تازہ ترین

تفتان بارڈر پر زائرین کی حالات زار/تحریر : محمد حسن جمالی

ان دنوں میں پوری دنیا سے زائرین جوق در جوق کربلا پہنچ رہے ہیں- روز اربعین نواسہ رسول کو سلام پیش کرنے کی تمنا لے کر کائنات کی جگہ جگہ سے حسین کے چاہنے والے کربلا کی طرف سفر کررہے ہیں- پیادہ روی جیسی پر عظمت وبافضیلت رسم کی ادائیگی کے لئے زائرین کی کوشش ہوتی ہے کہ روز اربعین سے کم از کم تین دن پہلے وہ نجف اشرف کی مقدس سر زمین پر پہنچ جائیں -چنانچہ کویت، بحرین ،امریکہ سمیت دنیا کے دور دراز ملکوں سے زائرین عراق کی سرزمین پر پہنچ کر پیادہ روی شروع کرچکے ہیں، جن زائرین میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکهنے والے لوگ ہیں -غیر مسلم کی ایک بڑی تعداد بهی مظلوم کربلا کے روضہ اقدس پر جبین نیاز رکهنے کے لئے پیادہ روی کرنے والوں میں شامل ہے-

شئیر
59 بازدید
مطالب کا کوڈ: 3084

مسلمانوں کے ساتهہ دنیا کے ملکوں کا عمومی رویہ جیسا بهی ہو جب کسی ملک سے نواسہ رسول کے عشق میں افراد کربلا جانا چاہے تو کوئی سختی نہیں، انہیں نہ پاسپورٹ بنوانے میں کوئی دشواری پیش آتی ہے اور نہ ویزہ حاصل کرنے میں کوئی مشکل- انہیں نہ جانے میں مسائل درپیش ہوتے ہیں اور نہ واپس آنے میں، بلکہ وہ بالکل باعزت طریقے سے جاتے اور واپس آتے ہیں ،مگر دنیا کے ممالک میں سے اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئی مملکت پاکستان وہ ملک ہے جس میں زائرین کے لئے ہر موڑ پر مسائل اور مشکلات کے پہاڑ کهڑے رہتے ہیں- اس ملک میں پاسپورٹ بنانے سے لے کر ویزہ حاصل کرکے بارڈر کراس کرنے تک زائرین کو ہزاروں مشکلات میں گرفتار ہونا پڑتے ہیں- ان ایام میں اربعین کے لئے کربلا پہنچنے کی تمنا لے کر گوناگون مسائل اور مشکلات برداشت کرتے ہوئے 16 ہزار سے زیادہ زائرین بارڈر پہنچے ہوئے ہیں مگر بارڈر پر ظالم حکومتی اہلکاروں نے مختلف بہانوں سے ان کو روک کر ازیت وآزار پہنچارہے ہیں – اتنی بڑی جمعیت کو ظالم حکمرانوں کے آلہ کاروں نے حیوانوں کی طرح بیابان میں رہنے پر مجبور کئے ہوئے ہیں – زائرین کی اکثریت ضعیف وناتواں افراد پر مشتمل ہے، شیر خوار چھوٹے چھوٹے بچے بهی ان کے ہمراہ ہیں، جنہیں نہ کهانے پینے کا کوئی انتظام ہے اور نہ دوسری سہولیات- یہاں تک کہ ان کے لئے چهت تک میسر نہیں-

تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، صوبہ بلوچستان کی حکومت نے سیکیورٹی کے نام پر ہزاروں زائرین کو کوئٹہ میں روکا ہوا ہے ۔رپورٹ کے مطابق سرحد پر ہزاروں زائرین ایران میں داخل ہونے کی کوشش کررہے ہیں جنہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے، حکومتی ناقص انتظامات کی وجہ سے سرحد کی حالت انتہائی نازک ہے۔ہزاروں زائرین کے لئے تفتان بارڈر میں کسی قسم کی کوئی گنجائش اور سہولت نہیں ہے۔واضح رہے کہ پاکستان بھر سے ایران، عراق اور شام کو جانے والے زائرین کو تفتان میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تسنیم نیوز کی رپورٹ کے مطابق ایران بارڈر پر تین زائر کی شہادت واقع ہوئی ہے اور جہاں ایک طرف پاکستانی حکام کی جانب سی بارڈر پر ناقص انتظامات اور عملہ کی کمی کیوجہ سے دسیوں ہزار زائرین جمع ہوگئے ہیں وہیں ان زائرین کی مشکلات میں اضافے کی ایک وجہ پاکستان میں موجود ایرانی سفارت خانہ اور قونصل خانوں کا عدم تعاون بهی ہے-

زائرین رہائش گاہ نہ ہونے کی وجہ سے کهلی فضا میں شب وروز گزار رہے ہیں- بس یوں سمجهیں کہ عشق حسین (ع) ہی نے ان کو زندہ رکها ہوا ہے- زائرین جانتے ہیں کہ پیغمبر اسلام ص) نے حسین سے عشق اور محبت کرنے کا حکم دیا ہے- حسین کی محبت رسول کی محبت ہے اور رسول کی محبت اللہ کی محبت ہے – اس سلسے میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کے خصوصی خطاب کے ترجمے سے اہم حصے اس تحریر میں شامل کرنا زیادہ مناسب سمجها ملاحظہ فرمائیں ۔

حضور علیہ السلام نے تبلیغ رسالت کے ذریعے ہم پر جو احسان فرمایا اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے کوئی اجر طلب نہیں فرمایا سوائے اِس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت اور قرابت سے محبت کریں۔ یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرابت سے محبت کا جو حکم دیا، یہ اجر بھی آقا علیہ السلام بدلہ کے طور پر اپنے لئے طلب نہیں فرما رہے بلکہ یہ بھی ہمارے بھلے کے لیے ہے۔ اِس سے ہمیں ایمان و ہدایت کا راستہ بتار ہے ہیں، ہمارے ایمان کو جِلا بخش رہے ہیں اور اہل بیت و قرابت کی محبت کے ذریعے ہمارے ایمان کی حفاظت فرما رہے ہیں۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس فرمان کے ذریعے ہماری ہی بھلائی کی راہ تجویز فرما رہے ہیں۔ ہر تفسیر اور ہر مفسر امام قرطبی، امام بغوی، امام نسفی، حافظ ابن کثیر، امام ابن العادل الحنبلی، امام بقائی، امام ہیثمی، عسقلانی، زمحشری، امام سیوطی، امام ابو نعیم، ابن المنذر، ابن الحاتم، طبرانی، ابن حجر مکی، امام احمد بن حنبل، امام بزار، امام شوکانی الغرض جملہ محدثین و آئمہ کی کتب میں احادیث سے بے حساب تائیدات اور آئمہ تفسیر کی تصریحات اس معنی پر ملتی ہیں، جس سے اس معنی پر کوئی شک وشبہ نہیں رہ جاتا۔

اہلِ قرابت کون ہیں؟

اہل بیت کی عظمت و شان میں بہت سی آیات ہیں، ۔حضرت سعید ابن جبیر رضی اللہ عنھما اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ قربی نازل ہوئی تو حضور علیہ السلام سے پوچھا گیا:يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَنْ قَرَابَتُکَ هٰؤُلاَءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَوَلَدَاهَا.

(أخرجه ابن أبي حاتم الرازي في تفسيره، 10/ 3276، الرقم/18473)’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کی قرابت والے وہ کون لوگ ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی، فاطمہ، اور اس کے دونوں بیٹے (حسن اور حسین) l‘‘۔امام احمد بن حنبل روایت فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ

لَمَّا نَزَلَتْ: {قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی} (الشوریٰ، 42/23)، قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، وَمَنْ قَرَابَتُکَ هٰؤُلَاءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَاهُمَا.(احمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 2: 669، رقم: 1141)

’’جب مذکورہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل قرابت سے کون لوگ مراد ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی، فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے رضی اللہ عنہم‘‘۔یعنی صحابہ کرام کے پوچھنے پر آقا علیہ السلام نے اس آیت مبارکہ کی خود تفسیر کی اور امت پر واضح فرمادیا کہ ان پر کن کن کی مؤدت اور محبت واجب و فرض ہے۔یہی معنی حضرت ابوالعالیہ التابعی، سعید بن جبیر، ابو اسحاق، عمرو بن شعیب، امام ترمذی، امام احمد بن حنبل، امام حاکم، امام بزار، امام طبرانی الغرض کتب احادیث اور کتب تفسیر میں کثرت کے ساتھ بیان کیا گیا ہےاس آیت کریمہ کی جملہ تفاسیر پڑھنے کے لیے میری کتاب ’’القول فی القرابۃ‘‘ کا مطالعہ کریں۔ اِس کتاب میں تمام اقوال تفسیری بھی درج ہیں اور ان کی تائید میں تمام احادیث بھی بیان کی گئی ہیں۔آقا علیہ السلام نے فرمایا:

أَحِبُّوا اﷲَ لِمَا يَغْذُوْکُمْ مِنْ نِعَمِہ۔ وَأَحِبُّوْنِي بِحُبِّ اﷲ۔وَأَحِبُّوْا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي.(جامع ترمذی، ابواب المناقب، 5: 664، رقم: 3789)یعنی اللہ سے محبت کرو اِس وجہ سے کہ اُس نے تمہیں بے شمار نعمتوں سے مالا مال کیا، وہ تم سے محبت کرتا ہے، تم پر شفقت، بے حساب رحمت، کرم اور لطف و عطاء فرماتا ہے۔ صبح و شام تم اُس کی نعمتوں اور رحمتوں کے سمندوں میں غوط زن رہتے ہو، تم پر اللہ کی نعمتوں کی موسلا دھار بارش رہتی ہے، اِس کی وجہ سے اللہ سے محبت کیا کرو۔پھر فرمایا:اور مجھ سے محبت کرو اللہ کی محبت کی وجہ سے، اس لئے کہ اللہ کی محبت میری محبت کے بغیر نہیں ملتی۔ میری محبت ہی اللہ کی محبت کا راستہ، واسطہ، ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ لہذامجھے سے محبت کرو، تاکہ تم اللہ سے محبت کر سکو۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی محبت کا راستہ بتایا ہے۔اور پھر فرمایا: میری محبت کے حصول کے لئے میری اہل بیت سے محبت کرو اور اللہ کی محبت کے حصول کے لئے مجھ سے محبت کرو۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین سے محبت کا والہانہ و بے ساختانہ اظہار بغیر کسی مقصد کے تھا؟ نہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ اس والہانہ اندازِ محبت میں بھی امتِ مسلمہ کے لئے ایک پیغام ہے۔ آیئے سب سے پہلے ایک حدیث مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر اس میں موجود پیغام پر ایک نظر ڈالتے ہیں:حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ (کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم حَامِلَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلٰی عَاتِقِهِ فَقَالَ رَجُلٌ: نِعْمَ الْمَرْکَبُ رَکِبْتَ يَا غُـلَامُ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : وَنِعْمَ الرَّاکِبُ هُوَ.(جامع ترمذی، ابواب المناقب، 5: 661، رقم: 3784)آقا علیہ السلام ایک روز سیدنا امام حسین کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر چل رہے تھے تو ایک شخص نے دیکھا تو دیکھتے ہی اُس نے کہا اے بیٹے مبارک ہو، کتنی پیاری سواری تمہیں نصیب ہوئی ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہیں سواری کا اچھا ہونا نظر آرہا ہے مگر یہ بھی تو دیکھو کہ سوار کتنا پیارا، خوبصورت اور اعلیٰ ہے۔یہاں ایک نکتہ کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ حدیث مبارکہ سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ یہ واقعہ گھر کے اندر کا نہیں ہے۔ یعنی گھر کی چار دیواری کا نہیں بلکہ باہر کا ہے، اسی لئے ایک غیر شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عملِ مبارک پر اظہار خیال کررہا ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو گلی میں لے کر چل رہے تھے۔

اب ایک طرف آقا علیہ السلام کے مرتبہ، شان، عظمت، جلالت اور قدر بھی ذہن میں رکھیں اور یہ عمل بھی دیکھیں۔ ہم یہ کام نہیں کرتے، اپنا بیٹا ہو، پوتا ہو، نواسا ہو، نواسی ہو، جس سے بہت پیار ہو، اسے کندھے پر اٹھا کر گلی میں نہیں چلتے بلکہ شرماتے ہیں حالانکہ یہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ آقا علیہ السلام نے یہی پیار اگر فقط اپنی ذات تک رکھنا ہوتا تو یہ عمل گھر کے اندر چار دیواری میں کرتے، کندھوں پر بٹھاکر اس طرح گلی میں نہ چلتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل تمام لوگوں کے سامنے کرنا، آقا علیہ السلام کا امام حسین رضی اللہ عنہ سے پیار کرنے کا یہ طرز عمل، وطیرہ اور ادا کا سبب دراصل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امت کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ دیکھو یہ ہے میرے پیار کا عالم حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ۔۔۔ یہ ہے میرا انداز اُن رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے کا۔ لہذا اے امت مسلمہ تم بھی حسنین کریمین رضی اللہ عنھما سے اسی طرح ٹوٹ کر محبت کرنا تاکہ تمہیں اسی واسطہ و وسیلہ سے میری محبت نصیب ہوجائے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا:حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ۔أَحَبَّ اﷲُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا.(احمد بن حنبل، المسند، 4: 172)’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اُس سے محبت کرے اور کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے‘‘

http://www.minhaj.org/urd/tid/38676/القرآن-اہل-بیت-اطہار-کی-مح

(علامہ اقبال )

رونے والا ہوں شہید کربلا کے غم میں 

کیا در مقصد نہ دیں گے ساقی کوثر مجھے

حکومت پاکستان کو چاہیے کہ زائرین کی مشکلات اور مسائل کو درک کرکے انہیں جلد از جلد دور کرے – یہ سارے محب شہری ہیں شہریوں کے مسائل کو حل کرنا حکومت کا اولین فریضہ ہے – عاشقین مظلوم کربلا کے دلوں سے حسین ابن علی کی محبت اور عشق کو اس طرح زائرین کو صعوبتوں سے دوچار کراکے کم کرانا ہر گز ممکن نہیں اگر ایسا ممکن ہوتا تو آج یزید دشنام زمان قرار نہ پا چکا ہوتا-

وہ مشرقی پکار ہو یا مغربی صدا

مظلومیت کے ساز پہ دونوں ہیں ہم­نوا

محور بنا ہے ایک جنوب و شمال کا

تفریق رنگ و نسل پہ عالب ہے کربلا

تسکین روح، سایہ آہ و بکا میں ہے

دیکھو تو سلسلہ ادب مشرقین کا

دنیا کی ہر زبان قبضہ حسین کا

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *