تازہ ترین

ثقافتوں کے سنگم میں بے لگام این جی اوز کی سرگرمیاں

دنیا بھر کی طرح بلتستان میں بھی این جی اوزغیر محسوس طریقے سے مغربی نظریات، مغربی ثقافت کو نہ صرف پھیلارہے ہیں بلکہ اسے فروغ بھی ديا جارہا ہے۔
شئیر
26 بازدید
مطالب کا کوڈ: 10233

ثقافتوں کے سنگم میں بے لگام این جی اوز کی سرگرمیاں
ارشادحسین مطہری
اشاریہ
جو خطہ آج کل بلتستان کے نام سے معروف ہے، قدیم تاریخ میں پولولو، پلو، بلور، بلتی اورتبت خورد جیسے مختلف ناموں سے موسوم ہوتا رہا ہے شاید یہ مختلف نام مختلف ادوارمیں بلتستان میں رائج مختلف مذاہب اور حکمرانوں کی وجہ سے پڑے ہوں۔
بلتی تہذیب کا نقطہ عروج
بلتستان قدیم زمانے سے اب تک مختلف معاشرتی، تہذیبی اور مذہبی تبدیلیوں کا خطہ رہا ہے۔ باہر سے مختلف قوموں،طائفوں اور سیاحوں کی آمد و رفت، خاص طور سے ایران، کشمیر، ہندوستان، کاشغر اورختن اقوام کی مسکن گزینی یہاں کی تاریخ میں ثبت و ضبط ہے۔ بلتستان کی زرخیز ثقافت نے ہرتازہ وارد مہمان کومسکن وماوا عطاکرکے اس کی خاطر خواہ پذیرائی کی ۔کون انکارکرسکتا ہے کہ اشاعت اسلام میں ایران سے آئے ہوئے مبلغین نے بلتستان کی تہذیب پرانمٹ نقوش نہیں چھوڑے ہیں۔ چنانچہ محمد حسن حسرت کا کہنا ہے: بلتستان کی ثقافت کئی قدیم تمدنوں کے سنگم سے تشکیل پائی ہے اور یہی منفرد تہذیب و تمدن کے آداب ورسوم بلتی معاشرے کو ممتاز مقام بخشتے ہیں۔ جہاں ایک طرف ۴۰۰ سال قبل ازمسیح بلتستان چین کے زیراثر رہنے کی وجہ سے نظام چوتوس، اصول تقویم، نظام آبپاشی اور کاشت کاری کے قدیم طریقے بلتی تہذیب کا حصہ بنے اسی طرح بلتستان کے مختلف ادوار میں کاشغراور یارقند کے ساتھ ارتباطات کی بناء پرماضی میں یہاں تہذیب و تمدن کے کئی گوشوں میں اضافہ ہوتا رہا
دوسری طرف سے بلتستان کے حکمرانوں کا ہندوستان کے مغل دربار کے ساتھ روابط نے بھی یہاں کی تہذیب و ثقافت کو مزید جلا بخش دیاہے۔ فنون لطیفہ، تعمیرات اور صنعت و حرفت کے میدان میں ترقی ہوئی ۔ جب اس خطے میں اسلام نے اپنے تمدنی آغوش کو فراخ دلی کے ساتھ باز کیا تو بلتستان میں تہذیب و تمدن کے نئے دورکا آغاز ہوا۔ جس میں اس خطے کی تہذیب و تمدن، توحیدی فکر واندیشہ کی بنیاد پراستوار ہوی۔ تہذیب وتمدن کا توحیدی فکر واندیشے کی بنیادوں پر پروان چڑنے کی وجہ بھی اس خطے میں دین مبین اسلام کے نور کاپھیلنا ہے۔ جیسا کہ پروردگارعالم اپنے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ( ص) کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے : «وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَ اْلأَغْلالَ الَّتِي كانَتْ عَلَيْهِمْ» (اعراف: 157)
اور(رسول کا کام یہ ہے کہ) ان (لوگوں ) پرلدے ہوئے بوجھ اور (گلے کے) طوق اتارتے ہیں،
“إِصْر” کے معنی حبس اور قید کرنا ہے.اسی طرح وہ وزنی کام جس سے انسان کوئی فعالیت دیکھانے سے روکے«اصر» کہا جاتا ہے. (لغت نامہ دہخدا، ج 7، ص 2750 )
پیغبر اکرم نے معاذ ابن جبل کو یمن کی طرف اسلام کا آفاقی پیغام پہنچانے کے لیے بھیجتے وقت فرمایا:«وأَمِتْ أَمْرَالْجاهِلِيَّةِ إِلّا ما سَنَّهُ الْإِسْلامُ وَأَظْهِرْ أَمْرَالْإِسْلامِ كُلَّهُ صَغِيرَهُ وَكَبِيرَهُ» (تحف العقول، ص 26)
اے معاذ!جاہليت کے آثار (انحرافی افكاراورعقايد ) کو مٹا دو اور اسلامی چھوٹی بڑی سنتوں (جوعقل کی طرف دعوت دیتی ہیں) کو زندہ کرو.
سوچنے کی بات
بلتستان کے جوان اور نو جوانوں سے میرا سوال ہے کہ پیغمبر (ص) نے جن گمراہیوں ، انحرافات اور کجرویوں کی اصلاح کے لیے جو فلاح و بہبود پر مبنی منشور عرب کے تمدن اور تہذیب سے خالی معاشرے میں پیش فرمایا کیا ہمارے ترقی یافتہ معاشرےمیں یہ سب انحرافات اور کجرویاں موجود نہیں؟!
عرب جاہلی معاشرے میں لڑکیوں کو ایک بار زندہ درگور کرتے تھے۔ یہی سلسلہ آج کل کی ماڈرن جاہلیت میں بھی جاری ہے، اپنی ماوں بہنوں کو سر عام نامحرموں کے درمیان بے حجاب نچانے اور رقص وسرود کی محفلوں کی زین و زینت بنانا کیا ان کی عزت اور انسانیت کو زندہ درگور کرنا نہیں ہے؟!
کیا ہمارے خرید فروش میں ناپ تول میں انصاف کیا جاتا ہے؟ کیا ہماری عدالتوں اور انصاف کے کٹہروں میں انصاف کی رعایت ہوتی ہے ؟ !
کیا عدالتوں اورمحکموں میں انصاف فراہم کیا جاتا ہے؟!
کیا یتیموں اور بے نواوں کے ساتھ ہمدری ہوتی ہے؟!
کیا بے حیائی اور فحاشی، جدید طرز پر عام نہیں ہے؟!
کیا اسلام کے نام پر قتل نہیں ہوتا ہے اور بےگناہ انسانوں کا خون نہیں بہایا جاتا؟!
کیا ہمارے معاشرے میں کئے ہوئے وعدوں کو پورے کئے جاتا ہے ؟!
ہم نے بے حیائی اور فحاشی پر مبنی پروگراموں کو ثقافت کا نام دے رکھا ہے اور سب اس پر خوش ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ آج کل بلتستان بھر میں بلتی ثقافت کے نام سے جتنے فیسٹولز منعقد ہوتے ہیں ان کا اہتمام کرنے والے غیر مقامی افراد یا تنظمیں ہیں جن کو ناچ گانے کے سوا کچھ علم ہی نہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ مقامی افراد بے حیائی سے بھرپور ان فیسٹولز اور نمائشوں میں شرکت کرکے خوب محظوظ ہوتے ہیں۔ مقامی ثقافت سے نا مربوط اور غیر اخلاقی حرکت کو روکنے کی بجائے مقامی سہولت کار ان کے ساتھ دیتے ہوئے نظرآتے ہیں۔
بلتستان میں این جی اوز
دنیا بھر کی طرح بلتستان میں بھی این جی اوزغیر محسوس طریقے سے مغربی نظریات، مغربی ثقافت کو نہ صرف پھیلارہے ہیں بلکہ اسے فروغ بھی ديا جارہا ہے۔
بلتستان کي مہذب اسلامی روایات، تہذیبی ورثہ اور بالخصوص خاندانی نظام کو تباہ کرکے لوگوں کو مذہب سے دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں ،اور اس کا مقصد لوگوں کے زہن میں اسلامی تعلیمات کے حوالے سے شبہات ایجاد کرکے فکری انتشار پیدا کرکرنا اور دین اور مذہب سے لوگوں کو بدظن کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض این جی اوز فلاح وبہبود کي نام سے ہمارے دینی اقدار ، مقامی روایات ثقافت و تہذیب پر یلغارکے درپے ہیں تاکہ بلتستان کی اسلامی شناخت کو ختم اور اس کی نظریاتی بنیادوں کو منہدم کیا جا سکے۔
تعلیم کے نام سے سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مخلوط نظام کو فروغ دیکر اس مسئلے پر معاشرتی حساسیت کو ختم کیا جارہاہے، ہمارے اسلامی اقدار اورقومی رسم ورواج پر شب خون مارا جارہاہے اور خاندانی نظام کی بنیادوں کو متزلزل کیا جا رہاہے ۔ بلتستان میں بعض این جی اوز کی مشکوک سرگرمیاں( محفلیں، سیمینارز ، فیسٹیولز اور۔۔۔۔) خطرناک حدتک عمومی تشویش کا باعث بنتی جا رہی ہیں۔
یہ لوگ بلتستان میں بھی وہی کلچر متعارف کروانا چاہتے ہیں جو مغربی دنیا میں انسانی معاشرتی اقدار و روایات کو کھوکر اخلاقی حدود پار کر چکا ہے۔ جس کے نتائج عیاں ہیں۔ مادر پدر آزادی نے مغربی معاشرے کو حیوانی زندگی سے دوچار کر دیا ہے ۔ اب بیرونی قوتیں این جی اوز کے ذریعے یہی تباہ کن حالات ہمارے علاقے بھی میں پیدا کرنے کی خواہاں اوراس کے لئے سرگرم ہیں۔
لہذا معاشرے کے متدین عوام، دلسوز حکام ، مخلص علما کرام اورارباب اقتدار و اختیار سے گذارش ہے کہ بلتستان بھر میں موجود سرگرم این جی اوز کی کڑی نگرانی کی جائے، ان کی آمدنی اور مخارج کو کنٹرول کیا جائے تاکہ کسی غیرسرکاری تنظیم کو گلگت بلتستان کی دینی، ثقافتی ،جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے خلاف کام کرنے کی جرأت نہ ہوسکے۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *