تازہ ترین

ایران سے متعلق عمرفاروق کے شبہات- ہمارے جوابات/تحریر: محمد حسن جمالی

یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ہر لکهنے والا باکمال نہیں ہوتا‛ اسی طرح ہر تحریر بهی ارزشمند نہیں ہوا کرتی- مفید تحریر کو معرض وجود میں لانے کے لئے لکهنے والا تحریری اصول، آداب، شرائط اور اسلوب نگارش سے بخوبی واقف ہونا ضروری ہے- نیز توجہ رہے صداقت کسی بهی مفید تحریر کی جان ہوتی ہے- حقائق پر مبنی تحریر ہی قیمتی اور ارزشمند ہوتی ہے –

شئیر
24 بازدید
مطالب کا کوڈ: 3531

لیکن آج صحافتی دنیا پر ایک سرسری نگاہ ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس مقدس شعبے میں حقائق پر قلم اٹهانے والے انگشت شمار ہیں- اس میدان کے شہسواروں کی اکثریت زمینی حقائق سے کوسوں دور تحریروں کے ذریعے اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کررہی ہوتی ہے- جس کی بہت ساری وجوہات ہیں‛پہلی وجہ یہ ہے کہ آج کل میدان صحافت میں ہر کوئی قسمت آزمائی کررہا ہے، جب کہ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ قلم کار بننا ایک خاص صلاحیت کا متقاضی ہے‛ دنیا میں جیسی انسانوں کی طبیعتیں مختلف ہوتی ہیں اسی طرح ان کی صلاحیتیں بهی یکساں نہیں ہوتیں- اسی وجہ سے انسان کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنی صلاحیتوں کا علم حاصل کرے‛ پهر اسی کے مطابق کسی شعبے کا انتخاب کرکے محنت کرنا شروع کرے- صحافت کا شعبہ بہت ہی مقدس ہے- قلم کی حرمت کا خیال رکهتے ہوئے امانت اور صداقت کی پاسداری بہر حال ضروری ہے- ہمارا المیہ بھی  یہی ہے کہ آج کل کے لکهنے والے امانت و صداقت کا بہت کم خیال رکهتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے لکهنے والوں کی تحریریں دوسروں کی گمراہی کا سبب ب جاتی ہیں- جو تحریر حقائق اور صداقت سے خالی ہو اس کی کوئی قیمت نہیں ہوا کرتی۔ چند روز قبل آئی بی سی اردو پر صداقت سے تہی اور زمینی حقائق سے کوسوں دور  تجزئیے پر مبنی ایک تحریر نگاہ سے گزری، جسے لکهنے میں جناب عمر فاروق صاحب نے وقت ضائع کیا ہے- ذیل میں ان کی تحریر کے اہم حصے کا مختصر جواب لکهنے کی کوشش کی گئی ہے۔ قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں: انہوں نے اپنی تحریر کا عنوان یہ لکها ہے *( کیا ایران میں عرب بہار آنے کو ہے؟ )* یہ عنوان ہی اس بات کا پتہ دینے کے لئے کافی ہے کہ ایران کے بارے میں قلم کار کی معلومات صفر ہیں – ورنہ پوری دنیا جانتی ہے کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے ایران پر نہ فقط خزان چهائی ہوئی تهی بلکہ پورا ایران رضاشاہ پہلوی کے ہاتهوں ظلمت کدہ بنا ہوا تها- ایرانی معاشرے میں انصاف ناپید تها، ظلم کا بول بالا تها، لوگ اغیار کا غلام مطلق بنے ہوئے تهے، عوام کو نہ اظہار رائے کی آزادی تهی اور نہ ہی امور مملکت میں مداخلت کرنے کا اختیار حاصل تها- ہاں فحاشی اور عریانی کے اظہار پر کوئی پابندی نہیں تهی- بے راہ روی‛ فسق و فجور‛ عریانی کا دور دورہ تها- بلکہ مغربی ثقافت وتہذیب کی تقلید کرتے ہوئے جو جتنا فحاشی پهیلانے میں کردار ادا کرتا شاہ کے ہاں وہ اتنا ہی محبوب ومقرب قرار پاتا اور رضا شاہ اسے انعام واکرام سے نوازتا- عورت اپنا اعلی و ارفع مقام کهو چکی تهی، وہ یا تو کهانے پینے کی چیزوں کے لئے اشتہار یا پهر للچائی ہوئی نظروں کے لئے تسکین کا ذریعہ بن چکی تهی- انقلاب سے قبل کا ایران بهی آج کے بعض مسلم ممالک کی طرح امریکہ کے ہاتهوں یرغمال بنا ہوا تها- ایران کی پوری ثروت سے امریکہ استفادہ کرتا تها- ایران کا شاہ خائن تمام قومی سرمایہ کو اپنا اور اپنے خاندان کی عیاشی کا ذریعہ سمجھتا تھا۔ جھوٹی شان و شوکت اور عیاشی میں قومی سرمائے کو پانی کی طرح بہایا جاتا تھا۔ ڈھائی ہزار سالہ جشن تاج پوشی میں، جس میں دنیا کے تمام ممالک کے حکمرانوں اور سرکردہ شخصیتوں کو مدعو کیا گیا، جس قدر شراب استعمال کی گئی اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ رقص و سرود اور عیش و نوش کی محفلیں گرم ہوئیں اور بیش قیمت تحائف اور نذرانوں سے مہمانوں کو نوازا گیا۔ قومی سرمائے کو عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کے بجائے عیش و عشرت اور لہو و لعب کی باتوں میں بربادکیا جاتا رہا۔ ملک کے عوام بھوکے مررہے تھے اور غیر ملکی بینکوں کے شاہی کھاتوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ جب شاہ ایران سے فرار ہوا اس وقت اس کے نام سے بائیس ارب ڈالر امریکہ اور سوئزرلینڈ کے بینکوں میں جمع تھے- لیکن انقلاب اسلامی کی کامیابی سے نہ صرف ایران میں بہار آئی بلکہ انقلاب نے ایرانی قوم کو تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لے آیا- ظلم کا خاتمہ ہوا ،عدل کا نظام قائم ہوا، طبقاتی تفریق مٹ گئی‛ تعصبات کی جڑیں کٹ گئیں، ایرانی قوم نے متحد ہوکر امام خمینی جیسی خبیر وبصیر زمانے کی نبض پر ہاتھ رکهنے والی عظیم شخصیت کی قیادت قبول کرلی، جس کا فائدہ یہ ہوا کہ ایرانی قوم کو اسلامی حکومت کے زیر سایہ عزت و سربلندی کی زندگی نصیب ہوئی- پس عمر فاروق صاحب تعصب کی عینک اتار کر دیکهئے تو آپ کو بهی معلوم ہوگا کہ ایران میں تو جس دن انقلاب آیا اسی دن بہار بھی آگئی ہے‛ آج تک ایرانی قوم کی زندگی بہار ہی میں گزررہی ہے اور ان شاء اللہ اب ایران سدا بہار ملک رہے گا۔ پهر آگے وہ لکهتے ہیں *( 2011 کے اوائل میں جب مشرق وسطی کے ملکوں تیونس، مصر، یمن، لیبیا میں حکمرانوں کے خلاف احتجاجی تحریکیں شروع ہوئیں ……ایران نے اس عرب بہارکابھرپورفائدہ اٹھایا۔ عراق میں امریکا کی مدد سے اپنی حکومت قائم کی، شام میں جب عرب بہارکے جھونکے آئے تو ایران بشارالاسدکے ساتھ کھڑاہوگیا )*

“قارئین کرام” ان سطروں میں ذرا غور کیجیےکیونکہ ان کی باتوں میں کهلا تضاد پایا جاتا ہے- ایک طرف سے رائٹر نے لکها ہے کہ عرب بہار کا بهرپور فائدہ اٹهاکر ایران نے عراق میں امریکہ کی مدد سے اپنی حکومت قائم کی اور دوسری طرف سے لکها ہے “شام میں جب عرب بہار کے جهونکے آئے تو ایران بشار الاسد کے ساتھ کهڑا ہوگیا ” جناب ان متضاد باتوں سے کیا ثابت کرنا چاہتا ہے-کیونکہ ایران امریکہ کا یا دوست ہوسکتا ہے یا دشمن- آپ کی باتوں سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایران امریکہ کا دوست بهی ہے اور دشمن بهی۔ اس لئے کہ بقول آپ کے ایران نے عراق میں اپنی حکومت قائم کرنے کے لئے امریکہ سے مدد لی۔پس ایران امریکا کا دوست ہے اور پهر لکها شام میں ایران بشار الاسد کے ساتھ کھڑا ہوا۔ پس ایران امریکا کا دشمن ہے۔ان کی خدمت میں اتنا عرض کرنا کافی ہے کہ جناب والا پراپیگنڈہ کرنے کے لئے بهی عقل درکار ہوتی ہے‛ حقیقت یہ ہے کہ ایران امریکا کو اپنا اصلی دشمن سمجهتا ہے، جس سے مدد لینا تو دور کی بات‛ ایران کرہ ارض پر اس کے وجود کو ہی نجس وپلید سمجهتا ہے، اسے دنیا کے تمام فسادات اور خبائث کی ماں سمجهتا ہے اور اس پر لعن ونفرین کرنے کو عبادت سمجهتا ہے- ہر نماز کے بعد ان کی مسجدوں سے مردہ باد امریکہ‛ مردہ باد اسرائیل کے نعرے وہ عبادت سمجھ کے لگایا کرتے ہیں۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایران اپنے اصلی دشمن سے مدد لے لیں- رہی بات شام میں ایران بشار الاسد کے ساتھ کهڑا ہونے کی تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں‛ اگر ایران بشار الاسد کی حمایت نہ کرتا تو ہمیں تعجب کرنے کا حق تها کیونکہ شام میں امریکا نے جو جنگ مسلط کی تو اس کا اصل ہدف ایران تها- وہ عراق اور شام میں اپنے داعشی جنگجو کے ذریعے مسلمانوں کو خاک وخون میں نہلاکر ایران کو ڈرانا دہمکانا چاہتا تها تو اس حساس موقع پر ایران اپنا دفاع نہ کرتا تو واقعتا ہمیں تعجب ہوتا۔ مگر ایران کی بابصیرت قیادت نے اپنے اصلی دشمن کی سازشوں اور عزائم کو خوب درک کیا اور اسے دونوں محاذ پر بری طرح شکست دے کر مایوسی سے دوچار کرایا- قلم کار سرفراز حسینی صاحب کی تحریر کے مطابق عراق شام اور لبنان ایسے محاذ ہیں جو براہ راست ریاست جمہوری اسلامی ایران کی خارجہ و دفاعی پالیسی کا ہراول دستہ اور ریڈ لائن ہیں، ایران اگر عراق شام اور لبنان کے محاذ پر امریکا، اسرائیل اور ان کےحواریوں سے شکست کھا جاتا ہے تو پھر اس کے اپنے نظریاتی اور جغرافیائی  وجود کو براہ راست خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ لہذا چاہتے نا چاہتے بھی ایران کو ان محاذوں پہ جو براہ راست شاید اس کے اپنے محاذ نہیں، میں کودنا پڑتا ہے۔ ان معاملات کا حتمی نتیجہ سفارتی، دفاعی اور معاشی میدانوں میں مشکلات کی شکل میں سامنے آتا ہے۔جس کا مقابلہ صرف ایک نظریاتی قوم ہی کر سکتی ہے۔. پهر راقم نے اپنی تحریر کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک جگہ لکها ہے *( عرب دنیا کا موقف ہے کہ ایران کا جارح ایجنڈہ ان کے لئے خطرنا ک ہے۔ ایران براہ راست شام کے اندر لڑائی میں مصروف ہے۔ عراق میں اس کے جارحانہ عزائم کی عملی شکل نمایاں ہے۔ اسی طرح لبنان میں اس کی ” پراکسی ” جنگ جاری ہے۔ غزہ ، یمن اور بحرین میں اس کی جارحیت کے مظاہر ہیں۔)* یہاں رائٹر نے تعصب کا کهلا مظاہرہ کیا ہے -ورنہ پوری دنیا جانتی ہے کہ عرب ممالک, انقلاب ایران کی بدولت خواب غفلت سے بیدار ہوچکے ہیں -ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہونے سے پہلے عرب ممالک کے باسی بادشاہی نظام کے زیر سایہ محکوم رہنے کو اپنی تقدیر کا لکها سمجهتے تهے- جمہوری نظام کے بارے میں وہ سوچ بهی نہیں سکتے تهے لیکن انقلاب اسلامی نے انہیں بیدار کیا, ایرانی قوم کی بیداری نے ان کی آنکهیں کهول دیں اور ان کے ذہنوں میں یہ فکر ڈال دی کہ ظالم اور جابر حکمرانوں کے مظالم سے چھٹکارا پانے کا واحد راستہ ان کے خلاف قیام کرنا ہے۔ چنانچہ لبنان، مصر، تیونس، یمن، بحرین  اور دوسرے عرب ممالک کے عوام نے نظام آمریت کے خلاف قیام کیا مگر اکثر ملکوں میں صالح قیادت کے فقدان کے سبب ابهی تک وہ اپنے اہداف میں کامیاب نہیں ہوئے اور جن عرب ملکوں کو صالح شجاع لیڈر نصیب ہوا انہیں کامیابی ملی ہے یا ملنے والی ہے جیسے لبنانیوں کو حسن نصر اللہ جیسے فقید المثال شجاع لیڈر ملا تو اسرائیل جیسی طاقت کو مختصر مدت میں شکست دے کر تاریخ ساز کامیابی حاصل کر لی- سعودی عرب کے علاوہ تقریبا سارے ممالک نے اسلامی بیداری کا خیر مقدم کیا اور وہ ایران کی دوستی پر فخر کرتے ہیں۔ ایران ایک اسلامی ملک ہونے کے ناطے ساری دنیا کے مظلوم مسلمانوں کا دفاع کرنے کو اپنے لئے ضروری سمجهتا ہے۔ اگر آج دیکها جائے تو غزہ‛ یمن اور بحرین کے مسلمانوں سے زیادہ مظلوم کون ہے. اگر دل کھول کر ان کی مادی اور معنوی کوئی ملک مدد کررہا ہے تو وہ ایران ہے- اسلامی ملک تو سعودی عرب بهی تها مگر افسوس آج یمن کے لاکهوں مسلمان سعودی عرب کے بموں کی زد میں خاکستر ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ تو جناب عمر فاروق ذرا خدا کو حاضر و ناظر رکھ کر بتائیے غزہ یمن اور بحرین میں امریکا‛ اسرائیل اور ان کا اتحادی و صمیمی دوست سعودی عرب جارحیت کررہا ہے یا ایران؟ 

آخر میں مضمون نگار نے گزشتہ دنوں مہنگائی کے خلاف ایران میں ہونے والے عوامی احتجاج کو غلط رنگ دے کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور قارئین کو یہ تاثر دینے کی سعی لا حاصل کی ہے کہ ایران میں انقلاب” عوامی امنگوں کے خلاف ہے‛ایرانی عوام کو ایران کا موجودہ نظام پسند نہیں- جب کہ ایسا بالکل نہیں- ایران کے بعض مقامات پر پچھلے ہفتے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کچھ مالی اداروں کی بے ضابطگیوں کے خلاف ایک ٹولے نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا, جو کسی بهی جمہوری ملک میں عوام کا حق بنتا ہے- چنانچہ ایرانی پولیس نے اسے جمہوری حق گردانتے ہوئے احتجاج کرنے والوں کو کهلی آزادی دے دی، کوئی آنسو گیس یا لاٹهی چارچ تک نہیں ہوئی۔ لیکن ایران کے داخلی وخارجی دشمنوں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور خارجی دشمن امریکہ واسرائیل نے داخلی فتنہ گر منافقین گروہ کو ایک بار پهر اس موقعے سے سوء استفادہ کرنے کا عندیہ دیا- چنانچہ اس بے ضمیر گروہ نے مہنگائی کے خلاف کئے ہوئے عوامی مظاہروں میں گھس کر اپنے آقا امریکا کو خوش کرنے کے لئے نظام جمہوریہ اسلامی ایران کے خلاف نعرہ بازی شروع کی اور غیر ملکی، امریکی، یورپی، صیہونی اور عرب میڈیا نے خاص طور پر ان افراد کے نعروں اور احتجاج کو بڑا چڑها کر اپنے اخباروں میں جگہ دے کر دنیا والوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ ایران کا انقلاب رو بہ زوال ہے -شاہ کا زمانہ لوٹ آنے والا ہے و..مگر یہ ان کی سخت بهول ہے- ایران کا انقلاب اب ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرچکا ہے, جس کی جڑیں اب مضبوط ہوچکی ہیں- ایرانی عوام روز بروز دشمن شناسی میں ماہر ہوتے جارہے ہیں- دشمنوں کی چالوں‛  فریب کاروں کو ناکام بنانا اب ان کے لئے بائیں ہاتھ کا کهیل ہے۔ جس کی ایک جهلک فتنہ گر ٹولے کی فتنہ گری کے بعد کے تین دنوں میں  ایران کے پورے شہروں اور قصبوں میں نظام انقلاب، رہبر کی حمایت اور فتنہ گر گروہ اور ان کے آقاؤں کی جاہلانہ حرکت کے خلاف ایران کے کوچہ و بازاروں میں غیور ایرانی عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔ کیا پهر بهی کوئی یہ دعوی کرسکتا ہے کہ ایرانی قوم نظام ولایت فقیہ کو نہیں چاہتی *-اللہ تعالی ہمیں حق کہنے‛ حق بات لکھنے اور حق کا دفاع کرتے ہوئے جینے اور مرنے کی توفیق دے آمین*

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *