مرد خلافت پر پہنچے گا، دنیا میں یزدان کے حکم سے حکومت کرے گا۔ وہ اس پیامبر کا آخری خلیفہ ہے، درمیان عالم یعنی مکہ میں، اس کی حکومت تا روز قیامت قائم رہے گی۔ آئین زرتشت اپنی تمام تر تحریفات کے باوجود، مسئلہ مہدویت کے بارے میں مکمل بحث کی ہے۔
دین یہود میں منجی کا تصور:
یہودیوں کا نظریہ ہے کہ وہ شخص جناب إسحاق کی نسل سے ہوگا، ابھی پیدا نہیں ہوا، بعد میں آئے گا؛ چنانچہ توریت کا یہودی مفسر حنان إیل، سفر تکوین نمبر17 إصحاح نمبر 20 کے ذیل میں لکھتا ہے: اس آیت کی پیشن گوئی سے ہزاروں سال گزر گئے، یہاں تک عرب حضرت إسماعیلؑ کی نسل سے ایک عظیم امت کی شکل میں پورے عالم پر غالب آیا ہے کہ جس کے جناب إسماعیلؑ مدّتوں سے منتظر تھے۔ لیکن ذریہ اسحاقؑ میں ہمارے گناہوں کی وجہ سے وعدہ الہیٰ اب تک پورا نہیں ہوا ہے، پھر بھی ہمیں اس حتمی وعدے کے پورے ہونے میں نااُمید نہیں ہونا چاہیئے۔
یہودیوں کا عصر حاضر میں مسیحا کا انتظار۔۔۔۔۔
سو سال پہلے یہودی مفکرین نے کہا کہ ہماری قوم نے صدیاں مسیحا کا انتظار کیا، خواریاں اور ذلتیں برداشت کیں، اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے، اب ہم خود سے قیام شروع کریں اور اس انتظار کی گھڑی کو ختم کر دیں اور فلسطین “جو کہ پہلے یہودیوں کا مرکز تھا” کو لینے کیلئے اقدام کریں۔ یہ جماعت بعد میں صہیونیست سے معروف ہوئی۔ ان کو اکثر یہودیوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، چونکہ ان کے دینی عقیدے کے مطابق صرف مسیحا ایسے کام کیلئے قدم اٹھا سکتا ہے۔ لیکن صہیونستیوں نے صبر؛ حوصلہ اور تبلیغات کے ذریعے بہت سے یہودیوں کو قانع کیا اور دنیا کے مختلف ممالک سے لاکر فلسطین میں لاکر بسانے میں کامیاب ہوئے اور غاصب صیہونی اسرائیل حکومت تشکیل دی۔ بہت سے یہودی اب بھی اپنے دینی عقیدے پر قائم ہیں، مسیحا کے انتظار میں ہیں اور اسرائیلی ریاست کے مخالف ہیں۔
ہندو مذہب میں منجی کا تصور:
“آخری زمانے میں زمین ایک ایسے مرد کے ہاتھوں میں آئے گی کہ خدا جس کو دوست رکھتا ہے، وہ خدا کے خاص بندوں میں سے ہوگا، اُس کا نام “مبار ک و نیک” ہے۔ کتاب “اوپانیشاد” میں بیان ہوا ہے کہ آخری زمانے میں مظہر وشنود سفید گھوڑے پر سوار ہاتھوں میں برہنہ تلوار لئے ظہور کرے گا، دم دار ستارے کی مانند چمکے گا، مجرموں کو ہلاک کرے گا، ایک نئی زندگی پیدا کرے گا، طہارت و پاکیزگی کو پلٹائے گا۔ہندؤں نے اپنی کتاب مقدس “وید” میں لکھا کہ “دنیا کی خرابی کے بعد آخری زمانہ میں ایک بادشاہ پیدا ہوگا، جو خلائق کا پیشوا ہوگا۔ اس کا نام “منصور” ہوگا۔ وہ ساری دنیا کو اپنے قبضہ میں کرکے اپنے دین پر لے آئے گا اور مومن و کافر میں سے ہر ایک کو پہچانتا ہوگا۔
دین اسلام میں تفکر مہدویت:
تمام مسلمانون کا متفقہ عقیدہ ہے کہ آپ (ع) کا سلسلہ نسب کچھ اس طرح بیان ہوا ہے۔ حضرت اسماعیل (ع) کی نسل سے، خاتم النبیین (ص) اور آپ کی نسل سے فاطمہ زہراء (س) اور آپ سے امام حسین (ع) اور ان کی نسل سے مہدی موعود ہیں۔ مسلمان بالخصوص مذہب تشیع میں انتظار یعنی امام زمانہ (عج) کی امامت و ولایت پر، ان کے ظہور پر مضبوط ایمان رکھنا اور ساتھ ہی افراد صالح کے ہاتھوں عالمی حکومت کے آغاز پر عقیدہ رکھنا ہے۔ اسی لئے مسلمان قرآن کے واضح وعدوں پر عقیدہ رکھتے ہیں۔ الہیٰ قانون کے مطابق دنیا خدا کے وعدوں اور قانوں کے مطابق چل رہی ہے۔ اگرچہ دنیا کے چند روز ظالموں کے فائدہ میں جا رہے ہیں، لیکن ایک دن عالمی حکومت، صالح اور حق پرست افراد کے ہاتھوں میں آئے گی اور خدائی قانون کے مطابق پوری دنیا میں عدل و انصاف برقرار ہوگا۔ مسلمانوں کے دوسرے فرقوں اور مکتب اہل بیت میں اتنا فرق ہے کہ اہل تشیع کی نظر میں اس ہستی کی ولادت 15 شعبان 255 ہجری کو سامراء میں ہوئی اور اب تک خدا کے حکم سے پردہ غیبت میں ہیں، لیکن دوسرے مذاہب کے نظریئے کے مطابق بعد میں پیدا ہونگے، وہی اس دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، نظریہ مہدویت کے سب قائل ہیں۔
قرآن اور نظریہ مہدویت:
قرآن کی بہت سی آیات میں موضوع مہدویت اور عالمی حکومت کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔ بعض محققین نے 265 آیات میں اس موضوع “نظریہ مہدویت” سے متعلق گفتگو ہونے کا دعویٰ کیا ہے، ان میں سے چند ایک کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ سورہ توبہ آیت نمبر 32،33، سورہ نور آیت نمبر 55، سورہ غافر آیت نمبر51، سورہ انبیاء آیت نمبر 105، قصص5،6 سورہ ھود آیت نمبر 86 و سورہ حج آیت نمبر 41۔ ان آیات قرآنی سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا ایک ایسے دن کی منتظر ہے، جس دن پوری دنیا کی حکومت پاک و صالح انسانوں کے ہاتھوں آئے گی، اس دن کا مسلمان شدت سے انتظار کر رہے ہیں، وہی امام مھدی (عج) کے قیام کا دن ہے
دیدگاهتان را بنویسید