تازہ ترین

امن کے گہوارے میں آگ لگانے کی ناکام کوششیں/تحریر: ایس ایم شاہ

گلگت بلتستان امن کا گہوارہ ہے۔ خصوصا بلتستان شروع سے اب تک امن کا گہوارہ رہا ہے اور اللہ تعالی کے فضل و کرم اور علمائے کرام کی صحیح اسلامی تبلیغ کے نتیجے میں اس پرآشوب دور میں بھی امن کے گہوارے کے عنوان سے مشہور ہے۔ البتہ  دشمنوں نے گلگت کے اندر آگ لگانے اور مذہبی منافرت پھیلانے کی کافی  کوشش کی۔ جس میں  کچھ عرصے تک  انہیں کامیابیاں بھی ملتی رہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ عوام کے اندر بیداری آنے کے ساتھ ساتھ سی پیک منصوبے نے دوبارہ امن کی ضمانت لے لی۔ اب بھی دشمنوں کی بھرپور کوشش ہے کہ پاکستان کے دوسرے صوبوں کی مانند گلگت بلتستان کے امن و امان کو بھی سبوتاژ کیا جائے۔

شئیر
24 بازدید
مطالب کا کوڈ: 3083

اس کے لیے وہ مختلف نقشے بنا رہے ہیں۔ سازش کاروں کی ایک اہم کوشش یہ ہے کہ یہاں کے باسیوں پر مختلف لیبل لگاکر انہیں  دشمنان وطن ظاہر کیا جائے۔ یوں پاکستان بننے سے اب تک مملکت خداداد کی سربلندی اور حفاظت کی خاطر1965ء، 1971، 1999ء کارگل وار اور وانا آپریشن کے علاوہ ہر اہم موڑ پر  یہاں کے محب وطن لوگوں کی ناقابل فراموش قربانیوں کو نادیدہ قرار دے کر بعض پروپیگنڈوں کو بنیاد بناکر انہیں دشمنان وطن ڈکلیر کرنے کی کوشش بڑی شد و مد سے جاری ہے۔اسی بنیاد پر انہیں آئینی حقوق سے بھی محروم رکھا جارہا ہے۔ ہمارے ہر قبرستان میں کئی کئی شہید مدفون ہیں اور ان کی قبروں پر آویزاں سبز ہلالی پرچم مملکت خداداد سے وفاداری کا درس دے رہا ہے۔وہ اپنی زبان بے زبانی سے ہمیں کہہ رہا ہے کہ ہم نے اس ملک کی سربلندی کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ بھی بہایا ہے۔ اگر ہم ملک مخالف ہوتے، اگر یہاں کے علما ملک کےخلاف ہمارا برین واش کرتے تو  آج ملک کی سربلندی کے لیے ہمیں جام شہادت نوش کرنے کی توفیق نہ ہوتی۔  پاکستان کے آئین کے مطابق ہر مسلک کے پیروکاروں کو مذہبی آزادی حاصل ہے، اسی طرح مذہبی پیشواؤں سے دلی عقیدت کا اظہار کرنا خواہ ان کا تعلق اندرون ملک سے ہو یا بیرون ملک سے، یہ سبھی شہریوں  کا بنیادی حق ہے۔اس کے یہ معنا ہرگز نہیں کہ یہاں کے  لوگ اپنے ملک پر دوسرے ملک کو ترجیح دیتے ہوں یا ملکی مفادات پر غیر ملکی مفادات کو فوقیت دیتے ہوں۔ پاکستان بننے سے اب تک کبھی یہاں کے لوگوں سے مملکت خداداد کے حوالے سے کوئی خیانت سامنے نہیں آئی۔بلکہ اہالیان گلگت بلتستان کی قربانیاں اور وفاداریاں دوسرے صوبوں کے رہنے والوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ ہم دعوے سے کہ سکتے ہیں کہ ابھی تک یہاں کاکوئی شہری ملک کے اندر خودکش دھماکے میں کام نہیں آیا، یہاں کے کسی شہری نے ملک کے اندر کسی مسجد یا بازاروں میں دھماکے نہیں کیےاور ابھی تک یہاں کے کسی شہری نے قومی خزانے کو نہیں لوٹا۔یہاں سوچی سمجھی سازش کے تحت نشے کو عام کیا جارہا ہے۔ ایک قابل اعتماد وکیل کے بقول جب بعض وکیلوں نے  مل کر ایک چرس سپلائی کرنے والے شخص پر پندرہ کلو چرس سپلائی کرنے کا مقدمہ عدالت میں پیش کیا تو جج صاحب نے یہ کہ کر اس کا مقدمہ خارج کردیا کہ اس نے بچے بھی تو پالنے ہیں۔ پندرہ کلو چرس سپلائی کیا تو کیا ہوا۔ اسی طرح چلاس میں  کسی کے قتل سے متعلق مقدمے کو ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کردیا گیا۔ جب مجرموں کو عدالت سے سزا نہیں ملے گی تو دوسرے لوگ خودبخود ان مجرموں  کی طرف کھنچے چلے جائیں گےاور اس سے بھی گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کریں گے۔ ایک اور ناکام کوشش یہ کی جارہی ہے کہ مسلکی بنیادوں پر لوگوں کو تقسیم کیا جائے۔ تاکہ مشترکہ حقوق کے لیے متحد ہوکر قدم نہ بڑھا سکیں۔مختلف این جی اوز کے ذریعے حوا کی بیٹیوں کو بازار عام میں لانے اور بے حیائی کو عام کرنے کے لیے دن رات کوششیں جاری ہیں۔ضلع گنگچھے کے اندر نوربخشی برادری کو آپس میں لڑانے کی کوشش اس دفعہ محرم الحرام میں ہی کھل کر  سامنے آئی۔ لیکن سنجیدہ طبقے نے اس خطرے کو بھانپ لیا اور آپس میں جھگڑا فساد نہ ہونے دیا۔ یہاں کے امن کو سبوتاژ کرنے کی ایک اورکوشش  عاشورا کے دن  سکردو شہر میں سامنے آئی۔ یہاں غیرمقامی کاروباری سے خطرناک قسم کے اسلحے برآمد ہوئے۔یوں لگتا ہے دشمن ہمہ وقت اس خطے میں آگ لگانے کی کوشش میں محو عمل ہے۔اسی طرح گلگت میں غیر مقامی لوگوں کو سرکاری زمینیں الائیڈ کرکے مقامی لوگوں کو سرکوب کرنے کا سلسلہ  بھی جاری و ساری ہے۔ دہشتگردی اور دوسرے جرائم کے عام ہونے کی  ایک بنیادی وجہ جہالت ہے۔ جہاں جہاں تعلیم عام ہوگی وہاں قتل و غارت اور دوسرے جرائم اسی حساب سے کم ہوں گے۔اللہ تعالی کے فضل و کرم سے گلگت بلتستان تعلیمی میدان میں بہت ترقی کررہا ہے۔ اگرچہ ابھی تک یہاں نہ کوئی سرکاری ٹیکنیکل کالج ہے اور نہ ہی میڈیکل کالج۔ ٹوٹل ایک قراقرم یونیورسٹی ہے۔ لیکن اس کے باوجود پرائیویٹ سیکٹر نے اس حوالے سے کافی کام کیا ہے۔ اس وقت جتنے طلبا تعلیمی میدان میں کامیاب قرار پارہے ہیں ان میں سے 90٪ سے زیادہ کا تعلق پرئیویٹ تعلیمی اداروں سے ہے۔ حال ہی میں صوبائی حکومت کی طرف سے پرائیوٹ تعلیمی اداروں کو کمزور کرنے کی ایک گھناؤنی سازش سامنے آئی۔ لوگوں کی بروقت مخالف کے باعث فی الحال وہ اسے عملی جامہ نہ پہناسکے۔ یوں ابھی یہ تحت الشعاء میں ہے۔اس طرح کی بہت ساری سازشیں ہورہی ہیں جن کو یہاں بیان کرنے کی گنجائش نہیں۔ لہذا یہاں کے علمائے کرام،دانشوران ملت،  عمائدین، صحافی حضرات اور عوام کو ہمہ وقت بیدار رہنے، دشمنوں کی سازشوں کو بھانپنے، آپس میں اتحاد کی فضا کو مستحکم کرنے، مشترکہ اہداف کے لیے سب مل کر کوشش کرنے، یہاں کے امن و امان اور باہمی اخوت و برادری کو نقصان پہنچانے والوں کی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لیے ہر وقت آمادہ رہنے کی اشد ضرورت ہے۔ اسی صورت میں ہی دشمنوں کی سازشوں پر پانی پھیرنا اور گلگت بلتستان کو امن کا گہوارہ بناکر رکھنا ممکن ہے۔

 

 

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *