امام حسن مجتبی علیہ السلام
اسم مبارک حسن علیه السلام
کنیت ابوالحسن
القاب مجتبیٰ سید سبط اکبر
والد بزرگوار امیرالمومنین علی علیہ السلام
والدہ ماجدہ جناب فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا
ولادت 15 رمضان کی شب 3ہجری
مدت امامت دس سال 40سے 50 هجری تک
عمر مبارک47 سال
تاریخ شہادت 28 صفر 50 هجری
قبر مطهر جنت البقی مدینہ منورہ
ولادت 15 رمضان المبارک 3 ہجری کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کی ولادت ہوئی1
پیغمبراسلام نومولود کو مبارکباد پیش کرنے حضرت علی علیہ السلام کے گھر تشریف لے گئے اور خدا کے حکم سے نواسے کانام حسن رکھا2
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جناب حسن مجتبیٰ علیہ السلام
اس نواسے نے زندگی کے ابتدائی سات سال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزارے نانا اپنے نواسے کو بے حد چاہتے تھے اکثر اپنے کاندھے پر بٹھاتے اور فرماتے تھے خدایا میں اس کو چاہتا ہوں تو بھی اس کو دوست رکھ3
جو شخص حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کو دوست رکھے گا وہ مجھے دوست رکھتا ہے اور جو شخص ان سے کینہ رکھے یا ان سے دشمنی کرے وہ مجھ سے دشمنی رکھتا ہے4
حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام جوانان بہشت کے سردار ہیں5
جناب پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں یہ دونوں میرے فرزند امام ہی قیام کریں خاموش رہیں امام علیہ السلام کی بزرگی اور روحانی عظمت پیغمبر اسلام کی نگاہوں میں اس قدر تھی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو کم سنی کے باوجود عہد ناموں پر گواہ قرار دیتے تھے
واقدی کا بیان ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ثقیف سے جو معاہدہ فرمایا اس کو خالد بن سعید نے تحریر کیا امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام اس پر گواہ ہوئے6
جس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا کے حکم سے اہل نجران سے مباہلہ کے لیے نکلے امام حسن و امام حسین علیہ السلام حضرت علی علیہ السلام حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو خدا کے حکم سے اپنے ہمراہ لیا اور انہیں مقدس ہستیوں کی طہارت کا قصیدہ پڑھتے ہوئے آیت تطہیر نازل ہوئی7
امام حسن علیہ السلام امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ
امام حسن علیہ السلام قدم با قدم اپنے والد کے ساتھ تھے ظالموں پر تنقید کرتے تھے اور مظلوموں کی حمایت کرتے تھے جس وقت جناب ابوذر کو ربذه کی طرف شہر بدر کیا گیا ثالث کا یہ حکم تھا کہ کوئی بھی رخصت کرنے نہ نکلے لیکن امام حسن علیہ السلام اور آپکے برادر محترم نے اپنے والد بزرگوار کے ساتھ شہید آزادی کو بہت ہی خلوص و محبت کے ساتھ خداحافظ کہاں رخصت کرتے وقت ثالث کی حکومت سے بیزاری کا اظہار فرمایا اور جناب ابوذر کو صبر و ثابت قدمی کی تلقین کی8
36هجری میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ مدینہ سے بصرہ گئے تاکہ جنگ جمل کی اس آگ کو خاموش کر سکیں جس کو طلحہ اور زبیر نے شعلہ ور کر رکھا تھا بصرہ پہنچنے سے پہلے حضرت علی علیہ السلام کے حکم سے عظیم صحابی عمار یاسر کے ساتھ کوفہ تشریف لے گئے تاکہ کوفہ والوں کو امام کی نصرت کی دعوت دی چنانچہ کوفہ والوں کو اپنے ساتھ لے کر امام وقت کی نصرت کے لئے بصرہ پہنچ گئے اپنی بصیرت افزوں تقریر سے عبداللہ بن زبیر کی قلعلی کھول دیں ابن زبیر نے قتل ثالث کا ذمہ دار حضرت علی علیہ السلام کو ٹہرایا تھا میدان جنگ میں کامانجام دیئے اور جنگ فتح کرکے واپس آئے9
امام علیہ السلام کا اخلاق
1 پرہیزگاری
ذات اقدس الہی سے خاص لگاؤ تھا جس کے اثرات وضو کرتے وقت چہرہ اقدس پر ظاہر ہو جاتے تھے جس وقت وضو فرماتے تھے چہرے کا رنگ اڑ جاتا تھا لرزنے لگتے تھے لوگ سوال کرتے تھے آپ کی حالت اس طرح کیوں ہو جاتی ہے فرماتے تھے جو شخص بارگاہ الہی میں حاضری دیتا ہے اس کے لیے یہی زیب دیتا ہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ امام حسن علیہ السلام اپنے وقت کے سب سے زیادہ عبادت گزار تھے سب سے زیادہ فضیلت ہے جس وقت آپ موت اور قیامت کو یاد فرماتے تھے روتے روتے بے ہوش ہوجاتے تھے10
آپ علیہ السلام نے پیدل اور برہنہ پا 25حج کیے11
2 سخاوت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام
جس وقت خانہ خدا کی زیارت کو گئے تھے اس وقت ایک شخص بارگاہ خدا میں دعا کر رہا تھادرهم عطا فرما 10000 امام حسن علیہ السلام اسی وقت گھر تشریف لائے اور وہ رقم اس کو بھجوا دی
ایک دن آپکی ایک کنیز نے گلدستہ آپ کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کیا امام علیہ السلام نے گلدستہ کے صله میں اس کو آزاد کردیا جب لوگوں نے آپ سے اس عمل کے بارے میں دریافت کیا تو آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا خداوند عالم نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے جب کوئی تمہیں تحفہ دے تو تم اس تو تم اس سے بہتر اس کا جواب دو.
آپ علیہ السلام نے اپنی زندگی میں تین مرتبہ اپنی تمام مالیت یہاں تک کہ نعلین کا بھی نصف حصہ راہ خدا میں دے دیا12
3 بردباری امام علیہ السلام
امیر شام کے کہنے پر ایک شامی امام حسن علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور نازیبا کلمات استعمال کرنے لگا اس وقت امام علیہ السلام خاموش ہوگئے تو جب وہ بکتا بکتا نازیبا الفاظ تھک چکا تو امام علیہ السلام نے مسکرا کر اسے سلام کیا تو کہا تو مجھے غریب الوطن لگتا ہے شاید تجھے اشتباہ ہوا ہے اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں تمہیں دوں گا اگر راستہ بھول گئے ہو تو میں راستہ بتاؤں گا گا اگر مقروض ہو تو میں ادا کروں گا اگر بھوکے ہو تو میں کھانا کھلاؤں گا اگر کوئی ضرورت ہے تو میں پوری کروں گا جب یہ رویہ امام علیہ السلام کا دیکها شامی نے دیکھا تو بہت شرمندہ ہوا اور رونے لگا کہا
میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں آپ زمین پر خدا کے نمائندے ہیں خدا بہتر جانتا ہے اسے رسالت کس کے سپرد کرنی ہے آج سے پہلے آپ اور آپ کے والد سے برا میری نظروں میں کوئی اور نہ تھا لیکن آج سے آپ لوگوں سے میری نگاہوں میں اور کوئی بہتر نہیں ہے آپ ہی بہتر ہیں13
اس روز شامی امام علیہ السلام کا مہمان ہوا اور وہاں سے کھانا کھانے کے بعد امام علیہ السلام نے کچھ درہم اس شامی کو دیے تو امام علیہ السلام کے اوپر جان قربان کرنے کے لئے آمادہ تھا وہاں سے رخصت ہوا14
خلافت حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام
21 رمضان 40 ہجری کی شام امام علی علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئی دوسرے دن صبح کو شہر کے تمام لوگ جامع مسجد میں جمع ہوئے امام حسن علیہ السلام ممبر پر تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا
کل رات کائنات کی اس وقت شخصیت کی شہادت ہوئی جو گزشتہ زمانوں میں یکتائے روزگار تھا اور آئندہ بھی منفرد رہے گا جس کا علم اور کردار بے مثال تھا پیغمبر اسلام کے شانہ بشانہ زحمت برداشت کرتے رہے اور کوششیں کرتے رہے پیغمبراسلام ان کو جنگوں میں سپہ سالار مقرر فرماتے تھے اور وہ ہمیشہ جنگ فتح کر کے واپس ہوتے تھے انہوں نے دنیا کی سفیدی اور زردی سونا چاندی میں صرف 700 درہم چھوڑے ہیں وہ بھی اس لیے کہ وہ اس رقم سے گھر کے کام کاج کے لیے ایک کنیز خریدنا چاہتے تھے اس وقت امام حسن علیہ السلام کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور لوگ بھی رونے لگے
اس کے بعد وقت گزرتا رہا تولوگ امام علیہ السلام کی بیعت کرتےرهے جب امیر شام کو خبر پہنچی تو اس نے کوفہ اور بصرہ میں اپنے جاسوس مقرر کیے تاکہ تمام باتیں امیر شام تک پہنچ جائیں اور امام کی حکومت میں داخلی فساد برپا ہو.
امام علیہ السلام کے حکم سے کچھ جاسوس کو گرفتار کیا اور انہیں قتل کیا گیا امام علیہ السلام نے امیر شام کے نام خط لکھا تم جاسوس بھیج رہے ہو معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں جنگ بہت پسند ہے جنگ بہت نزدیک ہے منتظر رہوانشاءاللہ.15
امیر شام نے روسائے قبائل کے تمام خطوط امام حسن علیہ السلام کے پاس بھیجے اور صلح کی پیشکش کی اور یہ وعدہ کیا کہ آپ جو بھی شرائط پیش کریں گے ہمیں سب منظورہیں16
اس وقت امام سخت مریض تھے امام کے اصحاب بھی پراکندہ ہو چکے تھےسب ایک دوسرے کے ہم خیال نہ تھے ہر ایک الگ الگ راگ الاپ رہا تھا ایسی صورت میں جنگ جاری رکھنا اسلام کے حق میں نہ تھا اور نہ شیعوں کے حق میں اگر اس جنگ میں امیر شام کامیاب ہو جاتا تو اسلام کا سارا شیرازہ منتشر ہو جاتا اور اسلام کی بنیادیں متزلزل ہو جاتی شیعوں کا وہ قتل عام ہوتا کہ ایک نفس بھی باقی نہ بچتا اس بنا پر امام حسن علیہ السلام نے متعدد اور کافی سخت شرطوں کے ساتھ صلح کی پیشکش قبول فرمائی 17
ان شرائط میں بعض کا مفہوم یہ ہے
1شیعوں کے خون کا احترام اور اس کی حفاظت کی جائے ایک دوسرے کے حقوق پامال نہ هوں
2 حضرت علی علیہ السلام کو گالیاں نہ دی جائیں18
دراب گرد سےدرآمد کی جو آمدنی ہے اس میں 10 لاکھ درہم جنگ جمل اور صفین میں جو لوگ یتیم ہوئے ہیں امیر شام میں تقسیم کرےگا19
امام علیہ السلام امیر شام کو امیرالمومنین نہیں کہیں گے19
امیر شام کتاب خدا اور سنت رسول پر عمل کرے گا20
امیر شام اپنے بعد کسی کو خلافت کا عہدہسپرد نہیں کرے گا 21
امیر شام نے ان تمام شرطوں کو جو اسلام اور شیعوں کی تحفظ کے لیے ضروری تھی قبول کرلیا اور اس طرح یہ جنگ ختم
امیر شان کی عہد شکنی
جب امیر شام کا تسلط باقاعدہ قائم ہوگیا اس وقت امیر شام نے اپنے چہرے سے نقاب الٹ دیا اور اس کا اصلی چہرہ سامنے آگیا چنانچہ نخلیه میں تقریر کرتے ہوئے اس نے کہا خدا کی قسم تم نے خدا کی قسم میں نے تم سے اس لیے جنگ نہیں کی کہ تم نماز پڑھو روزہ رکھو حج کرو میں نے صرف تم پر حکومت کرنے کی خاطر جنگ کی ہے اور وہ مجھے حاصل ہوگئی ہے اس وقت میں اعلان کرتا ہوں کہ وہ تمام شرطیں جو حسن ابن علی علیہ السلام نے صلح نامہ میں رکھی ہیں سب میرے پاؤں کے نیچے ہیں22
امیر شام کبھی کبھی امام حسن علیہ السلام کی شخصیت کے نفوذ سے متاثر ہو کر عمل کرتا تھا جیسا کہ ابن الحدید کا بیان ہےکوفہ کا حاکم زیاد امام حسن علیہ السلام کے ایک صحابی کی تلاش میں تھا امام علیہ السلام نے اس کو پیغام بھیجا کہ ہم نے اپنے دوستوں کے لئے امان حاصل کر رکھی ہے لیکن مجھے خبر ملی ہے کہ میرے ایک دوست کا تعاقب کر رے ہو ایسا نہ کرو
زیاد نے کوئی توجہ نہیں دی اور اس کی تلاش کرتا رہا اور اس نے کہا اگر آپ کے درمیان جہاں بھی ہوگا میں نہیں چھوڑوں گا
امام علیہ السلام نے زیاد کا جواببعینه هی امیر شام کے پاس بھیجا
امیر شام نے زیاد کی سرزنش کی اور کہا کہ یہ امام کے دوستوں کو پریشان نہ کرو میں نے تم کو اس طرح کے اختیارات نہیں دیئے23
منابع
1ارشاد المفید صفحہ 129
2بحار الانوار جلد 43 صفحہ 238
3بحار الانوار جلد 43 صفحہ 264
4دلائل الامامہ. محمد بن جریر الطہری صفحہ 60
5تاریخ خلفاء صفحہ 179
6ارشاد مفید صفحہ 181 6طبقات کبیر جلد 2 صفحہ 33
7غایۃ المرام صحفه 782
8حیات امام الحسن بن علی علیہ السلام صفحہ 260 261
9طبقات کبیر جلد 3 جز اول صفحہ 20 حیاۃ الامام الحسن بن علی علیہ السلام جلد اول صفحہ 398
10 بحار الانوار جلد 43 صفحہ 331
11بحارالانوار جلد 39 صفحہ 331 تاریخ الخلفا صفحہ 190
12 بحارالانوار جلد 39 صفحہ 344 تاریخ خلفا صفحہ 190
13بحار الانوار جلد 44 صفحہ 344
14بحار الانوار جلد 43 صفحہ
15 ارشاد مفید صفحہ 170
16ارشاد مفید صفحہ 173
17تاریخ یعقوبی جلد 2 صفحہ 207
18 بحارالانوار جلد 44 صفحہ 62
19ارشاد مفید صفحه 173 مقاتل طالبین صفحه26
20بحارالانوار جلد 44 صفحہ 65
21بحارالانوار جلد 44 صفحہ 65
22 بحار الانوار جلد 44 صفحہ 49
دیدگاهتان را بنویسید