اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سیکھیں / تحریر: بشیر مقدسی
ایک شخص جو خوددار اور عزت نفس سے سرشار تھا لیکن غربت اور ناداری کی وجہ سے اس کا برا حال تھا۔ تھکن اور ناامیدی سے نڈھال رہتا تھا۔ ایک طرف زندگی کی تلخیوں سے پریشان تھا‛ بیوی بچوں کی حالت زار سے چشم گریاں تھا۔ ناامیدی اور مایوسی کے دلدل میں روز بہ روز پھنستا جارہا تھا‛ تنہائی اور بے کسی کا احساس کھائے جارہا تھا تو دوسری طرف عزت نفس اور خوداری جیسے نیک صفتیں بھیک مانگنے کی راہ میں مانع بن رہی تھیں. مگر اس سے ننھے بچوں کی ناگفتہ بہ حالت دیکھی نہیں گئی، دل میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مدد مانگنے کا مصمم ارادہ باندھ کر بزم رسالت میں شرفیاب ہوا. مگر بات زبان پرآتے آتے رہ گئی اور دل کی مراد دل ہی دل میں دب کر رہ گئی. تین مرتبہ کچھ مانگنے کی غرض سے چلا‛ ہر بار دل کی بات زبان پر لانے میں کامیاب نہ ہوسکا۔

مگر جس سے مدد مانگی جارہی تھی وہ کوئی عام انسان نہیں تھا بلکہ ایک مہربان اور بنا کہے دل کی بات سمجھ لینے والی ذات تھی. اس سے پہلے کہ وہ شخص بزم رسالت مآب کو ترک کرے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حاضرین سے بطور عام اور اس شخص سے بطور خاص فرمایا: جو ہم سے کچھ مانگتا ہے اسے ہم دے دیتے ہیں۔ مگر ہم اس شخص کو زیادہ پسند کرتے ہیں جو بھیک مانگنے کے بجائے اپنی محنت اور لگن کے بل بوتے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے. اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سیکھیں۔ یہ جملہ اس خستہ حال اور ناامید شخص کے لئے نہ فقط مشعل راہ ثابت ہوا بلکہ کسی خوشگوار جھونکے کی مانند اس کے بے جان جسم کو ایسے چھوگیا کہ اسے نئی جان اور بہار کی نوید مل گئی۔ اس کے مدہم جسم میں امید ٹمٹمانے لگی. اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا ٹھان کر گھر کو چلا۔ مگر ناامیدی اور مایوسی کے بادل ایک بار پھر امنڈ گھمنڈ کر آیا اور اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کیونکہ اس کے پاس نہ کوئی اثاثہ تھا اور ناہی کوئی قابلیت کہ جس کے بل بوتے وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے. پر اس نے ہمت نہیں ہاری‛ کچھ ڈھونڈ رہا تھا کہ نگاہ گھر میں پڑی کلہاڑی پر ٹک گئی۔ کلہاڑی لیکر جنگل کی طرف لپک گیا اور خشک لکڑی لاکر بازار میں فروخت کرنے کا کام شروع کردیا. کچھ دنوں میں حالات بہتر ہوئے اور گدھا خریدنے کا پیسہ بھی مہیا ہوا. لکڑی لانےکے لئے گدھے کا سہارا لیتے ہوئے اس مختصر سی تجارت کو وسیع پیمانے پر انجام دینا شروع کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ غریب اور نادار مگر با ہمت اور خود دار شخص شہر کا سب سے امیر اور مالدار شخص بن گیا.
یقینا کیمیا کا کام کرجاتا ہے معصومین کا فرمان۔ دونوں جہاں سنور جاتے ہیں ان لوگوں کے، جو ان کے فرامین کو مشعل راہ قرار دیتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں ۔ چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام نے جابر حجفی سے فرمایا: دنیا اور آخرت کی کامیابی ہماری اطاعت اور پیروی کرنے میں مضمر ہے.
یہ سبق آموز قصہ جہاں ہماری انفرادی زندگی کے لئے مشعل راہ بن سکتا ہے، وہیں ہماری اجتماعی زندگی کے متعلق بھی اس سے درس لیا جاسکتا ہے۔ جس طرح ایک ناچیز اثاثے کو بروئے کار لاکر انسان زمانےکا سب سے امیر شخص بن سکتا ہے تو اسی طرح اپنے اندر موجود قابلیت اور ایبلیٹی کو بروئے کار لاکر دنیا کے کامیاب ترین لوگوں میں بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ صرف اپنے اندر موجود استعداد اور ایبلیٹی پر اعتماد کرتے ہوئے اسے پروان چڑھانے کی ضرورت ہے اور اجتماعی و معاشرتی لحاظ سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ ترقی، پیشرفت اور وقار اس قوم کے افراد کا قدم نہیں چومتی جو ہمیشہ یہ توقع لگائے بیٹهتے ہیں کہ کوئی مسیحا آئے اور ان کے سارے مسائل کو حل کرے۔ ترقیاتی کاموں کی انجام دہی میں کوتاہی برتتے ہیں.
نہ سیاسی اور سماجی شخصیات سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کا سلیقہ جانتے ہیں اور نا ہی اپنی مدد آپ کے تحت علاقے کی پسماندگی دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ صرف اپنی پسماندگی کے لئے بعض دیگر افراد کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے دل کی بھڑاس نکالنے کو اپنا مشغلہ سمجھتے ہیں یا کسی کی دشمنی میں اس کی لائی ہوئی اسکیم کامیاب ہونے نہیں دیتے ہیں. ایسی قوموں کو ترقی اور پیشرفت نصیب نہیں ہوتی ہے (اگر چہ یہ اس کام میں حق بجانب ہی کیوں نہ ہو۔) ایسی قوموں کے نصیب میں دوسروں کے سامنے دم ہلانے اور ان کی خوشی کی خاطر ناچنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا ہے.
ترقی اور پیشرفت اس قوم کا قدم چومتی ہے جو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی انتھک کوشش کرتی ہے. ذمہ دار اور سماجی افراد (نمائندوں) کی عدم توجہ یا کم توجہی کی صورت میں وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں رہتے بلکہ متحد اور یک صدا ہوکر اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے تگ و دو کرتے ہیں۔ ناکامی کی صورت میں اپنے موجوده اور آنے والی نسلوں کے بارے میں احساس ذمہ داری کرتے ہوئے اپنی مدد آپ اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر اپنے علاقے کی تعلیمی اور دیگر پسماندگیوں کو دور کرنے کی انتھک کوششیں کرتے ہیں. اپنے معاشرے میں موجوده باصلاحیت افراد کی نشاندہی کر کے انہیں معاشرے میں ابھرنے اور اپنے آپ کو منوانے کا موقع بخشتے ہیں. ایسی قومیں ہمیشہ سرفراز رہی ہیں اور ہمیشہ باوقار اور باعزت رہیں گی. اب آپ خود فیصلہ کریں کہ آپ کی قوم کا شمار کن میں ہوتا ہے. مگر توجہ رکھنا که اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سیکھیں۔
? راھنمائے تحریر فورم?
دیدگاهتان را بنویسید