تازہ ترین

ایران پر گرفت اور اسرائیل سے چشم پوشی

نوبل انعام یافتہ جرمن ادیب اور شاعر گُنتر گراس کی زیرِ نظر نظم بعنوان “What must be said” کے دو مختصر اقتباسات درج ذیل ہیں: “یہ اسرائیل کی جانب سے ایٹمی حملے میں پہل کرنے کا برائے نام حق ہے جو ایرانی عوام کو تباہی اور بربادی سے ہمکنار کرسکتا ہے۔ فقط اِس مفروضے کی بنا پر کہ ایرانی حکومت ایٹمی ہتھیار بنانے میں مصروف ہے”٭٭٭ “مگر میں اِس باب میں اسرائیل کا نام لینے کی جرأت کیوں نہیں رکھتا‘ جو برسوں سے اپنی نیوکلیئر طاقت کو برق رفتاری کے ساتھ بڑھانے میں مصروف ہے

شئیر
49 بازدید
مطالب کا کوڈ: 164

مگر آج تک اُس کی نگرانی اور تفتیش و تحقیق کا سوال کیوں نہیں اُٹھایا گیا؟ خود میں آج تک مہر بلب کیوں ہوں؟ اِس خوف سے کہ جونہی میں نے اِس باب میں لب کشائی کی مجھ پر یہود مخالف نازی ہونے کا الزام عائد کر دیا جائے گا اور اسرائیل اِس برملا حقیقت کا اعتراف کرنے سے ایک بار پھر انکار کر دے گا۔”

ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر چھ عالمی طاقتوں اور اسلامی جمہوریۂ ایران کے مابین مذاکرات ایک بار پھر مایوس کن نتائج سے دوچار ہیں۔ ہفتۂ رواں کے دوران جنیوا میں امریکہ، فرانس، جرمنی، برطانیہ، چین اور روس کی مشترکہ ٹیم اور ایران کے مابین نیوکلیئر مذاکرات کسی ٹھوس اور مثبت نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگئے ہیں۔ اسلامی جمہوریۂ ایران اپنے ایٹمی پروگرام کے کسی بھی شعبے کو بند کرنے پر ہرگز آمادہ نہیں۔ اسرائیل نے تو اِس پر سیخ پا ہونا ہی تھا، امریکی صدر بھی غیض و غضب میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔ باراک اُوباما نے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ ایران کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کرنے کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ سوال یہ ہے کہ یہ چھ کی چھ عالمی طاقتیں خود ہلاکت آفریں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ امریکہ تو خود وہ ایٹمی قوت ہے جس نے جاپان پر ایٹمی ہتھیاروں سے ہمہ گیر تباہی پھیلا کر دُنیا میں لاثانی حیثیت حاصل کر رکھی ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں پر اپنی اجارہ داری پر نازاں یہ تمام ممالک ایران کی موہوم ایٹمی قوت سے تو خائف ہیں مگر اسرائیل کی موجود ایٹمی قوت پر نازاں ہیں۔ انہیں اگر کوئی خطرہ ہے تو یہ کہ پورے خطے میں اسرائیل کے علاوہ کسی اور قوت کے پاس اسرائیل کی سی قوت ہرگز نہ ہو۔
 
ایران کے ایٹمی پروگرام پر جنیوا مذاکرات کا چوتھا ناکام دور اور آئندہ تمام ادوار کا مقصد اسرائیل کی ایٹمی قوت کی بقاء اور ارتقاء ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کے خلاف یورپ میں حال ہی میں اُٹھنے والی ایک احتجاجی آواز کو سُنا ان سُنا کر دیا گیا ہے۔ یہ بلند آہنگ آواز نوبل انعام یافتہ جرمن ادیب اور شاعر گُنتر گراس کی ہے۔ اُس کی تازہ نظم ایک ایسی صدائے احتجاج ہے جس نے پورے یورپ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اسرائیلی جارحیت پسندی اور اس باب میں مغربی دُنیا کی منافقت کا پردہ چاک کرکے رکھ دینے والی اِس نظم کے عنوان کا ترجمہ فیض احمد فیض کی ایک نظم سے مستعار لینے کی اجازت ہو تو میں اِس پر ’’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے!‘‘ کی سُرخی جمائوں۔ گُنتر گراس اپنی عمر کے پچاسی برسوں کے دوران جس سچائی کے اظہار سے بوجوہ رُوگرداں رہے اُس پر آج، بالآخر، اُنہوں نے جُرأتِ رندانہ کا ثبوت دے دیا ہے۔

گُنتر گراس 16 اکتوبر 1927ء کو ایک پولِش، جرمن خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ اُن کی شاعری کا پہلا مجموعہ 1956ء میں شائع ہوا تھا۔ پہلا ڈرامہ 1957ء میں سٹیج کیا گیا تھا۔ 1959ء میں اُن کے ناول ‘The Tin Drum’ کی اشاعت ہنگامہ خیز ثابت ہوئی تھی۔ وہ ایک نامور نثرنگار، شاعر، تمثیل نگار، بُت تراش اور مصوّر بھی ہیں۔ 1999ء میں اُنہیں نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ اُن کی زیرِ نظر نظم بعنوان  “What must be said” کے دو مختصر اقتباسات درج ذیل ہیں:
یہ اسرائیل کی جانب سے ایٹمی حملے میں پہل کرنے کا  برائے نام حق ہے جو ایرانی عوام کو تباہی اور بربادی سے ہمکنار کرسکتا ہے۔ فقط اِس مفروضے کی بنا پر کہ ایرانی حکومت ایٹمی ہتھیار بنانے میں مصروف ہے
٭٭٭
مگر میں اِس باب میں اسرائیل کا نام لینے کی جرأت کیوں نہیں رکھتا‘ جو برسوں سے اپنی نیوکلیئر طاقت کو برق رفتاری کے ساتھ بڑھانے میں مصروف ہے مگر آج تک اُس کی نگرانی اور تفتیش و تحقیق کا سوال کیوں نہیں اُٹھایا گیا؟ خود میں آج تک مہر بلب کیوں ہوں؟ اِس خوف سے کہ جونہی میں نے اِس باب میں لب کشائی کی مجھ پر یہود مخالف نازی ہونے کا الزام عائد کر دیا جائے گا اور اسرائیل اِس برملا حقیقت کا اعتراف کرنے سے ایک بار پھر انکار کر دے گا۔

اس نظم نے یورپ اور بالخصوص جرمنی میں گُنتر گراس کیخلاف ایک طوفان برپا کر دیا ہے۔ نکتہ چینوں نے اسکے ماضی کے عیوب کو کھنگالنا شروع کر دیا ہے۔ یہ نظم دو سال پہلے شائع ہوئی تھی۔ گذشتہ دو برس کے دوران اِس حرفِ حق کی پاداش میں گُنتر گراس کو مسلسل اور متواتر شدید مذمت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اِسکے حق میں اب تک صرف The disgusting attacks on Gunter Grass کے عُنوان سے ہمارے اشتراکی دانشور طارق علی نے ایک مختصر تحریر قلمبند کر دی ہے۔  Counterpunch کے عنوان سے طارق علی نے اپنا مضمون درج ذیل سطور پر ختم کیا ہے:
’’جرمن عوام کو درج ذیل حقیقت پر غور و فکر کرنا چاہیے: دوسری جنگ عظیم کے دوران لاکھوں یہودیوں کو فلسطینیوں نے قتل نہیں کیا تھا۔ اِس کے باوجود فلسطینی یہودیوں کے بالواسطہ انتقام کا نشانہ بنتے چلے آ رہے ہیں۔ جن لوگوں کیخلاف بدی کا ارتکاب کیا جاتا ہے وہ جواب میں اپنے ظالموں کی بجائے دیگر معصوم لوگوں پر ظلم کرنے لگتے ہیں۔ اِسی باعث اسرائیل میں فلسطینیوں کے ساتھ ذرا سی ہمدردی کا مظاہرہ بھی دیکھنے میں نہیں آ رہا بلکہ اُلٹا انتہائی سفّاکی کے ساتھ اُنھیں مسلسل مظالم کا نشانہ بنایا چلا جا رہا ہے۔‘‘

ہر چند ایران کیساتھ نیوکلیئر مذاکرات میں مصروف چھ کی چھ عالمی طاقتیں جانتے بوجھتے ہوئے اسرائیل کے ایٹمی اسلحہ خانوں کے ’’تقدس‘‘ کی ضامن ہیں، تاہم آج ایران اُنھیں دُنیا میں امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ نظر آتا ہے۔ شاید اس لئے کہ مشرق میں اسرائیل اور بھارت اُنکے سامراجی مقاصد کے انتہائی قابلِ اعتماد نگہبان ہیں۔ چنانچہ وہ ہر حال میں پاکستان اور ایران کی فوجی اور دفاعی قوّت کو کمزور سے کمزور تر کرتے چلے جانے کی حکمتِ عملی پر کاربند ہیں۔

تحریر: فتح محمد ملک

 

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *