جدید اسلامی تمدن اور اس کے ارکان
جدید اسلامی تمدن اور اس کے ارکان کیا ہیں؟
تحریر و ترجمہ: منظور حسین سراج
مقالے کا خلاصہ:
جدید اسلامی تمدن کا حصول(تمدن نوین اسلامی) اسلامی انقلاب کے اہداف میں سے ایک اہم ہدف ہے، اور اس سمت میں پہلا قدم، اس کی شناخت نیز اس کی نوعیت، تناسب، تمدن کے ارکان اور اس کی مختلف جہات اور پہلووں میں دین کے نفاذ کو مکمل غور و فکر کے ساتھ جانچ پڑتال کرنا ہے۔ کسی بھی تمدن کے باطن میں معاشرتی ارادوں کی گردش کے لئے ایک مرکزی اور اعلی نوعیت کی طاقت مضمر ہے جس کا تصور اس تمدن کی اکثریت کو تشکیل دیتی ہے۔ اور جدید اسلامی تمدن کی برجستہ(ممتاز) خصوصیت نیز معاشرتی اور تہذیبی زندگی کے تمام شعبوں میں ارادہ توحیدی کی حاکمیت اور ولایت کا تسلسل اسی توحیدی محور کے گرد گردش کرتا ہے۔ چنانچہ ائمہ معصومین علیہم السلام ارادہ توحیدی کے مظاہر کے طور پر ” ساسہ العباد اور ارکان البلاد” کے مقام پر فائز ہیں۔ اس معنی میں کہ بلد یا شہر امام کے اطراف میں تشکیل پاتے ہیں، اور شہر کے باطن سے مراد امام کی ولایت کا تسلسل ، اور مومنین کی ولایت لگاو اور محبت سے عبارت ہے، اور تمام معاشرتی اقدار کا ظہور اور پھیلاو اسی ولایت کے تسلسل اور محبت کا نتیجہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں ولایت کے تسلسل اور اس سے محبت کی بنیاد پر امام کے اطراف میں دینی رسومات پر یقین اور عمل ، معاشرتی سرگرمیوں کی انجام دہی تمدن کی تشکیل کا شاخسانہ ہے۔ چنانچہ ؛ ولایت الہیہ اور شیطانی ولایت میں فرق کی بنیاد پر ، ولایت اور محبت کے محور پر قائم تمدن بھی دو قسموں میں تقسیم ہوگی ۔ ایک الہی تمدن؛ جو ولایت الہیہ ، سچی محبت اور بلد امین کے روپ میں ظاہر ہوگی۔ اور دوسری شیطانی تمدن ؛ جو ولایت باطلہ کے تسلسل ، باطل محبت اور مادیات سے معرض وجود میں آئے گی۔
تمدن کے دو بنیادی رکن، طرز زندگی اور اس طرز زندگی کے لئے انفراسٹرکچر( ڈھانچہ) کو نمونے کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے جس میں ولایت کا تسلسل اور معاشرتی تدبیر جاری و ساری ہیں۔ اسلامی اصولوں پر مبنی اور دینی منابع(قرآن و سنت، عقل) سے ماخوذ انفرادی، خاندانی، اور معاشرتی طرز زندگی مغربی نظریات پر مبنی طرز زندگی سے بلکل مختلف ہے۔ چنانچہ موجودہ طرز زندگی کو بدلنے کرنے کے لئے زندگی کے مختلف شعبوں جیسے لباس، خوراک، اور شہروں کی تعمیر کے لئے مختلف نمونوں سے ماخوذ ایک درست نظام کو پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
کسی بھی تمدن کے تین بنیادی عناصر ہیں؛ سماجی رجحانات پر مبنی نظام، علم و بصیرت ، مصنوعات۔ جن میں سے تمدن کا پہلا عنصر جوکہ سماجی رجحانات ہے دوسرے دو عناصر کی نسبت نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔ کیونکہ کسی بھی تمدن کو دوسری تمدن سے جدا کرنے کی پہلی لکیر رجحانات، جذبات اور معاشرتی تجملات میں تبدیلی ہے ۔ اس کے بعد اس میں رونما ہونے والی تبدیلی کے تناسب سے عقلی تمدن اور تمدن کو شکل دینے والے علوم کی ایجاد کے ساتھ ساتھ انہی علوم کی بنیاد پر تمدنی مصنوعات تیار ہوتی ہیں۔ لہذا اسلامی تمدن کی طرف ترغیب دلانے کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی اقدار اور ان اقدار کی بنیاد پر بدلتے ہوئے رجحانات جیسے فقہ تمدنی، استنباط، اسلامی علوم اور اسلامی ترقی یافتہ نمونوں کو ان حالات کے مطابق اسلامی تمدن کے ماحول میں ایجاد کئے جائیں۔ اور بعد از آن تمدنی محصولات خواہ وہ سیاسی ہوں یا ثقافتی یا معاشی ان کے ایجاد کی ضرورت ہے۔ (جدید اسلامی تمدن اور اس کے عناصر کیا ہیں؟ اور مشاہداتی تجزیہ کے طریقہ کار کے تناظر میں دین کے تسلسل کو اس مقالے میں بیان کیا جائے گا)۔
کلیدی کلمات:
جدید اسلامی تمدن، توحید، طرز زندگی، رجحانات کا نظام، علم و بصیرت کا نظام، تمدن کے محصولات۔
مقدمہ:
اللہ تعالی کی سنت کے مطابق تاریخ بشریت میں حق اور باطل یا نور اور ظلمت کی دو تحریکیں ہمیشہ سے موجود رہی ہیں، جو پوری تاریخ میں مستقل طور پر ایک دوسرے سے نبرد آزما رہی ہیں۔ اور ان میں سے ہر ایک پر گامزن رہنے والے انسان کی زندگی دوسرے انسان کی نفی میں ہے، اور اس طرح سے ذمہ داریوں کا وظیفہ اس دار دنیا میں معین ہوجاتا ہے۔ ” الله ولی الذين آمنوا يخرجهم من الظلمات إلى النور والذين كفروا أولياؤهم الطاغوت يخرجونهم من النور إلى الظلمات أولئک أصحاب النارهم فيها خالدون (بقره/۲۵۷)
اور یہ اختلاف انسانیت کی پختگی کے ساتھ پوری تاریخ میں مختلف شکلیں اختیار کرتا جاتا ہے، اور ہر دور میں الگ تقاضوں کے ساتھ ظاہر ہوکر سامنے آتا رہتا ہے۔ اور خداوند متعال کے آخری جامع اور کامل دین کے ظہور کے ساتھ ہی یہ اختلاف اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے، اور اس تنازعہ کے نقطہ نظر سے تاریخ اسلام کی تدوین اور تالیف ناگزیر بن جاتی ہے۔ اور اس سلسلے میں شیعہ تاریخ کی موجودگی کا فلسفہ نہایت ہی ضروری ہوجاتا ہے۔ تاہم، تاریخ اسلام اور باطل محاذ کے ساتھ اختلافات کا مطالعہ کرکے اس بات کو اچھی طرح سے تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ تاریخ کے کسی بھی دور میں حق اور باطل کے درمیان معرکہ عصر حاضر کی مانند پیچیدہ نہیں تھا ۔
عصر حاضر ( جدید زمانہ) زندگی کے تمام شعبوں میں الہی انسان کے خلاف مادی انسان کی سرکشی کا دور ہے۔ موجودہ دور میں باطل تحریک نہ صرف کسی حکومت یا ریاست یا ثقافت کی شکل میں حق کی تحریک کے مقابلے میں آئی ہے بلکہ اچھائیوں کے نام پر برائیوں کو رائج کرتے ہوئے ، منکرات اور برے کاموں کو حقوق بشر کے نام پر زندگی کے تمام شعبوں میں مسلط کرنے کے درپے ہے۔ اور باطل قوتیں اپنی مادی تمدن کو دنیا کی آخری تمدن تصور کرتی ہیں ، اور گلوبل ولیج( دھکدہ جہانی) کی صورت میں دنیا کو اپنے مادی اقدار کی بنیاد پر تشکیل دینے کی منصوبہ بندی کرتی ہیں۔
تاہم امت اور تمدن کے معنی کو پوری توجہ کے ساتھ دیکھنے کے بعد ” امت اور تمدن ” کے نظرئے کو ” امت اور حکومت” کے نظرئے سےعلیحدہ نظرئے کے طور پر ملاحظہ کرتے ہوئے اس کی تفسیر پیش کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ اس نقطہ نظر سے موجودہ دور میں اسلامی انقلاب مظبوط ایمانی معاشرے کے عروج کا دور ہے جو اپنی ہمت اور صلابت ایمان کے ساتھ نہ صرف دنیا کے کسی گوشے میں اسلامی حکومت کی تشکیل کی بات کرتا ہے بلکہ اس کی تحریک کا افق تمدن کے تمام آلات و اوزار کے ساتھ جدید اسلامی تمدن کا حصول ہے۔
لہذا اسلامی انقلاب افق عالم میں اسلامی تمدن کے آغاز یا دور حاضر میں جدید اسلامی تمدن کے تحقق کا دور اور اس کا نقطہ آغاز ہے۔ خاص طور پر اس بات کے پیش نظر کہ عصر حاضر میں مادیت پر قائم تمدن کی مختلف قسمیں جیسے سوشلسٹ تمدن اور لبرل جمہوری تمدن انحطاط اور زوال کی جانب گامزن ہیں۔ بنا بر ایں مادی مکاتب فکر پر مبنی مختلف نظریات جو کہ آج کی دنیا کے ایجاد کردہ ہیں جن سے انسانیت تنگ اور مایوس ہو چکی ہے ، کسی ایسے نظام کی ضرورت ہے جو ہر طرح کے سماجی مشکلات اور معاشرتی چیلنجوں سے عاری ہو۔ اس ضمن میں پہلا قدم؛ جدید اسلامی تمدن کے ادراک کے لئے موجودہ دور میں سماجی پیچیدگیوں کے تناسب ایک ایسے جدید اسلامی تمدن پر یقین رکھنا ہے جو ہر لحاظ سے ایک تمدن کے تمام لوازمات پر مشتمل ہو ۔ اور دوسرا قدم؛ جدید اسلامی تمدن کے ادراک نیز اس کے تحقق کے لئے جامع منصوبہ بندی کرنا ہے، چنانچہ ایک جامع اسلامی تمدن کی منصوبہ بندی کے لئے اسلامی تہذٰیب اور اس کے ارکان کی شناخت نہایت اہم اور ضروری ہے ۔
1۔ اسلامی تمدن کیا ہے؟
اگر چہ قرآن اور احادیث جیسے دینی مآخذ میں تمدن کا لفظ نہیں آیا ہے ، تاہم بلاد، ملک، دارالایمان ، ( دارلایمان کے مقابلے میں دارلکفر) حاکمیت اور امت جیسے مترادف الفاظ کا کثرت سے ذکر کیا گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں ان قرآنی اصطلاحات کی روشنی میں ضروری ہے کہ اس لفظ کے بارے میں اصطلاحی طور پر ہمارے پاس دقیق معلومات ہوں(Terminology) تاکہ اگلے مراحل میں ایک جامع تعریف کے سائے میں اس کی حقیقت نیز اس کے ارکان کے بارے میں ایک درست اور دقیق تعریف اور موقف کے ساتھ سیر حاصل بحث کر سکیں ۔
مفکرین کے ادب میں تمدن کا تصور:
Civilization لاطینی زبان کے لفظ civilise جو کہ کلمہ civis یعنی شہری سے مشتق ہے سے ماخوذ ہے ۔ قدیم یونانی لوگ اس لفظ کو یہ ظاہر کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے کہ شہر مختلف اداروں اور معاشرتی تعلقات کا ایک مجموعہ ہے ، جو زندگی کی ایک اعلی شکل ہے، (ویل دورانٹ- 1368 شمسی، 256) ۔ فارسی ترجمہ میں یہ لفظ تمدن کی اصطلاح کے پیرائے میں استعمال کیا گیا ہے، لیکن درحقیقت یہ عربی لفظ کی شکل میں استعمال ہوا ہے۔ عربی میں کلمہ ” تمدن” کو ” مدن” سے لیا گیا ہے جس کا مطلب ہے قیام کرنا اور شہریوں کے اخلاق کو پیدا کرنا ہے۔ ( لوئیس معلوف – 1374 شمسی- ج،2: 1766) ۔ فارسی لغات میں “تمدن” کا مطلب ہے شہریت اور شہریوں کے اخلاق ، عادات، اور رسم رواج کا عادی بننا، نیز ایک معاشرے کے افراد کا ایک دوسرے کے ساتھ معاشرتی، معاشی،دینی اور سیاسی امور میں تعاون کرنا۔ ( معین- 1371: 1139) ۔ البتہ عربوں نے ایرانیوں کے برعکس اس اصطلاح کے ترجمہ میں ” الحضارہ” کے لفظ کا استعمال کیا ہے۔ لغت میں ” الحضارہ” ” حضر” سے ماخوذ ہے اور قعد کے وزن پر ہے۔ اور “الحاضر ہ” البادیہ کے مقابلے میں استعمال کیا جاتاہے۔ اس نام کو بروئے کار لانے کی وجہ یہ ہے کہ خانہ بدوش لوگ جو چادروں میں زندگی کیا کرتے تھے اور ایک علاقے میں پہنچ کر اپنے رہن سہن کے لئے کسی مکان کا انتخاب کرتے اور اس میں سکونت اختیار کرتے تھے۔ چنانچہ اس زاوئے سے بھی ” حضر” کو خانہ بدوش کے خلاف جانا گیا ہے ۔( ابن منظور ، 1410 ،ق،ج،6: 197) ۔
” تمدن” کے اصطلاحی معنی میں مختلف سلیقوں اور خیالات کا سامنا کرنے کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔ چنانچہ ” تمدن” کی بعض تعاریف کو بیان کرنے سے پہلے اس نکتے کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ ” تمدن”ایک جدید تصور ہے اور حالیہ صدیوں میں اس کونظریاتی ارتقا ملی ہے۔ اس کا استعمال 18 ویں صدی میں روشن خیالی کے زمانے میں ہوا ۔ اگرچہ اس کی حقیقت ماضی سے ہی اپنی جگہ موجود تھی۔ چنانچہ مذکورہ نکات کو مد نظر رکھتے ہوئے “تمدن” کے باب میں ہمیں تین طرح کی تعریفوں کا سامنا کرنا پڑھتا ہے۔
1. ۔ ایسی تعریفیں جو تمدن کی ماہیت اور اس کی حقیقت کو بیان کرتی ہیں۔
2. ۔ ایسی تعریفیں جو تمدن کو تشکیل دینے والے عناصر اور تمدن کی خدوخال کو منظم کرنے والے عناصر کی تبیین کے درپے ہیں ۔
3. ۔ ایسی تعریفیں جو متمدن زندگی کے آثار کو بیان کرتی ہیں۔
پہلے باب کے ضمن میں عموما ایسی تعریفوں کا مشاہدہ کرتے ہیں جو تمدن اور ثقافت کی ماہیت کو مترادف طور پر بیان کرتی ہیں ۔ ایڈوارڈ برنیٹ ٹائلر لکھتے ہیں: انسانیت کی شناخت رکھنے والے تمدن کے کلمہ کو ثقافت کے ساتھ اس کے وسیع معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ جو سائنس، عقائد، فنون،اخلاقیات، قوانین اور آداب و رسوم کا ایک پیچیدہ امتزاج ہے جسے انسان کی مدد سے انسانی معاشرے میں حاصل کیا جاتا ہے۔( آشوری، 1381 شمسی: 112) ۔ لیکن بعض تمدن اور ثقافت کے درمیان فرق کرتے ہوئے تمدن کو ثقافت کا حصہ اور جبکہ ثقافت کو تمدن کی روح جانتے ہیں، اور اس طرح تمدن کو ثقافت کی ایک معنوی شکل گردانتے ہیں۔ یعنی اس معنی کی رو سے ثقافت نے تمام انسانی عقائد ، افکار، فنون اور آداب کو اپنے اندر سمویا ہے، اور تمدن میں ٹیکنالوجی اور سائنس سے متعلق انسانی تخلیقی صلاحیتوں کا شعبہ شامل ہے۔ ( جولیوس، 1376 شمسی: 267) ۔ مالک ابن نبی جو الجزائر کے ایک متفکر ہیں تمدن اور ثقافت میں افتراق کرتے ہوئے تمدن کو روحانی( معنوی) اور مادی عوامل کا ایک مجموعہ سمجھتا ہے جو معاشرے کو اس طرح سے میدان فراہم کرتا ہے کہ اس کا ہر فرد ترقی کے لئے لازم تمام وسائل اور ذرائع کے ساتھ سماجی سیاق و سباق سے فائدہ اٹھا سکے۔ ( بن نبی، 1988 میلادی،:50) ۔ علامہ محمد تقی جعفری ایک عام نظر کے ساتھ تمدن کی اس طرح سے تعریف کرتے ہیں : تمدن، معقول زندگی میں انسانوں کے آپس میں عادلانہ رابطہ ہے جس کے سائے میں معاشرے کے تمام افراد اور گروہوں کی شراکت داری، انسانوں کے مادی اور معنوی اہداف کو مثبت جہات میں آگے بڑھاتی ہے۔ ( محمد تقی جعفری، 1359 شمسی، ج،5، 161) ۔ بعض افراد تمدن کو معروضی اور ٹکنیکی میکانیزم اور مشکل پہلووں تک محدود سمجھتے ہیں۔ ( آشوری، 1381 شمسی، :41) ۔
لیکن دوسرے باب میں پائی جانی والی تعریفیں تمدن کے عوامل اور اس کے اجزا کو بیان کرتی ہیں۔ ہنری لوکاس” تمدن” کو ایک ایسی پیوستہ صورت گردانتا ہے جو معاشرتی، معاشی، سیاسی ، یہاں تک کہ فنون(آرٹ) اور لغات کو بھی اپنے احاطے میں شامل کرتی ہے۔( لوکاس، ہنری- 1366 شمسی، ج ،7: 1 و 16) ۔
لیکن تیسرے باب کی تعریفوں میں تمدن کو اس کے اثرات کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے، جیسے نظم و ظبط، امنیت،اخلاق، شناخت وغیرہ۔ ویل ڈورانٹ کی نظر میں تمدن ایک ایسا معاشرتی نظام ہے جو ثقافتی کامیابیوں میں تیزی اور پیشرفت کا باعث بنتا ہے ، نظریات ،آداب ورسوم اور فنون سے استفادہ کرنے کے لئے جدت اور تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا ہے۔ ایک ایسا سیاسی نظام ہے جو اخلاقیات اور قوانین کے بل بوتے پر قائم ہے اور یہ ایک معاشی نظام ہے جو پیداوار کو جاری رکھنے کے ذریعے پائدار رہے گا۔ ( ویل ڈورانٹ- 1368 شمسی، ج،1: 3) ۔ ابن خلدون کی نظر میں؛ ایسا معاشرہ جو حاکمیت کے قیام کے ساتھ منظم ہوچکا ہے، نظم و ظبط کی نگرانی کے لئے حکومتی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے ، اور انفرادی زندگی کی حالت سے شہری اور شہر نشینی کی جانب کوچ کیا ہے، نیز بلند و بالا فضائل اور نفسانی خوبیوں جیسے علم اور فنون کی وجہ سے تمدن کو ایک خاص اہمیت حا صل ہوئی ہے۔ ( ابن خلدون- 1375- ج1: 76) ۔ ساموئل ہانٹینگٹون؛ “تمدن “کو ثقافت کی اعلی ترین حد اور ثقافتی شناخت کی وسیع ترین سطح میں شمار کرتا ہے۔ ( ہانٹینگٹون- 1378: 47) ۔
آرنولڈ ٹوین بی کی نظر میں؛ تمدن ایک جدید اور خلاق نسل کی پیداوار ہے۔ ( علی اکبر ولایتی- 1382 اسلام اور ایران- ج 1: ص 30) ۔ یعنی معاشرے میں ایک ممتاز طبقہ پایا جاتا ہے جو ذہانت ، خلاقیت اور جدت کا آئینہ دار ہیں، اور معاشرے میں رونما ہونے والی ارتقا اور تبدیلیوں کے نتیجے میں تمدن کو نمایاں کرتا ہے۔
قرآنی ادبیات میں “تمدن” کا تصور:
اگر چہ قرآن کریم اور احادیث میں تمدن کا لفظ اس خاص ترکیب کے ساتھ استعمال نہیں ہوا ہے ،تاہم دوسرے الفاظ جیسے ، بلد(شہر) گاوں، امت، عظیم ملک، اور ملک کبیر جیسے مترادف الفاظ کی صورت میں اس کی جھلکیاں قرآن اور حدیث میں جابجا دیکھنے کو ملتی ہے۔ لہذا مذہبی تعلیمات اور اس کی خصوصیات پر مبنی تمدن کے صحیح اور دقیق تصور کو جاننے کے لئے، ان قرآنی اصطلاحات پر دھیان دینا ضروری ہے تاکہ ان کے سائے میں اس اصطلاح کی مختلف جہتیں ہمارے لئے واضح ہوجائیں،جس کے نتیجے میں ہم اس اصطلاح کی دینی ادبیات کےپیرائے میں تجزیہ اور تحلیل کر سکیں۔
الف) مدینہ، بلد، اور قریہ؛ سب سے پہلے جس بات کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے وہ قرآن کریم میں موجود یہ تینوں مترادف الفاظ ہیں جن کے معنی ( شہر یا گاوں) کے ہیں ۔ اگر چہ بعض موارد میں یہ تینوں الفاظ ایک ہی معنی میں استعمال ہوئے ہیں، لیکن اکثر مواقع پر ان کا استعمال ان جگہوں پر ہوا ہے جو ایک منظم شہر ، اچھی انسانی خصوصیات کے حامل، اور پیغمبران الہی اور مومنین کے رہنے کی جگہیں ہوں چنانچہ ایسی جگہوں کے لئے بلاد اور مدینہ جیسے کلمات استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اس کے برعکس، جہاں پر اقوام کی ہلاکت اور کسی علاقے میں رسولوں کو بھیجنے کی بات ہو وہاں پر قریہ،( گاوں) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ “بلد الامین” کی اصطلاح جو سورہ تین کی آیت نمبر 3 میں جو بعثت کے ابتدائی برسوں میں نازل ہوئی ہے اور خداوند متعال نے جس کی قسم کھائی ہے” وھذالبلد الامین” کی طرف پلٹتی ہے ۔بعض دوسری آیات جو مذکورہ آیت کے بعد نازل ہوئی ہیں اسی کی مشابہ تعبیرات کی طرف اشارہ کرتی ہیں جیسے ” وَإِذ قالَ إِبراهيمُ رَبِّ اجعَل هذا بَلَدًا آمِنًا وَارزُق أَهلَهُ مِنَ الثَّمَراتِ مَن آمَنَ مِنهُم بِاللَّهِ وَاليَومِ الآخِرِ” (بقره، 126) ۔
اس کے مقابلے میں بعض آیات میں قریہ،(گاوں) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ “وَلُوطًا آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ تَعْمَلُ الْخَبَائِثَ.”(انبیاء، 74) ۔یہاں پر ایسے لوگوں کی ماضی کی بات ہورہی ہے جو فاسد تھے ، اور اس آیت میں برے اعمال کی نسبت جن لوگوں کی طرف دی گئی ہے اس پر قریہ ( گاوں )کا اطلاق ہوا ہے۔
یا پھر سورہ یسین کے آغاز میں ارشاد ہوتا ہے “وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا أَصْحَابَ الْقَرْيَةِ إِذْ جَاءَهَا الْمُرْسَلُونَ ” (یسین،13). اور اس کے بعد مزید ارشاد ہوتا ہے؛ وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَى قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ ” (یسین، 20) ۔ چونکہ پہلے والی آیت میں بے ایمان لوگوں کی طرف رسول بھیجنے کی بات ہے، ان کے مکان کو قریہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ اور دوسری آیت میں ایک مومن انسان کے اس مکان پر آنے کی بات کی جارہی ہے جو وہاں پر زندگی بسرکرتا ہے۔، اور اس پر مدینہ کا اطلاق ہوا ہے۔ (مصطفوی،ج9: 254) ۔ سورہ کہف میں بھی اسی تناسب سے ذکر کیا گیا ہے، جب موسی اور ان کے ساتھی کسی ایسے علاقے میں پہنچے جہاں لوگوں نے ان دونوں خدا کے ولیوں کی مہمانی سے انکار کردیا، لہذا قرآن میں اس مکان کو گاوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔ :” فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا” (کهف، 77) ۔ انہوں نے اسی گاوں میں ایک دیوار دیکھی جو گررہی تھی، لہذا انہوں نے بغیر کسی توقع کے اس دیوار کی مرمت کردی۔ چند آیتوں کے بعد جب اس دیوار کی مرمت کے فلسفے کا ذکر کیا جاتا ہے تو گفتگو وہاں رہنے والے دو بیٹوں کے نیک اور صالح باپ کے بارے میں ہے ، لہذا قرآن کی تعبیر بدل جاتی ہے اور اس علاقے کو شہر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور فرماتے ہیں؛ وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ ” (کهف، 82) ۔ لیکن یہ دیوار اس شہر کے بسنے والے ان دو یتیم بچوں کی تھی، اور اس دیوار کے نیچے ایک خزانہ تھا جو ان بچوں کی ملکیت تھا ، اور ان کا باپ ایک صالح انسان تھا، تیرا پروردگار چاہتا تھا کہ وہ دونوں بڑے ہوجائیں اور اپنے خزانے کو زمین سے باہر نکالیں، میں نے اس کام کو اپنی رغبت اور مرضی سے انجام نہیں دیا ہے، بلکہ رحمت پرودگار یہ تھی۔
ب) امت؛ دوسرا لفظ جو تمدن کے تصور کی وضاحت کرنے میں بہت ہی معاون و مددگار ہے وہ لفظ ” امت” ہے۔ یہاں تک کہ بعض لوگ اس بات کے معتقد ہیں کہ لفظ تمدن کے بجائے امت کے لفظ کو استعمال کیا جانا چاہئے۔ قرآن کریم میں امت کا لفظ مفرد یا جمع کی صورت میں مجموعی طور پر 65 بار آیا ہے ؛كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ (بقره،313) ، لیکن امت کے مفہوم کے بارے میں یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ لغت کے لحاظ سے ام یوم سے ماخوذ ہے جو قصد یقصد کے مترادف ہے( ابن منظور، 1410،ج 14: 22) ۔ ام کا اطلاق ماں پر بھی کیئے جانے کا مقصد یہ ہے کہ کیونکہ بچہ اپنی ضروریات کو پوری کرنے یا آرامش کے احساس کے لئے اپنی ماں کا قصد کرتا ہے یا انہیں یاد کرتا ہے۔ لیکن اصطلاح میں ” امت” لوگوں کے ایک گروہ کو کہا جاتا ہے جنہیں کسی ایک ہدف یا مقصد نے ایک دوسرے کے گرد جمع کیا ہو۔ قرآن کریم میں امت کی بعض خصوصیات کچھ اس طرح سے بیان ہوئی ہیں :
پہلی خصوصیت: امت کا قیام عقیدے کی بنیاد پر ہوتا ہے ، لہذا اسی بنا پر امت کی سرحد جغرافیائی حدود تک محدود نہیں ہوتی، بلکہ امتوں کے درمیان سرحدیں نظریاتی اور عقیدے کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ وہ تمام لوگ جو توحید، نبوت ،معاد کے محور پر مرکوز ہیں ایک ہی اسلامی قوم یعنی امت اسلامیہ کو تشکیل دیتے ہی، “كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ” (بقره، 312) ۔ اسی بنیاد پر سیموئیل ہنگٹن مسلمانوں کی نظریاتی اور عقیدتی فکر میں امت کے تصور کی کلیدی حیثیت کے پیش نظر مسلمانوں معاشرے کی دوسرے معاشروں کی نسبت روابط اور تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کرتا ہے ، اور اپنی کتاب ” تمدنوں کا تصادم اور دنیا کے نظم کی تعمیر نو” میں اس بارے میں لکھتا ہے کہ: دین اسلام نے ایک مذہبی معاشرے کی تشکیل دے کر ، معاشرتی تعلقات کو آسمانی قوانین کے مطابق منظم کرتے ہوئے انسانی معاشرے میں ایک جدید تقسیم ایجاد کی ہے، اور اس کو دو اہم حصوں دارالاسلام اور دارلحرب میں درجہ بندی کی ہے ۔ اور اس درجہ بندی میں امت مسلمہ جغرافیائی اور نسلی تقسیم سے قطع نظر دارالاسلام میں قرار پاتے ہیں اور غیر مسلم دارالحرب میں۔ لہذا اس درجہ بندی کا بنیادی معیار دین اسلام پر ایمان اور اعتقاد یا عدم ایمان ہے۔ ( ہانٹینگٹون، 1378: 224) ۔ البتہ یہ تقسیم بندی قرآنی تعلیمات کے رو سے درست نہیں ہے چونکہ دارالاسلام کے مقابلے میں دارالکفر ہے۔ اور دین اسلام تمام توحیدی ادیان کا دین ہے ، اور اسلام کی بنیاد جنگ پر مبنی نہیں ہے ، بلکہ اسلام کی اصل جدال احسن کے پر مبنی دعوت ہے۔ اور اسلام میں جہاد کا عمل کینہ پرور کافروں کے ساتھ مقابلے کا آخری راستہ ہے۔
دوسری خصوصیت: امت، امامت کے مدار اور محور پرتشکیل پاتی ہے اور امام بھی امت سے ہی ہیں، قرآنی ادب میں انبیاء اقوام کی تشکیل اور رہنمائی کا مرکز ہیں،۔”وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَسُولٌ فَإِذَا جَاءَ رَسُولُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ” (یونس، 74) ۔
تیسری خصوصیت: جو کچھ بھی قرآنی نقطہ نظر سے اہمیت کا حامل ہے وہ افراد کا اجتماع اور معاشرے میں زندگی کرنا ہے ۔ اور ابنیاء الہی نیز لوگوں کے مختلف گروہوں اور انسانی معاشروں کی رہنمائی کے لئے مبعوث ہوتےتھے، اور ان کی تعلیمات کا تعلق بھی انسانی زندگی کے معاشرتی پہلو سے تھا، یہاں تک کہ انفرادی تمدن نفس بھی اجتماعی تمدن کے دائرے میں معنی پیدا کرتا تھا۔، چونکہ فرد معاشرے کے اندر پروان چڑھتا ہے اور انسان ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں ، لہذا ابنیاء علیہم السلام کی تعلیمات میں اس بات کی کوشش ہوتی تھی کہ معاشرے میں زندگی کرنے والے افراد کی انسانی اور معاشرتی زندگی کی بہتری کے لئے اصلاح کریں تاکہ کسی صالح معاشرے کے تناظر میں انفرادی زندگی کی سعادتیں مہیا ہو سکے۔ کیونکہ معاشرے کے افراد کی اصلاح ایک منحرف معاشرے میں ایک ایسی چیز ہے جس پر بہت کم شک کیا جاسکتا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی زندگی اپنے جیسے افراد اور اپنے معاشرے میں گزرتی ہے ، اور فرد اس لحاظ سے بھی کہ معاشرے کے بعض طبقات جیسے خاندانی، سماجی اور مختلف دیگر گروہوں کا حصہ ہے تبھی تو معاشرہ اور اس کے آداب و رسوم سے متاثر ہوتا ہے اور اگر معاشرے میں اصلاحات لائی جائیں تو اس معاشرے میں موجود افراد کی بہبود اور سعادت کے لئے راہ ہموار ہوجائے گی۔
اسی بنا پر قرآن حکیم میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو امت اسلامی کی خصوصیات میں سے شمار کیا گیا ہے جو امت مسلمہ کی نجات کا باعث ہے؛ یعنی اگر امت مسلمہ ان دونوں معاشرتی فرائض پر عمل پیرا ہوتی ہے تو معاشرے میں اقدار اور خوبیاں عام جوجائیں گی، اور برائیوں اور منکرات کو پھیلنے کا موقع نہیں ملے گا ، جس کے نتیجے میں ایک سالم معاشرہ وجود میں آئے گا۔ چونکہ معاشرے کا اپنے افراد پر گہرا اثر ہوتا ہے اور آخر کار لوگوں کی اصلاح اور نجات کا باعث بن کر کلی طور پر معاشرہ نجات حاصل کرسکتا ہے ۔”وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (آل عمران،401) ۔
چوتھی خصوصیت: ہر قوم اور قبیلے کے کچھ مخصوص رسومات اور مناسک ہوتے ہیں اور انہی رسومات کے مطابق وہ اپنے اہداف کو حاصل کرتے ہیں۔ لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ (حج، 67) اور امت اسلامیہ کا سب سے اہم ہدف اور مقصد طاغوت سے بچنا ہے، وَلَقَد بَعَثنا في كُلِّ أُمَّةٍ رَسولًا أَنِ اعبُدُوا اللَّهَ وَاجتَنِبُوا الطّاغوتَ (نحل،36) ۔ بنابر ایں مذکورہ آیات کے علاوہ اس ضمن میں موجود دیگر آیات کے تناظر میں یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ جہاں کہیں پر بھی بڑے انسانی گروہ اور انسانی معاشرے تشکیل پاتے تھے اور معاشرتی زندگی قائم ہوتی تھی؛ وہاں رسولوں کا بھیجنا ، الہی رسالت کا ابلاغ، معاشرتی زندگی کی راہوں اور منصوبوں کا تعین کرنا اور معاشرے کو توحید اور خدا کی عبادت کی طرف راغب کرنا اور بت پرستی کی زنجیروں سے آزادی کی ترغیب ، انسانی معاشروں میں خداوند متعال کی سنت جاریہ میں سے ایک رہی ہے ۔ ( طباطبائی، 37/373/،10/41) ۔ اگرچہ قرآن کریم میں امت مسلمہ کے بارے میں ، امت وسط، امت واحدہ جیسی دیگر خصوصیات کا بھی ذکر ہے۔
اسلامی تمدن کی تعریف:
مذکورہ بالا قرآنی مباحث کی روشنی میں اور موجودہ دور میں تمدنوں کی پیچیدگی کے تناسب کے ساتھ اسلامی تمدن کی جامع تعریف مندرجہ ذیل خصوصیات کے ساتھ کی جاسکتی ہے۔
الف) تمدن کی امت کے ساتھ تعریف کی جاسکتی ہے یعنی صرف وہ نظریہ تمدن کی شکل اختیار کرسکتا ہے جو اپنے نظرئے کے ارد گرد ایک امت یا قوم تشکیل دے، ایک ایسی امت یا قوم جس کی ایک ہی شناخت اور ایک ہی جہان بینی ہو جس کے سائے میں وہ اپنی معاشرتی زندگی کے تمام شعبوں کو منظم کر سکے۔
ب) نیز امت کے مفہوم کو مد نظر رکھنے کے ساتھ اس کی ایک اور خصوصیت کی طرف بھی توجہ دی جاسکتی ہے کہ ایک تمدنی نظرئے اور تفکر کے لئے ضروری ہے کہ وہ معروضی طور پر ابھر کر آئے اور ایک امت کو تشکیل دے تاکہ وہ ایک تمدن کی شکل اختیار کرسکے، یعنی تمدن کے ضروری لوازمات میں سے معروضی طور پر وجود میں آنا ہے ۔
ج) تمدن کےتصور کی سب سے اہم خصوصیت سماجی قبولیت ہے( یعنی معاشرے میں اسے قبول کرنا)۔ جب معاشرتی واقعات میں سے کوئی واقعہ تمدن کی شکل اختیار کرتا ہے اور معاشرتی مقبولیت تک پہنچنے کے لئے دیر پا ہوجاتا ہے ، اور شاید یہی وجہ ہے کہ بعض نے ثقافت اور تمدن کو اسی معنی میں لیا ہے، اور یہاں تک کہ یہ خصوصیت ثقافت میں بھی پائی جاتی ہے ، اور مفہوم ثقافت اور اقدار اور اعتقادات کے مابین فرق کہ جسے بعض لوگ ان دو اقسام (اقدار، اعتقادات) کے ذریعے ثقافت کی تعریف کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان اعتقادات اور اقدار کو ثقافت کا نام دیا جاسکتا ہے جو معاشرتی مقبولیت کو پہنچ گئے ہوں۔ تاہم یہ بات واضح رہے کہ مقبولیت اس کی حقانیت کی دلیل نہیں ہے ، چونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی معاشرے میں ایک غلط عقیدہ یا خرافات ثقافت بن جائے۔ ( حسینی الہاشمی)۔
د) تمدن کے مفہوم میں ایک اور اہم عنصر اس تمدن کی مدیریت اور رہبری کا ہے، جیسا کہ بلد اور تمدن کے مفاہیم میں بیان کیا گیا کہ بلد میں امام اس بلد کا رکن ہے۔ زیارت جامعہ کبیرہ میں امام کی صفات میں آیا ہے کہ: وساسہ العباد، و ارکان البلاد( شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان) ۔ یا قرآن میں ہر امت رسول کے ارد گرد تشکیل پاتی ہے، وَ لِکُلِ أُمَّةٍ رَسُولٌ فَإِذَا جَاءَ رَسُولُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَ هُمْ لاَ يُظْلَمُونَ ۔ (یونس،74) ۔ اس خصوصیت کی طرف توجہ کرتے ہوئے اس اصطلاح کا مغربی ادب میں ترجمہ ان کے تاریخی فلسفے کی نگاہ سے مرتبط جانا جا سکتا ہے جن کا تاریخ کی طرف ایک سرسری نظر کرکے یہ ماننا ہے کہ انسانی زندگی کی ترقی، غار نشینی اور شکار کے مرحلے کے بعد زراعت اور اس کے بعد شہری زندگی کے مرحلے تک پہنچی ہے۔ لہذا بعض لوگ اس نظرئے کے خلاف یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ تمدن کے لئے شہر نشینی کے معنی میں ہونا ضروری نہیں ہے۔ بلکہ مہذب انسان وہ انسان ہے جو شہر نشینی کے مرحلے میں داخل ہوا ہے۔ درحقیقت شہر نشینی تمدن کے لئے معلول رہا ہے نہ علت۔ اسی بنیاد پر جان برنال کہتا ہے: شہر تمدن کا حصہ ہے ، ایسا نہیں ہے کہ شہر نشینی نے تمدن کو جنم دیا ہو۔ ( جان برنال، 1380 شمسی” 86) لیکن شیعہ تعلیمات نیز شیعہ تاریخی فلسفے کی بنیاد پر دنیا ،نبی یا خدا کے خلیفہ کے ساتھ شروع ہوئی ہے اور معاشرہ اور تمدن بھی شروع سے ہی وجود میں آیا ہے ، اور اس کا آغاز نبی یا امام کے ساتھ ہی ہوا ہے اور امام کے ساتھ ہی اپنے انجام کو پہنچ جائے گا ، تاہم اپنے ارتقا کے دوران ، الہی تمدن اپنی خاص اور پیچیدہ حالت میں پھیل رہی ہے۔
ہ) ایک اور حصہ جس پر تمدن کی تعریف میں غور کرنا چاہئے وہ تمدن کے مفہوم میں ارادے کا عنصر ہے، شاید یہ کہا جاسکتا ہے کہ تمدن معاشرتی ارادوں کے نظام کا تعین ہے جو تمدن کو تشکیل دینے والے اولیاء کے گرد قائم ہوتا ہے۔ لہذا یہی ارادے ہی ہیں جو تمدن کو تشکیل دیتے ہیں۔ “إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ ما بِقَومٍ حَتّى يُغَيِّروا ما بِأَنفُسِهِم (رعد،11) ۔ اسی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ: جدید دنیا اور آج کی مادی تمدن ایسے مختصر اور ممتزج ارادوں کا ما حصل ہے جو تاریخ کی سمت کا تعین کرنا چاہتے ہیں ۔ در حقیقت جدید دنیا ایسے ظاہری ارادوں کا نتیجہ ہے جو نسبی ہماہنگی کے ساتھ مادی ترقی اور سکیولرایزیشن کی راہ میں دیگر اقوام اور تمدنوں کے ارادوں کو زنجیروں میں جکڑ کر انہیں فتح ( تسخیر)کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ لہذا اسی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ تمدن تمام معاشرتی حصوں پر پھیلی ہوئی ہے، کیونکہ تمدن کے سارے عناصر انسان کی مرضی( ارادہ بشری) اور اس کی تخلیقی قوت کی پیداوار ہیں۔
و) اس کے علاوہ تمدن کے تصور کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ حکومتوں کے برخلاف تمدنیں صرف قومی سرحدوں تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ تمدنوں کے حدود نظریاتی اور ان کے مابین اختلاف اصولوں اور اقدار میں پائے جانے والے اختلافات کی طرف پلٹتے ہیں ۔ لہذا ایک تمدن کی وسعت ایک حکومت کی وسعت سے زیادہ یہاں تک کہ ایک مخصوص ثقافت سے بھی کہیں زیادہ ہے، اور طبیعی طور پر اس کی عمر ایک معاشرتی زندگی اور ایک خاص معاشرے کی عمر سے کہیں زیادہ ہے ۔
ح) اسلامی تمدن کے تصور میں آخری نکتہ یہ ہے کہ ایک تمدن کا اسلامی ہونا، مشیت الہی ،ارادہ الہی، اولیاء الہی کے ارادے کے ساتھ ساتھ اس تمدن کے تمام ارکان اور پہلووں کا معارف الہی اور فقہ تمدنی پر مبنی ہونے کے لحاظ سے اور اسی طرح امت اسلامیہ کے لئے بافضیلت ہونے کے لحاظ سے کہ ” الاسلام يعلوا و لايُعلي عليه ” عبودیت اور بندگی کے لئے وسعت مہیا ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ایک تمدن کے اسلامی ہونے کے لئے ، مومنین کےاندر ایمان کا وجود، ان کی امام امت کے ساتھ مکمل محبت، نیز ایک جامع اسلامی فقہ کا وجود ، ایک جامع اسلامی علوم کا وسیع سسٹم، معاشرتی ڈھانچہ، اور اس کے نمونے، معاشرتی پروگراموں کا وجود اور اسلامی طرز زندگی کے تحقق سے وابستہ ہے۔
2،: اسلامی تمدن کے ارکان۔
تالیفات کے باب میں ایک تمدن کے بنیادی اجزا اور اس کے اصلی ارکان اور ان میں سے ہر ایک کا اس تمدن کی تشکیل میں اثر رسوخ کو چار بنیادی ارکان میں بیان کیا ہے؛ معاشی امور، سیاسی تحریکیں، اخلاقی قدریں، معرفت اور فنون کی راہ میں جدوجہد ، دور اندیشی اور احتیاط۔
ول ڈورانٹ کے مطابق: زمینی حقائق، جغرافیہ، معاشیات، حیاتیات، نفسیات، سیاسی نظم و انظباط، لسانی اتحاد اور اخلاقی قانون کا شمار تمدن کے عوامل میں ہوتا ہے۔ اور ان کی نظر میں تمدن کی تشکیل میں معاشی عوامل کی اہمیت دوسرے تمام عوامل سے زیادہ ہے۔ ( ول ڈورانٹ، 1370 شمسی، ج1، ص307) ۔ بعض دوسرے افراد نے ایک تمدن کی ساختار کے لئے مختلف عوامل جیسے معاشی نظام ، ثقافتی، سیاسی، قانونی، اقدار اور تاریخی نظام جیسے مختلف عوامل کو ضروری سمجھا ہے۔
تا ہم اسلامی تمدن کے بنیادی ارکان کے بارے میں مقام معظم رہبری امام خامنہ ای کا نظریہ بہت ہی اہمیت کا حا مل اور مظبوط نظریہ ہے ۔ مقام معظم رہبری کی نظر میں جدید اسلامی تمدن دوا ہم حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ وسائل اور ذرائع کا ہے جس میں تمام پروگرامز ، ڈھانچے، ادارے اور یہاں تک ان کا بنیادی ڈھانچہ بھی شامل ہے جسے رہبر معظم کے بعض فرامین میں اس ساختار کے حصے کو سافٹ ویر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن جدید اسلامی تمدن کا دوسرا حصہ وہ حصہ ہے جس میں پہلے حصے کے تمام جوانب اور پہلو اس حصے میں اپنی ظاہری شکل اختیار کرتے ہیں، اور وہ معاشرے میں عملی طور پر طرز زندگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
” اگر ہم ہمہ جہت ترقی کو جدید اسلامی تمدن کے معنی میں لے لیں تو آخر کار اس ترقی کے لئے اسلامی مفہوم کے ساتھ بیرونی کوئی مثال یا مصداق موجود ہے؛ یعنی ہم ایسا کہیں کہ ایرانی قوم اور اسلامی انقلاب کا مقصد ایک جدید اسلامی تمدن کی تشکیل ہے۔ اور یہ ایک درست محاسبہ ہے ، اس جدید تمدن کے دو حصے ہیں: ایک حصہ وسائل اور ذرائع کا ہے؛ دوسرا حصہ متن کا حصہ جو کہ اصلی اور بنیادی ہے۔ اور ان دونوں حصوں کی شناخت ضروری ہے۔ ( 23/7/1391 شمسی) ۔
اسلامی تمدن کے وسائل اور ذرائع کا میدان اور اس کا بنیادی مقصد اس تمد ن کے سب سے اہم ہدف تک پہنچنے کے لئے ایک آلہ ( وسیلہ)ہے ، یعنی زندگی کی صحیح ثقافت کی بنیاد رکھنا ہے۔ اور محض سیاسی، معاشی یا معاشرتی شعبوں میں جو پیشرفت ہوئی ہے اس سے ہمیں یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہئے کہ ہم اسلامی ثقافت کو حاصل کر چکے ہیں، کیونکہ طرز زندگی کی تبیین اور اس کے صحیح طریقوں کا تعین کرنا ، کوئی آسان کام نہیں ہے اور اس میں یونیورسٹیوں، مدارس اور دیگر متعلقہ اداروں کے ماہرین کے مطالعے کی ضرورت ہے۔ جبکہ دوسری جانب اس کو تبدیل کرنا بھی نہایت مشکل امر ہے کیونکہ ایسے رسم ورواج کو تبدیل کرنا ہے جو ایک ثقافت کے عنوان سے لوگوں میں مقبول ہوئے ہیں ، اور لوگوں میں رائج ہیں۔ اور یہ بات بھی ذہن نشین کرنی چاہئے کہ بد قسمتی سے بعض مغربی عادات نے اس قدر نفوذ کیا ہے کہ آج حقیقی اسلامی ثقافت اور تعلیمات کی جگہ لے لی ہے۔
2۔1۔ اسلامی تمدن کا ڈھانچہ (انفراسٹرکچر):
تمایلاتی نظام، فکر اور ثقافت کانظام، اورمصنوعات کے نظام” کو کسی تمدن کے تین اصلی ارکان کے طور پر جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ جو کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک خاص تمدن کی شناخت کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ بہت سارے نظریات کے بر خلاف جو ثقافت کو تمدن کی روح اور اور اس کی اصلی بنیاد کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ اگر چہ ثقافت تمدن کے تمام انواع کی تشکیل کے لئے اساس اور بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے، اور تمام نمونوں،ڈھانچے،تفکرات، علوم اور سیاسی ، ثقافتی اور معاشی محصولات کو مختلف سطح پر فراہم کرتی ہے۔ لیکن ثقافت خود رجحانات، تمائلات جذبات اور معاشرتی اخلاقیات سے تشکیل پاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں انسانی معاشرتی زندگی کا مطالعہ اور جائزہ لینے سے یہ بات بخوبی ظاہر ہوتی ہے کہ معاشرتی زندگی رجحانات ، نظریات، اور مصنوعات کے ایک مجموعے سے تشکیل پا ئی ہے اور یہ تینوں جہتیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہیں۔ اور ان میں سے اسلامی تمدن کے انفراسٹرکچر میں رجحانات کا نظام ایک معاشرے اور تمدن کی تشکیل میں بنیادی حیثیت، اور نظریات اور علوم کا نظام فرعی حیثیت، اور مصنوعات تبعی حیثیت کے حامل ہیں۔مثال کے طور پر ایک ایسا معاشرہ جس کے رجحانات اسلامی اقدار پر مبتنی ہو کسی بھی صورت میں وہ معاشرہ اپنے معاشی نظریات میں سود اور سرمایہ دارانہ نظام کے طرز پر نہیں چلتا۔ اور اپنی معاشرتی اور ثقافتی تعلقات کو اپنے رجحانات کے مطابق تشکیل دیتا ہے۔ اور طبیعتا مختلف شعبوں میں مخصوص سماجی مصنوعات جو اس کے رجحانات اور نظریات کے مطابق ہوں تیار کرتا ہے۔ تمدن کی شناخت کے لئے اس اہم نکتے پر دہیان دینا بہت ضروری ہے۔
رجحانات اور تمائلات پر مبتنی نظام:
جیسا کہ بیان کیا گیا کہ تمائلات ، جذبات اور احساسات معاشرے اور انسانی تمدن کے اہم ترین ستون ہیں اور معاشرتی زندگی میں انسان سے مربوط اور انسان اس کے پابند ہے ۔ ہر معاشرہ اپنی جمالیاتی احساس کے تناسب سے موضوعات اور معاملات میں بعض اوقات معنوی دلچسپی و رغبت اور اندرونی کشش پیدا کرتا ہے۔
اسی اساس کی بنیاد پر معاشرتی رجحانات کو تمدن کی تشکیل میں اساسی ذریعہ شمار کیا جا تاہے، اور اس دعوے کو تاریخی مطالعے سے اچھی طرح ثابت کیا جاسکتا ہے؛ کیونکہ کسی بھی تمدن کی ایک شکل و صورت سے دوسری تمدن کی شکل و صورت کی طرف قدم بڑھانا یعنی رجحانات، جذبات اور معاشرتی خوبصورتیوں میں تبدیلی لانا ہے۔ اور ماکس کے مطابق یہ معاشرتی اخلاقیات ہی ہیں جو ایک تمدن کی اساس کو تشکیل دیتی ہیں ۔ ( ماکس وبر، 1374 شمسی، ص 62) ۔
معاشرتی رجحانات کے باب میں دو نکات کی طرف توجہ کرنا چاہئے:
پہلا نکتہ: معاشرتی تمائلات اور رجحانات منظم ہیں ، اور یہی انتظام معاشرتی نظاموں کے درمیان اختلاف کا باعث بنتا ہے۔ ان رجحانات کےمنظم ہونے میں جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ دوسرے رجحانات کی تشکیل کی سمت میں مرکزی رجحانات کی طرف توجہ دینا ہے۔
اگر معاشرہ خداپرستی کے جذبے کی نشونما اور ترقی کے لئے کوشاں ہے، تو فطری طور پر اس معاشرے کی تمام جہتوں میں ترقی اور ارتقاء ایک خاص انداز اور شکل و صورت میں وقوع پذیر ہوتی ہے، اور ہرگز اس کے مد مقابل مادی خصوصیات کے ساتھ اس کی پیمائش( مقایسہ) نہیں ہوتی۔
دوسرا نکتہ: اگر چہ نظریات اور تمائلات کے مابین ہمیشہ قریبی ارتباط ہوتا ہے، لیکن یہ تمائلات اور محرکات میں تبدیلی ہی ہے جو اپنے ساتھ نظریات میں بھی تبدیلی کو ایجاد کرتی ہے، ویل ڈورانٹ نے اپنی کتاب فلسفہ تاریخ میں اس مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ” ہمیشہ محرکات میں تبدیلیوں کے ساتھ رویہ اور تفکر میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے ” ( ویل ڈورانٹ، 1370 شمسی، ص 373) ۔
اسی بنیاد پر دیکھتے ہیں کہ جدید مغرب کا دور اس سرزمین کے لوگوں کے تمائلات اور جمالیات میں تبدیلی کے ساتھ آغاز ہوتا ہے ۔ ویل ڈورانٹ چودہویں صدی کے اٹلی شاعر اور مصنف پتراک اور بوکاچیو ک کو جدید دور کے پہلے انسانوں میں شمار کرتا ہے۔
چودہویں صدی کے وسط میں اٹلی کے بعض شہروں خاص طور پر فلورانس نامی شہر میں ادبی ،ثقافتی تحریک وجود میں آتی ہے ، جو بتدریج ایک جدید انسان کے ابھرنے کی نشاندہی کرتی ہے جس کے اندر قرون وسطی کے تمائلات ، اور جذبات پائے نہیں جاتے ، اور اب اس انسان میں ایک نفع بخش زندگی، اور منفعت طلبی میں دلچسپی رکھنے والا کردار پایا جاتا ہے۔ ( زرشناس، 1382، ص 86) ۔
اس طرح جدید دور کا نطقہ آغاز اس مرکزی محور یعنی دنیا پرستی سے ہوتا ہے، اور دوسری طرف روحانی وراثت کے چند گنے چنے موضوعات مغربی تفکرات میں محدود ہوجاتے ہیں ۔ لہذا مغربی سرزمین پر تمائلات ، جذبات اور احساسات میں تبدیلی نے اپنے ہمراہ جدید علوم اور ٹیکنالوجی کو ساتھ لایا ، اور ایک ایسی تمدن جو مادیات کے ہمراہ تھی اسے تشکیل دینے میں اپنا کردار اد کیا۔
دوسرے الفاظ میں ماکس وبر کے مطابق سرمایہ دارانہ نظام کا لب لباب یہ ہے کہ ؛ اخلاقیات ایک ذریعہ ہیں ، یعنی ایسے اخلاق جو تفریحی روحیہ ، دولت کمانے کی رغبت اور زیادہ سے زیادہ کما نے کی خواہش کے ساتھ۔ ( ماکس وبر، 1374 شمسی: 54) ۔
اسلامی تمدن کے تحقق کے لئے ضروری ہے کہ معاشرتی جمالیات، اور معاشرتی تمائلات خداوند متعال پر ایمان اور پیغمبر اکرم(ص) کی مکمل اطاعت کے گرد قائم ہوں۔ کیونکہ ولایت الہی ، اسلامی امت کے لئے مرکزی کردار اور اسلامی تمدن کے لئے مرکزی خیمے کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اور یہ الہی ولایت بھی اولیاء الہی کی اطاعت سے وجود میں آتی ہے ، اور امت کا اتحاد بھی اسی طریقہ کار کے سوا ممکن نہیں ہے ۔ اور تمدن کے اسی جہت کے تحقق میں آنے سے ہی ثقافت، معارف اور معاشرتی رسومات کو اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔ اور ان میں تحقق پانے کی صلاحیت ایجاد ہوتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام کی اطاعت کئے بغیر نہ صرف تمدن بلکہ تمدن کے ساتھ دین اور دینی رسومات بھی بے معنی ہوجاتے ہیں۔ یہ امام اور امام کی اطاعت ہے کہ دین کی اساس ہے” السلام علی الدین ماثورا” ( شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان) ۔
یہان پر اس نکتے کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ معاشرتی تمائلات میں تبدیلی خاص قسم کے طریقوں کو طلب کرتی ہے، اس معاملے میں اسلامی فنون کی تولید ضروری ہے ، اور نیز شیعہ دنیا ( جہان تشیع) کی تمام تر صلاحیتوں جیسے واقعہ عاشورا کو احساسات میں بدلنے اور معاشرتی خوبصورتی کو عیاں کرنے کے لئے ان سے استفادہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
نظریاتی نظام:( بصیرت اور ، علم
ایک تمدن کے ارکان میں سے دوسرا رکن نظریات اور تمدن کے ایسے تفکرات ہیں جس کی بنیاد پر تمدن کی محصولات شکل اختیار کرتی ہیں۔ یہ نظریات متعدد پہلووں کے حامل ہیں، جن کو ایک نگاہ میں بنیادی نظریات، اسٹریٹجک نظریات، اور عملی نظریات پر تقسیم کیا جاسکتا ہے ، اور یہیں نظریات ایک معاشرے کی ثقافت کو تشکیل دیتے ہیں۔
دوسرے الفاظ میں مختلف سیاسی، ثقافتی اور معاشی میدانوں میں؛ مفاہیم، معاشرتی انفراسٹرکچر، مختلف نمونے اور ماڈل یہ سب کے سب تمدن کے دوسرے رکن اور ایک تمدن کی بنیاد کو تشکیل دیتے ہیں۔ جس کی بنیاد پر چھوٹے اور بڑے پیمانے پر معاشرتی تعلقات، مد مقابل کی جانب سے اتفاق اور اختلاف کا اظہار وغیرہ جنم لیتے ہیں۔ اس باب میں جس اہم نکتے کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے وہ تمدن کی تمام جہتوں کا ایک دوسرے پر انحصار ہے ، اور موجودہ دور میں سماج اور معاشرے کی پیچیدگیوں کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے اس خصوصیت کی طرف توجہ در حقیقت ایک ناگزیر امر ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر تمدن کے متعدد معاشرتی نظام( سسٹم) ہوتے ہیں جو بنیادی طور پر وہی نظام (سسٹم)ہوتے ہیں جو ایک تمدن کی مکمل شکل صورت کو تشکیل دیتے ہیں ؛ جیسے قانونی ، تعلیمی، تربیتی، سیاسی ، معاشی اور دوسرے چھوٹے بڑے نظام جو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اس تمدن کی جہت کو معین کرتے ہیں۔( آشوری- 1381:128) ۔
اب اس نکتے پر توجہ کے ساتھ اسلامی تمدن کے ساختار کے میدان میں اسلامی تمدن کے اس حصے کے تحقق کے لئے ضرورت کے مطابق علم اور علوم کی تین پرتوں کو مربوط انداز میں استنباط (اخذ) اور تیار کرنا چاہئے۔
الف) تمدنی فقہ: تمدن سازی کے لئے پہلا قدم تمدنی فقہ کا استنباط(اخذ) ہے؛ تمدنی فقہ سے مراد ، ایسی فقہ ہے جو تمدن کے تمام ساختار اور معاشرتی نظام کو دین اسلام سے استنباط (اخذ)کر نے کی صلاحیت رکھتی ہو۔نیز معاشی نظام ، سیاسی نظام، ثقافتی نظام اور عدالتی نظام وغیرہ۔۔ چنانچہ شہید صدر(رہ) نے ان نظاموں کے استنباط(اخذ) کی ضرورت کو بیان کیا ہے۔ ( شہید صدر،1424 ق، : 337 الی 346) ۔ تمدنی فقہ کا اس سے بھی بالاتر معنی اور مفہوم یہ ہے کہ تمدنی فقہ ایک ایسی فقہ ہے جو تمدن کی تشریح اور تبیین کے ساتھ موجودہ تمدن کی حالت کو تبدیل کرکے مطلوبہ تمدن تک پہنچنے کے لئے زمینہ فراہم کرے۔ اور اس تبدیلی کی سرپرستی کرنے والی راہوں کو بھی بیان کرے۔ ایک دوسری تعبیر میں تمدنی فقہ یعنی ایسی فقہ جو تمدن کے مقیاس پر ولایت اور معاشرے کی سرپرستی رکھتی ہے۔ ( حسینی الھاشمی، ج 77:3) ۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس طرح کے فقہ کو دینی منابع سے اخذ کرنے کے لئے حوزہ علمیہ میں موجود استنباط کے طریقہ کار میں سنجیدہ تبدیلی اور ترقی لانا ضروری ہے ، چونکہ اس وقت حوزہ علمیہ میں اجتہاد کے لئے بروئے کار لائی جانے والی استعدادی صلاحیت انفرادی احکامات کو استنباط کرنے کے لئے ہے۔
ب) اسلامی علوم کا جھال: تمدن ساز نظریات کے فروغ کے لئے دوسرا قدم اسلامی علوم کو وسیع پیمانے پر وسعت دینا ہے ۔ ایسے علوم جو ایک طرف تمدنی فقہ کی بنیاد پر تشکیل پائے ہوں اور دوسری طرف اسلامی تمدن کے تحقق کے لئے معاشرے کے اندر تبدیلی ایجاد کرنے کی اعلی صلاحیت رکھتے ہوں۔ لہذا یہی دوشرائط یعنی اسلامیت اور خدا کی بندگی میں ارتقاء کے لئے کارآمد ہونے کو اسلامی علوم کی درستگی اور حقانیت کے لئے معیار کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات بلکل واضح ہے کہ ایسے کارآمد علوم کا نیٹ ورک صرف اور صرف تعلیمی اور تحقیقی امور کے سائے میں ہی ممکن ہے ۔ تاکہ اس کے نتیجے میں عالم اسلام کی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے لوگ اسلامی تمدن کے فوائد سے مستفید ہو سکیں۔
ج) ترقی یافتہ اسلامی ایرانی نمونہ: تمدن ساز نظریات کے لئے تیسرا قدم اسلامی پیشرفتہ اور اسلامی ایرانی تمدن کے نمونے کا ہونا ضروری ہے جو تمدن اصیل کے ساتھ ہماہنگ ہو۔ ایسے نمونے جو ایک طرف تمدنی فقہ اور اسلامی علوم کی بنیاد پر تشکیل پائے ہوں اور دوسری طرف ہر خطے یا ملک کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس خطے کی صورتحال کو تبدیل کرنے کے طریقہ کار کی تبیین پر مبنی ہوں ۔ اور اس طرح کا کام آج کے زمانے میں لیبرل سرمایہ دارانہ تمدن کی جانب سے سرمایہ دارانہ تمدن کی توسیع کے لئے نمونے کے طور پراسلامی ممالک کے لئے ڈیزائن کرتے ہیں جس کا مقصد عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ تمدن کے کلچر کو فروغ دینا ہے۔
مصنوعات:
کسی بھی تمدن کی نشونما اس تمدن کی مصنوعات میں مضمر ہے۔ تمدن کے مصنوعات ہمیشہ مخصوص ثقافت اور نظریات کی بنیاد پر تشکیل پاتے ہیں، اسی لئے خود ثقافت کی پیداوار اور مخصوص اقدار بھی ہوسکتے ہیں۔ اور اس پر توجہ کرنا بہت ضروری ہے ، یہاں تک کہ بعض افراد نے ان مصنوعات کو ثقافت کے ارکان کا حصہ گرداناہے ، مثال کے طور پر رویٹر ثقافت کے معنی کو اس طرح بیان کرتا ہے:
ثقافت کو اصطلاح میں؛ انسانی تخلیقات کی مجموعی اور آج کے انسانی تجربے کے منظم نتائج کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ثقافت میں ہر وہ چیز شامل ہے جسے انسان نے زندگی کے روز مرہ وسائل ، جنگی اوزار، پناہ گاہوں اور دیگر مادی ساز و سامان اور ذرائع کے طور پر ایجاد کئے ہیں، چنانچہ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو ثقافت ان تمام چیزوں کو شامل کرتی ہے جو نظریات اور عقائد کی بنیاد پر قوانین، اداروں، فنون، علوم، فلسفہ اور سماجی تنظیموں کی شکل میں بنائے جاتے ہیں اور سماج میں ان کی تشہیر اور پرچارہوتی ہے۔(آشوری، 1381:67) ۔
بلا شبہ تمدن کے نتیجے میں ایجاد کئے جانے والے مصنوعات کے باب میں اس نکتے کی طرف توجہ ضروری ہے کہ تمدنی مصنوعات میں سیاسی، ثقافتی اور معاشی مصنوعات سبھی شامل ہیں۔ اور یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ مصنوعات کو صرف ٹیکنالوجی کی حد تک منحصر کیا جائے، اگرچہ موجودہ دور میں ٹیکنالوجی ایک خاص ثقافت کی حامل ہے، دوسرے لفظوں میں علم اور ٹیکنالوجی اور جدید تمدن کے نتیجے میں وجود آنے والے ساختار کی وجہ وہ اصول اور بنیادیں ہیں جو ان علوم اور ٹیکنالوجی کی تخلیق اور ایجاد میں محرک رہیں ہیں۔ اور نیز ان کے مشغلہ اور افعال کی وجہ سے بھی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ نیز اس فکر کے حامل افراد خاص قسم کے رجحانات اور تمائلات کے حامل ہیں جو بعض نظریاتی اصولوں اور فکری اہداف کے ساتھ زیادہ ساز گار ہیں، بنسبت بعض دوسرے اصولوں اور تفکرات کے جو اس طرز فکر کے ساتھ ساز گار نہیں ہیں ۔
جو شخص ٹیکنالوجی کی تاریخ کے بارے میں کوئی اطلاع نہ رکھتا ہو ، صرف وہی اس بات کا معتقد ہوسکتا ہے کہ ٹیکنالوجی کی کوئی سمت نہیں ہے، لہذا ٹیکنالوجی غیر جانبدار ہے۔ ہر ٹیکنیک کی اپنی ایک خاص منطق ہوتی ہے، جو شکل و صورت سے ماورا ، ایک پوشیدہ اور غیر مرئی چہرے کی حامل ہوتی ہے، اور اس بات پر آمادہ ہے کہ وہ پوشیدہ اور غیر مرئی چہرے کو کھول کر عیاں کرے، اور اپنے چہرے سے نقاب کو ہٹائے۔( نیل پیسٹمن، 1372 شمسی:177) ۔
لہذا سلامی تمدن کی ساختار کے سلسلے میں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ طبیعت کی تسخیر ، اوزار کی ساخت اور ٹیکنالوجی کبھی بھی غیر جانبدارانہ طریقے سے وقوع پذیر نہیں ہوتی۔ دنیا کی طبیعت میں مومنانہ تصرف نہ صرف ماحولیات کی تخریب اور انسانی زندگی کے نابود ہونے کا سبب نہیں بنتی بلکہ ایک پاک اور بے ضرر ٹیکنالوجی کی تخلیق کا باعث بنتی ہے ۔ آج کی دنیا کی ٹیکنالوجی نے، اگرچہ ظاہری طور پر انسانوں کے لئے سکون اور آسائش کا سامان فراہم کیا ہے ، لیکن تھوڑی بہت تحقیق اور مطالعے کے ذریعے نیز مغربی سا ئنس دانوں اور مفکرین کے مطابق مجموعی طور پر مغربی ٹیکنالوجی طبیعت کے نابود ہونے کا سبب بنی ہے، اور انسانی بدن اور جسم کو بھی کافی حدتک نقصان پہنچایا ہے۔ ہوا ، سمندر اور ماحولیات میں آلودگی آج کی دنیا کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔( جس کی جانب ماحولیات کے ماہرین خبردار کرتے آرہے ہیں) لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ آج سبز یا صاف ٹیکنالوجی کی بات ہورہی ہے۔(جمالی، 1394:135) ۔
2۔2۔ طرز زندگی؛ تمدن کی علامت:
طرز زندگی یا زندگی کا طور طریقہ ، ہر تمدن کی پیداور ہے ، اور تمدن کے تمام اقدار طرز زندگی میں نمایاں ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، ہر تمدن اپنی بنیادی ساخت کے تناسب سے ایک خاص قسم کی طرز زندگی کو تشکیل دیتی ہے۔
طرز زندگی ، ہر وہ چیز ہے جو انسانی زندگی کے اصول اور جوہر کو تشکیل دیتی ہے۔ درحقیقت طرز زندگی کو اسی ثقافت کی پیداوار سمجھنا چاہئے جس کی بنیاد پر لوگ زندگی کرتے ہیں۔ جیسے کنبہ، شادی بیاہ کے رسم ورواج، لباس کی نوعیت، تفریح، مصارف کا نمونہ، کاروبار اور انفرادی اور معاشرتی طرز عمل اور ہر وہ چیز جو افراد اپنی زندگی اور اپنے مقاصد کے لئے تعریف کرتے ہیں یہ سب ثقافت کی پیداوار ہیں۔
مغربی ثقافت میں طرز زندگی کے تصور کو، انفرادی زندگی، خاص نوعیت کے لباس یا کسی خاص گروہ کے بارے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر گلوکار ، ادکار اور سیلبریٹیز جیسے بعض لوگ جو خاص نوعیت کا لباس پہنتے ہیں ، الگ انداز میں بات کرتے ہیں، چلتے ہیں ، یا سنگار کرتے ہیں۔ اور لوگوں میں سے ایک گروہ ایک رسم کی پیروی کرتا ہے اور اپنا سر منڈواتے ہیں، شادی نہیں کرتے اور خاص قسم کا لباس زیب تن کرتے ہیں۔ بعض لوگ اپنے دوستوں یا ہم خیال لوگوں کے ساتھ کسی مشترک موضوع پر خواہ وہ ادبیات ہو یا سیاست، کھیل کا میدان ہو یا کسی خاص قسم کی تفریح ہو آپس میں مل بیٹھتے ہیں اور بعض طرز عمل کو مشترکات کے عنوان سے انتخاب کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ تما م چیزیں ان لوگوں کے لئے طرز زندگی بن جاتی ہیں۔
اسی بنا پر مغربی نقطہ نظر سے کسی فرد کی زندگی کے مختلف شعبوں میں خواہ وہ انفرادی زندگی ہو یا معاشرتی زندگی اس کی زندگی کے انداز کو طرز زندگی سے تعبیر کیا جاتا ہے، لیکن اس تعریف سے مغربی نقطہ نظر نے جو چیز کھوئی ہے وہ اس طرز زندگی کی اساس اور اس کو انتخاب کرنے کا طریقہ ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی طرز زندگی کو تشکیل دینا چاہے تو کس مبنا کی بنیاد پر مختلف انواع و اقسام کے طرز عمل میں سے ایک کو انتخاب یا ایجاد کرے گا؟ مغربی اور بے دینوں( سیکولر) کے نقطہ نظر سے یہ مبنا، انفرادیت، منفعت اور لذت میں خلاصہ ہوتا ہے؛ یعنی ہر وہ رویہ جسے کوئی شخص پسند کرے یا اس سے زیادہ لطف اٹھائے وہ ایک اچھی طرز زندگی ہوگی۔
لیکن قرآنی تعلیمات کی بنا پر طرز زندگی کی تعریف ایک دینی تعریف ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ دین اسلام کے اندر ایک مسلمان فرد کی زندگی کے تمام شعبوں کے لئے کوئی نہ کوئی برنامہ ( پروگرام)ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان شخص اپنی زندگی کو دینی اصولوں اور تعلیمات کی اساس پر تشکیل دے سکتا ہے اور انسان کو اسی مبنا پر تشکیل دینا چاہئے۔ اور اپنی طرز زندگی کو دینی نظریات اور دینی فلسفے کی بنیاد پر انتخاب کر نا چاہئے۔
اسلامی طرز زندگی کے ساختار کے لئے درجہ ذیل نکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:
1) انسانی طرز زندگی ، انفرادی، خاندانی اور معاشرتی تین شعبوں پر مشتمل ہے ، اور ہرشعبہ مخصوص رواج اور رسومات کا حامل ہے، طرز زندگی کے یہ تینوں شعبے براہ راست ایک دوسرے کے ساتھ مرتبط اور اثر گزار ہیں، لہذا طرز زندگی کے ساختار میں ہر ایک شعبے کا ایک دوسرے پر اثر گزار ہونے کی خصوصیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے مابین رابطے پر پوری توجہ کرنی چاہئے۔
2) اسلامی طرز زندگی کی تفسیر اور تبیین کرتے وقت اسلامی طرز زندگی کو صرف عمومی سفارشات تک ہی محدود نہیں کرنا چاہئے، مثال کے طور پر ایسا نہ ہو کہ صرف آیات اور روایات کے مطابق اسلام میں لباس کے بارے میں بیان کئے جانے والے ارشادات بیان ہوں، بلکہ ضروری ہے کہ اسلامی طرز زندگی کے تمام نمونوں کو مرتب کرکے انہیں معاشرے میں پیش کیا جائے، جیسے لباس کے نمونے، مخارج کے نمونے، معاشرت کے نمونے وغیرہ۔۔
3) اسلامی طرز زندگی، ا سلامی تمدن کے بنیادی ڈھانچے جیسے تمدن کی ترتیب اور معاشرتی ترقی کے پروگراموں سے ماخوز ہے،جبکہ سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی نمونوں کی بنیاد ان چیزوں پر رکھی گئی ہے کہ انسان لذت حاصل کرنے کے غرض سے زیادہ سے زیادہ چیزوں کا استعمال کرے، پس ایسے نظام اور ایسی تمدن سے کسی ایسی ثقافت کو ایجاد کرنے کی توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ جس میں معاشرے کے اندر اخراجات کے لئے قناعت اور ایثار کے نمونے پائے جاتے ہوں ۔لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ رہبر معظم انقلاب امام خامنہ ای پوری درستگی اور توجہ کے ساتھ اسلامی تمدن کے تحقق میں اسلامی طرز زندگی پر مبنی اسلامی معاشرے کے قیام سے قبل ایک اسلامی حکومت کے قیام کو مقدم سمجھتے ہیں۔ ( خامنہ ای، 12/9/79)
نتیجہ:
اسلامی تمدن ایک عام مفہوم ہے جس میں معاشرتی زندگی کے تمام پہلو شامل ہیں ۔ تمدن کے تصور میں تمام پہلو جو معاشرتی مقبولیت کو پہنچ چکے ہوں ، ایک دوسرے کے ساتھ ہماہنگ ہیں۔ درحقیقت تمدن معاشرتی ارادوں کا ایسا نظام ہے جوتمدن کے مختلف جہات میں حقیقی طور پر ظاہر ہوتا ہے ۔ ایک تمدن کے اندرونی ساخت کے طور پر تمائلات ، تفکرات و بصیرت اور مصنوعات کے نظام ہیں، اور بیرونی طور پر طرز زندگی کا نظام۔ اسلامی تمدن کے اسلامی ہونے کے لئے سب سے پہلے ؛ امت کا اولیاء الہی کی مدد سے الہی ارادوں کی طرف پلٹنا اور ان الہی ارادوں کی اطاعت کرنا معاشرے کو تشکیل دیتا ہے، جبکہ دوسرے مرحلے میں : متمدن زندگی کے تمام شعبوں میں دینی طریقہ کار کو حاکم کرنا۔ اسلامی تمدن کے تحقق میں آنے کا لازمہ یہ ہے کہ ؛ تمدنی فقہ کا استنباط، اسلامی علوم کی پیداوار کا نیٹ ورک اور اسلامی ترقی یافتہ ایرانی نمونوں کی پیداوار ۔ اور یہ سب اسلامی طرز زندگی کے حصول کے لئے میدان فراہم کرتے ہیں۔
حواله جات:
1. قرآن کریم۔
2۔ مفاتیح الجنان
3۔ استادیار فرهنگستان علوم اسلامی(قم) نویسنده مقالہ مسئول، ma.jamali313@gmail.com.
4۔ مقام معظم رہبری، (23/7/1391، شمسی) خراسان شمالی کے جوانوں کے ساتھ ملاقات ۔
5۔ مقام معظم رہبری، (12/9/1379، شمسی) گورمنٹ اور عوامی عہدیداروں کے ساتھ ملاقات۔
6۔ مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج9، ص254، بنگاہ نشر و اشاعت کتاب، تھران، 1360 شمسی۔
7۔ محمد بن مکرم بن منظور الافریقی المصری(1410،ق)، لسان العرب، پہلی طباعت، ناشر، دار صادرات، بیروت۔
8۔ ہانٹینگٹون، ساموئل(1378)، تمدنوں کا رابطہ اور نظم جہانی کی تعمیر نو،، مترجم، محمد علی حمید رفیعی، پہلا ایڈیشن، تھران، ثقافتی تحقیقات کا مرکز،
9۔ طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، جامعہ مدرسین قم، بی تا۔
10۔ شـهید صـدر ، محمـد باقـر(1424ق) اقتصادنـا ، مرکـز الابحـاث و الدراسـات التخصصیـة للشـهید الصـدر۔
11۔ حسـینی الهاشـمی ، سـید منیرالدیـن مبـادی اصـول فقـه حکومتـی ، دفتـر فرهنگسـتان علـوم اسـامی۔
12۔ ویــل ڈورانــٹ (1368 ) درآمــدی بــر تاریــخ تمــدن، ترجمــه احمــد بطحایــی و خشــایار دیهمــی، چ دوم، تهــران، آمــوزش انقــاب اســلامی۔
13۔ ويل ڈورانٹ (1370 ) تاريخ فلسفه، مترجم عباس زرياب، تهران.۔
14۔ لوئیس معلوف (1374 ) المنجد، ترجمه محمد بندر ریگی، تهران۔
15۔ محمد معین (1371) فرهنگ فارسی ، چ هشتم ، تهران، انتشارات امیرکبیر۔
16۔ آشوري، داريوش (1381) تعريف و مفهوم فرهنگ، چ دوم ، تهران، انتشارات آكه۔
17۔ گولـڈ جولیـوس ، ویلیـام کولـب (1376 ) فرهنـگ علـوم اجتماعـی ، ترجمـه گـروه مترجمان ، تهـران ، انتشـارات مازیار۔
18۔ بن نبی ، مالک (1988م) مشکله الافکار فی العالم الاسلامی، لبنان ، انتشارات دارالفکر۔
19۔ محمد تقــی جعفــری (1359 ) ترجمــه و تفســیر نهــج البلاغــه، تهــران، دفتــر نشــر فرهنــگ اسلامی۔
20۔ هنری لوکاس (1366 ) تاریخ تمدن، ترجمه عبدالحسین آذرنگ، تهران، آذرنگ۔
21۔ ابــن خلــدون (1375 ) مقدمــه ابـن خلــدون، ترجمــه محمدپرویــن گنابــادی ، چ هشــتم ، تهـران، علمـی و فرهنگـی۔
22۔ علـی اکبـر ولایتـی (1382 ) پویایـی فرهنـگ و تمـدن اسلام و ایـران ، چ دوم ، تهـران، مرکـز اسـناد و خدمـات پژوهشـی۔
23۔ جان برنال (1380 ) علم در تاریخ، ترجمه اسدپور پیرانفر، تهران، امیرکبیر۔
24۔ ماكـس وبـر (1374 ) اخـلاق پروتسـتان و روح نظـام سـرمايه داری، چ دوم ، تهران، انتشـارات سمت۔
25۔ زرشـناس، شـهريار (1382) مبانـي نظـري غـرب مـدرن، چ دوم، تهـران، انتشـارات كتـاب صبـح۔
26۔ شــهید صــدر ، محمــد باقــر (1424ق) اقتصادنــا ، مرکــز الابحــاث و الدراســات التخصصیــة للشـهید الصـدر۔
27۔ نیـل پسـٹمن (1372) زندگـی در عیـش مـردن در خوشـی، ترجمـه سـید صـادق طباطبائـی تهـران انتشـارات سـروش۔
28۔ جمالی، مصطفی (1394 ) استمرار انقلاب با کدام گفتمان؟ قم انتشارات تمدن نوین۔
دیدگاهتان را بنویسید