زمانے نے انقلاب فرانس کی ہولناکیاں بھی دیکھیں مگر بیسویں صدی کے ایران کے اسلامی انقلاب نے اہل زمانہ کو حیرت میں ڈال دیا۔
مقالہ بمناسبت عشرہ فجر انقلاب اسلامی ایران زیر اہتمام: جامعہ روحانیت بلتستان بعنوان: انقلاب اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف دشمنوں کی سازشیں رہبر معظم کے فرامین کی روشنی میں |
۱۱فروری ۱۹۷۹ کو اسلامی انقلاب کی کامیابی ایک عظیم اور حیرت انگیز کامیابی تھی ۔ایک ملت نے کسی بیرونی طاقت کی حمایت کے بغیر، خالی ہاتھ صرف ایمان، ایثار اور جان نثاری کے بل بوتے پر ایک قدیم شہنشاہی نظام کو سر نگوں کر دیا اور اس کے بعد اس عصر جدید اور بیسویں صدی کے اواخرمیں ایک اسلامی جمہوریہ کا نظام قائم ہوا جس کی بنیاد دینی عقائد پراستوارتھی اورایسے نظام کی تاسیس ہوئی جس کا بنیادی ڈھانچہ شریعت اور دین پر مستحکم ہو چکا تھا۔
اس انقلاب کی قیادت آیت اللہ العظمی امام خمینی ؒنے کی۔ انقلاب سے ایران میں محمد رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور اسلامی جمہوریہ ایران وجود میں آیا۔ جس کے پہلے رہبر معظم (سپریم لیڈر)امام خمینیؒ بنے۔ اسلامي انقلاب ایران نے دنيا کو ايک ايسا نظام ايجاد کرکے دکھایا کہ جس کی بنیاد دین و مذہب پر تھی۔
فریڈ ہالی ڈے نے اپنی کتاب ”ڈکٹیٹر شپ اینڈ ڈیولپمنٹ” میں انقلاب ایران کی انفرادیت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
”دنیا میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک ایسی فوج جو کسی بیرونی جارحیت سے ٹکراکر کمزور بھی نہیں ہوئی تھی اور اپنے شہنشاہ کے زیر کمان تازہ دم رہتی تھی مسلسل اور منظم عوامی اقدام کے ذریعے شکست سے دوچار ہوگئی”۔
انقلاب ایران کی تاریخ ساز حیثیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا جس نے بین الاقوامی سیاست کو متأثر کیا۔ ایران کے اسلامی انقلاب نے دنیا کی سپر طاقتوں کے غرور کو چکنا چور کرکے رکھ دیا۔ انقلاب ایران نے اہل زمانہ کو بتایا کہ انسانی اور اسلامی اصولوں پر چل کر کس طرح انسانی حقوق و جمہوری آزادی کا تحفظ کیا جاسکتاہے۔ عصر حاضر میں دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر امریکہ اپنی شاطرانہ سیاست کے ذریعے اسلامی ممالک کو جس طرح کمزور کررہا ہے اور ایران سمیت دوسرےمسلم ممالک کو جس طرح دھمکیاں دے رہا ہے اسے معلوم ہونا چاہیۓ کہ ایران میں امریکی مفادات کو سب سے زیادہ شکست دینے والے قائد انقلاب نے ایسی ہی مغرور اور ظلم پسند طاقتوں کے لئے واضح طور پر کہا تھا: ”جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے انقلاب کو شکست دے سکتے ہیں۔ انھوں نے نہ اسلام کو پہچانا ہے اور نہ ہی ایرانی عوام کو”۔
انقلاب اسلامی کی ایران میں کامیابی کے بعد اور شرق و غرب میں استقلال کے اعلان کی ابتدا ہی سے طاقتو ر حکومتوں نے یہ کوشش کی کہ کسی طرح ایرانی قوم پر دباؤ ڈال کر اسے اپنی طاقت کے سامنے تسلیم ہونے پر مجبور کر دیا جائے۔ دونوں سپر پاور طاقتو ں نے ایران پر بے شمار رکاوٹوں اور مسلسل سازشوں کے ساتھ دباؤ ڈالنے اور انقلاب کے نتیجے کو اپنی نفع میں بدلنے کی بھرپور کوششیں کیں۔ سیاسی، ثقافتی، اقتصادی اور سماجی میدان میں اسلامی انقلاب کو منحرف اور خراب کرنے کی کوشش شروع کی اور آج کل ہم بھی دشمن کی ان سازشوں اور دباؤ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ ر ہے ہیں۔
دشمنوں نے حکومت اسلامی کا تختہ الٹنے کے لئے بہت ساری حکمت عملی کو اختیار کیا ۔ رہبر معظم انقلاب آیت اللہ خامنہ ای نے دشمن کے کچھ پروپیگنڈوں کو اس طرح بیان فرمایا ہے:
1. قومی تفرقہ ایجاد کرنا اور قوموں کے درمیان علیحدگی پسندی کو فروغ دینا
انقلاب کے شروع کے دن آپ جوانوں کو یاد نہیں ۔ انقلاب کے پہلے سال تقریبا ملک کے چاروں کونے پر قومیت کے نعرے سے تنازعہ ہوئے۔ میں خود بلوچستان میں رہ چکا ہوں ۔ وہاں پر مجھے جلا وطن کیا گیا تھا اور بلوچیوں کو میں جانتا تھا، مجھے معلوم تھا کہ ان کا انقلاب کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں لیکن کچھ لوگوں نے بلوچ کے نام پر انقلاب کے ساتھ ایک چال چلی۔ بلکل اسی طرح کا کیس کردستان اور ترکمن کے حوالے سے بھی تھا۔ بعد میں یہ واضح ہو گیا کہ کہاں سےان کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔
امریکیوں کی طرف سے سب سے پہلا یہ کام انجام دیا گیا تھا ، اسلامی جمہوریہ میں بکھرے مخالفوں کو اکسایا اور علیحدگی پسند تحریکوں اور دہشت گردوں کی مدد کی اور یہ حمایت کبھی پیسوں کے توسط سے تو کبھی امریکی عناصر کے ذریعے سے کی جاتی تھی۔
2. ملک پر۸سالہ بزدلانہ حملے
آٹھ برس جنگ میں دشمن ہمارے ساتھ کھلے عام تصادم کرتے تھے۔ ظاہری طور پر تو عراق تھا لیکن عراق کے پیچھے امریکا تھا اور اس بات کو آٹھ سال جنگ کے دوران بار بار ہم نے بتایا اور بہت ساروں نے تو اس بات پر یقین ہی نہیں کیا ، لیکن انہی لوگوں نے جس عراق کو مسلح کیا آج اعتراف کیا ہے کہ یہ فوجی جنگ تھی۔ حقیقت میں تمام استکباری اور کافر دنیا نے اسلام کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران میں یہ جنگ لڑی تھی۔
ایک ملک کو آٹھ سال تک تباہ کیا ۔ یہ کوئی مذاق ہے!؟۔۔۔ آج ہم پر مسلط کردہ جنگ میں امریکہ کی عراق کی امدادکے دستاویزات کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔۔۔ مشرق اور مغرب ایک دوسرے کے ساتھ مل گئے، اس جنگ کو شروع کیا اور ملک کو تباہ کر دیا۔
اب اعتراف کیا ہے کہ ہم نے ایران کے ساتھ جنگ میں صدام حسین کی حمایت کی تھی! آپ کی نظر میں ایران کے مظلوم عوام ان حالات میں اور اس اعتراف کے سامنے کیا احساس کرتے ہیں؟ آٹھ سال کی جنگ صدام کی حکومت کی طرف سے ہم پر مسلط کی گئی، ہمارے شہروں پر بمباری کی گئی، اہم وسائل تباہ ہو گئے، جوانوں کو شہید کیا گیا،قومی دولت کو تباہ کر دیا گیا، خلاصہ یہ کہ ایک عظیم تاریخی سانحہ پیش آیا۔
3. اقتصادی بائیکاٹ
دشمن کا زیادہ دباؤ اس لئے تھا کہ انقلابی فوج کو انقلاب سے الگ تھلگ کر لے اور ہر قسم کی حرکت جسے انجام دے سکتا ہے انجام دے تاکہ عوام کو انقلاب سے جدا کیا جاسکے۔ عوام کی حوصلہ شکنی اورانقلاب کو ختم کرنے کے لئے تشہیر کرتا ہے، اقتصادی بائیکاٹ کرتا ہے اس لئے کہ ملک کی اقتصادی صورتحال کو تباہ کرے اور ملک کے اندر بحرانی صورتحال پیدا ہو۔
وہ مصائب جو ہماری قوم پر ڈھائے گئے تھے کہ جن میں سے ایک آٹھ سالہ جنگ اور اقتصادی ناکہ بندی، سیاسی ناکہ بندی، پروپیگنڈہ اور مختلف دباؤ بیس سال کے عرصے سے لے کر آج تک کس لیے تھا؟۔۔۔میں آپ لوگوں سے عرض کرتا ہوں کہ اس دشمنی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ایرانی قوم نے اپنی زبان اور عمل سے سب کو یہ دکھا دیا اور بتلا دیا کہ غیر ملکی تسلط کے تحت نہیں رہنا چاہیے۔
دشمن کہتا ہے ہم عوام کے دشمن نہیں۔ بےشرمی اور آرام سے جھوٹ بولتا ہے اور زیادہ دباؤ اس لئے ہے کہ ملت پریشان ہو جائیں ، اس طرح عوام اور نظام اسلامی کے درمیان فاصلہ ایجاد کیا جاسکے۔
4. ثقافتی یلغار اور لوگوں کے عقائد پر حملہ
یہ واقعہ جو امام کی زندگی کے دوران چند سال قبل پیش آیا تھا کہ امریکہ کےایک وزیر نے کھلے عام، واضح طور خبر نگاروں کے سامنے کہا کہ ہم ایرانی قوم کی جڑوں کو کاٹ دیں گے۔ دیکھیں کس قدر احمقانہ بیان ہے، ایرانی قوم کی جڑیں پوری دنیا میں پھیل چکی ہیں۔
اسلامی حکومت اوراس کا نظام لوگوں پر منحصر ہے اورلوگوں نے اسے محفوظ کیا ہے اور اگر لوگوں کو مغربی ثقافت ، مغربی تربیت، مغربی دین اور مغربی ادب کے طرف لے جایا جائے تو یہ کام خود بخود باعث بنے گا کہ کچھ سالوں بعد سرمایہ خرچ کئے بغیر ایک مختصر فوجی حملہ اس بڑی رکاوٹ یعنی اسلامی نظام کو مکمل طور پر راستے سے ہٹا یا جائے۔
ثقافتی یلغار کا مقصد نئی نسل کو دین اور انقلابی اصولوں اور اس فعال سوچ سے کہ جس سے سامراج ڈرتا ہے اور اپنی سامراجی قدرت کو خطرے میں دیکھتا ہے، دور کرنا ہے۔
غیر ملکی ثقافت کے نفاذ کے ذریعے قوموں پر قبضہ کرنا کوئی غیر قابل شناخت بات نہیں بلکہ یہ پہلے سے تھا لیکن گزشتہ دو صدیوں میں مغرب نے جو علم حاصل کیا ہے اس کی وجہ سے اپنے تمام کاموں کو نظم و ضبط اور پروگرام اور فارمولے کے تحت انجام دیا ہے اور دیتے رہیں گے۔وہ لوگ جانتے ہیں کہ کس طرح اس کام کو انجام دینا چاہئے اور کس جگہے کو زیادہ ہدف بنانا چاہئے۔ ان کو اس کام کا بھی تجربہ ہو گیا ہے کہ کیسےدوسرے ملکوں اور دوسری قوموں کو ثقافت دینا ہے اور ثقافت بنانے کے پروپیگنڈے کرنے میں وہ بہترین ہیں۔
دشمن ایک غلط ثقافت (کرپشن اورفحشاء کی ثقافت ) کے پھیلاؤ سے ہمارے نوجوانوں کو ہم سے لینے لئے کوشش کر رہا ہے اور جو کام دشمن ثقافتی طور پر کررہا ہے ایک “ثقافتی یلغار” نہیں بلکہ یہ کہا جانا چاہیے ایک “ثقافتی غارت گری” اور ایک “ثقافتی نسل کشی” ہے۔
5. سائنسی اور صنعتی ترقی سے ملک کو روکنا
آج کل جو سامراجی دنیا کے لئے ایک خطرہ سمجھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان قومیں اپنی شناخت، شخصیت ، اصلیت اور آزادی کو سنجیدہ لیں۔ ان لوگوں کا دل چاہتا ہےکہ اسلامی خطے کے ممالک اور مشرق وسطی کے ممالک کہ جو مختلف وجوہات کی بنا پر علمی ترقی کے کاروان سے پیچھے رہ گئے ہیں؛ ہمیشہ جہالت اور نااہلیت کے کنویں میں رہ جائیں۔وہ لوگ پسماندہ ممالک میں ہر قسم کی ترقی کے مخالف ہیں۔ جب وہ لوگ دیکھتے ہیں کہ طاغوتی حکومت کے دور میں پسماندہ ملک آج ایک ایسے ملک میں تبدیل ہو گیا ہے جو علمی اور صنعتی میدان میں شجاعت رکھتا ہے ،جو صنعت اور ٹیکنالوجی کے مشکل میدان میں داخل ہوا ہےاور اس میدان میں ترقی کی راہ پر گامزن ہیں تو وہ خطرے کا احساس کرتے ہیں۔
اگر قوم اپنے آپ کو ترقی اور علم کی چوٹیوں پر پہنچا سکیں تو روحانیت کی ایک عظیم راہ قوموں کے سامنے کھل جائے گی۔ لہذا وہ اسے سبوتاژ کرتے ہیں، مخالفت کرتے ہیں، پروپیگنڈے کرتے ہیں، تحقیر کرتے ہیں، سیاسی اور معاشی دباؤ کا استعمال کرتے ہیں، تاکہ یہ قوم اپنے مقصد تک پہنچنے میں ناکام ہوجائے۔ہمارے دشمن کی ساری کوشش یہی ہے کہ کسی طرح ہمارے جوانوں سے ان کا آگے بڑھنے اور ان کو زندہ کرنے والا جوہر ان سے چھین لے، جس طرح طاغوتی حکومت کے دور میں ہمارے جوانوں سے ان کی خود اعتمادی چھین لی گئی اور وہ اپنے آپ کو ایک یورپی نوجوانوں سے کمتر اور چھوٹا سمجھتے تھے! یورپی نوجوان کیا ہے؟ ایک ایسی مخلوق جو مختلف نفسیاتی مسائل اور مادی اور روحانی مسائل میں گرا ہوا ہے لیکن ہمارے نوجوانوں کے سامنے مدہوش اشتہارات کے ذریعے ایسا نمایاں پیش کیا گیا کہ ان کے سامنے اپنے ٓپ کو حقیر سمجھتے۔
یہ لوگ چاہتے ہیں کے ہمارے آج کے جوانوں سے ان کی خود اعتمادی، ایمان، ابتکار کا جذبہ، خلاقیت کا جذبہ اور ان کی ترقی اور کام کرنے کی خواہش ان سے چھین لیں اور انہیں مختلف پریشانیوں اور مشکلات میں مشغول اور مصروف رکھیں، کسی کو خواہشات نفسانی،کسی کو متروک کاموں اور کسی کو بیکار گھومنے پھرنے میں سرگرم رکھے۔
6. اسلامی نظام کا تختہ الٹنے کی منصوبہ بندی
ہمارے دشمن یہ سوچتے تھے کہ امام ؒ کی وفات کے بعد اس مقدس نظام کے خاتمے کا آغاز ہو جائے گا اور آہستہ آہستہ یہ شمع خاموش ہو جائے گی۔ پھر امام کے جنازے کے موقع پر لوگوں کا جذبہ اور خبرگان کی حمایت پر ان کے بڑے پیمانے پر حرکت نے ان لوگوں کو مایوس کرویا۔ ایک دس سالہ منصوبہ بندی کی، یہ میرا تجزیہ ہے، مراد مطلع کرنا نہیں ہے؛ ایسا تجزیہ ہے جو سَنَد اور دلائل سے ہمیں ثابت ہوتا ہے۔دس سال کے بعد اُمِّید رکھتے تھے کہ انہیں نتیجۂ کار حاصل ہو، ۱۳۷۸ شمسی میں جو سانحات رونما ہوئے اور جس نے اس سانحے کو ناکام بنایا تھا وہ عَوام تھی۔ عَوام گلیوں میں نکل آئی اور دشمن کی دس سالہ سازشی منصوبے کو ایک دن کے اندر ناکام بنا دیا۔ وہ دن گزرگئے۔ دوسری لہر،پھر۱۳۸۸ شمسی تک ایک دس سالہ منصوبہ بنایا گیا۔ان کی نظر میں انہیں موقع ملتے ہی صرف دو تین مہینے کے اندر تہران کو متلاطم کردینا تھا ۔جب لوگوں نے قدس کے دن دیکھا کہ ان کے دل میں کیا ہے، جب عاشور کے دن پتہ چلا کہ ان کی خواہشات کی گہرائی کہاں تک ہے؟ تو اس موقع پر بھی عوام میدان میں نکل آئی اور پورے ملک میں لاکھوں لوگوں نے حماسہ ۹ دی کا آغاز کیا۔ ایرانی عوام پر سلام، سلام ہو ایرانی مومن، مجاہد، ہوشْیار اور آگاہ عوام پر۔ ان شاءاللّہ توفیق حق سےلوگ اسی عزم اور کوشش کو آخر تک جاری رکھیں گے۔
دشمن نے بہت دقیق محاسبہ کیا تھا لیکن پھر اس کے سارے حساب و کتاب غلط ثابت ہوئے؛کیونکہ انھوں نے ایرانی قوم کو نہیں پہچانا تھا۔ دشمن نے پردے کے پیچھے سے سب چیزوں کا مشاہدہ کیاتھااور وہ لوگ جنہیں بغاوت کے شہسوار کہتے تھے؛ وہ وہی ہیں جنہیں دشمن نے میدان کے بیچ دھکیلا تھا۔ یقینا گناہ کیا ۔ انسان کو دشمن کا کھلونا نہیں بننا چاہئے؛ فوری طور پر اسے سمجھ لینا چاہئے اور جیسے ہی پتہ چلے فوری طور پر اس راستہ کو بدل دینا چاہیے۔
7. مذہبی عقائد کو کمزور اور خراب کرنا
ثقافتی اور مذہبی شناخت کی حفاظت نے ہی نئے اسلامی جمہوریہ کو قائم کیا رکھا ہے اور اسے دشمن کے مختلف جارحانہ حملوں کے خلاف مستحکم اور مضبوط بنایا دیا ہے۔اگر دشمن ان اعتقاد کو لوگوں کے اذہان سے صاف کرنے میں کامیاب ہو جائے تو مزاحمت، قربانی اور ایثار بھی اس کے ساتھ ساتھ ختم ہو جائے گا اور ملک دوبارہ غیر ملکی تسلط میں چلا جائے گا۔ ۔ رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای اس بارے میں فرماتے ہیں: وہ لوگ نہیں چاہتے ہیں کہ ان کی آنکھوں کے سامنے دین اور جمہوریت کو ایک جھنڈےپر اٹھایا جائے اور ان کی یہ کوشش ہے کہ جمہوریت اور دین کے درمیان فاصلہ ایجاد کیا جائے۔ اسی وجہ سے دشمن کی یہ کوشش ہے کہ لوگوں کو اسلامی حکومت کی نسبت بددل اور ایمان کی بنیاد، عقیدہ اور دینی اعمال میں کمزور کیا جائے۔
8۔ حاکموں کا احتساب اور لوگوں کے عقاید میں تبدیلی کےلئے نفوذ
میں اپنی معلومات کےمطابق بیان کررہا ہوں کہ ملک کے پروگرام میں رسوخ، سامراج کا ایک انتہائی سنجیدہ پروگرام ہے۔ امریکیوں کا انتہائی اہم خاکہ ہے۔ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح ایران کے اندر نفوذ پیدا کریں۔ یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ یہ رسوخ ملک میں بغاوت یا سرکشی کے لئے کی جا رہی ہے ؛نہیں بلکہ اس نفوذ کا ہدف یا قائِدِین ہیں یا عوام ہیں۔ ہدف قائِدِین اس لیے ہے تاکہ ان کے جانچ پڑتال کو،محاسبات کو تبدیل کیا جائے، ان کی ذہنیت و سوچ کو اپنی منفعت کے مطابق بدل ڈالیں اور پھر جب قائِدِین کی فکر پر مسلط ہو جائیں تو اس صورت میں انہیں براہ راست دخالت کی ضرورت پیش نہیں آئےگی، بلکہ ملک کے قائِدِین وہی کام کریں گے جو وہ چاہیں گے۔
ان کے نفوذ کا دوسرا ہدف عوام ہے، یعنی لوگوں کے اعتقادات کو بدلنا، لوگوں کے ذہنوں میں موجود اسلامی اعتقاد،انقلابی اعتقاد اور سیاسی اعتقاد کو تبدیل کرنا ہے۔
منابع
نوٹ:
نیچے دی گئی تمام تاریخ رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای مد ظلہ العالی کے مختلف مقامات پر کئے گئے خطابات کی تاریخ ہیں۔
: 3 مئی ۲۰۰۸ عیسوی۔
: ۲۱ مارچ، ۲۰۰۹ عیسوی۔
: ۲۹ جولائی، ۱۹۹۲۔
: ۱۳ جولائی، ۱۹۹۲ عیسوی۔
: ۲۵ مارچ، ۲۰۰۰ عیسوی۔
: ۳۱ جنواری، ۱۹۹۷ عیسوی۔
: ۲ فروری، ۲۰۰۰ عیسوی۔
: ۲۷ اپریل، ۲۰۱۳ عیسوی۔
: ۳۰ اکتوبر، ۱۹۹۷ عیسوی۔
: ۲۵ فروری، ۲۰۰۳ عیسوی۔
: ۱۵ جنوری، ۱۹۹۲ عیسوی۔
: ۲۷ جنوری، ۲۰۰۳ عیسوی۔
: ۱۳ جولائی، ۱۹۹۲ عیسوی۔
: ۹ مئی، ۲۰۰۷ عیسوی۔
: ۴ جون، ۲۰۱۱ عیسوی۔
: ۹ جنوری، ۲۰۱۱ عیسوی۔
http://farsi.khamenei.ir/
دیدگاهتان را بنویسید