انقلاب خمینی میں انقلاب حسینی کی جھلک/مختار حسین جعفری
مقالہ کا خلاصہ(چکیدہ)
قیام امام حسین( علیہ السلام) نے انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی اور کامرانی پر بہت زیادہ تاثیر ڈالی ہے یہاں تک کہ امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ)نے خود فرمایا تھا:”انقلاب اسلامی ایران،قیام عاشورہ کی ایک جھلک ہے”۔

انقلاب خمینی نے انقلاب حسینی سے الہام لیتے ہوۓ دنیا کے آزاد فکر انسانوں کے سامنے یہ بات روشن کردی کہ آج کی ماڈرن اور ترقی یافتہ دنیا میں ، مشرق اور مغرب کے فاسد حکمرانوں کی حمایت حاصل کیے بغیر، قرآن و عترت کے قوانین کے مطابق، اسلامی حکومت قائم کرکے معاشرے کو احسن انداز سے چلا کر عوام کی معنوی اور مادی ضرورتوں کو پورا کیا جا سکتا ہے۔پس اس مقالہ میں انقلاب اسلامی اور اور قیام امام حسین( علیہ السلام) کے درمیان پاۓ جانے والے تناسب، تشابہ ، سنخیت اورعناصر مشترک کو بیان کیا گیا ہے۔ ان عناصر مشترک میں سےدین کی بقاء کے لئے قیام ، اصلاح طلبی (امر بالمعروف و نہی عن المنکر) ،حکومت اسلامی کے قیام کی کوشش، عزت کی زندگی کےشعور کو اجاگر کرنا ، وظیفہ شرعی کی انجام دہی اور دینی بدعتوں کے خلاف محاذ آرائی وغیرہ شامل ہیں کہ جن کی تفصیل مقالہ میں بیان کی گئی ہے۔
کلیدی کلمات
امام حسین( علیہ السلام) ، امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ)، انقلاب حسینی ، انقلاب خمینی ، مشترک عنصر ، قیام عاشورہ۔
مقدمہ
قیام امام حسین( علیہ السلام)ایک ایسا حادثہ نہیں تھا کہ جو دس محرم 61ہجری کو واقع ہوا اور اپنے سے پہلے اور بعد میں ہونے والے واقعات اور حوادث سے جدا ہو، بلکہ یہ قیام، صدر اسلام میں ہونے والے معاشرتی، اجتماعی ، دینی اور سیاسی واقعات اور حوادث (رحلت رسول گرامی اسلام( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) سے لے کر 60 ہجری تک) تک مربوط ہے اور اس انقلاب عظیم کے نتائج اور آثار ، مسلمانوں کے فکر اور عمل میں آج تک بلکہ تا قائم قیامت جاری و ساری رہیں گے۔ پس عاشورہ کا قیام، زمان و مکان کی قید سے بالا تر ہو کرتمام انسانیت کے لئے ایک ابدی درسگاہ ہے۔
امام حسین( علیہ السلام) کا قیام ، جہان اسلام میں بلکہ بہت سی غیر مسلم انقلابی آزادی بخش تحریکوں کا پیش خیمہ بنا ہے۔ دنیا کا وہ انقلاب کہ جو انقلاب حسینی سے بہت زیادہ مشابہ، تاثیر پذیر اور بے نظیر ہے ، وہ انقلاب اسلامی ایران ہے۔ انقلاب اسلامی ایران، امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ)کی قیاد ت میں انقلاب حسینی سے الہام لیتے ہوۓ ایران، بلکہ پورےعالم اسلام میں ایک عظیم تبدیلی اور بیداری اسلامی کا موجب بنا۔ انقلاب اسلامی ایران نے 2500 سالہ پرانے شاہنشاہی نظام کوسرنگون کرتے ہوۓ ، شجرہ طیبہ حکومت اسلامی (کہ جس کے قوانین اور دستورات قرآن و عترت سے لئےگئے ہیں) کی بنیاد رکھی۔ اتنی بڑی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ انقلاب امام خمینی نے انقلاب حسینی کو اپنا مشعل راہ بناتے ہوۓ اپنا نمونہ عمل قرار دیا۔
یہ مقالہ تین چیزوں پر مشتمل ہے۔1۔ انقلاب کا لغوی اور اصلاحی معنی 2۔ انقلاب حسینی اور انقلاب خمینی کے درمیان پاۓ جانے والے 20 مشترک عناصر3۔ نتیجہ
لغت میں انقلاب کا معنی: (1)۔ تغیّر و تبدل۔ گردش۔ دور (2) زمانے کا چکر کھانا۔ نیرنگ زمانہ ۔ بنیادی تبدیلی۔ اور انگریزی زبان میں اسے( revolution)کہتے ہیں، قدرت اور حکومت کو ہاتھ میں لینا۔
اصطلاح میں انقلاب کامعنی: پرانے سیاسی یا معاشی نظام کی جگہ نئے نظام کے نفاذ کو انقلاب کہتے ہيں۔ لیکن اس تحریر میں انقلاب سے مراد، انقلاب حسینی اور انقلاب خمینی ہے۔
انقلاب حسینی اور انقلاب خمینی کے مشترک عناصر
انقلاب خمینی، حقیقیت میں انقلاب حسینی کی ایک جھلک ہے، اس لئے انقلاب حسینی اور انقلاب خمینی میں کچھ عناصر ، مشترک ہیں کہ ان میں سے مہم ترین عناصر کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے۔
1. اصلاح طلبی (امر بالمعروف و نہی عن المنکر)
عاشورہ کے قیام کا مہم ترین پہلو ، اسلامی معاشرے کی اصلاح ہے۔ وہ معاشرہ کہ جو اسلامی اقدار سے کوسوں دور ہو، بے بند و باری، فساد اخلاقی، لوگوں پر ظلم و ستم ،مومن کی ہتک حرمت ، شراب خوری، جھوٹ اور اللہ کے صالح بندوں کا قتل عام ہو چکا ہو، مسلمانوں کی جان، مال اور ناموس خطرہ میں ہو، دین اور عقیدہ میں بدعتیں ظاہر ہوچکی ہوں، اس طرح کے معاشرہ میں سب سے پہلے اصلاح کی ضرورت ہے۔ اسی لئے امام حسین( علیہ السلام) نے اپنے قیام کا مہم ترین ہدف، اپنے نانا کی امت کی اصلاح بتا تے ہوۓ فرمایا:”و انما خرجت لطلب الاصلاح فی امۃ جدی”۔
انقلاب اسلامی ایران کے رہبر کبیر نے بھی ، قیام امام حسین( علیہ السلام) کو نمونہ عمل قرار دیتے ہوۓ ، ایرانی معاشرے کے اندر غاصب اور ستمگر حکومت کی طرف سے پھیلاۓ گئے مفاسد کی اصلاح کو اپنا مطمع نظر قرار دیا۔ امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا:”تمام انبیاء، معاشرے کی اصلاح کے لئے آۓ، اور سب کے سب نے اس بات پر زور دیا :” فرد کو چاہیے کہ وہ معاشرے کی اصلاح کے لئے اپنے آپ کو نثار کرے تاکہ معاشرے کے اندر اصلاح ایجاد ہو”
2. دین کی بقاء کے لئے قیام
انقلاب اسلامی کی کامیابی کی اصل وجہ، شاہ ایران کا دین اسلام کے سامنے علم بغاوت بلند کرنا ہے ، حالانکہ دین کی عزت، عظمت اور احترام کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ اس کی بقاء اور حفاظت کے لئے شریف ترین انسان اور اللہ کی معصوم ہستیاں یعنی انبیاء اور آئمہ (علیہم السلام) اپنی جان تک قربان کرنے پر فخر محسوس کرتے ہيں اور اپنا فریضہ الہی سمجھتے ہيں۔ دین اسلام، وہ دین ہے کہ جس پر امام حسین( علیہ السلام) اور ان کے اصحاب باوفانے جان قربان کر دی۔ ہم زیارت اربعین میں پڑھتے ہیں” آپ نے اپنے خون کو اللہ کی راہ میں نثار کردیا، تاکہ اللہ کے بندوں کو جہالت اور گمراہی کی سرگردانی سے بچا سکیں”۔
امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) نے بھی دین خدا کی بقاء کے لئے امام حسین(علیہ السلام) کی فداکاری کو بیان کرتے ہوۓ فرمایا:” اسلام اتنا عزیز ہے کہ اولاد رسول( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) نے اپنی عزیزجان کو اسلام پر نثار کردیا”۔ امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ) نے بھی جب دیکھا کہ اسلامی معاشرے میں دین فقط نظریہ اور زبان کی حد تک باقی رہ گیا ہے اور مسلمانوں کے کردار اور رفتار میں دین، حقیقی معنوں میں وجود نہیں رکھتا اور دین تباہی کے دہانے پرلا کر کھڑا کردیا گیا ہے تو اس وقت آپ نے پہلوی طاغوت یعنی شاہ ایران کے خلاف قیام کا آغاز کیا۔
3. حکومت اسلامی کے قیام کی کوشش
جب سید الشہداء نے دیکھا کہ امامت اپنے اصلی مسیر سے منحرف ہو چکی ہے اور نا اہل لوگ خلیفہ ، جانشین پیامبر اور حکومت اسلامی کے مطلق العنان حاکم کے طور پر اپنے آپ کو دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں تو امام حسین( علیہ السلام) نے امامت اور خلافت کو اپنی اصلی جگہ پر لانے کے لئے قیام کو عملی جامہ پہنایا تاکہ سب لوگ اس بات کی طرف متوجہ ہوں کہ لوگوں کا رہبر اور پیشوا کچھ خاص شرائط جیسے ایمان، تقوی الہی کا حامل ہوتا ہے اورہر فاسق و فاجر لوگوں پر حکومت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔
اسی وجہ سے امام حسین( علیہ السلام) نے مختلف مقامات پر اپنے آپ کو حکومت اسلامی کی رہبری کا مستحق بتایا اور غاصبان حکومت کی برکناری کا مطالبہ کیا۔ایک جگہ پر آپ ( علیہ السلام) فرماتے ہیں:” مجھے اپنی جان کی قسم، امام صرف وہی ہو سکتا ہے کہ جو کتاب خدا کے مطابق داوری (فیصلہ) اور حکومت کرے ، عدل و انصاف کو قائم کرے، دین حق کے سامنے سر تسلیم خم ہو اور اپنے آپ کو راہ خدا میں وقف کر دے۔” اسی طرح امام حسین( علیہ السلام) نے کوفہ کی راہ میں، سپاہ حر کو خطاب کرتے ہوۓ فرمایا:”ہم خاندان رسول( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) ہیں اور تمھارے پر حکومت اور ولایت میں دوسروں کی نسبت ( کہ جو نا حق اس کے مدعی ہیں اور ظلم اور ستم کے ذریعے سے تم پر حاکم ہیں) زیادہ سزاوار اورمستحق ہیں”۔
نظام جمہوری اسلامی کے بانی نے بھی پہلوی حکومت کو غاصب کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوۓ ، ان ظالم اور جابر حکمرانوں کے خلاف علم قیام بلند کیا اور ایران کے لوگوں کو اس بات سے آگاہ کیا کہ مسلمانوں پر حکومت کرنے کا حق صرف، علماء دین( کہ جو آئمہ معصومین( علیہ السلام) کے بر حق جانشین ہیں)کا ہے ۔ بنابرین، عدالت اور تقوی سے عاری، جابر اور ظالم لوگ مسلمانوں پر حکومت کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ جب ایران کی سمجھدار عوام پر یہ عقدہ کھلا تو جان و دل سے ولایت فقیہ یعنی حکومت اسلامی کو قبول کیا۔
4. عزت کی زندگی کےشعور کو اجاگر کرنا
قیام عاشورہ نے انسانوں کو بنی امیہ کے دنیا طلب، ظالم اور ستمگر حکمرانوں کے چنگل سےنجات اور ذلت و حقارت سے بھری زندگی سے رہائی دے کر انہیں عزت اور وقار کی زندگی کے شعورسے سرفراز کیا۔امام حسین( علیہ السلام)نے بتا دیا کہ انسانی غلامی ایک عار ہے، ایک ذلت ہے، اور اس ذلت کی زندگی سے مر جانا ہی بہتر ہے اور اللہ وحدہ لا شریک کے دروازے پر سرجھکانے والا انسان کبھی کسی طاغوتی طاقت کے سامنے سر نہیں جھکا سکتا۔ اس کا سر کٹ تو سکتا ہے، مگر جھک نہیں سکتا۔ اس کا سر نوک نیزہ پر بلند تو ہو سکتا ہےمگر یزیدیت کی اطاعت قبول نہیں کر سکتا۔ اسی لئے فرماتے ہیں:”خدا کی قسم ذلت کا ہاتھ(بعیت) ان کے سامنے دراز نہیں کروں گا اورغلاموں کی طرح ان کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کروں گا۔
امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ) نے بھی ایرانی عوام کو سفاک پہلوی بادشاہ کے ظلم ، اذیت اورشکنجوں سے نجات دی اور ایرانی عوام کا ایک نعرہ بھی، یہی آزادی اور عزت کی زندگی کے ساتھ رہنا تھا۔ امام راحل(رحمۃ اللہ علیہ) نے اس بات کا لوگوں کے اندر احساس پیدا کیا کہ مشرقی اور مغربی غاصب حکمرانوں کے سیطرہ سے آزاد ہو کر ہی آزاد زندگی گزاری جا سکتی ہے۔
5. وظیفہ شرعی کی انجام دہی
ان دونوں قیاموں میں تکلیف شرعی کی انجام دہی عنصر مشترک ہے۔ جب حاکم مکہ کی جانب سے دو آدمی، امام حسین( علیہ السلام) کے لئے امان نامہ لاۓ تاکہ امام حسین( علیہ السلام) کو عراق کی طرف سفر کرنے سے روک سکیں۔ امام حسین( علیہ السلام) نے فرمایا:” میں نے خواب میں پیامبر اسلام( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) کو دیکھا ہے اور ان کے فرمان کو پورا کرنے کے لئے جاؤں گا ، چاہے یہ سفر میرے فائدہ میں ہو یا ضرر میں”۔
اسی طرح ہم، امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) نےقطعنامہ 598 کے بارے میں فرمایا:”میں آپ کو پہچانتا ہوں ، آپ مجھے جانتے ہیں، اس فضا میں وہ چیز کہ جو اس امر(قطعنامہ کو قبول کرنا) کی موجب بنی وہ تکلیف الہی تھی “۔ ایک اور جگہ پر فرمایا:” ہم سب تکلیف اور وظیفہ شرعی کے مامور ہیں ، ہم نتیجہ کے ذمہ دار نہیں ( نتیجہ، خدا پر چھوڑتے ہیں)
6. ظالم حاکم کے خلاف جہاد
امام حسین( علیہ السلام) کے زمانے میں لوگ ایسی ظالم اور فاسد حکومت کے زیر سایہ زندگی بسر کر رہے تھےکہ جو دینی مقدسات ، مسلمانوں کی ناموس اور اسلام عزیز کی حرمت کے قائل نہ تھی اور اسلامی اقدار، اس منحوس حکومت کے ذریعہ سے نیست ونابود ہو رہی تھیں۔ امام حسین( علیہ السلام) نے اپنے نانا کی سیرت پر عمل کرتے ہوۓ اس حکومت کو کہ جو حلال محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) کو حرام اور حرام محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) کو حلال کیے ہوۓ تھی کے خلاف علم جہاد بلند کیا ۔
امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ) عاشورہ کے جہاد اور شہادت کو ابدی قلمداد کرتے ہوۓ فرماتے ہیں:” انقلاب اسلامی ، انقلاب عظیم عاشورہ کی ایک جھلک ہے۔” اسی طرح ایک اور جگہ پر فرماتے ہيں:”وہ دن کہ جو ہم پر گزرے ہیں ، عاشورہ کا تکرار ہوا ہے، کہ جس میں گلیوں ، کوچوں، بازاروں اور سڑکوں پر فرزندان اسلام کے خون کو بہایا گیا “۔ اتنے زیادہ شہداء دینے کے باوجودبھی امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ) اور آپ کی قوم نے ظالم اور فاسد حاکم کے خلاف مقاومت اور مبارزہ سے ہاتھ نہیں اٹھایا۔
7. دینی بدعتوں کے خلاف محاذ آرائی
قیام عاشورہ کے اہداف میں سے ایک ہدف،اموی خاندان کی طرف سے، اسلام میں پیدا کی گئی بدعتوں اور تحریفوں کا مقابلہ کرنا تھا۔ امام حسین( علیہ السلام) نے قیام کربلا اور امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ) نے قیام پانزدہ خرداد ( 15 خرداد) میں دینی بدعتوں کے خاتمے کے لئے علم قیام بلند کیا۔ امام حسین( علیہ السلام) نے بصرہ کے بزرگوں کو اپنے خط میں لکھا:” میں تمہیں ، اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کی طرف دعوت دیتا ہوں، فانّ السنۃ قد امیتت و البدعۃ قد احییت” بتحقیق سنت، محو ہو گئی اور بدعت ظاہر ہو چکی ہے۔پس اس شوم حکومت کے خلاف قیام کرتے ہوۓ، بدعتوں کا خاتمہ کریں اور اسلام خالص محمدی( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) کوابوسفیانی اور اموی اسلام سے جدا کریں۔
امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ) نے بھی فرمایا تھا:” محمد رضا شاہ پہلوی کی حکومت اپنے آپ کو مسلمان اور امام رضا( علیہ السلام) کی خدمت میں کمر بستہ ظاہر کرتے ہیں اور عوام، ان کے کاموں کو اسلامی سمجھتے ہوۓ ان کی اطاعت کرتے ہیں” پھر فرمایا:” ہم کوشش کریں تاکہ جہالت اور خرافات کے حصار کو توڑ کر اسلام خالص محمدی(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کے صاف و شفاف چشمہ تک پہنچ جائیں اور آج اس دنیا کی غریب ترین چیز ، یہی دین اسلام ہے اور اس کی نجات کے لئے قربانی درکار ہے اور دعا کریں کہ ان قربانیوں میں سے ایک قربانی میں (خمینی ) قرار پاؤں۔ اس طرح آپ نے اسلام محمدی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو امریکی اسلام سے جدا کیا اور لوگوں پر واضح کیا کہ دین اسلام، پہلوی حکومت کے بتاۓ ہوۓ دین سے مختلف ہے۔
8. عورتوں کا مردوں کے شانہ بشانہ قیام میں شریک ہونا
انقلاب حسینی میں مخدرات عصمت بالخصوص جناب زینب عالیہ (سلام اللہ علیھا) نے دین کے احیاء میں امام حسین( علیہ السلام) کا مکمل طور پر ساتھ دیا۔ جس طرح کہ کہا جاتا ہے :”اگر جناب زینب(سلام اللہ علیھا) نہ ہوتیں تو کربلا، کربلا میں ہی دفن ہو جاتی”۔ یہ جناب زینب عالیہ اور سید سجاد( علیہ السلام) کا کارنامہ ہے کہ کربلا کے واقعہ کو لوگوں کے اذہان سے مٹنے نہیں دیا اور اس انقلاب حسینی کو قیامت تک کے لئے ابدی بنا دیا۔
انقلاب خمینی میں بھی دیندارعورتیں ، انقلاب کے اوائل سے ہی مردوں کے شانہ بشانہ میدان عمل میں سرگرم رہیں اور انقلاب کو کامیاب بنانےمیں اپنا اہم رول ادا کیا۔ اس طرح سے امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) نے اسلامی معاشرے میں عورتوں کو پاکدامنی اور عفت کا لحاظ رکھتے ہوۓ ، اجتماعی ، سیاسی اور معاشرتی کاموں میں حصہ لینے کو احیاء کیا اور اس فکر اور نظریہ ( عورتیں صرف گھر کی چاردیواری کے اندر محبوس رہیں) پر خط بطلان کھینچ دیا اور لوگوں کو اسلام حقیقی کے اس پہلو سے روشناس کرایا۔
9. رضایت پروردگار
سید الشہداء(ع)، خدا تعالی کی رضایت اور تقدیر کے سامنے کاملا سر تسلیم خم کیے ہوۓ تھے اور رضایت پروردگار کی خاطر تمام سختیوں اور مشکلوں کو صبر اور تحمل کے ساتھ برداشت کیا ۔ ان کی بہن جناب زینب عالیہ (علیھا السلام) نے بھی ابن زیاد کے دربار میں، اس کے طنز کے جواب میں فرمایا:” ما رأیت الّا جمیلا” میں نے کربلا میں زبیائی اور خوبصورتی کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیکھا”۔
امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ) بھی ہمیشہ، رضایت الہی اور اس کی قضا کے سامنے تسلیم تھے اور جب ان کا بیٹا مصطفی خمینی شہید ہوا تو فرمایا:”
مصطفی کی موت، اللہ تعالی کے خفیہ الطاف میں سے ایک لطف ہے”۔
10. اخلاص
امام حسین( علیہ السلام) کی انقلابی حرکت میں اخلاص کا پہلو سب سے نمایاں اور عیاں نظر آتا ہے۔ آپ( علیہ السلام) کے قیام میں کسی اورغرض کا عمل دخل نہيں تھا۔اسی طرح آپ ( علیہ السلام) کے اصحاب باوفا آخری لمحے تک خالصانہ طور پر آپ کے ہمرکاب لڑتے ہوۓ جام شہادت نوش کیا۔ اسی طرح انقلاب اسلامی کے قیام میں اخلاص کے علاوہ کسی اور غرض کا عمل دخل نہیں تھا اور امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ) نے اس قیام کی غرض ، رضاۓ الہی، وظیفہ شرعی کی انجام دہی اور حکومت اسلامی کی برقراری کے علاوہ نہیں جانا اور اسی بات کا مختلف مواقع پربار بار اظہار بھی فرماتے رہے اور عمل سے بھی یہی ثابت کیا یعنی آپ کی نظر میں حکومت اسلامی کا قیام جاہ و جلال، مقام و منزلت اور دنیا طلبی کے لئے نہیں تھا بلکہ مقصد، رضاۓ الہی کا حصول تھا۔
11. خدا تعالی پر توکل
سید الشہداء( علیہ السلام) نے اپنے قیام میں قدرت لایزال الہی پر اعتماد کیا اور اپنے آپ کو غیر خدا پر تکیہ کرنے سے بے نیاز جانا اور فرمایا:”سیغنی اللہ عنکم” میں خدا پر توکل کرتا ہوں اور وہ مجھے تم (لوگوں) سے بے نیاز کردے گا۔ رہبر کبیر انقلاب اسلامی ایران نے بھی اس وقت شاہ ایران کے خلاف انقلاب کا قدم اٹھایا جب لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ جب تک مشرق یا مغرب والے حکمرانوں کی پشت پناہی حاصل نہ ہو ، انقلاب بے فائدہ اور بے نتیجہ ہے، لیکن امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ) نے مشرقی اور مغربی پشت پناہی لئے بغیر، قدرت خدا وندی پر توکل کرتے ہوۓ ، شاہ کے خلاف اپنے قیام کو علنی کیا اور کامیاب ہوۓ۔
12. قوت ارادی
قوت ارادی کا عنصر بھی، دونوں قیاموں میں آشکارانظر آتا ہے۔امام حسین( علیہ السلام) نے اعلان کیا تھا کہ اگر میرا کوئی حمایت کرنے والا ساتھی نہ رہے،پھر بھی یزید کی طرف بیعت کا ہاتھ دراز نہیں کروں گا، چونکہ یہ بیعت مشروعیت نہیں رکھتی۔ فرمایا:” واللہ ان لم یکن فی الدنیا ملجا ولا ماوی لما بایعت یزید بن معاویہ”۔
جمہوری اسلامی ایران کے رہبر کبیر امام خمینی(رح) نے بھی اپنے انقلاب کی ابتداء میں یکہ و تنہا اس حکومت پہلوی (کہ جو اسلحہ سے لیس فوج اور سپاہ کی مالک تھی) کے مقابلے میں قیام کیا ۔ جب عراقی بعثی حکومت نے سال 1357ش میں امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ) کو اپنے ملک سے نکالنے کا اقدام کیا اور کویتی حکومت نے بھی اما م کو قبول کرنے سے انکار کردیا تو اس موقع پر فرمایا:” اگر دنیا کا کوئی بھی ملک مجھے پناہ نہ دے، میں کشتی پر سوار ہو کر سمندروں کے اعماق (گہرائی) میں بھی ظالم اور ستمگر پہلوی حکومت کے خلاف ساکت نہیں بیٹھوں گا اور اپنی اور ایران کی عوام کی آواز کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچاؤں گا۔
13. روحانی قیادت
انقلاب حسینی میں انقلاب کی باگ ڈور ایک معصوم امام ( علیہ السلام) یعنی حسین ابن علی( علیہ السلام) کے ہاتھ میں تھی اور انقلاب اسلامی کی قیادت کے فرائض، امام حسین( علیہ السلام)کےنائب اورجانشین فقیہ، خلف صالح، روح اللہ موسوی نے انجام دیے ۔ دونوں کی قیادت اپنے ماننے والوں کے صرف جسم پر حاکم نہ تھی بلکہ ان کی روح و رواں پر بھی حکومت کر رہی تھی۔ جسموں پر ڈنڈے کے ذریعے سےحکومت کرنا آسان ہے اور یہ دنیا پرست لوگوں کا وطیرہ ہے ، لیکن روح و رواں پر حکومت کرنا، امام معصوم یا نائب امام کا کام ہے۔
14. تقیہ کی حرمت
چونکہ تقیہ کا حکم ، قرآن و سنت سے ثابت ہے لیکن یہ تمام زمان اور مکان کے لئے قطعی حکم کی حیثيت نہيں رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے، امام حسین( علیہ السلام) اور امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنے اپنے زمانے میں تقیہ کو حرام قرار دیا اور اور امام حسین( علیہ السلام)نے یزید (لع) کے خلاف اور امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ) نے شاہ ایران کے خلاف قیام کا آغاز کیا۔
“آٹھویں ذوالحجہ61 ہجری کو امام حسین( علیہ السلام) نے حج تمتع کو عمرہ میں تبدیل کر کے، یزید کے خلاف اپنے قیام کو علنی کیا اور کوفہ کی طرف جانے کا عزم بالجزم کیا۔ عمر ابن سعد نے آپ( علیہ السلام) کو اس کام سے منع کرتے ہوۓ کہا:” اے حسین ! کیا آپ خدا سے نہیں ڈرتے؟ امت اسلامی میں اتفاق کی بجائے ، تفرقہ اندازی چاہتے ہو؟ امام حسین( علیہ السلام) نے جواب میں اس آیت کی تلاوت کی۔”وَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل لِّي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ ۖ أَنتُم بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ”۔ اور اگر وہ آپ کو جھٹلائیں تو فرما دیجیے! میرا عمل میرے لئے ہے اور تمہارا تمہارے لئے جو کچھ میں کرتا ہوں اس سے تم بری الذمہ ہو اور جو کچھ تم کرتے ہو، اس سے میں بری الذمہ ہوں۔
امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) نے بھی سنہ 1342 ھ ش میں، مدرسہ فیضیہ پر وحشیانہ حملہ کے بعد آیات عظام کو ٹیلی گراف میں لکھا: ” یہ لوگ شاہ کی دوستی کا شعار دیتے ہوۓ، مذہبی مقدسات کی توہین کرتے ہيں۔ شاہ دوستی؛ یعنی غارت گری، اسلام کی ہتک حرمت، مسلمانوں کے حقوق پر ڈاکہ ، اسلامی یادوں کو آگ لگانا، اسلامی آثار کو محو کرنا، شاہ دوستی؛ یعنی روحانیت کی تباہی اور رسالت کے آثار کو نیست و نابود کرنا، علماء کرام ، متوجہ رہیں، اس وقت اصول اسلام خطر ہ میں ہيں، قرآن و مذہب خطرہ میں ہیں، اس لئے (اس زمانے میں)، تقیہ حرام ہے اور حقائق کا اظہار واجب (ولو بلغ ما بلغ)”۔
15. قیام فی سبیل اللہ
امام حسین ( علیہ السلام) ور امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ) دونوں کا قیام قربۃ الی اللہ اور فی سبیل اللہ تھا ۔ جب ضحاک بن قیس نے امام حسین( علیہ السلام) کو کوفیوں کے ارادے سے با خبر کیا کہ وہ آپ سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہیں تو فرمایا: ” حسبی اللہ و نعم الوکیل؛ یعنی خدا میرے لئے کافی ہے اور وہ میرا تکیہ گاہ اور وکیل ہے”۔ اسی طرح امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کے بارے میں مقام معظم رہبر نے فرمایا:” رہبر عزیر (امام راحل) کی سب سے بڑی تعریف اور تمجید یہ ہے کہ انہیں عبد اللہ ؛ یعنی اللہ کا بندہ اور پروردگار کے سامنے سر تسلیم خم کرنے وانے والا کے نام سے یاد کریں”۔
16. شہادت طلبی
قیام حسینی( علیہ السلام) اور قیام خمینی(رح) شہادت طلبی کے عنصر پر استوار اور قائم ہیں۔ امام حسین( علیہ السلام) کی روز عاشور کی مناجات میں سے ایک یہ ہے” اے میرے اللہ! میں دوست رکھتا ہوں کہ تیری راہ اور تیری اطاعت میں ستر ہزار بار قتل ہوں اور بالخصوص میرے قتل ہونے میں تیرے دین کی نصرت ، تیرے فرمان کے زندہ ہونے ، اور تیری شریعت کی ناموس کی حفاظت چھپی ہو”۔ اسی طرح امام حسین( علیہ السلام) نے جب مکہ سےحرکت کرناچاہی تو فرمایا:”من کان باذلا فینا مھجتہ فلیرحل معنا” جو بھی شہادت کا طالب ہے وہ ہمارے ساتھ چلے”۔
امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ) نے بھی قیام حسینی سے متاثر ہوتے ہوۓ فرمایا:” سرخ موت ( شہادت کی موت)، سیاہ زندگی سے کئی بار بہتر ہے اور آج ہم شہادت کے انتظار میں بیٹھے ہيں تا کہ ہمارے فرزند ، عالمی کفر کے مقابلے میں سرفرازی کے ساتھ قیام کریں “۔ اسی طرح ایک اور مقام پر امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا تھا”وہ ملت کہ جس کی نظر میں شہادت، سعادت کی حیثیت رکھتی ہے، وہ میدان عمل میں کامیاب ہے، پس ہمارےقتل کرنے اور قتل ہو جانے میں کامیابی مضمر ہے”۔
17. عدالت طلبی
قیام امام حسین( علیہ السلام) اور قیام امام خمینی ( رح) کی بنیاد عدالت پر رکھی گئی ہے۔ امام حسین( علیہ السلام) کی زیارت میں پڑھتے ہيں:”میں شہادت دیتا ہوں کہ تو نے عدالت اور انصاف کا دستور دیا “۔ جناب مسلم بن عقیل نے بھی ابن زیاد کو خطاب فرماتے ہوۓ کہا:” ہم (کوفہ) اس لئے آۓ ہیں تاکہ عدالت کے ساتھ فرمان الہی جاری کریں، اور قرآنی حکم کی طرف دعوت دیں”۔ امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) نے بھی اسی طرح کی بات کا اظہار کیا:” آیا ہمارے خون کا رنگ ، سید الشہداء کے خون سے زیادہ سرخ ہے۔ ہم اپنا خون دینے یا اپنی جان کو اسلام پر نثار کرنے سے کيوں ڈریں؟وہ بھی سلطان جابر کے مقابلے میں کہ جو کہتا ہے :” میں مسلمان ہوں”۔ یزید کا اسلام بھی شاہ کے اسلام کی طرح تھا، اگر بہتر نہيں تو کمتر بھی نہیں تھا۔
18. جہاد بہ نفس
حضرت سید الشہداء کے اصحاب اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنے والے تھے اور ان کے مقصد اور ہدف میں ہوا و ہوس کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ اسی وجہ سے وہ مال و منال، مقام و شہرت وغیرہ سے آزاد ہو کر قیام کربلا میں شریک ہوۓ اور دنیا اور آخرت کی سعادت کے مستحق ٹھہرے۔ اسی طرح امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ) نے بھی جہاد بالنفس کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی جہاد بالنفس کی طرف دعوت دی۔ آپ نے فرمایا:” اپنے آپ کی خود تربیت (جہاد بہ نفس) کریں تا کہ قیام کا پرچم بلند کرسکیں، اپنے آپ کی تربیت سے مراد یہ ہے کہ احکام خدا کی اطاعت کریں”۔
19. صبر و استقامت
صبر اور استقامت کا نمونہ کربلا کے میدان میں بہت عیاں اور روشن تھا، خود امام حسین( علیہ السلام) بڑے بڑے مصائب کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح صابر اور مقاوم تھے اور اپنے اصحاب اور اہلبیت( علیہم السلام) کو صبر ، پائیداری اور استقامت کی تلقین کرتے رہے۔ حضرت امام حسین( علیہ السلام) کی زبان پر، زندگی کے آخری لمحات میں بھی یہ مناجات جاری تھیں”صبرا علی قضائک یا رب، لاالہ سواک۔۔۔ صبرا علی حکمک یا غیاث من لا غیاث لہ”۔
حضرت امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنی قوم کو صبر و استقامت کی تلقین کرتے ہوۓ فرمایا:”شہداء کے پیارے خاندان، گم ہوجانےوالوں، قید کیے جانے والوں اور ایران کی اس عوام کو جو استقامت اور پائیداری کی وجہ سے سیسہ پلائی ہوئی دیوار میں تبدیل ہو چکے ہیں’ کو مبارک ہو! اسی طرح ان لوگوں کو مبارک باد ہو کہ جنہیں انٹرنیشنل استکباری طاقتیں خوف و ہراس میں نہ ڈال سکیں اور نہ ہی اقتصادی پابندیاں انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکیں”۔
20. فتح اور شکست کے معیار کا بدلنا
امام حسین( علیہ السلام) کے قیام نے اس بات پرمہر تصدیق ثبت کی کہ ہمیشہ فتح کامعنی، فوجی اور عسکری کامیابی نہیں ہے، بلکہ کبھی کبھار مظلومیت کا اسلحہ، آہنی اور آتشین اسلحہ پر فائق آجاتا ہے اور شہداء کا خون، جابر اور ستمگر حکمرانوں کو نیست و نابود کر کے تاریخ کے کوڑے دان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پھینک دیتا ہے۔ کربلا کے میدان کا تصور کرکے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہيں کہ ایک طرف دشمن کی مادی طاقت کی پوری یلغار، حکومت کی منظم فوجوں کی یورش، خزانوں کے منہ کھلے ہوۓ، بے شمار تلواروں کی جھنکار، بے انتہا نیزوں کی جھلک اور ہزاروں کمانوں کا کھچنا اور دوسری طرف بہتر 72 بھوکے پیاسے، جن میں بوڑھے، بچے اور کمزور عورتیں ہیں کہ جن کو لے کر فرزند رسول( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) دنیا کی سب سے بڑی طاقت سے نبرد آزما ہونے کے لئے کربلا میں موجود ہے۔
بہتر افراد کی شہادت کے بعد چشم فلک نے دیکھا کہ عاشور کی شام کو فوج یزید، اپنی ظاہری فتح کا جشن منا رہی ہے۔ ہاۓ ہو اور شور و شر سے کربلا کا میدان گونج رہا ہے اور ایک طرف خیموں کی جلی ہوئی راکھ اور گرم ریت پر شریف ترین انسانوں کے بے گور و کفن لاشے پڑے ہوۓ ہیں اور کچھ بیکس اور بے سہارا عورتیں عالم قید میں ریت کے ٹیلوں کی اوٹ میں خاموش بیٹھی ہیں۔ دنیا تو یہ سمجھ رہی تھی کہ حق کو شکست ہوگئی اور باطل نے فتح کے شادیانے بجا دیے ، لیکن تاریخ نے بتا دیا کہ حق شکست کے لئے پیدا نہیں ہوا، حق کبھی نہیں ہارتا۔ آج دنیا نے دیکھ لیا کہ امام حسین( علیہ السلام) کو فتح اور یزید کو بری طرح سے شکست ہوئی ہے۔ گویا دنیا کے سب سے بڑے ڈکٹیر ( (dictatorکا نام گالی بن گیا۔
انقلاب امام خمینی( علیہ السلام) کے انقلاب میں بھی دشمن کی فوج اسلحہ سے لیس تھی اور اس کے علاوہ مشرق اور مغرب کی استکباری طاقتوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ رفتہ رفتہ عوام نے امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ) کے پیغام کو سنا ، سمجھا اور آپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوۓ ، میدان رزم میں اتری۔عوام کی مظلومیت نے رضا شاہ کو شکست فاش دی حتی کہ اسے اپنے ملک میں قبر تک نصیب نہیں ہوئی، اس کے بر عکس آج بھی درود بر خمینی کی صدائیں ، دنیا بھر کے آزاد منش انسانوں کی زبان پر جاری ہيں۔
تحریر کانتیجہ
اس تحریر کا نتیجہ یہ ہے کہ انقلاب اسلامی ایران نے انقلاب حسینی کو اپنا نمونہ عمل قرار دیتے ہوۓ، حکومت اسلامی بمعنی واقعی (قرآن و اہلبیت کے قوانین پر مبنی حکومت) کو تشکیل دیا کہ جس کا سپریم لیڈر اسلام شناس ولی فقیہ ہے۔ اس انقلاب نے انسانوں کے اندر شہادت، شجاعت، ظلم کے خلاف محاذ آرائی، عدالت خواہی، مستضعفین کی مدد، دین کی حمایت، قرآن و سنت کے احیاء اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا۔
پس انقلاب حسینی اور انقلاب خمینی کے مشتر ک عناصرکو نتیجہ کے طور پر ان الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
1. انقلاب حسینی اور انقلاب خمینی نے دنیا میں ایک ایسا باغ لگا دیا ہے کہ جس کے پھل انسانیت کو ہمیشہ ملتے رہيں گے اور جس کے درختوں کے زیر سایہ ستائی ہوئی انسانیت، ہمیشہ پناہ لیتی رہے گی۔
2. انقلاب حسینی اور انقلاب خمینی، انسان کو پناہ دینے کے ضامن ہيں۔
3. انقلاب حسینی اور انقلاب خمینی کا ذکر، انسانیت کی سربلندی کا باعث ہے۔
4. انقلاب حسینی اور انقلاب خمینی کی یاد، انسان کو کھویا ہوا مقام دلا سکتے ہے۔
کتابیات
1. ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، علامہ، قم۔
2. خمینی(رحمۃ اللہ علیہ)، روح اللہ، صحیفہ نور، وزارت فرھنگ و ارشاد اسلامی، تہران،1368ش۔
3. خمینی، روح اللہ، کلمات قصار، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی ۔
4. زہیری، علی رضا، عصر پہلوی بہ روایت اسناد، معارف، تہران، 1379ش۔
5. شریفی مقدم، محمود، موسوعۃ الامام حسین( علیہ السلام)، پژوہشکدہ باقر العلوم ، قم 1374ق۔
6. فیروز الدین، فیروز اللغات جامع، فیروز سنز، لاہور۔
7. قرشی، باقر شریف ، حیاۃ الحسین بن علی، دار الکتب العلمیۃ، قم، 1394ق۔
8. قمی، عباس، مفاتیح الجنان ، زیارت اربعین، حافظ نوین ، چاپ دوم۔
9. کاشانی، مجید، جامعہ شناسی انقلاب، دانشگاہ پیام نور، تہران، 1378۔
10. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، مؤسسۃ الوفاء، 1403ق۔
11. مفید، محمد بن محمدبن نعمان، ارشاد شیخ مفید ، کنگرہ ہزارہ شیخ مفید، قم، 1413ق۔
12. مقرّم، عبد الرزاق، مقتل الحسین، مکتبہ بصیرتی قم، 1394ق۔
مجلّات
1. احمدوند، معروف علی، نقش حماسہ ی حسینی؛ در انقلاب خمینی(رحمۃ اللہ علیہ)، ماہ نامہ پاسدار اسلام، بہمن1386 – شمارہ 314۔ نورمیگز : 1226509 http://www.noormags.ir/view/fa/articlepage/۔
2. شیرودی، مرتضی، از انقلاب حسینی تا انقلاب خمینی، ماہ نامہ معرفت، بہمن 1381- شمارہ62 ((ISC۔ نور میگز: http://www.noormags.ir/view/fa/articlepage/21185۔
مختار حسین جعفری
طلبہ کارشناسی ارشد،تفسیر وعلوم قرآن،
مجتمع آموزش عالی امام خمینی( رح)، قم
دیدگاهتان را بنویسید