تازہ ترین

حجاب قرآن کی نظر میں

 

مقدمہ:

حجاب ایک بهت اهم موضوع هی جس کی اهمیت کی لیی یهی کافی هی که بی بی دو عالم بهترین زن کی تعریف یون بیان کی هی که بهترین زن وه هی جو کسی مرد کو نه دیکهی اور کویی مرد اس کو نه دیکهی. هم جب کسی بهی چیز کی اهمیت اور مقام کو دیکهنا چاهتی هین تو یا مفکرین اور دانشورون کی نظریات دیکهتی هین یا قرآن و اهلبیت کی نظر کو دیکهتی هین اور ژهلی گروه کی نظریات مین خطا اور اشتباه کا شبهه چایا جاتا هی لیکن قرآن و اهلبیت کی نظر کبهی غلط نهین هو سکتا ای لیی اس مقالی مین حجاب کی اهمیت اور اقسام کو قرآن کی نظر مین ژیش کرنی کی سعی کرتا هون.

شئیر
57 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5282

حجاب قرآن کی نظر میں:

ہم حجاب کو قرآن کریم کے عنوان سے مطرح کررہے ہیں۔

اس موضوع میں جو آیات وارد ہوئی ہیں وہ قرآن کریم کے دو سوروں کے اندر وارد ہوئی ہیں۔

ہم ابتداء میں ان آیات کی تفسیر کو بیان کررہے ہیں اور اس کے بعد حجاب کو قرآن کریم  کے روح سے مختلف معانی میں بیان کریں گے۔ پروردگار عالم قرآن کریم کی سورہ النور میں آیات نمبر ۳۱ میں حجاب کے موضوع کو بیان کیا ہے اس آیہ  ۳۱ سے پہلے کچھ آیات وارد ہوئی ہیں جن کا مفہوم و مطلب  یہ ہے کہ انسان پر لازم ہے کہ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے گھر والوں سے اجازت طلب کریں۔[1]

تفسیر آیہ ۲۷ تا ۲۸ ان دو آیتوں سے جو نتیجہ ملاتا ہے وہ یہ  ہے کہ مومنین بغیر اجازت کے کسی کے گھر میں داخل نہ ہوں۔

آیت ۲۹سے یہ نتیجہ ملتا ہے کہ جو عمومی جگہ ہے یا وہ جگہ جو انسان کی سکونت کے لئے نہیں ہے اس میں اجازت لینا ضروری  نہیں ہے اور باقی دو آیات میں قرآن کریم ان وظایف کو بیان کررہا ہے جو مرد و زن کے ساتھ مربوط ہیں جب وہ آپس میں ملتے ہیں اور وہ وظائف چند قسموں پر ہیں۔

۱۔ ہر مسلمان خواہ مرد ہو یا زن ان دونوں پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے آنکھ نہ لڑائیں اور نظر بازی سے اجتناب کریں۔

۲۔ مسلمان خواہ مرد ہو یا زن دونوں پر لازم ہے پاک دامن ہو اور زن پر لازم ہے کہ اپنے آپ  کو دوسروں سے چھپائے۔

۳۔ عورتوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو ڈھانپے  رکھے اور اپنی آرایش اور زینت کو دوسروں کے لئے آشکار نہ کریں اور لوگوں کو تحریک کرنے کے پیچھے اور لوگوں کی توجہ جلب کرنے کی پیچھے نہ ہو۔

۴۔ قرآن کریم کے اندر جواستثناء کا ذکر ہوا ہے (ولا یبدین زینتھن الا ماظھرا منھا) یہ استثنا زن کے لباس میں مطرح ہوا ہے اور یہ استثناء تمام لوگوں کی طرف نسبت ہے۔

دوسرا جملہ (ولا یبدین زینتھن الا لبعو لتھن) الخ

یہ استثنا لباس کے نہ ہونے کو عورت کے لئے خاص موارد  میں جائز قرار دیتے ہیں کہ ہم اس بحث کو آیات کی ترتیب کےعنوان سے بیان کریں گے۔

قرآن کریم کی نگاہ سے کوئی بھی انسان یہ حق نہیں رکھتا  کہ بغیر اطلاع کے اور اجازت سے پہلے کسی کے گھر میں داخل ہوجائے۔

اعراب جاھل کے درمیان اس زمانے میں جب قرآن کریم  نازل ہوا تو معمول نہیں تھا کہ کوئی کسی دوسرے کے گھر میں داخل ہونے کے لئے اجازت لے اس زمانے میں گھر کے دروازہ کھلے ہوتے تھے جیسے آج کل کی زمانہ میں دیہات میں نظر آتے ہیں۔

کسی بھی وقت رسم نہیں تھی خواہ دن ہو یا رات گھر کے دروازہ کو بند کریں کیونکہ گھر کا دروازہ ڈاکوں کے  خوف سے بند کیا جاتا ہے لیکن اس زمانے میں ایسا کوئی بھی ڈر وجود نہیں رہتا تھا پہلا بندہ جو مکہ میں جس نے گھر میں در لگانے کا دستور دیا ہے وہ  معاویہ تھا اور اسی نے ہی دستور دیا کہ گھر کی دروازوں کو بند کمرہ میں بہر حال گھر کا دروازہ کھلے ہوتے تھے اور اجازت لینا عربوں کے درمیان رایج نہیں تھا حتی ان کے درمیان اجازت لینا کو اہانت سمجھتے تھے اپنے بہ نسبت بغیر اطلاع کے اجازت لینے کو اھانت سمجھتے تھے اپنے یہ نسبت بغیر اطلاع کے ایک دوسرے کے گھروں میں داخل ہوتے تھے۔

قرآن کریم نے اس غلط رسم کو منسوخ کردیا اورحکم دیا کہ بغیر اجازت کے کسی کے گھر میں داخل نہ ہوں اور یہ بھی واضح ہے کہ اس حکم کا فلسفہ دو چیزیں ہیں۔

۱۔ ناموس (یعنی اپنی خانم کو چھپانا اوراسی لحاظ کے لئے حکم آیات قرآن کریم میں ایک جگہ پر ہی ذکر ہوا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ جو کوئی بھی اپنے گھر میں کوئی راز رکھتا ہو اور وہ مائل ہو کہ دوسرے اس راز کو نہ سمجھیں حتی دو دوست جو آپس میں ایک قسم کا محکم رابطہ رکھتے ہوں وہ بھی اس نکتہ کی طرف توجہ رکھیں کیونکہ ممکن ہے کہ دو دوست جو آپس میں صمیمیت رکھتے ہوں وہ بھی اپنی خصوصی زندگی میں کچھ راز رکھتے ہوں اور وہ نہ چاہتے ہوں کہ دوسرے لوگ اس راز کو سمجھیں۔

بس اس بنا پر لازم نہیں کہ انسان پہ فکر کہ اجازت کا حکم فقط اس گھر سے وابستہ ہے جس میں عورت رہتی ہو اور اس گھر میں زندگی گزارتی ہو یہ وظیفہ مطلق اورعام ہے وہ مرد اور عورتیں جو مقید نہیں ہیں کہ لباس نہیں وہ بھی شاید اپنی زندگی میں کچھ اسرار رکھتی ہوں کہ جو نا چاہتے ہوں گے دوسرے لوگ ان کو اس حال میں دیکھیں بہرحال یہ حکم اور دستور حجاب سے عام تر ہے اور یہ فلسفہ اس حجاب کے فلسفہ سے عام تر ہے۔

آیت میں جو جملہ استثنا وارد ہوا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ جب تک کسی سے اجازت نہ لیں اس کے گھر میں وارد نہ ہوں اور یہ جملہ اس مطلب کی طرف رہنمائی کرتا ہے  کہ دوسروں کے گھروں میں جہاں وہ رہتے ہیں وارد ہونا اجازت اور محبت کو جلب کرنے کے واسطہ سے ہو۔ نہ یہ کہ بغیر اجازت کہ وارد ہوں کہ وہ لوگوتم  پر غم و غصہ  کا اظہار کریں ۔

روایات وارد ہوئی ہیں پیامبر گرامی اسلام (ص)  سے کہ دستور دیا کہ اجازت  لیں اور بتائیں جب کسی کے گھر میں داخل ہوں تو وہ ذکر خدا کے ساتھ ہونا چاہیے مثلا یا اللہ یا اللہ اکبر کہنا اور یہ رسم اسی دستور سے شروع ہوتی ہے۔

پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال ہوا آیا اجازت لینے والا اپنے گھر اور رشتہ داروں کے گھر میں بھی شامل ہوتا ہے؟

آیا اپنی ماں کے گھر میں یا اپنی بیٹی کے گھر میں داخل ہونے کے لئے بھی ضروری ہے کہ اجازت لیں تو پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر تیری ماں تیرے گھر میں ننگی بیٹھی ہوئی ہو اور تم بغیر اطلاع کے گھر میں داخل ہو تو کیا یہ اچھا  کام ہے؟ کہا نہیں تو اس وقت رسول خدا (ص)  نے فرمایا پس لازمی ہے کہ اجازت  طلب کرو۔  پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اس دستور کو جاری کیا ہے اور اپنے اصحاب کو وصیت اور تاکید کرتے تھے اس حکم پر تمام علماء شیعہ اور سنی نقل کرتے ہیں کہ پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسم تھی کہ جب دروازہ پہ آتے تو رک جاتے تھے اور فرماتے تھے  السلام علیکم یا اھلبیت النبوۃ اگر اجازت ملتی تو وارد خانہ ہوتے تھے اگر نہیں ملتی تھی تو دو یا تین بار السلام  کہتے تھے کیونکہ ممکن ہے ایک شخص گھر میں ہو پہلی اور دوسری مرتبہ میں آواز کو نہ سنے تیسری مرتبہ جب جواب نہ دیا تو پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس آتے تھے اور فرماتے تھے یا تو گھر میں نہیں ہیں یا وہ دوست نہیں رکھتے کہ ہم ان کے گھر میں وارد ہوں اور اس دستور کو حضرت زھراء (س)  جاری کرتی تھی۔

دوسری آیات میں پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں کے لئے ہےجو تمام جامعہ اسلامی عورتوں کے لئے نمونہ عمل ہیں ان کو خود نمائی اور اپنے زیبائی کو ظاہر کرنے سے دوسروں لوگوں کی بہ نسبت نہیں کرتے تھے اور آیات میں جو پوشش کا حکم آیا ہے وہ نا محرم کے دیکھنے کے مقام میں وارد ہوا ہے فرق نہیں کرتا کہ نامحرم گھر میں ہو یا گھر سے باہر ہو حتی ان نامحرم افراد  کے بارے میں بھی یہیں حکم ہے جو آپس میں ہمیشہ ارتباط رکھتے ہوں۔[2]

حجاب واجب کے مقام میں کافی ہے کہ عورت  کے لئے جتنا ممکن ہو اپنے آپ کو چھپائے اور کسی خاص لباس کی شرط نہیں ہیں لیکن لباس تنگ کو پہننا اور اس لباس کو پہننا جو ملا ہوا ہو جسم کے ساتھ یا لباس زینتی ہو اشکال رکھتا ہے [3]

آیۃ اللہ مکارم شیرازی سورہ نور کی آیت نمبر ۳۱ کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ قرآن کی نگاہ سے فہم حجاب کی رعایت کرنا ضروری ہے اور چادر کو پہننا لازم نہیں ہے لیکن چادر ایک بہترین وسیلہ ہے۔[4]

حجاب کی اقسام

قرآن میں حجاب کی مختلف اقسام بیان ہوئی ہیں۔

خداوند عالم نے قرآن کریم  سورہ مبار ک احزاب میں جو پہلی سورہ ہے جس میں حجاب کا ذکر آیا ہے تین حکم حجاب  کے بارے میں دیے ہیں جو حجاب کو مختلف عنوان سے بیان کررہے ہیں۔

جس میں سے دو حکم شخصیت پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کے خانوادہ کے بارے میں ہیں وہ آخری حکم مومنین اور جامع اسلامی کے لئے ہے۔

اول: حجاب لباس کے عنوان سے ایک حکم کے اندر ان تین حکموں کے بارے میں خدا نے پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے طلب کیا ہے کہ اپنی زوجات کو اور اپنی بیٹیوں کو اور مومنین کی بیویوں کو لباس پہننے کی دعوت دے تاکہ اس رھگزر میں مواد ازیت واقع نہ ہو۔

قل لا زواجک۔۔۔ [5]

اس آیت میں بغیر اس کے کہ خداوند متعال حجاب حد اور اندازہ کو بیان کرے اور حجاب کے مسائل مھم اور لباس کے مسائل مھم کو بیان کرے دستور دیا ہے کہ پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خانوادہ اور تمام مومنین کے خانوادہ کے لئے لباس پہنانا اور چادر یا مقنعہ پہنانا  ضروری ہے اور وہ ایسے ہو کہ دوسروں کی نگاہوں سے محفوظ کرسکیں اور آزار سے بچ سکیں۔

خدا وند متعال نے سورہ مبارکہ نور میں لباس اور حجاب کے دوسرے مرحلے کو مسلمانوں کی بیویوں کے بارے میں بیان کیا ہے۔

ولا یبدین۔۔۔۔ الخ [6]

آ ّیت میں زینت سے مراد کیا ہے ؟ علماء کے نزدیک  مختلف نظریات ہیں۔

بعض نے اس سے یہ مراد لیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو زینت والی جگہوں سے بچائیں اور دسروں سے اس سے مراد آلات اور زیورات کے ساتھ زینت لیا ہے۔

بعض علماء کے کہنے کے مطابق حق وہ چیز ہے جو آیت کے ظاہر سے پتا چلتا ہے یعنی زیورات کے ساتھ زینت اس کو ظاہر نہ کرے۔ لہذا عورتیں حق نہیں رکھتی کہ اپنی زینت کو جو معمولا پوشیدہ ہوتی ہیں ان کو آشکار کریں اور اس طرح اس لباس زینتی مخصوص کو جو لباس  پہنتی ہیں جائز نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم ایسی زینت کرنے سے روکتا ہے [7]

دوسرا : حجاب گفتگو کے عنوان سے

دوسرادستور خداوند نے حجاب کے بارے میں دیا ہے مخصوص اعتبار سے بات کرنا۔ بغیر اس کے کہ حجاب کے لفظ کو استعمال کریں فلا تخصص سورہ احزاب ۳۲ آیہ شریفہ عورتوں کی گفتگو تو نامحرم مردوں کے ساتھ دو قسموں میں تقسیم کرتی ہیں۔

پہلی قسم : معمول گفتگو کرنا اور متعارف گفتگو کرنا  جس میں  عورت کی آواز میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اور عورت جو لفظ استعمال کرتی معمول کے مطابق اور متعارف ہے۔

دوسری قسم  ایک خاص و لطیف انداز میں گفتگو کرنا  جو انسان کو تحریک کرنے کو ہے اور لحن خاص اور اندازہ خاص کے ساتھ  گفتگو کرنا۔ قرآن کریم نے اس دوسرے طریقے کار سے نہیں کہا ہے۔

تیسری قسم: حجاب رفتار کے اعتبار سے بعض اعمال انسان جو عورت اور مرد کے لحا  سے ملاحظہ کیا جاتا ہے ان میں کچھ ایسے خاص پیغامات ہوتے ہیں جو دونوں کو طہارت اور  پاکیزگی کو انحراف آور آلودگی کی طرف گامزن کرتے ہیں ۔ قرآن کریم نے اس طرح  کےاعمال کو نمونہ کی طرح پیش کیا ہے اور مسلمانان کو بطور خاص مسلمان عورتوں کو ایسے اعمال سے جو انسان کے لئے حساسیت کے سبب بنتے ہیں حکم دیا ہے کہ اس قسم کے طریقے کار سے اپنے اعمال میں اجتناب کریں۔[8]

علامہ طباطبائی تبرج کے معنی کی توضیع میں  فرماتے ہیں کہ تبرج یعنی خود کو لوگوں کے لئے ظاہر کرنا اس طرح جیسے ایک بہت بڑی بلڈنگ دیکھنے والوں کے آنکھوں میں ظاہر ہوتی ہے ۔

نتیجه

بس اس بناء پر مسلمانان عورتوں پہ لازم ہے کہ جب مردوں کے ساتھ معاشرت کریں تو ایسے رفتار کریں کہ دوسروں کے حوس آلودہ نگاہوں کو جلب نہ کریں اور اپنے لئے زحمت اور فساد کی راہ ہموار نہ کریں۔

حجاب کا واجب ہونا دین اسلام کی ضروریات میں سے ہے اور آج کے زمانے میں جامع اسلامی کے اندر حجاب رعایت کو ایک نشانی کے طور پر لیا جاتا ہے۔ مسلمان عورتوں کی نشاندھی کرنے  کےلئے اور ہم جو اس مقالہ میں کوشش کررہے ہیں وہ یا  کہ حجاب کو قرآن کے عنوان سے پیش کرتی ہیں۔ پس اس بناء پر قرآن کریم ان عورتوں کی بہت تاکید کرتا ہے حفظ حجاب کے بارے میں اور ہم جب قرآن کریم میں تامل اور غور و فکر کرتے ہیں تو اس نتیجہ  پہ پہنچتے ہیں  کہ قرآن کریم کی اس حد تک تاکید کرنادلیل سے خالی نہیں ہے اور خودنمائی اس کی ایک دلایل میں سے  تھی۔

منابع و مآخذ:

مكارم شيرازى، ناصر، تفسير نمونه، دار الكتب الإسلامية – ايران – تهران، 1371 ش.

طباطبايى، محمدحسين، ترجمه تفسير الميزان، جامعه مدرسين حوزه علميه قم، دفتر انتشارات اسلامى – ايران – قم، 1374 ش.

الحجاب، استاد مرتضی مطھری،بدون ناشر و چاپ

قاموس قرآن‏، قرشى بنايى، على اكبر، دار الكتب الاسلامية، تهران‏، 1412 ق‏

توضیح المسائل، مراجع، جلد۲، بدون ناشر و چاپ

[1] سورہ النور ۲۷۔ ۳۱

[2] موسسہ فرھنگی واطلاع رسانی تبیان

[3] توضیع المسائل مراجع جلد۲ صفحہ ۴۲۱

[4] تفسیر نمونہ آیۃ اللہ مکارم شیرازی جلد ۱۴ صفحہ ۴۳۴

[5] سورہ احزاب آیہ ۵۹

[6] سورہ نور آیہ ۳۱

[7] مکارم شیرازی تفسیر نمونہ جلد ۱۴ صفحہ ۳۳۹

[8] سورہ احزاب آیہ ۳۴

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *