تازہ ترین

جامعہ روحانیت بلتستان کے زیر اہتمام علمی و  تحلیلی نشست  کا انعقاد 

مورخہ ۱۸ جنوری  2019 بروز جمعہ جامعہ روحانیت  بلتستان کے زیر اہتمام آٹھویں علمی و تحلیلی نشست  کا انعقاد  ہوا۔ حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کی شخصیت مستشرقین کی نگاہ میں،  کے عنوان سے یہ نشست منعقد ہوئی۔  خطیب محترم جناب حجت الاسلام محمد عسکری ممتاز نے اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی۔

شئیر
24 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4324

 خطیب محترم نے اپنی گفتگو کے پہلے مرحلے میں  مستشرقین  کے لغوی اور اصطلاحی معانی اور اس میں موجود اختلاف کی طرف اشارہ کیا۔

 مستشرقین کی تعریف:

 کلمہ مستشرق، استشراق سے ہے استشراق باب استفعال کا مصدر ہے اس کے معنی ہیں مشرق کی شناخت جو کہ انگریزی اصطلاح میں orientalism کا ترجمہ ہے اگرچہ EAST اور ORIENT دونوں مشرق کا معنی دیتے ہیں لیکن لفظ East عام طور پر ہر چیز کی مشرقی سمت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔

محققین استشراق کے اصطلاحی معنی کے بارے میں اختلاف نظر رکھتے ہیں۔

بعض دانشمند حضرات استشراق کی تعریف  میں کہتے ہیں کہ استشراق سے مراد مغربی دانشمندوں کی وہ علمی تلاش اور کوششوں کے مجموعہ کا نام ہے جومشرقی ممالک کی جغرافیایی، منابع اور معدنیات، تاریخ ، قومی زبان ، ادبیات و ہنر ، آداب و رسوم، فرہنگ و عادات اور ادیان و تمدن کی شناخت کیلئے بروی کار لائی جاتی ہے تا کہ مشرقی ممالک سے مادی اور معنی ثروت اور دولت سے اپنے ممالک کیلئے فائدہ حاصل کرے ․اس کے علاوہ استشراق کے بارے میں اور بھی تعریفین مفکرین اور محققین کی طرف سے نقل ہوئی ہیں۔

حجت الاسلام محمد عسکری ممتاز نے  اپنی گفتگو کے دوسرے مرحلے میں جناب فاطمہ الزہراء سلام  اللہ علیہا کی شخصیت  کو مستشرقین  کی تحقیقات کے تناظر میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ  مجموعی طور پر مستشرقین شیعہ منابع سے آگاہی نہیں رکھتے یا بہت کم شیعی منابع سے اپنی تحقیقات کو منظر عام پر لاتے ہیں،  زیادہ تر ان کی نگاہیں سنی منابع پر ہوتی ہیں اور اپنی تحقیقات  کا مرکز و محور ان کی کتابیں ہوتی ہیں، البتہ بعض مستشرقین کی جانب سے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا  کی شخصیت کے بارے میں شیعہ کتب سے استفادہ کر کے ان کے فضایل و مناقب بیان کی ہیں۔  ایسے مستشرقین بھی دکھائی دیتے ہیں جو اہلبیت علیہم السلام کی شان و منزلت اور ان کی فداکاری اور پاک کردار  پر مشتمل تاریخ پڑھ کر  انگشت بدندان ہوگئے ہیں بلکہ عقیدتی طور پر مایل بہ مذھب اسلام بھی ہوئے ہیں  یا کم از کم ان کی شان میں مقالے اور کتابیں ضبط تحریر میں لائے  ہیں۔ ان میں سے ایک دانشمند سلیمان کتانی  ہیں جو عیسائی مذہب سے  ہیں جنہوں  حضرت فاطمہ علیہا سلام کی شان و منزلت کو بہترین انداز میں بیان کی ہیں۔

جناب قبلہ عسکری ممتاز نے مستشرقین کی طرف سے ترتیب دی گئی انساکلوپیڈیاز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ     Encyclopædia Britannica میں جناب فاطمہ زھراء علیہا السلام کو ایک فدا کار بیٹی، فدا کار ماں اور محبت کرنے والی شریک حیات کے عنوان سے یاد کیا ہے  اور لکھا ہے کہ وہ اپنے بابا سے نہایت حد تک محبت کرتی تھیں یہاں تک کہ حدیث   پیامبر اسلام ﷺ: فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا  ہے۔ جس نے اسے اذیت دی گویا اس نے مجھے اذیت دی۔ بھی بیان کی ہے۔

اسی طرح سے  Encyclopædia iranica  میں جناب فاطمہ زہراء علیہا السلام کی ولادت و شہادت اور پیامبر خدا کی رحلت کے بعد ان پر ڈھائے گئے مظالم کے بارے میں مقالات آئے ہیں۔

دائرہ المعارف قرآن میں بھی حضرت فاطمہ کے بارے میں نوشتہ جات ملتے ہیں۔ اس میں آیہ تطہیر کے ذیل میں موجود تفاسیر کے تناظر میں جناب فاطمہ کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔

بیلجیم نژاد رائٹر  ھنری لمنس نے   فاطمہ اور پیامبر کی دوسری بیٹیاں کے عنوان سے لکھا ہے کہ وہ حضرت محمد ﷺ کے ساتھ جسمی اور روحی دونوں زاویوں دوسری عورتوں پر فوقیت نہیں رکھتی تھیں۔

نشست علمی کے خطیب محترم نے اپنی گفتگو کے آخری مرحلے میں کہا کہ اسلام کے بارے میں تحقیق کرنے والے غیر مسلم دانشمندان کی ایک کثیر تعداد نے جب حضرت فاطمہ علیہا السلام کی زندگی کا مطالعہ کیا تو ان کی شان و منزلت دیکھ کر حیرانگی کا اظہار کر چکے ہیں اور اسی ضمن میں مقالات اور تحریریں لکھیں ہیں البتہ دوسری طرف کچھ محققین نے معاندانہ کردار ادا کرتے ہوئے  جناب فاطمہ علیہا السلام کے فضائل سے یکسر انکار کیا ہے اور غیر معتبر کتابوں سے ریفرینسز بیان کر کے اپنی دشمنی کا اظہار کیا ہے در حالیکہ حضرت فاطمہ سلام  اللہ علیہا ایسا درخشاں نور ہیں جن کی ضوفشانیاں پوری دنیا کو روشن کی ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *