تازہ ترین

ایران میں انتخابات کے بارے میں رہبر انقلاب کا اہم خطاب

  رہبر انقلاب اسلامی نے نجف آباد شہر کے ہزاروں عوام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران میں انتخابات کی اہمیت کی وجہ صرف ووٹ دینا نہیں ہے بلکہ انتخابات کے معنی ظالمانہ پابندیوں اور دباؤ کے بعد دشمنوں کے مقابلے میں ایرانی قوم کے ڈٹ جانے کے ہیں۔     رہبر انقلاب اسلامی […]

شئیر
17 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1464

 

رہبر انقلاب اسلامی نے نجف آباد شہر کے ہزاروں عوام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران میں انتخابات کی اہمیت کی وجہ صرف ووٹ دینا نہیں ہے بلکہ انتخابات کے معنی ظالمانہ پابندیوں اور دباؤ کے بعد دشمنوں کے مقابلے میں ایرانی قوم کے ڈٹ جانے کے ہیں۔

 

 

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پارلیمنٹ کے دسویں اور مجلس خبرگان کے پانچویں انتخابات کے موقع پر انقلاب دشمنوں کی پالیسی اور انتخابات کے بارے میں اہم نکات بیان فرمائے ہیں۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے نجف آباد شہر کے ہزاروں عوام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران میں انتخابات کی اہمیت کی وجہ صرف ووٹ دینا نہیں ہے بلکہ انتخابات کے معنی ظالمانہ پابندیوں اور دباؤ کے بعد دشمنوں کے مقابلے میں ایرانی قوم کے ڈٹ جانے کے ہیں۔

 

گزشتہ سینتیس برسوں کے دوران انقلاب اسلامی کے دشمنوں نے ہمیشہ اس بات کی کوشش کی ہے کہ ایران میں انتخابات کو ایک ظاہری کارروائی قرار دے کر عوام کو ووٹنگ میں بھرپور شرکت سے باز رکھیں۔ دشمنوں کا خیال تھا کہ وہ خصوصا حالیہ عشرے کے دوران ایران کے خلاف پابندیاں لگا کر لوگوں کو نظام اور انقلاب اسلامی سے دور کر سکتے ہیں۔ لیکن دشمنوں کی خواہش کے برخلاف ایرانی قوم نے بارہا پارلیمانی، صدارتی، کونسلوں اور مجلس خبرگان کے انتخابات میں اپنی بھرپور اور موثر شرکت کے ساتھ اس سازش کو ناکام بنا دیا۔

 

رہبر انقلاب اسلامی کے زاویہ نگاہ سے انتخابات کے ذریعے مذموم مقاصد سے مقابلے کے میدان میں ایک عظیم قوم کی وفاداری، شجاعت اور قومی ثابت قدمی اور طاقت کا پتہ چلے گا۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے گزشتہ سینتیس برسوں کے دوران مختلف ادوار میں ہونے والے انتخابات کے دوران دشمنوں کی جانب سے استعمال کئے جانے والے ہتھکنڈوں کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ ایران میں انتخابات کے انعقاد کا انکار یا ان کو ڈھونگ قرار دینا درحقیقت انتخابات میں عوام کی شرکت میں کمی لانے اور پہلے سے طے شدہ نتیجے کی بنا پر ان انتخابات میں شرکت کو بے فائدہ قرار دینے کا منفی پروپیگنڈہ انتخابات میں لوگوں کو شرکت سے روکنے کے لئے تسلط کے نظام کے پروپیگنڈے کا ایک حصہ ہے۔ حتی بعض مواقع پر تو امریکی حکومت نے واضح الفاظ کے ساتھ اس سلسلے میں موقف اختیار کیا۔

 

ایران میں دینی جمہوریت اسلامی اقدار کی بنیاد پر حکمرانی کا ایک نمونہ ہے۔ ایرانی عوام نے گزشتہ سینتیس برسوں کے دوران اس نظام حکومت کی حمایت کی ہے۔ انتخابات میں عوام کی بھر پور اور موثر شرکت سے اس حمایت کی نشاندہی ہوتی ہے۔ سنہ دو ہزار تیرہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات نے دشمنوں کو اس بات کے اعتراف پر مجبور کر دیا کہ ایرانی عوام نے انتخابات میں بھر پور شرکت کی۔ ایران کے ساتھ یورپی حکومتوں ، جن میں امریکہ سرفہرست ہے، کی دشمنی کی وجہ سے انہوں نے انتخابات کے اس دور میں نظام کے سلسلے میں ایرانی معاشرے میں اختلافات اور ان میں خلیج پیدا کرنے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق ہر مقابلے کی طرح انتخابات میں بھی جوش و جذبہ اور جیت اور ہار پائی جاتی ہے۔ لیکن انتخابات میں حاصل ہونے والی اس جیت یا ہار کے معنی ایرانی قوم کے دو دھڑوں میں تقسیم ہونے اور آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہونے کے نہیں ہیں۔ اور ایران میں دو دھڑوں کی موجودگی کا تاثر ایک جھوٹ ہے۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے ایران میں دو حقیقی دھڑوں کو اسلامی انقلاب اور امام خمینی رح کے اصول و مقاصد کا وفادار دھڑا اور دوسرے کو سامراجی محاذ اور اس کا ہم خیال دھڑا قرار دیا اور فرمایا کہ ان دو دھڑوں میں ساری ایرانی قوم انقلاب اسلامی اور امام خمینی رح کے اصولوں اور مقاصد کے ساتھ وفادار ہے۔

 

دنیا کے ہر خطے میں عوامی اور شفاف انتخابی نظام میں مختلف جماعتیں حصہ لیتی ہیں اور ان میں سے ہر جماعت اپنا ایجنڈا پیش کر کے لوگوں کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ مختلف جماعتوں کی موجودگی سے سیاسی فضا دو دھڑوں یا چند دھڑوں میں تقسیم ہونے کا سبب بنتی ہے۔ یہ دھڑے ان ممالک کے آئین اور حکمفرما اقدار کے دائرہ کار میں بنتے ہیں۔ ممالک اس بات کی اجازت نہیں دیتے ہیں کہ یہ جماعتیں ملکی آئین یا حکمفرما اقدار سے ماورا ہو کر اپنی سرگرمیاں انجام دیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران بھی اس اصول سے مستثنی نہیں ہے۔ انتخابات کے اس مرحلے کے امیدواروں کو چاہے اعتدال پسند، انتہا پسند یا اصلاح پسند قرار دیا جائے اسلامی انقلاب کے دشمنوں کے مقابلے میں وہ سب ایک جیسا موقف رکھتے ہیں۔ وہ سب آئین اور ملک میں حکمفرما اقدار پر یقین رکھتے ہیں۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *