جامعہ روحانیت کی تشکیل سے اب تک کا سفر؛تحریر: ایس ایم شاہ
محبت، الفت، خلوص، ایثار اور دین و معاشرے کی خدمت کے جذبات سے سرشار علمائے دین کے نقطہ اتحاد کا نام “جامعہ روحانیت بلتستان” ہے۔ یہ صرف برائے نام نہیں بلکہ اسم با مسمی بھی ہے۔ جس کا واضح ثبوت گزشتہ چند برسوں میں ہر میدان میں اپنی بہترین کارکردگی کے ذریعے پیش کیا ہے۔اب یہ صرف ایک محدود علاقے تک منحصر نہیں رہا بلکہ پوری دنیا سے آئے ہوئے ہزاروں طلبہ کی توجہ کا مرکز بنتا چلا جارہا ہے۔ یہ طرہ امتیاز اور اعزاز صرف بلتستان کے علما کے حصے میں آیا ہے کہ انھوں نے اپنے شب و روز کی محنتوں کے ذریعے مادی وسائل کے فقدان کے باوجود دین و ملت کی خدمت کا بیڑا اٹھایا، ان کی بے لوث خدمات کو دیکھ کر سبھی ان کی تعریف و تمجید کرنے لگے، کیونکہ مختصر مدت میں اس مرکز نے تعلیمی، سماجی، ثقافتی اور فلاحی غرض ہر میدان میں اپنی گرانقدر خدمات پیش کئے، بلتستان کے مختلف سرکاری و غٖیر سرکاری تعلیمی اداروں میں کلاسوں کا انعقاد کیا، مختلف سیمینارز کے ذریعے لوگوں کو آگاہی اور مغربی ثقافتی یلغار سے بچانے کا انتظام کیا، گزشتہ الیکشن میں مذہبی جماعتوں کے درمیان ہمآہنگی کے لیے بھرپور کوششیں سرانجام دیں،
مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ اور علما کے درمیان ہر قسم کی تعصبات کو دور کرنے میں قابل ستائش خدمات انجام دیے، جس کا اندازہ وہی افراد کرسکتے ہیں جنہوں نے ” جامعہ روحانیت” کی تشکیل سے پہلے کے زمانے کا بھی مشاہدہ کیا ہو، بلتستان سے آنے والے زائرین کے لیے بالخصوص اور پورے پاکستان سے آنے والے زائرین کے لیے بالعموم درس ، رہنمائی اور رہائش کا انتظام کیا، ہر سال اربعین حسینی کے لیے “کاروان سفیر روحانیت”کے ذریعے سینکڑوں افراد کو زیارت عتبات عالیات سے شرفیاب کیا، دینی’اجتماعی اور ثقافتی معلومات پر مشتمل “روحانیت”کے نام سے ایک مجلہ چھاپنے کا سلسلہ شروع کیاتاکہ باصلاحیت افراد کے قلم میں نکھار لایا جائے اور قارئین تک اہم معلومات بہم پہنچایا جاسکے۔سرزمین مقدس قم میں موجود دینی طلبہ کے بچوں کی خصوصی تعلیم تربیت کے لیے حسینیہ بلتستانیہ میں خصوصی کلاسوں کے ذریعے انگلش، اردو اور اپنی ثقافت سے انھیں آشنائی فراہم کرنے کا سامان کیا۔ 870میلین تومان کی قیمت سے حسینیہ بلتستانیہ سے ملحقہ عمارت کی خریداری عمل میں آئی جس پر مستقبل میں ایک بہترین کمپلکس بنانے کا منصوبہ زیر غور ہے، طلاب عظام اور علمائے کرام کی مختلف صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کرنے کی خاطر ایک مکمل سیٹ اپ نظارت، مجلس اور کابینہ کی صورت میں وجود میں لایا، جس کے تحت صدارتی الیکشن اور پارلیمانی الیکشن کی مثال حوزے میں ڈال دی، البتہ اس فرق کے ساتھ کہ عام طور پر جمہوری اور پارلیمانی الیکشن میں برسراقتدار آنے کے بعد صدر اور اسمبلی کے اراکین کو لاکھوں روپے تنخواہ ملنے کے ساتھ ساتھ کروڑوں روپے کے عوامی ترقیاتی منصوبے بھی ان کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، جبکہ جامعہ روحانیت کے صدر اور اراکین کو لینے کے بجائے دینے پڑتے ہیں، بسا اوقات تو پروگرام کے اختتام پر جامعہ کے صدر صاحب برتن دھونے اور حسینیہ کو جھاڑو لگانے کو اپنے لیے شرف سمجھ کر خلوص نیت کے ساتھ اسے بھی انجام دیتے ہیں۔ جس کی واضح مثال حجۃ الاسلام محمد علی ممتاز صاحب ہیں۔
یہاں جامعہ روحانیت کی تشکیل اور اس کی ترقی میں جن افراد نے گرانقدر خدمات انجام دیے ان میں سے بعض اہم افراد کا اگر نام نہ لیا جائے تو شاید ناانصافی ہو، جناب فخرالدین صاحب جس نے اس کی بنیاد ڈالی، جناب نثار اتحادی صاحب جنہیں اس کے پہلے صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا، آپ نے اپنے مختصر صدارتی دور میں تمام تر تعصبات سے بالاتر ہوکر علمائے کرام کے درمیان فکری ہمآہنگی کے لیے گرانقدر خدمات سرانجام دیے، جناب فدا حسین عابدی صاحب آپ مجلس نظارت کے سربراہ رہے، جناب محمد علی ممتاز صاحب جو حالیہ صدر ہیں اور شروع سے اب تک اپنی خدمات جامعہ روحانیت کی ترقی اور حسینیہ کی تعمیر کے حوالے سے شب و روز کوشاں ہیں، جناب مشتاق حکیمی صاحب جنہیں جامعہ روحانیت کا دستوری ڈھانچہ تشکیل دینے کا شرف حاصل ہوا علاوہ ازیں شروع سے اب تک وہ مسلسل اپنی خدمات پیش کررہے ہیں۔ جناب سید احمد رضوی صاحب جو جامعہ روحانیت کی ترقی میں قابل قدر خدمات انجام دے رہے ہیں، ساتھ ہی تعمیری کمیٹی کے ایک فعال رکن کی حیثیت سے پورے بلتستان میں چندہ مہم کے سلسلے میں آپ نے اپنے قیمتی اوقات کو وقف کیے رکھا جس کی جتنی قدردانی کی جائے کم ہے، جناب فدا علی حلیمی صاحب(سابق سپیکر)، جناب شبیر وزیری صاحب، جناب حسین حیدری صاحب… اور کابینہ کے دوسرے اراکین جن کا نام طوالت کے باعث نہیں لے رہا ان کی مخلصانہ خدمات کی جتنی قدردانی کی جائے کم ہے۔
اب حالیہ الیکشن ہونے والا ہے، اس دفعہ جوش و خروش پہلے سے زیادہ دکھائی دے رہا ہے، تعجب کا مقام تو یہ ہے کہ پارلیمانی الیکشن میں حصہ لینے والے ہر رکن کو یہ باور ہوتے ہوئے بھی کہ اس انتخابات میں جیتنے کے بعد مجھے مختلف تکالیف، زحمتیں اور کافی وقت اور پیسا بھی دینا پڑے گا پھر بھی ایک خاص جوش و جذبے کے ساتھ جوق در جوق ہر الیکشن میں ان کا آنا بھی اس جامعہ کی بنیاد خلوص پر پڑنے کی واضح دلیل ہے۔ یہاں جس امر کی طرف کافی توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ہر ایک کی کوشش اور نیت یہ ہونی چاہیے کہ ہمارا ہر قدم محض خدا کی خوشنودی کے لیےہو، زیادہ سے زیادہ باصلاحیت افراد کو میدان میں لایا جائے، ہر قسم کی لسانی، قومی اور حزبی رجحانات کو بالائے طاق رکھا جائے، جن ممبران نے گزشتہ اسمبلی میں آکر سستی کا مظاہرہ کیا ہے خواہ اپنا سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو ان کو دوبارہ اسمبلی میں نہ آنے دیا جائے، ساتھ ہی شہرت یا کسی ظاہری زرق و برق کے لیے الیکشن میں آنے کا خدانخواستہ کسی کو خواہش ہو تو ابھی بروقت پیچھے ہٹ کر دوسرے مخلص اور جذبہ خدمت سے سرشار افراد کو خدمت کا موقع فراہم کیا جائے،انتخابی مہم میں کسی کی شخصیت کو منوانے کی خاطر کسی دوسری شخصیت کی شخصیت کشی کرنے سے اجتناب کیا جائے، گزشتہ ادوار میں جو کمزوریاں رہ گئیں ہیں اب کی مرتبہ ہر ایک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ نشاندہی کے بعد ان کا ازالہ کرنے کی بھرپورکوشش کی جائے،
انتخابات کے بعد جو افراد میدان عمل میں اتر آتے ہیں انھیں یہ احساس ذمہ داری ہونی چاہیے کہ اب میں پورے بلتستان کے تمام طلبہ کا نمائندہ ہوں، اگر میں نے اپنی ذمہ داری نبھانے میں کوتاہی کی تو یہ ان سینکڑوں علما ئے کرام اور طلاب عظام بلکہ پوری ملت کے ساتھ خیانت کرنے میں زمرے میں آئے گا، لہذا مجھے اپنی تمام تر توانائیوں کو مذہب حقہ کی سربلندی اور قوم و ملت کے تابناک مستقبل کے لیے صرف کرنا ہے، ہر میٹینگ میں مجھے شرکت کرنا ہے، جو بھی فیصلہ اکثریتی رائے سے طے پائے اسے قبول کرنا ہے اور جو بھی ذمہ داری سپیکر کی جانب سے یا گروہ کے سربراہ کی جانب سے سونپی جاتی ہے اسے بطریق احسن نبھانا ہے، بلتستان کے لیے ایک جامع قلیل المدت اور طویل المدت پالیسی بنانا ہے جس میں اہم اور زیادہ اہم کا بالترتیب لحاظ رکھا گیا ہو۔
اب جامعہ روحانیت ہمارے ہاتھوں ایک امانت ہے، اس کے امور کو احسن طریقے سے نبھانا ہم سب کی بہت بڑی اہم ذمہ داری ہے۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید