تازہ ترین

جناب سیدہ فاطمہ زھرا علیہا السلام کے سیاسی اور انقلابی سرگرمیاں (قسط 4)

وہ خاتون اپنے بابا رسولخدا ص کی وفات کے بعد رونما ہونے والے شیطانی ہتھکنڈے، معاملات اور ظلم و زیادتی پر خاموش نہیں بیٹھ سکتی تھی۔ لہذا جیسے پاک نبی ص اپنی بابرکت زندگی میں بشریت کی ہدایت و سعادت کیلیے کوشان رہتا تھا ویسے ہی جناب سیدہ ع بھی شریک کار رسالت ہونے کے بنا بشریت کی ہدایت اور سعادت کیلیے تگ و دو کرتی رہی۔
شئیر
23 بازدید
مطالب کا کوڈ: 10556

تحریر: منظور حسین محمدی

سابقہ قسطوں میں صدر اسلام کے دوران پاے جانے والے چلینجیز ، سیاسی اور دفاعی میدان میں موجود کمزوریوں کے علاوہ ایک منحرف ٹولے کی سیاہ کاری، سقیفہ سازی، پکڑ دھکڑ اور قتل غارت گری کے بارے کچھ غور طلب نکات عرض کیا۔
اما اس مقام پہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مولا علی ع خصوصا جناب سیدہ زہرا ع جیسی شخصیات کا ہوتے ہوے ایسے فتنے کیوں پیدا ہوے اور انہوں نے روک تھام کیلیے کیا کردار ادا کر دیا؟
البتہ یاد رہے کہ جب کفار قریش کی خواتین نے جناب خدیجہ ع سے بایکاٹ کرکے نفرت کا اظہار کیا تو جناب سیدہ ع، نور خدا کا ایک کرشمہ بن کر شکم مادر سے ہی جناب جدیجۃ ع کیلیے کیلیے انیس و مونس بن گئی۔ اسی طرح جناب سیدہ ع نے نوجوانی اور کمسنی کے عالم میں اپنے والد گرامی جناب رسول خدا ص کیلیے بہترین ناصر اور حامی بن کر (ام ابیھا) کا لقب پایا اور دنیا بھر کی بیٹیوں کیلیے رول ماڈل پلے کرکے بہترین اور مثالی بیٹی ہونے کا ثبوت بھی دیا۔ جب بھی کفار، پاک نبی ص کو ٹارچر کرتے تو ہر بار جناب سیدہ ع مدد کرنے میں سبقت لیجاتی تھی۔
ازدواجی زندگی میں قدم رکھتے ہی آپ ع نے اپنی قداست، صبر، سادہ زیستی، کفایت شعاری اور خلوص کے بل بوتے دنیا بھر کے مادران اور خواتین کیلیے مثالی ماں اور مثالی زوجہ ہونے کا ثبوت بھی دیا اسیلیے تو شاعر مشرق جناب مرحوم علامہ اقبال نے کیا خوب کہا:
مزرع تسلیم را حاصل بتول ۔۔۔ مادران را اسوہ کامل بتول
آن ادب پرودہ صبر و رضا۔۔۔۔ آسیاب گردان و لب قرآن سرا

ظاہر ہے کہ جس خاتون نے شکم مادر سے ہی اعجاز و کرامات کا دریا بہا دیا ہو۔ جس بی بی ع نے اپنی کمسنی کے عالم میں اپنے والد گرامی سے (ام ابیھا) اور (فداھا ابوھا) جیسے مثالی خطابات اور القابات پایی ہو۔
قطعا وہ خاتون اپنے بابا رسولخدا ص کی وفات کے بعد رونما ہونے والے شیطانی ہتھکنڈے، معاملات اور ظلم و زیادتی پر خاموش نہیں بیٹھ سکتی تھی۔
لہذا جیسے پاک نبی ص اپنی بابرکت زندگی میں بشریت کی ہدایت و سعادت کیلیے کوشان رہتا تھا ویسے ہی جناب سیدہ ع بھی شریک کار رسالت ہونے کے بنا بشریت کی ہدایت اور سعادت کیلیے تگ و دو کرتی رہی۔
یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ زہرای مرضیہ ع زندہ ہوں اور کچھ شدت پسند عناصر اٹھ کھڑے ہوکر اسلام کے نام لے کر اسلام کی دہجیاں اڑا دیں۔ امت کو پھر سے جہنم کے کنارے کھڑا کریں اور پاک نبی ص، ستمدیدہ مسلمان + جنگ بدر و جنگ احد کے مجاہدوں اور شہیدوں کے خدمات ضایع کرتے ہوے مولا علی ع کو مکمل طور پہ دیوار سے لگا دیں۔
ایسے حالات، جناب سیدہ ع کے لیے نہ صرف قابل قبول بلکہ قابل تحمل ہی نہیں تھے۔ لہذا جناب سیدہ ع نے رسولخدا ص کے بعد اپنی مختصر سیاسی اور انقلابی زندگی میں جو مثالی شاہکار اور کارستان خلق کر دیا اسکا تاریخ بشریت میں کویی نظیر اور نمونہ ملنا محال ہے۔
واقعا رحمت عالم کی جگر پارہ جناب سیدۃ نسآء العالمین ع نے اپنے بابا ص کے بعد اپنی تین ماہ کی مختصر زندگی میں کچھ ایسے انقلابی اور نفاق شکن اقدامات بجا لایا جوکہ رہتی دنیا کے لیے رول ماڈل قرار دیا جاسکتا ہے۔

سیدہ کونین جناب فاطمہ زہرا ع کے سیاسی اور انقلابی اقدامات

1- راتوں رات انصار کے گھر جانا
مولا علی ع کی امامت اور خلافت غصب ہونے کے بعد جناب سیدہ ع نے جو فوری، بنیادی اور سیاسی قدم اٹھایا وہ یہ تھا کہ آپ ع نے کیی رات مولا علی ع کے ساتھ جناب حسنین شریفین ع کے ہاتھ پکڑ کر انصار کے گھر گھر جاکر مولا ع کی مظلومیت اور اصحاب و انصار کی خاموشی پہ درد دل کیا۔
انصار و مہاجر نے بیعت عقبہ ثانی کے تحت رسولخدا ص اور اہلبیت ع کی حمایت کرنے کا جو وعدہ دیا تھا اسے یاد دلایا ۔ ستر دن قبل غدیر خم کے میدان میں جو بیعت کیا تھا اسے دہرانے کے ساتھ مولا علی ع کے فضایل پعھ کر انہیں سنایا۔ یوں جناب سیدہ ع نے حد اقل چالیس عدد حامی اور یاور تشکیل دینے کی سر توڑ سعی کیا تاکہ مولا علی ع اپنے حق کیلیے کویی ایکشن لے سکیں۔
اما وہ نامرد اور بے ایمان لوگ یا تو جناب سیدہ ع کیلیے دروازہ کھولتے نہیں تھے یا اینکہ حمایت کا وعدہ کرتے لیکن ٹھیک مقررہ وقت پہ چار نفر سے زاید حاضر نہیں ہوتے تھے۔
بعض لوگ کہتے تھے کہ اب پانی سر سے گزرا گیا، علی ع نے دیر سے اقدام کیا، اب ھم نے خلیفہ تعیین کرکے وعدے دے چکے ھیں۔ درحالیکہ روز غدیر کے بعد پھر سے کسی خلافت کو کویی وعدہ دینا انہیں جایز ہی نہیں تھا۔
البتہ انکے جواب میں مولا علی ع فرماتے تھے کہ نبی اکرم ص کو دفن کیے بغیر حکومت اور اقتدار کیلیے کیسے ہل چل کرتا۔ جناب سیدہ ع بھی فرماتی تھی کہ جو علی ع نے کیا وہ مناسب اقدام ہے۔مظلومیت کی انتہا یہ تھی بعض روایات کے مطابق جناب سیدہ ع کسی اونٹ پہ سوار ہوکر گھر گھر جانتی رہی اسلیے کہ شاید آپ ع کا پہلو زخمی تھا اور پیدل چلنا مشکل تھا۔
یاد رھے کہ کچھ عرصہ قبل جناب سیدہ ع اور حسنین ع کو دیکھ کر نجران کے مسیحی اور غیر مسلم علما بھی مباہلہ کرنے سے ڈرکے مارے مسالمت آمیز زندگی کرنے پر تیار ہوے تھے۔
اما یہ نام نہاد مسلمان اسقدر بگڑے و بپھرے تھے کہ نہ فقط انہیں حسنین ع کے فضایل یاد آیے اور پاک نبی ص کی سیرت اور وصیت یاد آیا بلکہ بعض اوقات دروازہ بھی کھولتے نہیں تھے۔

2 – عوامی سطح پہ خطبے دینا
جب جناب سیدہ نے دیکھا کہ انصار و مہاجر اور چیدہ چیدہ لوگوں کے گھر جانے سے معاملات نہیں سدھر رہیں اور غفلت زدہ لوگوں پہ کویی اثر نہیں ہو رھا تو آپ ع نے عوامی سطح پہ ہل چل کرکے خطبے دینا شروع کر دیا تاکہ منافق ٹولے کو عوامی بیداری اور آگاھی کے سہارے شکست دیا جاسکیں۔
یقینا اس زمانے میں عوامی سطح پہ جو خطبے دیے جاتے تھے وہ خطبے اجکل کے پرنٹیڈ، مستند مجلات اور اخبارات کی حیثیت رکھتے تھے۔ جناب سیدہ ع کا ابتدایی اور پہلا الہی اور سیاسی خطبہ فدکیہ ہے، جس کو انہوں ع نے مسجد نبوی میں جاکر بھرے اجتماع میں ارشاد فرمایا ھے۔
ھرچند اس خطبہ کے عنوان کو کسی پراپرٹی کیس کا عنوان قرار دیا گیا لیکن آپ ع نے باغ فدک اور پراپرٹی کیس کو بہانہ بناکر مولا علی ع کی حق تلفی اور امت کی ضلالت کے خلاف فاٹ کیا۔ اسلیے آپ ع نے اس خطبے میں جیسے اللہ تعالی کی درگاہ میں حمد و ثنا کے بعد نبوت کی اہمیت اور افادیت بیان کیا ویسے ہی مولا علی ع کی امامت پہ بڑے مستند اور معقول ارشادات بھی پیش کیا ھے۔
خلیفہ وقت کی نا اہلی کو کھل کر بیان کیا اسلیے آخر کار خلیفے نے اپنی شکست قبول کرتے ہوے عذر لایا کہ لوگ اسے خلیفہ بننے پہ مجبور کر رہے تو جناب سیدہ ع نے جسطرح مناسب انداز سے انصار کو للکارا تھا ویسے ہی عام لوگوں کو بھی اللہ تعالی اور اسکے رسول ص کی نافرمانی سے ڈرایا اور دل شکستہ ہوکر گھر واپس لوٹ آیی۔
دوسرا خطبہ وہ مختصر خطبہ ہے جسوقت منافقین اور منحرفین نے سیدہ ع کے گھر کو مورد ہجوم و حملہ قرار دیا تو آپ ع نے اسے ارشاد فرمایا ھے۔ ہرچند اجکل معمولا اس خطبے کو مصایب کی شکل میں بیان کیا جاتا ھے۔ واقعا اس خطبے کے وہ جگر سوز کلمات سن کر ہر منصف انسان کا کلیجہ پھٹ جاتا ھے۔
تیسرا خطبہ وہ ہے جسے جناب سیدہ ع نے اپنے آخری ایام میں بیماری کی حالت میں ارشاد فرمایا۔ جب مہاجرین اور انصار کی خواتین کو معلوم ہوا کہ رحمت عالم ص کی جگر پارہ جناب سیدہ ع شکستہ پہلو، متورم بازو، زخمی چہرے کے علاوہ ایک معصوم و بے گناہ بچے کے سقط ہونے سے شدید علیل ہیں تو وہ خواتین عیادت کرنے آپ کے گھر آ گئے اور انہوں نے آپ ع سے پوچھا کہ اے رسول زادی کیسے صبح و شام کرتی ہو؟!؟
یہ سن کر جناب سیدہ ع نے فورا خطبہ دینا شروع کر دیا اور فریایا: میں تمہارے مردوں سے نالاں اور شاکی ہوں میں تمہاری دنیاوی معاملات سیاست اور خلافت سے بھی بیزار ہوں۔
خلاصہ اس خطبے کے اندر بھی رحمت عالم ص کی جگر پارہ ع نے مولا علی ع جیسے دانا،بینا، توانا اور عادل شخصیت کی رہبری اور امامت کے چھین جانے اور نا اہل لوگوں کا اسلامی اقتدار پہ مسلط ہونے پر جسقدر بیزاری اور ملامت کر دیا ہے ویسے ہی امت کی گمراہی اور برے عواقب کے بابت بھی پیش گویی کر دیا۔ ان خواتین کو سمجھایا کہ اسقدر جنگیں لڑکر کافی جدوجہد کرنے کے بعد ایک آزمایش میں بھٹک گیے ہو، اللہ اور اسکے رسول ص کے بتلاے ہوے راستے سے ہٹ گیے ہو اسلیے اب آیندہ تم لوگوں پہ ظالم اور جابر حکمران مسلط ہوں گے۔ تمہیں ذلیل اور خوار کرتے رہیں گے۔ مال و متاع اور عزت پہ ڈھاکے مارتے رہیں گے۔
بی بی دو عالم ع کے بیانات سے ایسا معلوم ہو رھا ہے جیسے کہ ابھی عنقریب جنگ جمل، جنگ صفین، واقعہ کربلا اور واقعہ حرہ رونما ہو رہی ہوں۔ گویا حجاج اور صدام جیسے خون آشام حکمران سے لے کر عراق و افغانستان اور دیگر اسلامی ممالک کا قبرستان بن جانے کے بارے بھی پیش گویی ہو رہی ہوں۔

3- چیخ و پکار اور دھاڑیں مار کر رونا
جناب سیدہ ع پاک نبی ص کے دنیا سے چلے جانے اور انکے برحق وصی جناب علی مرتضی ع کا حق غصب ہونے کے نتیجے میں دیکھ رہی تھی کہ اب آیندہ مسلم امت میں نسل در نسل، قتل و غارت اور ضلالت و گمرا9ی کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ لہذا وہ موجودہ اور آنے والے کٹھن حالات نے جناب سیدہ ع کو رونے، چیخ اور چلانے پہ مجبور کر دیا تاکہ کسی ایک بندے کا بھی مردہ ضمیر بیدار ہوکر راہ راست پہ گامزن ہو۔ آپ اسقدر روتی رہی کہ دنیا نے آپ کو زیادہ رونے والے تاریخی شخصیات کے ٹاپ لیسٹ میں قرار دیا۔ شاید ارباب حکومت کی سازش کے تحت ایک دن اہل مدینہ نے مولا علی ع سے کہا کہ سیدہ ع کو ہمارا سلام پہنچانا اور کہنا کہ جناب سیدہ ع رات کو روئیں یا دن کو تاکہ ہم کسی ٹایم آرام سے نیندیں پوری کرسکیں۔ ہاں مدینہ والوں کے اس اقدام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بے انتہا گمراہی کے دلدل میں پھنس چکے تھے۔ انہیں اپنا سکون اور آرام تو عزیز تھا لیکن پاک نبی ص کی جگر پارہ ع کا رونا بے سکون ہونا اور تڑپنا کویی قدر و قیمت کا حامل نہیں تھا۔ ایسے جایل اور نادان لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ جناب سیدہ ع پوری بشریت کی محرومیت اور مظلومیت پہ بین کر رہی ہے۔ ہرچند مدینہ والوں کو جواب دیا کہ اب زہرا ع عنقریب دنیا سے جانے والی ہیں بس تھوڑا انتظار کریں۔ لیکن عملی طور پہ آپ ع نے رونے کے کرتب بدل ڈالا اسلیے ہر صبح جناب حسنین شریفین ع کے دست مبارک پکڑ کر اپنے بابا سید المرسلین امام الانبیا جناب محمد مصطفی ص کے مبارک قبر پہ جاکر رونا شروع کیا۔ جنت البقیع میں جاکر شہدا کے قبور پہ رونا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ مولی علی ع نے جنت البقیع کے مقام پہ ایک سایبان ٹایپ کا کویی گھر بنا دیا جہاں جناب سیدہ دن بھر روتی تھی۔
البتہ جنت البقیع وہ جگہ تھی جہاں سے مسافرین کا رفت و آمد ہوتا تھا۔ گویا جناب سیدہ ع اپنے اس انقلابی اور حماسہ ساز اقدام سے دنیا کو سمجھانا چاہتی تھی کہ اب مدینہ مدینۃ النبی باقی نہ رہا بلکہ انحرافات کا اڈہ بن چکا ہے۔ معتبر اصحاب کے رفت و آمد پہ پابندی لگ چکی ہے اور پاک نبی ص کے واقعی جانشین کا حق امامت، کھلم کھلا غصب یوچکا ہے۔
ایک دن جناب سیدہ ع جنگ احد کے شہدا اور جناب حمزہ ع کی قبر پہ ماتم کر رہی تھیں ایسے میں محمود بن لبید نامی شخص نے استفسار کیا کہ اسقدر جگر سوز آہ و بکا کرنے کا سبب کیا ہے؟ اور یہ بھی پوچھا کہ کیا واقعہ غدیر کے علاوہ بھی آپ ع نے کبھی پاک نبی ص سے سنا ہے کہ مولا ع کو جانشین بنا دیا ہو؟ یہ سن کر جناب سیدہ ع نے فرمایا جی ہاں میں نے بابا سے سنا کہ انکا واقعی اور سچا جانشین جناب علی ع اور دیگر اسکے فرزندان یعنی گیارہ امام ہیں۔
البتہ پاک بی بی ع کا یوں رونا، آنسوں بہانا، تڑپنا اور سسکنا بھی اللہ تعالی کی رضا او بشریت کی فلاح و نجات کیلیے تھا۔
اسلیے مرحوم علامہ اقبال نے اس حالت کے بارے کیا خوب فرمایا:
اشک او برچید از زمین جبریل امین ھمچوں شبنم ریخت بر عرش برین
یعنی سیدہ ع کے آنسوں، عرش برین کی زینت ہیں۔

4- بلال سے اذان دلوایا
اصحاب سقیفہ اپنی انا پرستی، ہٹ دھرمی، چودراہٹ اور بھوکھلاہٹ کے بنا چایتے تھے کہ علی ع اور جانشینی نامی کسی چیز کا کویی مفہوم اور عنوان باقی نہ رہے۔ اس حوالے سے نہ کویی کسی کو کچھ بتا دیں نہ ہی کویی چھان بین کریں، بس وہ لوگ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر سکون سے نسل در نسل حکومت کرتے رہیں۔ اسلیے ان آشفتہ حالات کے بنا جب بلال جیسے معروف مؤذن اور صحابی رسول نے بھی آذان دینا چھوڑ دیا تو اصحاب سقیفہ نے انہیں علاقہ بدر کرکے شام پہنچا دیا۔ اما ایک دن انہوں نے خواب میں جناب رسولخدا ص کو دیکھا کہ آپ ص فرماتے ہیں اے بلال میری زیارت کیلیے مدینہ کیوں نہیں اجاتے ہو؟؟ اسلیے جب بلال ع زیارت کی نیت سے مدینہ پہنچ گیے تو جناب سیدہ ع نے ایک اور حماسہ ساز نقشے کو مرتب کیا تاکہ نہ صرف ایمان فروش اور مردہ ضمیر لوگ سوچنے پہ مجبور ہوں بلکہ چودراہٹ اور بھوکلاھٹ کے بنا مولا علی ع کی جانشینی کو صفحہ فراموشی پہ حوالہ کرنے والے مقتدر حلقے بھی ششدر ہو کر رہ جایں۔
جناب سیدہ ع نے بلال سے کہا کہ آج آپ اذان دیں تاکہ ایک بار پھر مدینہ کی گلیوں میں پاک نبی ص اور اسکی وصیتیں اور نصحتیں زندہ ہوجایں۔ وہ بلال جو خلیفے کے اصرار کے با وجود اذان نہیں دے رہا تھا اب جب کہ جناب سیدہ ع کا حکم ہوا تو اذان دینا شروع کر دیا۔ یوں بلال کا اذان سن کر نہ صرف پورے مدینے سے لوگ جوق در جوق جمع ہوے بلکہ دھاڑیں مار مار کر رونے بھی لگے۔ جب مؤذن نے اذان دیتے دیتے (اشھد ان محمدا الرسول اللہ) کے جملے دھرانا شروع کیا تو جناب سیدہ ع غش کر گئی۔ آس پاس میں موجود لوگوں نے جناب بلال ع سے اذان روکنے کیے یے التجا کیا اور بلال ع نے اذان بھی روک دیا۔ اما جب ہوش میں لایا گیا تو جناب سیدہ ع نے اذان آگے بڑھانا چاہا لیکن لوگوں نے التجا کیا کہ اب آپ ع کی جان کو خطرہ یے لیذا مزید اذان دینا مناسب نہیں۔ جب لوگوں کا اصرار بڑھ گیا تو جناب سیدہ ع نے بھی بلال کو دوبارہ حکم نہیں دیا۔

5- مولا علی ع کو بچانا
گرچہ پاک نبی ص کی وفات کے بعد کونسے دن اور کس تاریخ میں اصحاب سقیفہ نے جناب سیدہ ع کے گھر کو مورد حملہ اور مورد ہجوم قرار دیا وہ دن اور تاریخ معلوم اور معین نہیں ہے۔
اما بعض محققین کے بقول نبی اکرم ص کی وفات کے بعد حد اقل پچاس دن گزرنے کے بعد وہ تاریخی المیہ معرض وجود میں آیا ہے۔
کیونکہ جتنے دن مولا علی ع، پاک نبی ص کی تجھیز و تکفین میں مصروف رہے ان ایام میں اصحاب سقیفہ نے خصوصی اور عمومی بیعت لینے کے بعد اسامہ بن ذید کی سربراہی اور اور برید بن حصیب اسلمی کی پرچمداری میں مجاہدین کو شام کی طرف روانہ کر دیا تاکہ لوگوں کو خوب ورغلا سکیں کہ انہوں نے پاک نبی ص کے آخری ایام میں صادر ہونے والے جنگی فرامین پہ عمل پیرا ہوتے ہوے اس جنگ سے مخالفت نہیں کیا اور جانشینی کو نبہاتے ہوے کفار سے جنگ کیلیے مجاہدین کو روانہ کر دیے ہیں۔ درحالیکہ پاک نبی ص نے منافقین سمیت وہ چیدہ افراد کو بھی جنگ کیلیے روانہ کرکے مولا علی ع کی امامت اور جانشینی کو مستحکم بنانے کا نقشہ بنا دیا تھا لیکن انہوں نے اسے مخالفت کرکے حالات سے فایدہ اٹھاکر لوگوں سے اپنے لیے بیعت لیا اور مولا علی ع کو امامت سے محروم بھی کر دیا۔ اما لوگوں کو ورغلانے اور کفار کی شر سے بچنے کیلیے اسامہ کی سربراھی اور برید اسلمی کی پرچمداری میں مجاہدین کو روانہ بھی کر دیا۔
البتہ اسامہ اور مجاھدین کے جانے اور واپس آنے میں حد اقل چالیس اور بعض کے بقول ستر دن لگ گیے۔ ان ایام میں اصحاب سقیفہ نے جسقدر پکڑ، دھکر، تحریص اور تطمیع کے بل بوتے عوام اور خواص سے بیعت لیتے رہے اور پاک نبی ص کی وفات کے دسویں دن باغ فدک بھی غصب کیا۔ لیکن جناب سیدہ ع نے بھی مہاجرین و انصار کے گھر جانے سے لیکر خطبہ خوانی اور بقیع جاکر گریہ و ماتم کے سہارے اصحاب سقیفہ کو رسوا کرنے میں کویی کسر باقی نہ چھوڑا ۔
ہرچند اصحاب سقیفہ ایک دو بار مولا علی ع کے گھر پہ آکر زبیر، سلمان اور مقداد جیسے دس بارہ صحابی اور اعتراض کرنے والوں کو پراکندہ کرنے میں کامیاب بھی ہوچکے تھے۔
ھاں 35 یا 70 دن بعد جب برید اسلمی نے جنگ سے واپس آکر دیکھا کہ اسکے قبیلے کو مولا علی ع کے خلاف استعمال کر دیا گیا ہے اور یوں سیاسی حالات نا سازگار ہیں تو برید اور اسکے قبیلے کے چند افراد نے اصحاب سقیفہ کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔
خلاصہ؛ جب اصحاب سقیفہ نے یوں دیکھا کہ بہت سارے لوگ بیعت کر گیے، بہت سارے خاموش ہو گیے. درحالیکہ علی ع و زہرا ع اور حسنین شریفین ع فقط چار نفر ہیں جو ہر آیے دن کویی نا کویی معاملہ اٹھا رہے یا بحران کھڑا کر رہے تو انہوں نے ایک خصوصی میٹینگ بلایا اور باقاعدہ سے مولا علی ع کے گھر پر حملے کرکے زبردستی بیعت لینے بہ صورت دیگر دروازے پر آگ لگا کر مولا علی ع کو قتل کرنے کا پلین بنا دیا۔ پس خلیفہ اول نے دوم کو با قاعدہ سے حکم دیا کہ کچھ سنگدل اور جاہل لوگوں کے ساتھ جاکر ایسا کریں۔ اسنے اپنے آزاد شدہ غلام قنفذ جو کہ اپنے آقا سے زیادہ سنگدل تھا اپنے ساتھ لیا، منافقین، اسلمی قبیلہ کے نادان جوان سمیت وہ لوگ کہ جن کے رشتہ دار جنگ بدر اور جنگ احد جیسے معرکوں میں مولا علی ع کے ہاتھ مارے گیے تھے، سبھی کو جمع کرکے مولا علی ع کے گھر پر حملہ کر دیا۔
جناب سیدہ نے جیسے ہی حملہ آور لوگوں کی آواز سنا فورا دروازے کے پیچھے آکر انہیں ٹوکنا اور للکارنا شروع کیا۔
جب انہوں نے آگ لگایا تو تو جناب سیدہ ع نے بین کرکے اپنے بابا کو یاد کیا۔ یہ شور شرابہ سن کر کچھ لوگ روتے ہوے واپس چلے گیے لیکن باقی سنگدل لوگوں کے سامنے اس شقی نے دروازے پہ لات مار کر سیدہ ع کو در و دیوار کے درمیان زخمی کر دیا۔ جلتا دروازہ جناب سیدہ ع پر گر پڑا اور وہ شقی لوگ گھر میں گھس آے، جب کہ سلمان فارسی کے بقول جناب سیدہ ع کے سر پر کویی مناسب دستار بھی نہیں تھا۔ انہوں نے مولا علی ع کی سمت ہجوم لے گیے تو جناب سیدہ ع، جناب فضہ ع کے سہارے اٹھ کر مانع ہویی تو پھر سے سنگدل نے شمشیر سے حملہ کرکے بی بی ع کے پہلو کو بھی زخمی کر دیا۔ ہاں جب مولا علی ع کو چند نفر نے رسیوں سے باندھ کر اور کھینچ کر لے جا رہے تھے تب بھی جناب سیدہ ع نے اٹھ کر روکنے کی سعی کیا اما اسبار قنفذ جیسے سنگدل نے غلاف شمشیر سے سیدہ ع کے بازو کو زخمی کر دیا۔ اما جسوقت مسجد لے گیے تو جناب سیدہ ع نے دیکھا کہ وقت کا خلیفہ چند نفر کی سکیورٹی میں ہے جبکہ مولا علی ع کو تلواروں کے سایے کھڑا کرکے بیعت لینے بہ صورت دیگر قتل کرنے کی دہمکی دے رہیں ہیں۔ تب جناب سیدہ ع نے چیخا، چلایا، بین کیا اور فرمایا؛ میں اپنے بابا کے قبر پہ جاکر سر برینہ اور آستین چاق کرکے بد دعا دوں گی۔
ہر چند مولا علی ع نے جناب سلمان ع کے ذریعے جناب سیدہ ع کو اس امر سے روکا لیکن مسجد میں موجود سارے لوگ رونے لگے تو اصحاب سقیفہ بھی کافی رسوا ہوے اور مولا علی ع کو چھوڑنے پہ مجبور ہوے۔ ہاں کربلا میں جیسے جناب سیدہ زینب ع نے امام سجاد ع کو جلتے خیموں سے باہر لاکر بچایا ویسے جناب سیدہ ع نے مولا علی ع کو دربار اور بھرے اجتماع میں قتل ہونے یا بیعت کرنے سے بچا لیا۔
اما جناب سلمان ع کے بقول اس حملے کے بعد آپ مکمل طور پر پر شکستہ پرندے کی طرح مدام بستر پہ پڑی رہی اور چند دن بعد روتی اور سسکتی ہویی دنیا سے چل بسی۔

6- عیادت کی اجازت دیکر اقرار لیا
جب جناب سیدہ ع نے ہل مچا کر تاریخی حکایات اور واقعات خلق کر دیا اور رہتی دنیا کیلیے مولا علی ع کی مظلومیت کو عیان کرتے ہوے علی ع کے مخالفین کا بدنما چہرہ رسوا سے رسوا تر کرنے میں کویی کسر باقی نہیں چھوڑا تو پھر اصحاب سقیفہ نے ایک اور شیطانی نقشے کو مرتب کیا تاکہ جناب سیدہ ع کی عیادت کے بہانے گھر جائے اور ان سے رضایت طلب کرکے اپنی رسوایی پہ پردہ ڈالیں۔
ھرچند جناب سیدہ ع نے کیی بار ان کی اس التجا کو رد کر دیا لیکن انہوں نے مولا علی ع سے بار بار التجا کر دیا تو پھر مولا ع کی سفارش کے بنا سیدہ ع نے قبول کر دیا۔
اما یہ کیسی عیادت اور رضایت طلبی جہاں رسوایی کے سوا انہیں کچھ نا ملا۔
جب جناب سیدہ ع کے نیم سوختہ اور جلا ہوا وہ گھر جہاں صحابی، بنی ہاشم اور مہاجرین کی خواتین سے بھرا ہوا تھا، وہ دونوں داخل ہوے تو آپ ع نے اپنے چہرے پہ کپڑا اوڑھا اور انکے سلام کا جواب تک نہیں دیا۔
جب سامنے آکر بہلانے کی سعی کیا تو اپ نے اپنی کنیز کے سہارے کروٹ بدل ڈالا اور دیوار کی سمت رخ کیا۔
جب وہ اصرار کیساتھ دلجویی کرنے لگے تو گھر میں موجود تمام افراد کے سامنے جناب سیدہ ع نے کہا کہ ایک سوال کا جواب دو تو پھر میں تم لوگوں سے ہم کلام ہوسکتی ہوں ورنہ نہیں۔ انہوں نے کہا اے رسول زادی اپ ع جو بھی سوال کریں ہم جواب دینے کو تیار ہیں۔ تب جناب سیدہ ع نے ان سے پوچھا کیا تم لوگوں نے سنا ہے کہ میرے بابا رسولخدا ص نے بار بار ارشاد فرمایا کہ فاطمہ ع میرے جگر کا ٹکڑا ہے جسنے فاطمہ ع کو اذیت دیا گویا اسنے مجھے اذیت دیا ہے۔ یہ سن کر دونوں نے اقرار کیا کہ ہاں ہم نے متعدد بار اس روایت کو پاک نبی ص سے سن لیا ہے۔ جوں ہی انہوں نے اقرار کیا تو جناب سیدہ ع نے دونوں ہاتھ اٹھا کر بلند آواز میں پکارا خدا یا تو گواہ رہنا کہ انہوں نے مجھے مورد اذیت قرار دیا، عنقریب اپنے بابا ص اور تیرے یاں شکایت لے کر آنے والی ہوں۔ ہرگز تم دونوں سے راضی نہیں ہوسکتی اور تمہاری بد رفتاری کے بارے اپنے بابا ص کو شکایت کروں گی۔ جب بھی نماز پڑھتی ہو تو تم دونوں پر لعنت کرتی ہوں۔
یہ سن کر دونوں شرمندہ ہوکر پسینے میں ڈھوب گیے ایسے تڑپنے لگے جیسے کسی سانپ نے ڈنس مارا ہو۔ پورے شہر میں شور مچا کہ انہوں نے یوں اقرار کیا اور جناب سیدہ ع نے انہیں رسوا کیا۔
یاد رہے کہ ایک جوان خاتون لیکن زخموں سے نڈھال ہوکر اپنے بسترے پہ پڑی ہوں لیکن اسکے با وجود اسقدر لطافت، پیچیدگی، استقامت، شجاعت بیداری اور ہدایت گری کا جوہر دکھاتے ہوے مد مقابل والے گمراہ کن فریب کار اور چموش مردوں کی ایک بھیڑ کو یوں خستہ حالی کا شکار کر دیں۔!!!
واقعا اس سے صاف معلوم 9وتا ہے کہ وہ بی بی ع عظمت پروردگار کا ایک کرشمہ تھی۔ یقینا رہتی دنیا کیلیے یوں رول ماڈل پلے کرنے والی ایسی تاریخی اور مثالی خاتون کے متعلق مرحوم علامہ اقبال نے بھی کتنے اچھے اور جالب اشعار پڑھا، واقعا ہر شعر کے ھر سطر اور ہر لفظ اور ہر نقطے پہ دقت کرنے کی ضرورت ھے۔

7- انوکھا وصیت نامہ
جب بادشاہوں اور امیروں کی اولاد دنیا سے چلی جاتی ہے تو وہ اپنی پراپرٹی، مکانات، باغات اور بینک بلینسیز کے متعلق وصیتیں اور نصیحتیں کر جاتے ہیں درحالیکہ رحمت عالم، امام الانبیا ص کی جگر پارہ ع کو دنیا سے جانے کا دن قریب آگیا تو آپ ع نے نہ کسی مکان، زمین یا درہم و دینار کا سوچا بلکہ اپنے بابا رسولخدا ص کی طرح بگھڑی اور بپھری ہویی امت کی نجات کا فکر کیا۔ ہرچند آپ کی والدہ ملیکۃ العرب سے جانی اور پہچانی جاتی تھی اور اسنے بشریت کی ہدایت کیلیے سب کچھ قربان کر ڈالا تھا۔
لھذا جناب سیدہ ع نے بھی اپنے بابا اور اپنی مادر کی سیرت کو اپناتے ہوے گمراہ کن فریب کار اور مکار لوگوں کو رسوا کرکے جہنم کے کنارے کھڑی امت کی بیداری اور ہدایت کو ملحوظ نظر رکھا تاکہ لوگ نظام خلافت کے بجای نظام امامت کے سایہ تلے زندگی کرنے کا سوچ لیں۔
اسلیے جناب سیدہ ع نے وصیت کیا کہ اے علی ع اگر میں دنیا سے چلی جاوں تو مجھے رات میں کفن دفن کرنا میری تشییع و تکفین میں ان لوگوں کو ہرگز شریک نا کرنا جنہوں نے مجھ پر ظلم کیا کیونکہ وہ لوگ اللہ اور اسکے رسول کے دشمن ہیں۔
واقعا یہ لوگ، رسولخدا ص کے کیسے جانشین تھے جنہوں نے نہ صرف رسولخدا ص کے جنازے میں شرکت کیا بلکہ رسولخدا ص کی بیٹی کی تجھیز و تکفین میں بھی شریک نہ ہوے.

یہ کیسے مسلمان ہیں جنہیں اب تک رسول زادی کے قبر کا کویی نام و نشان تک معلوم نہیں۔
واقعا پاک نبی زادی ع نے اپنی بابرکت اور مختصر زندگی میں جسقدر پیچیدہ انقلابی اور منافقت شکن اقدامات بجا لایا ویسے ہی دنیا سے جاتی جاتی رہتی دنیا کیلیے باطل نظام سے نکل کر حق اور واقعی نظام کو قبول کرنے کے ذرایع اور اسباب بھی فراہم کر دیا۔
(الا لعنۃ اللہ علی الظالمین و سیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون۔۔۔۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ العکی العظیم)

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *