تازہ ترین

باره امام اہل سنت کی نظرمیں

باره امام اہل سنت کی نظرمیں

ڈاکٹر محمدیعقوب بشوی

(دکترای تفسیر تطبیقی،پژوهشگر و استاد جامعه المصطفی العالمیه)
bashovi786@yahoo.com
اشاریه:
باره امام (ائمه اثنی عشر)،منابع اهل سنت میں ایک ایسانظریه ہے که جس کاکسی نےانکارنهیں کیاکیونکه اس سے متعلق بهت ساری معتبرومستنداورصحیح حدیثیں،اهل سنت منابع میں موجودهیں.سب سے اهم سوال یه پیدا هوتا هے که باره امام (ائمه اثنی عشر)،کے مصادیق کےبار ےمیں اهل سنت دانشوروں کے پاس کیا علمی مدارک اور مستندات موجود هیں؟! میری تحقیق کےمطابق ،باره امام (ائمه اثنی عشر)،کےمصداق کےبار ےمیں اهل سنت علماءکسی ایک نظریےپرمتفق نهیں هیں آج تک وه باره کی تعدادمکمل کرنےسےعاجزنظرآتےهیں کیونکه نه بنی امیه کےخلفاءباره هیں ،نه بنی عباس اوراگردونوں کوملادیں توباره سے زیاده هیں لهذابعض اهل سنت علماءیزیدتک کوباره کی تعداد میں گنتے هیں البته بعض دوسرےاهل سنت علماء،شیعوں هی کے باره اماموں کوائمه اثنی عشرکاحقیقی مصداق جانتے هیں.
احادیث اثنی عشرحقیقت میں باره شیعه اماموں پرهی دلالت کرتیں هیں کیونکه ان روایتوںمیں جواوصاف ان خلفاءکی بیان هوئی ہے وه کسی اورکوشامل نهیں.یو ں باره اماموں کی خلافت وامامت پراهل سنت منابع میں اوربهت ساری حدیثیں هیں لیکن احادیث اثنی عشرایک منفردانداز میں پیغمبر(صلی الله علیه وآله وسلم) کےبعدان کےباره جانشینو ں پردلالت کررهی هیں.ان حدیثوں کی سندی تحقیق سے پته چلتا هے که یه سب معتبر اور متفق علیه حدیثیں هیں.متنی حوالے سے بھی یه نهایت اعلی مضامین پر مشتمل هیں.یه حدیثیں معاشرے میں رهبریت کی اهمیت اور اس کی ضرورت کی طرف واضح دلالت کر رهی هیں.لهذا امت پر امام کی شناخت اور معرفت ایک واجب امر ہے.
کلیدی الفاظ:باره امام،اهل سنت ،روایات،امام مهدی.

شئیر
32 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5404

مقدمه:
باره امامو ں پراعتقاد،مسلمات اوراصول شیعه میں سے ایک اصل ہے.شیعه کتابو ں میں سینکڑوں معتبر حدیثیں اس مطلب پرملتی ہیں.یهاں صرف اهل سنت منابع سے بحث مقصود ہے یو ں اهل سنت منابع میں اس موضوع پرکافی ساری حدیثیں موجود ہیں یها ں نمونه کےطورپر بعض حدیثوں کوذکرکریں گے.بعض اہل سنت حدیثوں میں بارہ امیر اور خلیفے کا ذکر ملتا ہے ،یہ حدیثیں سند کے اعتبار سے بھی معتبر اور صحیح ہیں بہت سے اہل سنت حضرات امام مہدی( علیہ السلام )ہی کو بارہواں خلیفہ مانتے ہیں .یہاں ہم باره امامو ں سے متعلق حدیثوں کا ایک علمی اور تحقیقی جائزہ لیں گے ۔

 

باره امام اهل سنت حدیثوںمیں:
اهم نکته ان حدیثوں میں باره کی تعداداورانکاقریشی هونا ہے البته بعض روایتوں میں مختلف تعبیروں جیسے باره خلیفے،باره امیر،باره کفیل،باره سرپرست وغیره کاذکرملتا ہے.
بارہ خلیفے :کچھ اہل سنت روایتوں میں، لفظ خلیفہ ملتا ہے .
امام مسلم بن حجاج اپنی صحیح میں یوں نقل کرتے ہیں:
حدثنا قتبة بن سعید، حدثنا جریر ،عن حصین ،عن جابر بن سمرة قال :سمعت النبی (صلی الله علیه وسلم) یقول ح(حدیث) و حدثنا رفاعة بن الھیثم الواسطی،حدثنا خالد یعنی ابن عبداللّٰہ الطحان عن حصین، عن جابر بن سمرة قال :دخلت مع ابی علی النبی (صلی الله علیه وسلم) فسمعتہ یقول: «ان ھذالا مرلاینقضی حتٰی یمضی فیھم اثنٰی عشر خلیفة» قال :ثم تکلم بکلام خفی علی قال :فقلت لابی :ما قال ؟قال : «کلھم من قریش»إ
جابر بن سمرہ کہتے ہیں :اپنے بابا کے ساتھ پیغمبر اکرم(صلی الله علیه{واله} وسلم)کے پاس گیا ۔پیغمبر (صلی الله علیه{واله} وسلم) سے سنا کہ فرمایا :یہ امر (خلافت)بار ہ خلفاء کے گزرنے تک ختم نہیں ہوگا پھر آہستہ کچھ فرمایا جو مجھ پر مخفی رہا ۔میں نے اپنے باپ سے پوچھا :پیغمبر کیا فرما رہے تھے ؟کہا :فرمایا :سب کے سب (خلفاء )قریش سے ہونگے ۔
امام مسلم نے اپنی صحیح میں دوسری حدیث بھی یوں بیاں کی ہے۔حدثنا ھداب بن خالد الا زدی ،حدثنا حماد بن مسلمہ ،
عن سماک بن حرب قال:سمعت جابر بن سمرہ یقول :سمعت رسول(صلی الله علیه وسلم) یقول :«لا یزال الاسلام عزیزاً الی اثنٰی عشر خلیفة”ثم قال کلمة لم افھمھا، فقلت لابی : ما قال ؟ فقال : کلھم من قریش ».
جابر بن سمرہ کہتے ہیں :میں نے رسول خدا (صلی الله علیه وآله وسلم) سے سنا کہ فرما رہے تھے :بارہ خلیفہ گزرنے تک اسلام ہمیشہ غالب رہے گا پھر کوئی کلمہ کہا کہ میں نہ سمجھ سکا اپنے باپ سے پوچھا :کیا فرمایا ؟تو کہا :سارے قریشی ہونگے ۔
سندی تحقیق:
جناب عسقلانی ،ھدب بن خالد الا زدی اور حماد بن مسلمہ کوثقہ وعابد جبکه سماک بن حرب کو صدوق و سچا جانتے ہیں ،لیکن کچھ رجال دان سماک کوضعیف جانتے ہیں۔
جابر بن سمرہ : صحابی اور عادل ہے .چون اهل سنت کی اکثریت صحابه کوعادل جانتی ہے البته شیعه نکته نظراس کامخالف ہے .
سماک بن حرب رجالین کی نگاه میں :امام احمد بن حنبل اسے مضطرب الحدیث جانتے ہیں ۔شعبہ نے اسے عکرمہ سے تفسیر لیتے ہوئے ضعیف جانا ہے ۔ایک اور نقل کے مطابق وہ حدیثوں میں خلط کرتا ہے ۔یعقوب بن شیبہ نے علی مدینی سے کہا:سماک کی روایت عکرمہ سے کیسے ہے ؟اس نے کہا :مضطرب ہے ابن مبارک سے بھی یوں نقل ہوا ہے کہ سماک حدیث میں ضعیف ہے یعقوب کہتے ہیں :سماک کی روایت خاص کرعکرمہ سے مضطرب ہے لیکن عکرمہ کے علاوہ دوسروں سے اس کی روایت صالح ہے. جو لوگ پہلے اس سے حدیث سن چکے ہیں( جیسے شعبہ اورسفیان وغیرہ )وه صحیح ہے بعض لوگوں نے اس کی حدیث سے متعلق ”فی حدیثہ شی ”یا ”لیّن” کی تعبیر استعمال کی ہے ۔
ابا اسحاق کہتے ہیں :علیکم بعبد الملک بن عمیرو سماک بن حرب ”احمد بن حنبل کے نزدیک سماک اصح ہے عبدالملک کی نسبت یحییٰ بن معین ،سماک کو ثقہ جانتے ہیں ۔عجلی بھی اسے جائز الحدیث سمجھتے ہیں ۔
ابی حاتم کہتے ہیں :میرے باپ نے سماک کو ثقہ اور سچا جاناہے وہ ایک بہت بڑے مصنف اور اہل کوفہ تھے وہ صدوق اور اسکی حدیثیں اچھی ہیں اوراس کی حدیثوں میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ سماک کے بارے میں جرح و تعدیل دونوں ملتی ہیں جرح و تعدیل کے بارے میں تین مختلف نظریے ہیں
١۔مطلقاََ جرح مقدم ہے تعدیل پر ۔۔مطلقاََ تعدیل مقدم ہے جرح پر ۔۔مرجع کے بغیر کوئی بھی ترجیح نہیں رکھتی ۔
جرح و تعدیل کے بارے میں سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جارح کیا جرح کی شرائط پر پورا اتر تا ہے ؟ جرح مفسر ہو ورنہ قابل قبول نہیں ہوگایعنی تعدیل کے ہوتے ہوئے تضعیف و جرح بغیر علت کے مقدم نہیں ہوسکتے ۔جناب عسقلانی صاحب اس بارے میں کہتے ہیں :”تضعیف اسی صورت میں تعدیل پر مقد م ہوسکتی ہے کہ اس کی علّت ثابت اور معین ہو ورنہ اسکا قول اعتبار سے ساقط ہے” اسی بنا پر سماک کی روایت عکرمہ سے مضطرب اور اعتبار سے ساقط ہے لیکن سماک کی عکرمہ کے علاوہ دوسروں سے جو روایت نقل ہوئی ہے وہ مورد قبول ہے کیونکہ صرف عکرمہ سے جو روایت ہوئی ہے اسمیں جرح مفسر ہے اس کے علاوہ دوسرے طریق سے جو صحیح السند روایتیں نقل ہوئیں ہیں وہ ساری اس روایت کی تائید کرتیں ہیں لہٰذا یہ روایت بھی صحیح کہلائے گی ۔
اهل سنت کے بزرگ عالم دین محدث کبیر امام مسلم ایک اور روایت کو بھی یوں نقل کرتے ہیں :
حدثنا ابو بکربن ابی شیبہ ،حدثنا ابو معاویہ ،عن داؤد،عن الشعبی ،عن جابر بن سمرة قال :قال النبی (صلی الله علیه وسلم):«لا یزال ھذاالا مر عزیزا الی اثنٰی عشر خلیفة ”قال :ثم تکلم بشی ء لم افھمہ ، فقلت لابی : ماقال ؟ قال :کلھم من قریش ».
جابر کہتے ہیں ۔پیغمبر اکرم (صلی الله علیه وسلم) نے فرمایا:بارہ خلیفہ تک یہ امر (خلافت )غالب رہے گا کہا:پھر آپ نے کوئی چیز فرمایا کہ میں نے اسے نہیں سمجھا پس میں نے میرے بابا سے پوچھا :کیا کہہ رہے تھے ؟کہا (یه)سارے قریش سے ہونگے ۔
مختلف عبارتوں کے ساتھ ٣٣ سے زائد حدیثیں اہل سنت کے منابع میں”اثنٰی عشر خلیفہ ” کے عنوان کے ساتھ، نقل ہوئی ہیں
بارہ امیر :
بعض اور روایتوں میں لفظ خلیفه کے بدلےلفظ« امیر»، آیا ہے ۔ اما م بخاری نے بھی اپنی صحیح میں یوں حدیث بیان کی ہے ۔
حدثنی محمد بن المثنی ،حدثنا غندر ،حدثنا شعبہ ،عن عبدالملک،سمعت جابر بن سمرة قال :سمت النبی (صلی الله علیه وسلم) :«یکون اثنٰی عشرا میرا»فقال کلمہ لم اسمعھا،فقال ابی :قال انہ قال:«کلھم من قریش»۔
جابر کا کہنا ہے:پیغمبر اکرم (صلی الله علیه وسلم) سے سنا کہ فرماتے تھے :بارہ امیر آئیں گے پھر ایک کلمہ ارشاد فرمایا کہ میں سن نہ سکا میرے باپ نے کہا پیغمبر (صلی الله علیه وسلم) نے فرمایا:وہ سارے قریشی ہونگے ۔
سندی تحقیق:
اس روایت کےراوی بعض معتبراورموثق شخصیات ہیں .جناب محمدبن المثنی ،ثقہ ہے ۔ جناب غندر (محمد بن جعفر)ثقہ ہے ۔ جناب شعبہ (بن حجاج ) کےبارے میں امام المتقین ، ثقہ اور حجت کےالفاظ ملتے ہیں ۔ جبکه جناب عبدالملک (بن عمیر )کوجناب عسقلانی ثقہ جانتے ہیں ۔ لهذایہ حدیث سندکےاعتبار سےصحیح ہے ۔
امام ترمذی نے اپنی سنن میں یوں نقل کیا ہے ۔حدثنا ابوکریب محمد بن العلاء ،حدثنا عمر بن عبیدالطنافسی، عن سماک بن حرب ،عن جابر بن سمرة قال: قال رسول اللّٰہ(صلی الله علیه وسلم) «یکون من بعدی اثنٰی عشرا میرا»قال: ثم تکلم بشی لم افھمہ ،فسألت الذی یلینی ، فقال: قال : «کلھم من قریش ».
جابر کا کہنا ہے :رسول (صلی الله علیه وسلم) نے فرمایا:میرے بعد بارہ امیر ہونگے پھر کوئی اور چیز فرمایا کہ میں نے نہیں سمجھا پس میرے پہلو میں بیٹھے ہوئے شخص سے پوچھا :کہا: پیغمبر نے فرمایا:سارے قریش سے ہونگے ۔ابو عیسیٰ اس حدیث کو حسن و صحیح جانتے ہیں ۔
اس حدیث کےسارے راوی ثقہ ہیں ۔
سماک بن حرب کے بارے میں بحث پہلے گزر چکی ہے نتیجہ کے طور پر یہ حدیث بھی صحیح ہے ۔
سنن الترمذی کے شارح جناب طنجی کہتے ہیں :اس حدیث کو امام ابو عیسیٰ ترمذی نے دو اور سند و طریق کے ساتھ بھی نقل کی ہے اور وہ دونوںسندبھی صحیح ہیں۔
اہل سنت منابع میں، ١٥ سے زیادہ احادیث اسی عنوان ”اثنٰی عشرا میرا” کے تحت ملتی ہیں ۔
نقباء بنی اسرائیل :
بعض اہل سنت روایات میں ان بارہ خلفاء کی تعداد کو نقباء بنی اسرائیل کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔«اثنٰی عشر کعدة نقباء بنی اسرائیل » تعداد میں یه، نقباء بنی اسرائیل کے مانند بارہ ہونگے ۔ امام احمد بن حنبل اپنی مسند میں یوں نقل کرتے ہیں :
حدثنا عبداللّٰہ ،حدثنی ابی،ثنا حسن بن موسی ،ثنا حمادبن زید،عن المجالد،عن الشعبی ،عن مسروق،قال:کنا جلوساََ عند عبداللّٰہ بن مسعود و ھویقر ئنا القرآن ،فقال لہ رجل :یا ابا عبدالرحمٰن !ھل سألتم رسول اللہ (صلی الله علیه وسلم) کم تملک ھذہ الا مة من خلیفة؟فقال عبداللّٰہ بن مسعود:ماسألنی عنھا احد۔منذ قدمت الطرق قبلک ،ثم قال: نعم،و لقد سألنا رسول (صلی الله علیه وسلم) فقال:«اثنٰی عشر،کعدة نقباء بنی اسرائیل».
مسروق کہتے ہیں :ہم عبداللہ بن مسعود کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ہمیں قرآن مجید کی قرائت سکھا رہے تھے اتنے میں کسی شخص نے کہا :اے ابا عبدالرحمٰن !کیا پیغمبر (صلی الله علیه وسلم) سے پوچھا ہے کہ کتنے خلیفے اس امت پر فرمان روائی کریں گے ؟اس امت کے کتنے فرمان روا خلیفے ہونگے ؟عبداللہ بن مسعود نے کہا :جب سے عراق میں آیا ہوں کسی نے مجھے یہ سوال نہیں کیا ۔ہاں ہم نے رسول خدا س(صلی الله علیه وسلم) سے پوچھا تو آپ نے جواب میں فرمایا۔ بارہ نفر نقباء بنی اسرائیل کی تعداد کے برابر ہونگے ۔
سندی تحقیق:
جناب عبداللّٰہ بن احمد؛اس حدیث کاایک راوی ہے جسےجناب عسقلانی،ثقہ ،جانتے ہیں ۔ دوسراراوی ابی (احمد بن محمد بن حنبل ) ہے جواہل سنت کے چار معروف اماموں میں سے ایک ہے.تیسراراوی جناب حسن بن موسی ،ثقہ ہے۔ اسی طرح حماد بن زید،فقیہ اور ثقہ ہے ۔ جناب شعبی اور جناب مسروق بن الاجدع الھمدانی فقیہ ،فاضل اور ثقہ ہیں ۔
مجالد بن سعید: مجالد کے بارے میں جرح و تعدیل وارد ہوئی ہے ایک گروہ اس کی جرح جب کہ دوسرا گروہ اس کی تعدیل کرتے نظر آتا ہے۔
امام احمد اس کے بارے میں کہتے ہیں :لیس بشی ”یحییٰ بن معین کا کہنا ہے:اس کی حدیث سے استدلال نہیں کرسکتے کیونکہ وہ ضعیف ہے۔ اشج کہتے ہیں :مجالد شیعہ ہے !خالد الطحان سے پوچھا گیا جب آپ کوفہ گئے تو کیونکر مجالدسے کوئی حدیث نہیں لکھی؟ جواب میں کہا :کیونکہ اس کی داڑھی لمبی تھی ! یہ تھی مجالد کے بارے میں جرح کہ جسمیں اس کا شیعہ ہونا اور لمبی داڑھی کا ہونا ذکر کیا ہے ۔دوسری طرف کچھ رجال دان اس کی تعریف کرتےنظر آتے ہیں۔عجلی کہتے ہیں :مجالد کی حدیث نہ صرف جائز بلکہ وه حسن الحدیث ہے۔ یعنی اس سے حدیثیں لینا حسن ہے ۔امام نسائی کہتے ہیں :مجالد ثقہ اور معتبر ہے ۔ابو احمد بن عدی کا کہنا ہے :مجالد نے شعبی سے اور شعبی نے جابر سے بهتر حدیثیں نقل کی ہے۔جابر کے علاوہ دوسرے اصحاب سے بھی نیک و حسن حدیثیں نقل کی ہے ۔ امام بخاری کے نزدیک بھی مجالد سچا اور صدوق ہے ۔ ہم دونوں قسم کے جرح و تعدیل کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ مجالد کے بارے میں جرح مفسر نہیں ہے کیونکہ لمبی داڑھی یا شیعہ ہونا یہ کوئی عیب نہیں ہے اور یہ راوی کی مذمت میں داخل نہیں اگرشخص سچاہوتومذهب اسے ضررنہیں دےسکتامعروف اهل سنت رجال دان جناب ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں:
«اگر تابعین وغیرہ کی روایت ،شیعہ ہونے کے الزام میں رد ہوجائے تو تمام نبوت کے آثار ختم ہوجائیں گے اوریہ ایک کُھلا فساد ہے».
جبکہ دوسری طرف علم رجال کے کچھ ماہرین اسے حسن الحدیث ،صدوق اور ثقہ کے عناوین سے نوا ز تے ہیں لہٰذا ہماری نظر میں بھی مجالد ثقہ ہے کیونکه اس کے ضعیف هونےپرکوئی دلیل نهیں ہے ۔
جناب امام احمد بن حنبل نے ایک او ر سند سے اسی مضمون کی دوسری حدیث کو یوں بیان کیا ہے ۔
حدثنا عبداللّٰہ ،حدثنی ابی،ثنا حدثنا ابو النصر،ثنا حدثنا ابو عقیل ،ثنا مجالد ،عن الشعبی ،عن مسروق قال:کنا مع عبداللّٰہ جلو ساََ فی المسجد یقرئنا فا تا ہ رجل فقال یا ابن مسعود ھل حد ثکم نبیکم ؟کم یکون من بعدہ خلیفہ ؟قال: «نعم کعدة نقباء بنی اسرائیل » .
مسروق کہتے ہیں :عبداللہ بن مسعود کے ساتھ ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ہمیں پڑھا رہے تھے کہ اتنے میں ایک شخص اس کے پاس آیا اور پوچھا :اے مسعود کے بیٹے! کیا تمہارے پیغمبر نے تمہیں بتایا ہے کہ اس کے بعد کتنے خلیفے ہونگے ؟جواب دیا :ہاں۔ عددنقباء بنی اسرائیل کے مانند ہونگے ۔
بعض روایتوں میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے جانشینوں کو نقباء بنی اسرائیل کی مانند قرار دیا ہے ۔نقباء بنی اسرائیل کے بارے میں قرآن پاک کا ارشاد گرامی ہے ۔«ولقد اخذ اللہ میثاق بنی اسرائیل و بعثنا منھم اثنٰی عشر نقیبا» ١ بیشک خدا نے بنی اسرائیل سے عہد و پیمان لیا اور ان میں سے ہم نے بارہ نقیب (سر پرست )مبعوث کئے ۔
اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نقباء بنی اسرائیل بارہ تھے اور سب کے سب خدا کے چنے ہوئے تھے لفظ ”بعثنا”جو آیت میں آیا ہے اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ سارے خدا کے منتخب کئے ہوئے تھے ۔لہٰذا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے جانشین بھی بارہ ہی ہونا چاہئے ۔اور منصوص من اللہ بھی ہونا چاہئے ،کیونکه اپ نےباره کونقبا ء بنی اسرائیل سے تشبیه دی ہے وگرنه کلام لغوہوگا.ابن عباس کہتے ہیں :«نقبا ی بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے وزرأ تھے کہ جو بعد میں مقام نبوت پر فائز ہوئے ».

بارہ سرپرست:
اہل سنت کی بعض احادیث میں بارہ قیم و سر پرست کے اوصاف بھی ملتے ہیں جیسے :
«یکون لھذہ الامة اثنٰی عشر قیماًلا یضر ھم من خذ لھم کلھم من قریش» .
اس امت کے بارہ سر پرست ہونگے ان کے بد خواہ کچھ ان کا بگاڑ نہیں سکیں گے سب کے سب قریش سے ہونگے ۔
بارہ کفیل امت:
اہل سنت منابع میں بعض تعبیریں یوں ملتی ہیں .«اخر جوا الی اثنٰی عشر منکم، یکو نوا کفلا ء علی قومھم کما کفلت الحوار یون بعسی بن مریم». یہ بارہ کفیل امت ،حواریوں عیسیٰ کی طرح ہونگے ۔
بارہ مرد:اہل سنت منابع میں، بعض احادیث ایسی بھی ملتی ہیں کہ جن میں ”بارہ مرد” کی تعبیر ملتی ہے ۔ جیسے :
«لا یزال امر الناس ماضیا ماولیھم اثنٰی عشر رجلا، کلھم من قریش».
بارہ ہاشمی :
بہت سی اہل سنت روایتوں میں ان بارہ کی تعداد کو قریش سے منسوب کیا ہے، قریش کی کئی شاخیں ہیں لیکن بعض اہل سنت روایتوں میں ان بارہ کو بنی ہاشم سے بتایا گیا ہے جیسا کہ پیغمبر اکرم (صلی الله علیه وآله وسلم) کی یہ حدیث کہ جسمیں فرمایا :«بعدی اثنٰی عشر خلیفة کلھم من بنی ہاشم ». میرے بعد بارہ خلیفے ہونگے اوروه سب کے سب بنی ہاشم سے ہونگے.
اہل سنت کے صحاح الستہ میں ١٨ مختلف سندوں کے ساتھ ،احادیث اثنی عشر نقل ہوئی ہے اس کے علاوہ امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں ٤٤ مختلف طریقوں سے ،امام احمد نے المسند میں ٣٥ مختلف طریقوں جبکہ ابی عوانہ نے مسند میں ٢٤ مختلف طریقوں سے ان حدیثوں کو نقل کئے ہیں ۔
اہل سنت کے بہت سے بڑے معتبر محدثین اور رجال دانوں نے ان حدیثوں کوصحیح اور معتبر جانا ہے جیسے :جناب ھیشمی ابو عیسیٰ ترمذی ، جناب طنجی ، جناب حمزہ احمد الزین ، جناب ابن عربی ، اورجناب بستوی ٣ شامل ہیں بہت سے اہل سنت محدثین ان حدیثوں کو متفق علیہ جانتے ہیں ۔ جناب ابن حجرھیتمی اس حدیث کی صحت پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے لہٰذا وہ کہتے ہیں : «ھذا الحدیث مجمع علی صحتہ». تما م اہل سنت کا اس حدیث کے صحیح ہونے پر اجماع ہے ۔
راوی :
جہاں تک میر ی تحقیق کا تعلق ہے ،مجھے اہل سنت منابع میں کئی اصحاب اور تابعین(جن کی تعدادبتیس ہیں) ان روایتوں کے راوی ملے جو اہل سنت رجالین کے نزدیک بڑے معتبر ہیں اور جن کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں جابر بن سمرة؛عبداللّٰہ بن عمر؛عبداللّٰہ بن مسعود؛ابو جحیفہ ؛حذیفہ؛ابن عباس؛کعب الاخبار؛عبداللّٰہ بن عمرو بن العاص؛انس؛ضماک بن قیس؛ اسماعیل بن خالد؛اسود بن سعید؛ابوبکر بن موسی؛ابی خالد البجلی؛ حصین بن عبدالرحمن؛زیاد بن علاقہ؛سعید ھمدانی؛سعد بن ابی وقاص؛سماک بن حرب؛شعبی؛عبدالملک بن عمیر؛عبیداللّٰہ بن ابی عباد؛عامر بن سعد؛عطاء بن میمونہ؛فطر؛مسروق؛ معبدبن خالد؛مسیب بن رافع؛نضر بن صالح؛عون بن ابی جحیفہ؛عبایة بن ربیعی اورابو الجلد۔
باره امام اہلِ سنت علماءکی نظر میں:
باره امام(ائمه اثنی عشر)سے متعلق اہل سنت حدیثیں گزر چکی، جن کی سند ود لالت صحیح او ر معتبر ہے اب ہم ان بارہ خلفاء والی احادیث سے متعلق، اہل سنت علماء او رمحقیقین کے نظریات جاننے کی کوشش کریں گے۔
جناب ابن عربی :
وه اہل سنت کے مایہ ناز علماء میں سے ہیں، ان حدیثوں سے متعلق وہ کہتے ہیں :”ہم رسول خدا (صلی الله علیه وسلم) کے بعد خلفاء کی تعداد کو گنتے ہیں تو ان کو یوں پاتے ہیں :١۔ابو بکر؛ ٢۔عمر؛ ٣۔عثمان ؛ ٤۔علی؛ ٥۔حسن؛ ٦۔معاویہ ؛ ٧۔یزید بن معاویہ ٨۔معاویة بن یزید؛ ٩۔مروان ؛ ١٠۔ عبدالملک بن مروان؛ ١١۔ولید؛ ١٢۔سلیمان ؛ ١٣۔ عمر بن عبدالعزیز؛ ١٤۔یزید بن عبدالملک؛ ١٥۔مروان بن محمدبن مروان ؛ ١٦۔سفاح؛اور ١٧۔منصور۔
ابن عربی پھر اور ٢٧نفر کا اپنے زمانہ میں (سال ٥٤٣ق)نام لیتے ہیں اور یوں کہتے ہیں :اگر ان میں سے بارہ نفر کو حساب کروں اور وہ لوگ جو بظاہر خلافت نبوی پر فائز رہے ہیں اگر انہیں مد نظر رکھے ،تو سلیمان بن عبدالملک تک بارہ بنتے ہیں، لیکن اگر واقعاََ جو لوگ حقیقت میں خلافت نبوی کے حامل تھے اگر انہیں شمار کریں، تو یہ تعداد پانچ افرادسے تجاوز نہیں کرتی، جو چاروں خلفاء راشدین اور عمر بن عبدالعزیز ہیں ۔لہٰذا مجھے اس حدیث کا کوئی معنی نظر نہیں آتا۔
ابن عربی جیسا شخص بھی ان حدیثوں کے مصداق بیان کرنے سے عاجز نظر آتا ہے ۔ابن عربی نے تو امام حسن مجتبی (علیہ السلام )تک کو اس حدیث کے مصداق سے نکال دیا، لیکن جب داخل کرنے پر آتا ہے ،تو پھر یزید جیسا شخص کو بھی اس کے مصداق میں داخل کردیتا ہے۔لیکن حدیث کی سند کو وہ بھی ،غلط ثابت نہیں کرسکا۔
جناب قاضی عیاض :
اپ اہل سنت کے بہت بڑے عالم گزرے ہیں، بہت سے اہل سنت ان کی بات پر عمل کرتے ہیں، وہ ان حدیثوں سے متعلق کہتے ہیں :میرے خیال میں شاید ان حدیثوں سے عزت و شوکت خلافت کا زمانہ اور قدر ت اسلام کا زمانہ مراد ہو پھر وہ لکھتے ہیں :ولید بن یزید کے زمانہ میں مسلمانوں کے درمیان فتنہ ایجاد ہوا۔
ابن حجر عسقلانی اس نظریہ کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں :«یہ توجیہ ان حدیثوں کےلئے ایک بہترین معنی ہے، پھر وہ مزید کہتے ہیں ۔لوگوں نے ابو بکر کی خلافت پر اجماع کیا پھر عمر،عثمان اور علی خلافت تک پہنچ گئے پھر جنگ صفین میں حکمیت کا مسئلہ پیش آیا،اس دن کے بعد سے معاویہ نے اپنے لئے خلیفہ کے نام کو استعمال کیا ۔امام حسن سے صلح کے بعد لوگوں نے معاویہ کی خلافت پر اتفاق کر لیا ۔پھر اس کے فرزند یزید پر اتفاق کیا حسین کا کام اور خلافت مکمل نہیں ہوئی بلکہ جلد ہی آپ قتل ہوگئے یزید کے بعد دوبارہ اختلاف پیدا ہوا ابن زبیر کے قتل کے بعد لوگوں نے دوبارہ عبدالملک بن مروان پر اتفاق کرلیا ۔عبدالملک کے بعد ان کے چار بیٹوں پر اتفاق و اجماع ہوا یعنی ولید، سلیمان ،یزید اور ھشام ۔سلیمان اور یزید کے درمیان عمر بن عبدالعزیز کو خلافت ملی یوں ان دونوں کے درمیان فاصلہ پڑا۔پھر ابن حجر عسقلانی مزید لکھتے ہیں :بارھواں خلیفہ ،ولید بن یزید بن عبدالملک ہیں کہ لوگوں نے اس کی خلافت پر اتفاق کرلیا اوراس نے چار سال تک حکومت کی » .اگرمضمون حدیث میں غورکرتے تویه باتیں نه ہوتی کیونکه بعض حدیثوں میں ،باره کی تعداد کوبنی ہاشم سے گنا ہے.
اہل سنت کے ایک اور بڑے عالم جناب حافظ بیہقی نے بھی اس نظریے کو قبول کیا ہے ۔
جناب ابو حاتم بن حبان :
آپ کا شمار اہل سنت کے بڑے معتبرعلما ء میںہوتا ہے. آپ بارہ خلفاء کویوں گنتے ہیں :
١۔ابوبکر ؛ ٢۔عمر؛ ٣۔عثمان ؛ ٤۔علی ؛ ٥۔معاویہ؛ ٦۔یزید ؛ ٧۔معاویةبن یزید ؛ ٨۔مروان بن الحکم ؛ ٩۔عبدالملک بن مروان؛ ١٠۔ ولید بن عبدالملک ؛ ١١۔سلیمان بن عبدالملک اور ١٢۔عمربن عبدالعزیز ؛١
جناب خطابی:
وہ بارہ خلفاء کو صرف بنی امیہ ہی میں منحصر جانتے ہیں اور صحابہ کی خلافت کو پیغمبر(صلی الله علیه واله وسلم) کی خلافت ہی کی طرح جانتے ہیں ۔ان کے مطابق بارہ خلفاء میں پہلا خلیفہ یزید بن معاویہ اور آخرین خلیفہ مروان الحمار ہیں ۔خطابی سارے اہل سنت علماء کے بر خلاف عثمان ،معاویہ اور ابن زبیر کو بارہ خلفاء میں شمار نہیں کرتے بلکہ ان تینوں کو صحابہ میں گنتے ہیں اور کہتے ہیں :پس اگر مروان بن الحکم کو حذف کریں کیونکہ اس کے صحابی ہونے میں شک ہے یا اسلئے کہ اس نے خلافت کو بزور بازو حاصلکیا ہے اور لوگ ابن زبیر کی خلافت پر اجماع کر چکے تھے اس بنا پر بارہ کی تعداد مکمل ہوتی ہے اورجب خلافت بنی امیہ سے باہر چلی گئی تو بہت بڑے فتنے اٹھے بڑے خطرے اور عظیم حوادث ظاہر ہوئے .
جناب سیوطی :
سیوطی جو اہل سنت کے بڑے چوٹی کے علماء سے ہیں بارہ خلفاء کی تعداد کو یوں گنتے ہیں ۔
١۔ ابوبکر؛ ٢۔عمر؛ ٣۔عثمان ؛ ٤۔علی؛ ٥۔حسن ؛ ٦۔معاویہ؛ ٧ ۔ابن زبیر؛ ْْْْْْْْْْْْ ٨۔اور عمر بن عبدالعزیز؛
مہتدی عباسی کو بھی اس تعداد کے ساتھ ملایا جاسکتا ہے کیونکہ وہ عباسیوں کے درمیان ایسا ہے جیسا امیوں کے درمیان عمر بن عبدالعزیز ہے۔اسی طرح خلفای عباسی کے ایک اور خلیفہ ظاہر کو بھی عدالت و انصاف کے حامل ہونیکی وجہ سے بارہ کے ساتھ ملایا جاسکتا ہے ۔نتیجہ کے طورپر دو نفر باقی رہتے ہیں ان میں سے ایک مھدی ہے کہ جو اہل بیت محمد ت سے ہے ۔
سیوطی بارھویں خلیفہ پر خاموش نظر آتا ہے ۔
جناب ابن ابی العزالحنفی :
ان کی نگاہ میں بارہ خلیفہ عبارت ہے۔ابوبکر ،عمر ،عثمان ،علی، معاویہ ،یزید،عبدالملک ،مروان ،اور اس کے چار بیٹے او ر عمر بن عبدالعزیز ۔ ھشام بن عبدالملک کویہ آخرین خلیفہ جانتے ہیں ۔
تحقیق
اہل سنت علماء اور دانشور وں کے نظریات کا دقیق مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اہل سنت علماء ان حدیثوں کو سند کے اعتبار سے رد نہیں کرسکتے. بعض اہل سنت محققین کے بقول تمام اہل سنت کا اجماع ان حدیثوں کی صحت پر ہے ۔
ان حدیثوں کے مصداق میں اہل سنت کے درمیان شدید اختلاف ہے ۔ان تمام نظریات کو جمع کرنے کے بعد اکیس (٢١)نفر ،بارہ خلفاء کے طور پر ملتے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں ۔
١۔ابو بکر ؛٢۔عمر،٣۔عثمان ،٤۔علی،٥۔حسن ،٦۔معاویہ ،٧۔یزید،٨۔معاویہ بن یزید،٩۔مروان بن الحکم ،١٠۔عبداللہ بن زبیر ،١١۔عبدالملک بن مروان ،١٢۔ولید بن عبدالملک ،١٣۔سلیمان بن عبدالملک ،١٤۔عمربن عبدالعزیز ،١٥۔یزید بن عبدالملک ،١٦۔ھشام بن عبدالملک ،١٧۔ولید بن یزید،١٨۔مروان الحمار١٩۔مھتدی ،٢٠۔ظاہر ،٢١۔مھدی۔
بعض اہل سنت علماء، بنی امیہ کے خلفاءکوباره کے مصادیق میں گنتے ہیں.حالانکه بهت ساری روایتیں ان کی مذمت میں نفل هوئیں ہیں ۔نمونه کےطورپربعض ملاحظه هو:
جناب سیوطی نے سورہ اسرأ کی ساٹھویں (٦٠)آیت کے ذیل میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی ایک حدیث کو نقل کیا ہے کہ جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے فرمایا :میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ بنی امیہ کے لوگ تمام شہروں میں منبروں پر چڑھے ہوئے ہیں اور عنقریب تم پر سلطنت کریں گے ان کو بد ترین حکمران پائو گے ۔رسول خدا اس کے بعد ایک گہرے غم میں ڈوب گئے اسی وجہ سے خدا وند تعالیٰ نے اس آیت کو نازل کیا ۔«وما جعلنا الریا التی اریناک الا فتنة للناس».
اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے۔
ابن عمر کہتے ہیں: رسول خدا(صلی اللہ علیہ{ وآلہ }وسلم ) نے فرمایا :میں نے حکم بن العاص کے فر زندوں کو خواب میں دیکھا کہ منبروں پر چڑھے ہوئے تھے در حالیکہ سب بندر کی صورت میں تھے پھر خدا وند تعالیٰ نے اس آیت کو بھیجا ”وما جعلنا الریا لتی ارینک الا فتنة للناس والشجرة الملعونة فی القرآن».اس آیت میں شجرة ملعونہ سے مراد ، حکم بن العاص کی اولاد ہے۔ حکم بن العاص جومروان کا باپ ہے ، یه وه شخص ہے که جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کوشدیداذیت وازاردیتا تھا، وه انکھوں، ہا تھوں،منه ا وراعضاوجوارح کے ذریعے انحضرت کوستاتارہتااور آپ کانقل اتارتا، لہذا ایه« إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِين‏» ،ازجمله اس کی مذمت میں نازل ہوئی، پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )رحمت اللعالمین ہونے کے باوجوداسے شہربدرکرکے مدینه سے باہرنکال دیا.خلیفه سوم عثمان نےاپنے دورحکومت میں اس مردودکودوباره بلایااورفاخره لباسوں سے نوازا.
کچھ روایتوں میں آیا ہے اس خواب کے بعد کسی نےپیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ہنستے نہیں دیکھا۔
ابن جریر طبری اسی آیت کے ذیل میں کچھ اور روایتوں کو بھی ذکر کیا ہے ۔بعض روایات میں آیا ہے کہ :«پیغمبر نے بنی امیہ کو خواب میں دیکھا کہ ایک کے بعد دوسر ا آپ کے منبر پر چڑھ رہا ہے اور یہ آپ پر گراں گزرااور خدا نے سورة کوثر اور قدر کو آپ پر نازل کیا ۔«الف شہر»زارہ ماہ یعنی بنی امیہ کی سلطنت کی مدت ہے قاسم کہتے ہیں ۔ہم نے بنی امیہ کی سلطنت کو گن لیا تو ہزارہ ماہ ہوئے ».
بنی امیہ کی مذمت میں او ربھی روایتیں ہیں کہ ہم اختصا ر کی وجہ سے ان سے چشم پوشی کرتے ہیں ۔
یہ تھی کچھ وہ احادیث جو مطلق طورپر بنی امیہ کی مذمت میں وارد ہوئی ہیں۔
اہل سنت جن خلفاء کو بارہ خلفاء کے مصداق کے طورپر بیان کرتے ہیں یہاں ہم ان کے کردار کے حوالے سے خود اہل سنت ہی کی معتبر کتابوں سے کچھ حقائق پیش کریں گے تاکہ قارئین کیلئے فیصلہ کرنے میں آسانی ہو کیا ایسے لوگ بھی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے جانشین بننے کے لائق ہیں ؟کیاائمه اثنی عشر میں ان کوشامل کرسکتے ہیں ؟
یزید بن معاویہ:
اکثر اہل سنت دانشوروں نے یزید بن معاویہ کو بھی ان بارہ خلفاء میں شامل کیا ہے کہ جن کی بشارت خود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے امت کو دی تھی ۔جناب سیوطی لکھتے ہیں :یزید محارم یعنی ماں ،بہن اور بیٹی کے ساتھ نکاح کرنے کو جائز سمجھتا تھا! یزید شرابی اور بے نماز تھا ».
یزید نے امام حسین (علیہ السلام) اور آپ کے اہل بیت واصحاب کو شہید کیا ۔وه خدا کی حرام کی ہوئی چیزوںکو حلال جانتا تھا اور اسی طرح خانہ کعبہ کو آگ لگادی۔ یزید ہی نے انکار نبوت کرتے ہوئے یہ معروف شعرکہاتھا ۔
لعبت ھاشم بالملک فلا خبر جاء ولا وحی نزل
بنی ہاشم نے اقتدار کیلئے کھیل کھیلا تھا وگرنہ نہ کوئی خبر آئی تھی اور نہ کوئی وحی نازل ہوئی تھی !
عبداللہ بن زبیر:
اس کی مذمت کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ خود عبداللہ بن عباس سے کہتے ہیں کہ :چالیس سال سے اس خاندان بنی ہاشم کی دشمنی میں دل میں چھپائے بیٹھا ہوں ». اس نے اپنی خلافت کے دور میں چالیس دن تک اپنے خطبے میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود نہیں بھیجا ۔وہ کہتا تھا :میں نے درود اسلئے نہیں بھیجا تاکہ کوئی ناک نہ چڑھائے ».
مروان بن الحکم:
اہل سنت کے بارہ خلفاء میں سے ایک خلیفہ مروان بن حکم بھی ہے ۔
حاکم نیشا بوری جواہل سنت کے نہایت ہی بڑے معتبر محدث اور رجال دان ہیں آپ اپنی کتاب میں ایک صحیح السند حدیث یوں نقل کرتے ہیں :عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں :مدینہ میں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا مگر اُسے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حضور لے جاتے جس وقت مروان بن الحکم دنیا میں آیا تو اسے بھی حسب معمول پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے حضور لے جایا گیا تو آنخصر(صلی اللہ علیہ وسلم )نے مروان کے بارے میں فرمایا «:ھو الوزغ بن الوزغ ،الملعون بن الملعون» . حاکم نے اس حدیث کو صحیح جانا ہے ۔پیغمبر اکرم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے کئی دفعہ مروان بن الحکم پر لعنت بھیجی ہے ۔حاکم نیشا بوری ایک اور حدیث کو بیان کرتے ہیں ۔«ان رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) :«لعن الحکم وولدہ» . بیشک رسول خدا ت نے حکم اوراس کے بیٹے (مروان )پر لعنت بھیجی ہے ۔
حاکم نیشا بوری اس حدیث کو بھی صحیح جانتے ہیں ۔پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی نظر میں جو شخص ملعون ہے جس پر آپ نے بقول اہل سنت علماء کئی دفعہ لعنت بھیجی ہے وه کیسے بارہ ہدایت یا فتہ خلفاء میں شمار هوسکتاہے؟
عبدالملک بن مروان :
جن خلفاء کی خلافت کے ساتھ دین قائم ہے زمین اور نسل انسانی باقی ہے ،مسلمان ان خلفاء میں سے ایک کو عبدالملک بن مروان جانتے ہیں ۔حالانکہ عبدالملک بن مروان ،جناب سیوطی کے بقول اسلام میں وہ پہلا شخص ہے کہ جس نے حیلہ سے کام لیا۔خلفاء کے حضور بات کرنے سے لوگوں کو منع کیا اور امر بہ معروف کرنے سے لوگوں کو روک دیا ۔
امام بیہقی لکھتے ہیں :جس وقت عبدالملک بن مروان تک اس کی خلافت کی خبر پہنچی تواس وقت اس کے سامنے قرآن تھا اس نے قرآن کو اٹھاکر ایک طرف رکھ دیا اور قرآن سے خطاب کرکے کہا :ھذا آخر العہد بک”تیرے ساتھ یہ میری آخری ملاقات ہے !
ایک مرتبہ عبدالملک معاویہ کے دربار میں جاتا ہے جب واپس لوٹتا ہے تو ابن عباس بھی وہاں ہوتے ہیں معاویہ ،ابن عباس سے کہتے ہیں :کیا آپ نہیں جانتے ہیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ{ وآلہ }وسلم ) نے اسے (عبدالملک )یاد کیا اور فرمایا «ابو الجبابرة الاربعة»؟(چار ظالم وجابر کا باپ) ابن عباس نے جواب میں کہا :«اللھم نعم». ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ ایسا ہی فرمایا تھا ۔
یاد رکھئے !جبابرہ اربعہ عبدالملک کے چار بیٹے ولید،سلیمان ،یزید اور ہشام ہیں کہ جنہیں اہل سنت بارہ خلفاء میں گنتے ہیں ۔
ولید بن عبدالملک:
جنہیں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے جابر کہا اور علم غیب کے ذریعے آئندہ کی خبر دیتے ہوئے فرمایا :«لیکونن فی ھذہ الا مة رجل یقال لہ الولید، لھواشد علی ھذہ الامة من فرعون لقومہ». اس امت میں ولید نامی ایک شخص آئے گا جو امت پر فرعون سے زیادہ سخت ہوگا۔جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں :”وکان الولید جباراظالماََ » ولید جبار اور ظالم تھا۔
یزید بن عبدالملک :
جناب سیوطی کے بقول یہ وہ ظالم شخص ہے کہ جس نے چالیس بوڑھے جمع کرکے ان کو مجبور کیا تاکہ یہ گواہی دیں کہ وہ خود گناہ سے محفوظ ہے اور کسی قسم کے حساب اور عذاب خلفاء پر نہیں ہے۔
وہ لوگوں سے دور ہوگیا اور شراب نوشی اور عیاشی میں سر گرم ہوا۔ابن عایشہ نے کوئی شعر پڑھ کر اسے وجد میں لایا اور وہ وجد کی حالت میں کفر بکتا رہا ۔ یہ بھی جبابره اربعہ میں سے ہے ۔
ہشام بن عبدالملک :
یہ بھی ان چار جابروں میں سے ایک ہے جن سے متعلق خود رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے پیشنگوئی کی تھی ۔بعض اہل سنت دانشوروں کے نزدیک وہ خلفاء اثنٰی عشر کا آخری فرد ہے۔ ہشام خود پسندتند مزاج اور دولت پرست تھا۔
ولید بن یزید :بعض اہل سنت دانشوروں کے نزدیک ولید بن یزید ہی خلفا ء اثنٰی عشر کا آخری فرد ہے سیوطی لکھتے ہیں :ولید بن یزید ایک فاسق خلیفہ تھا ” ولید گستاخ ،فاسق اور شرابی تھا اس ملعون نے ایک مرتبہ حج پر جانے کا ارادہ کیا تاکہ خانہ کعبہ کی چھت پر شراب پی سکے۔ مسعودی کہتے ہیں :ایک دن ولید نے اس آیت کی تلاوت کی۔«واستفتحوا وخاب کل جبار عنید من ورآئہ جھنم و یُسقیٰ من مآء صدید». پھر غضب ناک ہوا اور قرآن پر تیر چلایا اور اس شعر کو پڑھا:
أتو عِدُ کلَّ جبّار عنیدِ فھا انا ذاک جبار عنید
اذا ما جئت ربک یوم حشر فقل یارب خرَّ قنی الولیدُ
قران سے مخاطب ہوکرکہا:کیا تم ہر جبار لجوج کو ڈراتے ہو؟جان لو کہ وہ جبار لجوج میں ہوں ۔جب قیامت کے دن اپنے پرودگار کے پاس آئو تو کہو: اے پرودگار !ولید نے مجھے ٹکڑا ٹکڑا کیا ہے ۔
یاد رکھئے !ان تمام خلفاء کے دور میں حضرت امام علی (علیہ السلام )پر منبروں سے مسلسل سب ولعن ہوتے رہے ہیں کیا یہ لوگ اس لائق ہیں کہ ان کو خلفاء اثنٰی عشر میں شامل کریں ؟وہ خلفاء کہ جن کی آمد کی بشارت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے امت کو دی ہے ۔جن کے وجود سے زمین باقی ہے جو دین کی بقاء کے ضامن ہیں ،جو نقباء بنی اسرائیل کی طرح ہیں جوحضرت عیسیٰ کے حواریوں کے مانند ہیں جو قریشی اور بنی ہاشم سے ہیں ۔جو دین کے محافظ ہیں اسلام کی عزت ،شان و شوکت اور اقتدار ان سے ہے۔ ان کا سلسلہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے بعد شروع ہوا ہے او رقیامت تک جاری رہے گا۔جو امت کے سر پرست و قیم و کفیل ہیں جن کا وجود امت کیلئے خوشحالی اور تباہی سے بچائو کا ذریعہ ہے یقینا وہ خلیفے ان کے علاوہ ہی ہونگے ۔
امام مہدی ائمه اثنی عشرکاآخری فرد :
اہل سنت دانشوروں کے نظریات کی چھان بین کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک بارھواں خلیفہ سے متعلق پانچ نظریے ہیں ۔جو مندرجہ ذیل ہے ۔
١۔عمر بن عبدالعزیز ؛ ٢۔ہشام بن عبدالملک ؛ ٣۔ولید بن یزید؛ ٤۔مروان الحمار؛ ٥۔امام مہدی ؛
پہلے چار نظریے پرکوئی دلیل نہیں علماءنےصرف گمان کی بناپربات کی ہےاوریه نظریے صحیح نہیں ہیں کیونکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی احادیث کے رو سے آخری خلیفہ ، قیامت کے نزدیک زندگی کرے گا اور اسکا وجود ہی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔ دنیا کی عمر ،آخری خلیفہ کی زندگی کے ساتھ مربوط ہے آخری خلیفہ کی موت کے ساتھ ہی زمین اپنے اہل کو نگل لے گی ۔«فاذا ھلکواماجتالارض باھلھا».
جب باره خلیفے دنیا سے اٹھیں گے ،زمین اپنے اہل کو نگل لے گی ۔ایک اور حدیث میں آیا ہے حضرت ارطاة کہتے ہیں :پھر اہل بیت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے حسن سیرت کے پیکر مہدی کا ظہور ہوگا جو قیصر روم کے شہر میں جنگ کریں گے «وھو آخر امیر من امة محمد » .اوروہ امت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے آخری امیر ہونگے .
اکثر احادیث کے مطابق، بارہواں خلیفہ، بنی ہاشم اور حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا )کے فرزند ہیں، لہٰذامتعدد دلیلوں کی وجه سے قول پنجم کو ہی قبول کرنا پڑے گا یعنی امام مہدی (علیہ السلام ) ہی بارہواں خلیفہ ہیں ۔
اہل سنت کے بہت سارے محققین ،محدثین اور صاحب نظر حضرت امام مہدی (علیہ السلام )کو ہی خلفاء اثنٰی عشر کا آخری فرد، یعنی بارھواں خلیفہ مانتے ہیں بعض نے تواس بارے میں کتابیں بھی لکھی ہیں .ہم یہاں اختصار کی بنا پر فقط بعض کے اسماء گرامی درج کرتے ہیں ۔
ابو دائود (متوفای٢٧٥ق) ؛ ابن کثیر د مشقی (متوفای ٧٧٤ق) ؛ جلال الدین سیوطی (متوفای ٩١١ق) ؛ ابن طولون (متوفای ٩٥٣ق) ؛متقی ھندی (متوفای ٩٧٥ق) ؛ ڈاکٹر محمد طاہر القادری (معاصر) اور ڈاکٹر منصور عبدالحکیم (معاصر).
حقیقت نظر:
اہل سنت کے بعض محققین اور دانشور حضرات یہ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ بارہ خلفاء کے مصادیق پیدا کرنے سے عاجز اور ناتوان ہیں البتہ بعض ایسے دانشور اور محققین بھی ملتے ہیں کہ جنہوں نے صاف ،صاف اعتراف کرلیا ہے کہ ان حدیثوں میں جن بارہ خلفاء کی طرف اشارہ ہو ا ہے وہ وہی شیعوں کے بارہ امام ہیں کہ جو سب کے سب یکے بعد دیگرے بغیر کسی فاصله اورتوقف کے وفات پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے بعد سے آرہے ہیں اور قیامت تک رہیں گے ۔ان بارہ خلفاء کی ابتداعلی( علیہ السلام) سے اور انتہا حضر ت مہدی (علیہ السلام )پر ہوگی ۔
جناب مہلب :
آپ اہل سنت کے ایک مایہ ناز عالم ہیں ۔بارہ خلفاء والی حدیثوں سے متعلق کہتے ہیں «:لم الق احداً یقطع فی ھذا الحدیث بمعنی»!
ابھی تک میں نے کسی کو نہیں پایا جو اس حدیث کے معنی سے متعلق یقین سے کچھ کہہ سکے !ابن العربی کہتے ہیں:«ولم اعلم للحدیث معنی». مجھے اس حدیث کے معنی کے بارے میں کوئی علم نہیں ۔
جناب تور بشتی :
ان کی نظر میں بارہ خلفاء والی حدیث اوراس کا معنی کا تعلق ایسے افرادسے ہیں کہ جو عادل اور نیک ہوں کیونکہ حقیقت میں وہی لوگ ہی خلیفہ کہلانے کے مستحق ہیں اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ وہ لوگ ہر صورت میں تخت حکومت پر ہی بیٹھیں ۔جتنا بھی ممکن ہوسکے ولایت ان کے ہی اختیار میں ہونا چاہئے دوسروں کے پاس نہ ہو ۔لہٰذا بارہ خلیفے سے مراد وہی لوگ ہیں کہ جو مجازاََ اس نام سے پکارے جاتے ہیں .
جناب قندوزی حنفی :
آپ حضر ت مہدی (علیہ السلام ) کوہی اخری خلیفه اورجانشین پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جانتے اور لکھتے ہیں : قال بعض المحققین :ان الاحادیث الدالة علی کون الخلفاء بعدہ ت اثنٰی عشر قد اشتھرت من طریق کثیرة فبشرح الزمان و تعریف الکون و المکان علم ان مراد رسول اللّٰہ ت من حدیثہ ھذا الائمة الاثنٰی عشر من اھل بیتہ و عتر تہ: اذلا یمکن ان یحمل ھذا الحدیث علی الخلفاء بعدہ من اصحابہ،لقلتھم عن اثنٰی عشر،ولایمکن انا یحملہ علی الملوک الا مویة ،لزیادتھم عل اثنٰی عشرو لظمھم الفا حش۔الا عمر بن عبد العزیز ۔ولکونھم غیر بنی ہاشم لا ن النبی تقال:«کلھم من بنی ہاشم »فی روایة عبدالملک عن جابر،واخفاء صوتہ ت فی ھذا القول یرجح ھذہ الروایة:لا نھم لا یحسنون خلافة بنی ہاشم ۔
ولا یمکن ان یحملہ علی الملوک العباسیة ،لزیادتھم علی العدد المذکور ولقلة رعایتھم الایة(…قل لاَّ أَسْئَلُکُمْ عَلیَہِ أَجْرًا الاَّ اَلْمُوْدَةَفیِْ القربی…)و حدیث الکسائ۔ فلابدمن ان یحمل ھذا الحدیث علی الائمة الاثنٰی عشر من اھل بیتہ و عترتہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) لا نھم کانو ا اعلم اھل زمانھم واجلھم و اور عھم واتقاھم و اعلاھم نسباًو افضلھم حسباً واکرمھم عنداللّٰہ وکان علومھم عن ابائھم متصلاً بجدھم تو بالوراثة والدنیة؛کذا عرفھم اھل العلم والتحقیق و اھل الکشف والتوفیق و یؤید ھذاالمعنی، ای ان مراد النبیتالائمة الاثنٰی عشر من اھل بیتہ و یشھدہ و یرجحہ، حدیث الثقلین والا حادیث المنتکثرة المذکورة فی ھذا الکتاب و غیرھا۔
واماقولہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) «کلھم تجتمع علیہ الامة» فی روایة عن جابربن سمرہ فمرادہت ان الامة تجتمع علی الاقرار بامامة کلھم وقت ظھور قائمھم المھدی۔رضی اللّٰہ عنھم .
اہل سنت عالم جناب قندوزی حنفی کہتے ہیں ۔کچھ محققین کہتے ہیں جن روایتوں میں حضرت محمد (صلی الله علیه وآله وسلم)کے بعد خلفاء کی تعداد بارہ ذکر ہوا ہے سند کے اعتبار سے شہرت کی حد تک پہنچ چکی ہیں ۔ان حدیثوں میں زمان و مکان کے لحاظ سے شرح و تطبیق میں دقت کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی بارہ نفر سے مراد،وہی ائمہ ہیں جو آپ کے اہل بیت اور عترت سے ہیں کیونکہ ان حدیثوں کے انطباق ان صحابہ پرجوخلیفه بن گئے صحیح نظر نہیں آتا چونکہ ان کی تعداد باره سے کم ہے ۔اسی طرح اس تعدادکو اموی بادشاہوں پر بھی حمل کرنا ممکن نہیں کیونکہ اموی بادشاہوں کی تعداد بارہ سے
زیادہ ہے ا سی طرح اموی بادشاہ برے اعمال کے بھی مرتکب ہوچکے ہیں اور انہوں نے ظلم و ستم کئے ہیں (عمر بن عبدالعزیز کے علاوہ )اور اموی لوگ،بنی ہاشم سے بھی نہیں ہیں اور پیغمبر نے اس روایت میں کہ جسے عبدالملک نے جابر سے نقل کی ہے فرمایا: (بارہ نفر) سب کے سب بنی ہاشم سے ہیں ”اس روایت میں پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اہسته بات جو کرتے ہیں اسی معنی کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اموی بادشاہ حضرات ،بنی ہاشم کی خلافت کو اچھا نہیں سمجھتے تهے ۔
ان حدیثوں کی تطبیق بنی عباس پر بھی درست نہیں ہے کیونکہ ان کی تعداد بھی عددمذکور(بارہ )سے زیادہ ہے اور بنی عباس آیہ«قل لا اسئلکم علیہ اجرالاالمودة فی القربٰی » اور حدیث کساء کی بھی بہت کم رعایت کرتے تهے ۔(ایہ مودت اور حدیث کساء فریقین کے نزدیک اہل بیت اطہار(علیہم السلام) کی شان میں ہیں ۔
لہٰذا ضروری ہے کہ یہ حدیث اہل بیت پیغمبر اور آپ کی عترت کے بارہ اماموں پر حمل ہو ،کیونکہ وہ لوگ علم میں اپنے زمانے کے سب سے زیادہ اعلم ،سب سے زیادہ با عظمت، زاہد اور متقی تھے۔
حسب و نسب کے اعتبار سے بھی، سب سے زیاده اعلیٰ وافضل تھے اور خدا کے نزدیک سب سے زیادہ کرامت والے تھے ،ان کے علوم ،ان کے آباء واجدادکے ذریعے ان کے جد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے متصل تھے ،اسی طرح ان کے علوم وراثت کے ذریعے علم لدنی سے بھی ملے ہوئے تھے اور وہ علم لدنی کے مالک تھے ۔اہل علم و تحقیق ، اہل کشف و توفیق نے، ان کو ایسا ہی پایا ہے.
اس کتاب میں اور باقی کتابوں میں حدیث ثقلین او رمذکورہ کثیر احادیث اس بات کی گواہی دیتی اور ترجیح دیتی ہیں کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی مراد بارہ ائمہ سے ،بارہ ائمہ اہل بیت مراد ہیں. .۔روایت جابر بن سمرہ میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے اس کلام کلہم تجتمع علیہ الامة” کا معنی یہ ہے کہ ان کے قائم مہدی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے ظہور کے وقت امت کے سارےلوگ بارہ ائمہ کی امامت و خلافت کا اقرار کریں گے ۔
اہل سنت منابع میں باره امامو ں کے اسماء گرامی :
جیسا کہ ذکر ہوا بعض اہل سنت محققین کی نظرمیں بارہ خلفاء والی حدیثوں کی تطبیق نہ بنی امیہ پر ہوتی ہے اور نہ ہی بنی عباس پر بلکہ ان بارہ کی تطبیق صرف ائمہ اہل بیت(علیہم السلام) پر ہوتی ہے کہ جو بارہ ہیں ایک اہم نکتہ جو سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ بعض اہل سنت منابع میں ان بارہ خلفاء کے نام بھی ملتے ہیں .یہاں ہم اہل سنت عالم جناب قندوزی حنفی کی کتاب سے بار ہ خلفاء کے نام قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے ۔
مجاہد روایت نقل کرتے ہیں کہ ابن عباس نے کہا :«قدم یھودی یقال لہ مغثل فقال :یا محمد !اسئلک عن اشیاء تلجلج فی صدری منذ حین فان اجبتنی عنھا اسلمت علی یدیک.قال: سل یا ابا عمارہ!فقال…فاخبرنی بمن و صیک من ھو فامن نبی الاولہ وصیی وان نبینا موسی بن عمران اوصی یوشع بن نون ،فقال:ان وصی علی بن ابی طالب و بعدہ سبطای الحسن والحسین تتلوہ تسعة آئمةمن صلب الحسین۔قال:یامحمد!فسمھم لی۔قال: اذا مضی الحسین فابنہ علی ،فاذا مضی علی فابنہ محمد ،فاذا مضی محمد فابنہ جعفر،فاذا مضی جعفرفابنہ موسی،فاذا مضی موسی فابنہ علی، فاذا مضی علی فابنہ محمد،فاذامضی محمد فابنہ علی، فاذامضی علی،فابنہ الحسن،فاذا مضی الحسن فابنہ الحجة محمد المھدی،فھولاء اثنٰی عشر».
مغثل نامی ایک یہودی ،پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی خدمت میں پہنچا اورعرض کرنے لگا:اے محمد!کچھ مدت سے بعض سوال نے میرے ذہن کو مشغول کر رکھا ہے آپ سے سوال کروں گااگر جواب دے سکے تو پھر آپ کے ہاتھوں اسلام قبول کروںگا۔پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا:اے ابا عمارہ !پوچھوعرض کیا :آپ کا وصی کون ہے ؟کوئی نبی نہیں گذرامگر اس کے وصی ہیں ہمارے نبی موسی بن عمران نے یو شع بن نون کو وصی قراردیا۔پیغمبر ت نے فرمایا:میرا وصی علی بن ابی طالب ہیں ۔ان کے بعد میرے دونواسے حسن و حسین ہیں ۔ان کے بعد حسین کی نسل سے نو نفرائمہ میرے وصی ہیں ۔یہودی نے دوبارہ عرض کیا : اے محمد !ان کے نام مجھے بتا دیجئے !پیغمبر اکرم ت نے فرمایا:حسین کے بعد ان کے فرزند علی ہیں اور جب علی اس دنیا سے گزر جائے تو ان کے بیٹے محمد ہونگے ،اور جب محمد گزر جائیں گے تو ان کے بیٹے جعفر ہونگے جب جعفر گزر جائیں گے تو ان کے بیٹے موسیٰ وصی ہونگے اور جب
موسی اس دنیا سے گزر جائیں گے تو ان کے بعد ان کے بیٹے علی (وصی )ہونگے اورجب علی گزر جائیں گے تو ان کے بیٹے محمد وصی ہونگے اورجب محمد گزر جائیں تو ان کے بیٹے علی وصی ہونگے اورجب علی گزر جائیں گے تو ان کے بیٹے حسن میرے وصی ہونگے اور جب حسن اس دار فانی سے کوچ کر جائیں گے تو ان کے بیٹے حجت محمد مہدی میرے وصی ہونگے پس وہ لوگ بارہ ہیں ۔
خلاصه:
اهل سنت روایتوں میں باره اماموں( ائمه اثنی عشر )کے اوصاف کاخلاصه یوں ہے. ائمه اثنی عشر ،قریشی اور بنی ہاشم سے هونگے ۔یه اس امت کے سرپرست، کفیل، قیمّ اورصاحب اختیار هونگے.یه نقباء بنی اسرائیل کی طرح بارہ هونگے . حضرت عیسیٰ کے حواریوں کی طرح ہیں پیغمبر(صلی الله علیه واله وسلم) کے بعد آئیں گے اور بغیر کسی فاصلے کے ایک کے بعد، دوسرا آئے گا۔ ائمه اثنی عشر ، خدا کی طرف سے منصوب ہیں (یہ نتیجہ حدیث کعدة نقباء بنی اسرائیل سے لیا ہے کیونکہ قرآن میں ان سے متعلق لفظ،”بعثنا”آیا ہے )۔ ائمه اثنی عشر ،قیامت تک دین کی شوکت ، کامیابی ، عزت و وقار اور بقاء کے ضامن ہیں ان کی خلافت قیامت تک چلے گی یه امت کی خوشحالی کے باعث بنیں گے۔یه امت کو ھرج و مرج اورتباهی سے بچائیں گے. کسی کی دشمنی ان کو کوئی ضرر نہیں دے سکے گی ۔
امت ہر گز ہلاک نہیں ہوگی جب تک ان میں ائمه اثنی عشر ہونگے ۔ بارھویں خلیفہ کے بعد زمین اپنے ساکنین کو نگل لے گی اور نابود کردے گی ۔ ائمه اثنی عشر میں پهلاخلیفه علی اوربارهواں مهدی ہونگے
میرے خیال میں یه روایتیں، امت مسلمه کی تقدیر پردلالت کرتیں ہیں که جب تک امت باره سے متمسک ر ہے گی، ان کے دین ودنیا ابا د ر ہے گی،باره سے جدائی دین ودنیا کی بربادی ہے.یه حدیث اعجازعلمی اورغیبی ہےکه جس میں آینده اورانے والے زمانے سے متعلق پیشن گوئی کی گئی ہے.

 

 

 

 

 

 

 

 

منابع:

ابن بطال ، ابی الحسن علی بن خلف ، شرح صحیح البخاری ١٠ج ، مکتبہ الرشد، ریاض ، ٢٠٠٠م۔
ابن جوزی ، سبط، تذکیرة الخواص، مؤسةاھل البیت،بیروت، ١٩٨١م۔
ابن حنبل، امام احمد، المسند للامام احمد بن محمد حنبل ٢٠ج، تحقیق احمد شاکرو حمزہ احمد الزین ،دارلحدیث ، قاھرہ، ١٩٩٥م۔
ابن حنبل، امام احمد، مسند احمد بن حنبل ٦ج، دارالفکر، (بی جا )، (بی تا)۔
ابن سوره، ابی عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ،سنن الترمذی ٥ج، درالفکر، بیروت، ١٩٩٤م۔
ابن طولون، شمس الدین محمد، الائمة الاثنا عشر، منشورات الراضی، قم، (بی تا)
یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، ابن واضح ،تاریخ یعقوبی٢ج، ترجمہ محمد ابراہیم آیتی ،شرکت انتشارات علمی و فرھنگی ، تھران ، ١٣٧٨ش۔
آلوسی ، محمود ، روح المعانی (فی تفسیرالقرآن العظیم والسبح المثانی )۔٣٠ج، انتشارات جھان، تھران، (بی تا)۔
بخاری ،صحیح بخاری ، دارالجبل بیروت٩ج، (بی تا)۔
بستوی، عبدالعلیم عبدالعظیم ، المھدی المنتظر(فی ضوء الاحادیث و الاثار الصحیحة )، المکتبة المکیة دار ابن حزم ، مکہ، ١٩٩١م۔
بشوی،محمدیعقوب،نقداحادیث مهدویت ازدیدگاه اهل سنت،قم: انتشارات مرکزجهانی علوم اسلامی،1374ش؛
بغوی ، ابی محمد الحسین بن مسعود ، مصابیع السنة ٤ج ، تحقیق یوسف عبدالرحمن و ھمرا ھان ، دارالمعرفة ، بیروت، ١٩٨٧م۔
بغوی ، ابی محمد الحسین بن مسعود ،ابی محمد الحسین بن مسعود، شرح السنة ٨ج، دارلفکر بیروت، ١٩٩٤م۔
بیھقی ، ابی بکر احمدبن علی ، دلائل النبوة (و معرفة احوال صاحب الشریعة) ٧ج، دارالکتب الرضی ، قم، ١٩٨٩م۔
جزری ، لمبارک بن محمدبن الاثیر، جامع الاصول (فی احادیث الرسول)، مکتبة التجاریة، مکہ، ١٩٨٣م۔
حمیدی ، محمد بن فتوح ، الجمع بین الصحیحین٤ج، دار ابن حزم ، بیروت ، ١٩٩٨م۔
حنفی، حافظ سلیمان ابن ابراھیم القندوزی، بنابیع المعودة ،مکتبةبصیرتی ، قم ،١٩٦٦م۔
خطیب ، محمد عجاج ،اصول الحدیث (علومہ و معطلمہ)، دارالفکر، بیروت ١٩٨٩م۔
خطیب التبریزی، محمد بن عبداللّٰہ، مشکاة المصابیع٤ج، دارالفکر ،بیروت ،١٩٩١م۔
دمشقی ، قاضی علی بن علی بن محمد بن ابی العز، شرح العقیدة الطحاویة ٢ج، موسة الرسالة ، بیروت، ١٩٩٤م۔
دمشقی، ابی الفداء اسماعیل بن کثیر البدایة وانھایة ١٤ج،موسة التاریخ العربی، بیروت، ١٩٩٢م۔
دمشقی، ابی کثیر، تفسیر القران العظیم ٤ج، دارالمعرقة، بیروت ١٩٨٧م۔
دیار بکری، حسین بن محمد بن الحسن ، تاریخ خمیس (فی احوال انفس نقیس) ٢ ج، دار صادر ، بیروت ، (بی تا)۔
ذھبی ،ابی عبداللّٰہ محمد بن احمد بن عثمان ، میزان الاعتدال٤ج،داالفکر (بی جا )، (بی تا)۔
سجستانی الازدی، ابی داؤد سلیمان الاشعث، سنن ابی داؤد ٤ج، داراحیاء التراث العربی ،بیروت ،(بی تا)
سیوطی ، جلال الدین ، نثور، ٨ج، دارالفکر ،بیروت ، ١٩٩٣م۔
سیوطی ، جلال الدین ، تاریخ الخلفاء دارصادر، بیروت، ١٩٩٧م۔
طبرانی ، ابی القاسم سلیمان بن احمد ، المعجم الکبیر، داراحیاء التراث العربی ، (بی جا)، (بی تا)۔
طبری، محمد بن جریر، جامع البیان ، ٢٠ج ، دارالفکر ، بیروت، (بی تا)۔
طنجی، ابی الفتوح عبداللّٰہ بن عبدالقادر، تھذیب السنن الترمذی ٣ج، دارالمعرفة، مغرب، (بی تا)۔
عبدالحکیم ، منصور ، المھدی المنتظرآخر الخلفاء الراشدین، المکتبة التوفیقیة، قاھرہ، (بی تا)۔
عجلی ،حافظ احمد بن عبداللّٰہ بن صالح ابی الحسن ، تاریخ الثقات، دارالکتب العلمیة، بیروت، ١٩٨٤م۔
عسقلانی ،ابن حجر، ، ابی حجر، تقریب التھذیب،دارالکتب العلمیة، بیروت، ١٩٩٥م۔
عسقلانی ،ابن حجر، فتح الباری ، دارلکتب العلمیة، بیروت،١٩٩٧م۔
عسقلانی ،ابن حجر، لسان المیزان ١٠ج ،داراحیاء التراث العربی ، بیروت، ١٩٩٥م۔
عظیم آبادی، ابی طیب محمد شمس الحق ، عون المعبود (شرح سنن ابی داؤد )٤، ١، ج، دالکتب العلمیة، بیروت، (بی تا)
قادری محمد طاہر ، القول المعتبر فی الامام المنتظر، منھاج القران پبلیکیشنز، لاہور۔ ٢٠٠٢م۔
مالکی ، امام بن العربی، عارضة الاحوذی (لشرح صحیح الترمذی)١٣ج، دارالکتب العربی، (بی جا )،(بی تا)۔
مبارکفوری ، بی العلاء محمد عبدالرحمن ابن عبدالرحیم ، تحفة الاحوذی١٠ ج، دار احیاء التراث العربی ، بیروت، ١٩٩٨م۔
متقی الھندی، علاء الدین ، کنزالعمال ١٨ ج، مؤسة الرسالة، بیروت، ١٩٨٩م۔
مزی، جمال الدین ابی الحجاج یوسف ، تھذیب الکمال (فی اسماء الرجال( ٢٢ج، دارالفکر ، بیروت ، ١٩٩٤م١٢٦۔ مسعودی ، ابو الحسن علی بن حسین، مروج الذھب و معادن الجوھر٢ج، ترجمہ ابو القاسم، پایندہ ، شرکت انتشارات علمی و فرھنگی، تھران، ١٣٧٤۔
نووی، شرح صحیح مسلم (شرح) ، دارالقلم، بیروت، (بی تا)؛
نیشا بوری ، ابی عبداللّٰہ الحاکم ، المستدرک٤ج، دارالمعرفة، بیروت، (بی تا)؛
ھندی، علی بن حسام(المشھور بالمتقی)، البرھان فی علامات مھدی آخرالزمان ٢ج، تحقیق جاسم بن محمدبن مھلھل الیاسین، (بی تا) ،(بی جا)، ١٩٨٨م۔
ھیتمی ، ابن حجر، الصواعق المحرقة(علی اھل الرفض والضلال، الزندقة)٢ج، البیھقی ، مؤسة الرسالة، بیروت ، ١٩٩٧م۔
ھیتمی، علی بن ابی بکر، مجمع الزوائدو منبع الفوائد، ١٠ج، دارالکتب العربیة، بیروت، (بی تا)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
: صحیح مسلم ،ج١٢،ص ٤٤٢۔
: صحیح مسلم ،ج ١٢،ص ٤٤٣۔
: تقریب التھذ یب ،ج ٢، ص ٢٦٣۔
: حوالہ سابق ،ج ١، ص ٢٣٨۔
: حوالہ سابق ، ص ٣٩٤۔
: ر.ک:تھذ یب الکمال ،ج ٨،ص ١٣١۔
: حوالہ سابق۔
: اصول الحدیث ،ص ٢٦٨۔
: لسان المیزان ،ج ا، ص ٢٣۔
: صحیح مسلم ،ج ١٢،ص ٤٤٤۔
: صحیح البخاری ،ج٩،ص١٠١۔
: تھذیب الکمال ،ج ١٧،ص ١٩١۔
: حوالہ سابق،ج ١٦،ص ١٧٤۔
: حوالہ سابق، ج ٨، ص ٣٥٥۔
: تقریب التھذیب ،ج ١،ص٦١٨۔
: سنن الترمذی ،ج ٤، ص ٩٥۔
: ر.ک:تقریب التھذ یب ،ج ٢،ص ١٢١؛ تھذ یب الکمال ،ج ١٤،ص ١٢٩۔
: تھذ یب السنن الترمذی ،ج ٢، ص٥٠٧۔
: تفسیر ابن کثیر ، ج ٢ ، ص ٤ ٣۔
: مسند احمد ، ج ١، ص ٣٩٨.
: تقریب التھذ یب ،ج ١،ص ٤٧٧۔
: حوالہ سابق،ج ١،ص ٢١٠۔
: حوالہ سابق ،ص ٢٣٨۔
: حوالہ سابق ،ج ٢، ص ٤٦١۔
: تقریب التھذ یب ،ج ١٠،ص ٣٧۔
: تھذ یب الکمال ، ج ١٧،ص ٤٣٨۔
: میزان الاعتدا ل ، ج ٣، ص ٤٣٨۔
: تاریخ الثقات،ص ٤٢٠۔
: تھذ یب الکمال ،ج ١٧،ص ٤٣٨۔
: ر.ک:تھذ یب الکمال ،ج ١٧،ص ٤٣٨۔
: لسان المیزان ،ج ا،ص6 ا.
: المسند ،ج ١،ص ٤٠٦۔
: مائدہ /١٢۔
: روح المعانی ،ج ٤ ص٧٨.
: مجمع الزوائد، ج ٥، ص ١٩١؛ المعجم الکبیر، ج ٢، ص ١٩٦
: کنزالعمال، ج ١، ص ١٠٣۔
: صحیح مسلم ، ج ١٢،ص ٤٤٣ ؛ جامع الاصول، ج ٤،٤٥؛مصابیع السنة، ج ٤، ص ١٣٧؛ تفسیر ابن کثیر، ج ٢، ص٣٤۔
: ینابیع المودة ،ص ٢٥٨.
: مجمع الزوائد،ج ٥،ص ١٩١۔
: سنن الترمذی، ج ٤، ص٩٥۔
: تھذ یب السنن الترمذی،ج ٢،٥٠٧۔
: المسند لامام احمد ،ج ١٥،ص ٣٣١۔
: ر.ک:عارضة الاحوذی ،ج ٩ ، ص ٦٨۔
: المھدی المنتظر،ص ٣٣٧۔
: ر.ک:مصابیح السنة،ج ٤، ص ١٣٧؛مشکاة المصابیح ، ج ٣، ص ٣٢٧؛الجمع بین الصحیحین ، ج١،ص ٣٣٧۔
: الصواعق المحرقہ، ج١،ص ٥٣۔
: ر.ک:نقداحادیث مهدویت ازدیدگاه اهل سنت،ص27۔
: عارضة الاحوذی ،ج ٩ ، ص ٦٨، ٦٩۔
: فتح الباری ،ج١٣،ص ٢٦٣؛تاریخ الخلفاء، ص٢٥۔
: فتح الباری ،ج ١٣،ص ٢٦٤۔
: دلائل النبوة ،ج ٦، ص ٥٢٠۔
: فتح الباری ،ج ١٣،ص ٢٦٣۔
: تاریخ الخلفاء ،ص ٢٧۔
: شرح العقیدة الطحاویہ ،ج ٢، ص ٧٣٦۔
: اسراء /٦٠۔
: الدارالمنثور ، ج ٥،ص ٣٠٩۔
: حوالہ سابق۔
– حجر/96.
: حوالہ سابق۔
: جامع البیان ،ج ٣٠،ص ٢٦٠۔
: تاریخ خمیس، ج٢، ص ٣١٧۔
: تاریخ یعقوبی، ج ٢، ص ١٩٤۔
: تذکرہ الخواص،ص ٢٣٥۔
: مروج الذھب ،ج ٢، ص ٧١۔
: حوالہ سابق ۔
: المستدرک ،ج ٤،ص ٤٧٩،٤٨١۔
: حوالہ سابق ،ص ا٤٨۔
: تاریخ الخلفاء ،ص ٢٥٧۔
: دلائل النبوة ،ج ٦، ص ٥٠٨۔
: حوالہ سابق،ص ٥۔٥
: تاریخ الخلفاء ، ص ٢٦٣۔
: حوالہ سابق ،ص ٢٨٩۔
: مروج الذھب ،ج ٢،ص ١٩٩،٢٠٨۔
: تاریخ الخلفاء ،ص ٢٩٥۔
حوالہ سابق ۔
: حوالہ سابق ۔
: ابراہیم /١٥،١٦۔
: مروج الذھب ،ج ٢،ص ٢١٩۔
: عون المعبود، ج ١١، ص ٢٤٤۔
: شرح العقیدة الطحاویة ،ج ٢،ص ٧٣٧۔
: فتح الباری ،ج ١٣،ص ٢٦٤۔
: حوالہ سابق ،ص ٢٦٣۔
: البدایة والنھایة ،ج ٦،ص ٢٧٩۔
: المسند ، ج ٣، ص ١٧،ج ا، ص ٥٠٠۔
: کنزالعمال ،ج ١٣،ص ٢٧۔
: القول المعتبر،ص ٨ ٦۔
: سنن ابی داود،ج ٤ ،ص ١٠٦۔
: تفسیر ابن کثیر ،ج ٢،ص ٣٤۔
: تاریخ الخلفاء ،ص ٢٧۔
: الائمة الاثنٰی عشر،ص ١١٧۔
: البرھان ،ج ٢،ص ٨٥٩۔
: القول المعتبر ،ص ٦٤۔
: المہدی المنتظرآخری الخلفاء الراشدین ،ص ٢٦۔
: شرح صحیح البخاری ،ج ٨،ص ٢٨٧۔
: عارضة الاحوذی ،ج ٩،ص ٦٩۔
: عون المعبود،ج ١١،ص ٢٦٢۔
: ینابیع المودة،ص ٤٤٦۔
: شوری /٢٣۔
: ینابع المودہ،ص ٤٤١۔

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *