حضرت زہراؑ اولین مدافع ولایت
مقدمہ:
دین مقدس اسلام ہمیں تشویق کرتا ہے دنیا والوں سے رابطے میں رہے دنیا میں موجود حقایق کو قبول کرے اورجہاں میں رونما ہونے والے حوادث اور واقعات سے غافل نہ رہے کیونکہ حیات بشری میں واقع ہونے والا ہر حادثہ سرنوشت بشر میں موثر ہوتا ہے ان وقایع کا عاقلانہ اور ہوشیاری سے سامنے کرنا ہوتا ہے- اسی بنیاد پر حضرت زہراؑؑ کی حیات طیبہ کا دقیق مالعہ کریں تو آپ کی سیاسی بصیرت‘،شجاعت و بہادری عیاں ہوتی ہے پیامبر اسلام ﷺ کی رحلت کے بعد دنیا پرست سقیفہ میں اپنی فعالیت شروع کرتے ہوئے ایسے واقعات رونما کرتے ہیں جن کت اثرات مرور زمان کے ساتھ عالم اسلام کے لیے تلخ و ناگذیرتھے ۔فقدحضرت علیؑؑ کو میدان سیاست سے خارج نہیں کیا بلکہ سیمای اسلام کو بد نما اور قرآن کے آثار کو جامعہ سے محو کرنے کی سازش کیا ۔ حضرت زہراؑؑ ان واقعات سے کاملا آگاہی رکہتی تھی کہ یہ واقعات قیامت تک اسلام کے انحراف کا باعث بنتے ہے حضرت زہراؑؑ نے چشم دید ملاحظہ کیا تھا کہ اسلام کی آبیاری کے لئے پیامبر اسلام ﷺاور حضرت علیؑؑ نے کن زحمات اور مشکلات کا سامنہ کیا ہے لہذا حضرت زہراؑؑ سے برداشت نہیں ہوا کہ نھال اسلام کو پژمردہ دیکھے جسکی آبیاری رسول خدا ﷺ کی شبانہ روز زحمات اور لاکھوں شہیدوں کے خون سے کیا ہو، خود وارد میدان ہوئی اور اولین مدافع امامت و ولایت کی سعادت حاصل کرنے کے ساتھ اولین شہید راہ امامت و ولایت قرار پائی-
حضرت زہراؑؑ حریم امامت کی دفاع پر جان قربان کر گئی صفحہ تاریخ میں موجود دفاع سے مربوط شواہد و قرائن کو درج ذیل حصول میں تقسیم کر سکتے ہے-
حفاظت جان چہرہ امامت امیرالمومنینؑ
ولایت و امامت پر حضرت زہراؑؑ کا انقلابی اقدام ااور دفاع مقدس ، رسول کی رحلت کے فورا بعد شروع ہوا ۔مسلامانوں نے حضرت علیؑؑ ، جانشین پیامبرﷺ کی امامت سے منہ موڑتے ہوے فرامین رسول خدا ﷺ کو فراموش کرے ہوے سقیفہ بنی سعد میں جمع ہوے انصار اور مہاجرین کی شدید اختلاف کے کے بعد ابوبکر کو خلیفہ بنا کر خلافت کی طوق کو مسلمانون کے گلے میں آویزاں کیا (رسول محلاتی، ص ۱۰۹)۔ یہ واقعات اس وقت رونما ہوئ جب حضرت علیؑؑ رسول خدا کی تکفین ، تجہیز و تدفین میں مصروف تھے ۔ اور آپ ہی تنہا اس راہ میں رکاوت تھے ۔عمر کچھ لوگون کے ساتھ دوکت سرائے امیرالمومنینؑ داخل ہو آپکے گردن میں رسی ڈال کر بیعت کے لئے مسجد لے جانا چاہتےتھےحضرت زہراؑؑ لوگوں کے درمیان آئی حضرت علیؑ کی دامن تھام لیا اور فرمایا خدا کی قسم میں علیؑ کو ظالمانہ، بیعت لینے لے جانےنہیں دوں گی (کلینی ،ص۲۳۰) ۔حضرت زہراؑؑ نے فریاد کرتے ہوئے لوگوں کو پکارا علیؑؑ کی مدد کرو تا کہ لوگ خواب غفلت سے بیدار ہو جائے مگر زہراؑؑ کا استغاثہ اور فریاد کا سنگ دل لوگ پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ شمشیر سے رسول زادی کےپہلو زخمی کیا اور تازیانوں سے رسول زادی کے بازو سیاہ کیا تا کہ زہراؑؑ امامت کی دفاع سے ہاتھ اٹھالیں سر انجام امیر المومنینؑ کو دستگیر کر کے مسجد لے گیا- جب اولین مدافع امامت ولایت رسول کی بیٹی ؑکو ہوش آیا معلوم ہوا علیؑؑ کو دستگیر کیا گیا ہے رسول زادی نے درک کیا علیؑؑ کی جان خطرہ میں ہے پہلو شکستہ،بدن خستہ اور پیامبر اعظم پر مغموم رسول زادی بنی ہاشم کی کچھ خواتین کے ساتھ مسجد مدینہ پہنچی ،اور فرمایا میرے چچا کے بیٹے کو رہا کرو ! اس خدا کی قسم جس نے محمدﷺ کو مبعوث کیا علیؑ کو اگر رہا نہیں کیا میں برہنہ سر رسول کی پیراہن اوڑھ کر بارگاہ الہی میں فریاد کروں گی تم سب پر نفرین کروںگی خدا کی قسم نہ میں شتر صالح سے کم ارزش ہوں نہ میرے بیٹے ان کے بچوں سے کم قدر و منزلت (یعقوبی، ص ۱۲۶) حضرت زہراؑؑ حسنین کے ہاتھ تھام کر قبر رسولﷺ حاضر ہوئی تا دشمنوں پر نفرین کریں حضرت علیؑؑ کو معلوم ہوا زہراؑؑ قبر رسولﷺ پر پہونچی ہے سلمان کو بیجا زہراؑؑ سے کہو گھر واپس آئیں اگر زہراؑؑ نفرین کرے مدینہ والوں کی ھلاکت یقینی ہے جب سلمان نے علیؑ ؑ کا پیغام پہنچایا زہراؑؑ فرماتی ہیں علیؑؑ کی جان خطرہ میں ہے میں علیؑ ؑ کی جدائی برداشت نہیں کر سکتی ، سلمان نے عرض کیا امیرالمومنین کا حکم ہے زہراؑؑ جب حکم امام کو دریافت کرتی ہیں فورا اطاعت کر لیتی ہیں (مجلسی ، ج۲۸ص۲۱۸)۔ حضرت زہراؑ ؑ نے اپنی قدرت اور توان کے مطابق صددر صد اطاعت امام و امامت کی دفاع کا وظیفہ بطریق احسن انجام دیا اور تاریخ میں غاصبین حق امام کو رو سیاہ کیا اپنی شہادت کے ذریعے امامت کو رہتی دنیا تک کیلئے بیمہ کر گئی ۔
حقیت ولایت کو بیان کرنا:
تاریخ کا بدترین واقعہ سقیفہ بنی سعد جس میں منصب الہی امامت کو غصب کر کے خلافت کی بنیاد رکھا گیا حضرت زہراؑؑ نے تمام تر قدرت و توانائی کے ساتھ اسکا دفاع کیا کسی میں جرات نہیں تھی انکی مخالفت کرے مخالفت کرنے والوں کو قدرت اور لشکر کشی کے ذریعے خاموش کیا گیا مگر لخت جگر پیامبر فاطمہ زہراؑؑ وہ خاتون تھی جس نے شب و روز امام اور امامت کی دفاع کی ۔محفلوں میں بازاروں میں یہاں تک مہاجرو انصار کے گھر گھر جا کر فرماتی ہیں اے مہاجر و انصار !خدا کیلئےرسول کی بیٹی کی مدد کر و۔ کیا تم لوگوں نے رسول خدا سے یہی عہد کیا تھا؟ اپنے بچوں کو ہر مصیبت اور ناراحتی سے دور رکہتے ہو رسول زادی سے بھیان مصائب کو دور رکھیں۔( مفید، ص۱۸۳) رسول اللہ سے کئے ہوئے وعدوں کا وفا کرو رسول کی شیر دل بیٹی تمام تر مظالم اور تہدید کو بالای طا ق رکھ کر پہلو شکستہ، فراق پیامبر میں مغموم مختلف جگہوں پر مختلف انداز میں حقیقت امامت اور امام کی تعریف کرتی ہیں لوگوں کو غدیر کا واقعہ دہراتی ہوئی فرماتی ہیں کیا فرمان رسول کو بھلادیا رسولﷺ نے فرمایا تھا من کنت مولا فھٍذا علیؑ مولا لوگوں کی بہانہ سازی کے جواب میں فرماتی تھی کیا رسول نے علیؑ کے منصب امامت پر منصوب کرنے میں کوئی عذر یا کسر باقی رکھا تھا۔( صدوق ،ص۱۳۸) حضرت زہراؑؑ نے بتا دیا یہ خلافت کس امر الہی کی بنیاد پر تعیین کیا گیا ہے جبکہ خدا نے امامت کا اعلان کردیا ہے بس جو کام مشروع نہ ہواسکی کوئی حیثیت نہیں ۔( مجلسی، ۲۴۶) حضرت زہراؑ نے محمود ابن لبید کے سوال : آیا رسول خدا نے امامت کے بارے کچھ بتایا تھا؟ فرمایا میں نے رسول ﷺ یہ فرماتے ہوئے سنا علیؑؑ وہ بہترین شخص ہیں جس کو اپنا جانشین بنا لوں گا علیؑ میرے بعد امام او خلیفہ ہیں اور اس کے دو بیٹے حسنؑ اور حسین ؑ اور نو نفر امام حسینؑ کی اولاد مین پیشوا اور امام ہونگے اگر ان کی اطاعت کی جائے ھدایت پائینگے اگر ان سے دشمنی کر لیں قیامت تک گمراہ ہونگے اور تم پر اختلافات حاکم ہونگے ۔( طبرسی، ص ۲۴۸ ) پس خاتون جنت فاطمہ زہراؑؑ نے واضح اور صراحتا درباروں ، مسجد وں حتی گھر گھر جا کر فردا فردا اتمام حجت کیاحق علیؑ کے ساتھ ہے اور علیؑ حق کے ساتھ ۔
خلافت کی خصوصیات کو بیان کرنا
حضرت زہراؑ کا ایک نیا انداز اپنا لیتے ہوئے شایستگی خلافت اور معیار خلافت کو بیان کرتی ہیں اور کوشش کرتی ہیں ہر ممکن ، لوگوں کو ضرورت امامت اور فضیلت امام کو سمجھا دے اگر وصیت پیامبرﷺ کا کوئی پاس نہیں تو خود کلافت لے لی ے بھی علیؑ سے لایق اور مناسب کوئی نہیںجتنے فضائل اور مناقب پیامبر گرامی ﷺ نے علیؑ کے بیان کیا ہیں کسی اور کے نہیں۔ دین اسلام کی آبیاری میں جتنا علیؑ کا کردار ہے کسی اور کا نہیں حضرت زہراؑ سل و جان سے علیؑ کے جضائل اور مناقب کے معتقد تھی حضرت زہراؑ کی سیاسی بصیرت کا یہ عالم تھا جو بھی فضائل بیان کرتی تھی پیامبر اسلام کی زبانی اور حوالے سے بیان کرتھی تا لوگوں پرکوئی اثر ہو فرمایا حضور فرماتے تھے علیؑ وہ بہترین شخص ہیں جس کو تمہارے درمیان اپنا جانشین بنا دونگا ۔ ( دشتی، ص۳۸)
حضرت زہراؑ مسجد مدینہ میں خطاب کرتے ہوئےعلیؑ کے درخشان ماضی لوگوں کو بیان کرتی ہیں بعثت پیامبرﷺ کے بعد جب بھی پیامبر ﷺ کو کوئی مشکل پیش آیا یا دشمن حملہ آور ہورسول خدا نے اپنے بھائی علیؑ کو آگے کی علیؑ نے مخالفین کی زبانوں پر تالے ڈالا اور تحاجمات کو راستے سے ہٹا دیا ۔ تمام مصائب اور مشکلات کو راہ الہی میں برداشت کیا اور رسول خدا کے محبوب تر اور عزیز تر قرار پایا ۔ علیؑ بلند ہمت، باحوصلہ ناصح اور پر تلاش تھے کبھی راہ خدا میں جہاد سے گبھرایا نیہں جب کہ تم آرامش و آسایش کی زندگی گزارتے تھے ۔( حسینی زنجانی،ص ۶۶)
حضرت زہراؑ جاہ و مقام حضرت علیؑ کو پہچان چکی تھی ان کی توانائی اور شاہستگی سے آگاہ تھی پیامبرﷺ کے نظر سے بھی آگاہ تھی کہ علیؑ جانشین ہیں لھذا کسی اور کو خلیفہ قرار دینا اصلا جائز نہیں سمجھتی تھی امامت کی تحقق کےلیے کسی قسم کی تلاش سے دریغ نہیں کیا اور آْضر ین لحظہ تک حمایت اور دفاع سے ہاتھ نہیں اٹھایا ۔
دشمنوں کے فتنہ کو آشکار کرنا
حضرت زہراؑ کے دفاع مقدس کے کارناموں میں سے ایک دشمنوں کی سازشوں کو آشکار کرنا ہے جب آشوب گراور فتنہ گروں نے اپنے ناجائز افعال کے لیے چارہ چوئی اور بھانے بنانا شروع کیا تا اسلم اس کو مشروع قرار دے یعنی ہم نے اسلام کو بچانے کی خاطر خلافت کا راستہ اپنایا ، حضرت زہراؑ اس آیہ شریفہ سے استدلال کرتے ہوئے انکی سازشوں کو نقشہ بر آب کرتی ہیں ہیں وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ ائْذَن لِّي وَلَا تَفْتِنِّي ۚ أَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا ۗ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ ( 49 ) توبہ –
اور ان میں کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ مجھے تو اجازت ہی دیجئے اور آفت میں نہ ڈالئے۔ دیکھو یہ آفت میں پڑگئے ہیں اور دوزخ سب کافروں کو گھیرے ہوئے ہے
ابوبکر بھی ایک سوال کے جواب میں یہی کہتا ہی کہ فتنہ سے نجات لے لیے ایسا قدم اٹھانے پر مجبور ہوئے حقیقت میں انکا یہی قدم فتنہ تھا لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر علیؑ زمام حکومت کو سنھبالتے توکون ان کی مخالفت کرتے ؟ کون فتنہ پرپا کرتے ؟ فتنہ گر وہی نہیں تھے جو رسول خدا ﷺ کی حیات مبارکہ میں علیؑ کی حکومت کے لیے مانع بن گئے تھے ؟ حضرت زہراؑ صاحب اقتدار و قدرت لوگوں سے مخاطب ہو کر فرماتی ہیں قرآن کو رہا نہ کرو اس کے اوامر و نواہی واضح ہے پیامبر ﷺ کی وفات کے بعد خلافت پر واضح حکم موجود ہے پیامر ﷺ نے اس حوالے سے کوئے ابھام نہیں چھوڑا رسول زادی تنبیہ کرتے ہوے بیان فرماتی ہیں اگر یادگار پیامبر کو چھوڑ کر کسی اور کی دامن تھام لیں ، اپنی رای کو تعلیمات اسلامی پر مقدم کر لیںاور فتنہ سے دوری کے بھانے پر خود کو حاکم قرآن قرار دنیے کی صورت میں بہت بڑی آفت میں مبتلا ہونگے(مکارم، شیرازی ص۱۸۵)۔ فتنہ کی آگ جو تم نے پڑھکایا ہے وہ تمہارے معاشرے سے ہرگز دور نہیں ہو گا کیونکہ اصل فتنہ کا بیج تم لوغوں نے بویا ہے اب روح اسلام تم سے پرواز کر جائے گا فقد ظاہر بینی کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہے ۔( ھمان ) بہت سارےلوگ خوف وہراس کی بنیاد پر حق گوئی سے پرہیز کرتے تھے کچھ تازہ مسلمان اس حقیقت سے آگاہ نہیں تھے بعض علیؑ سے بغض کی بنا پر جان بوچھ کر کتمان حق کے شکار ہوئے لیکن حضرت زہراؑ نے با کمال شجاعت و شہامت دشمنوں اور منافقین کے دلوں میں موجود کینہ کو آشکار کیا اور انکی علیؑ سے حسادت و کینہ پروری کو برملا کیا۔
خواص کی خاموشی پر اعتراض کرنا
حضرت زہراؑ دیکھ رہی تھی رھبری محور حق سے نکل کر نالائق اور نااہل لوگوں کے ہاتھوں میں جا چکا ہے اور اس کے مسلمات دین اور تعلیؑمات اسلام پر بہت برے اثرات مرتب ہونگے اب اس پر خاموشی ان سب پر تایید اور رضایت شمار ہونگے لھذا خاتون جنت نےبڑی دلیری اور شجاعت و شہامت سے ساتھ دفاع کا علم بلند کیا ۔ کیونکہ زہراؑ علیؑ کی ولایت کے برحق ہونےپرقرآنی دلائل ، پیامبر اسلام کی تائیداد اور تمامتر تاریخی منظر نامے سے آگاہ تھی پس اس کادفاع کو اپنا شرعی وظیفہ قرا ردیا جبکہ پورا جامعہ بلخصوص خواص نے چپ کا روزہ رکھ لیا تھا ایسے حالات میں رسول کی شیر دل بیٹی مسجد مدینہ میں خواص سے مخاطب ہو کر فرماتی ہیں اے سرکردگان قوم ،اے حافظان اسلام ! یہ غفلت ، سکوت اور سہل انگاری میرے حق میں کس لیے ؟ آیا میرے بابا نے نہیں فرمایا تھا ہر شخص کی حرمت ان کے اولاد کے اعتبار سے مخصوص ہونا چاہیے ۔ تم کتنی جلدی افعال نا پسندیدہ کے شکار ہوئے، کتنی جلدی غفلت کے مرتکب ہوئے۔ ( اصفہانی ،ص ۲۳۴)
رسول کی بیٹی اس مسئلہ میں غفلت ،سستی اور عھد شکنی کرنے والوں کے بارے میں فرماتی فَالْتَفَتَتْ فاطِمَةُ(س) إلَی النّاسِ وَ قالَتْ: مَعاشِرَ النّاسَ الْمُسْرِعَةِ إلی قيلِ الْباطِلِ الْمُغْضِيَةِ عَلَی الْفِعْلِ الْقَبيحِ الْخاسِرِ أفَلا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أمْ عَلی قُلُوبٍ أَقْفالُها۔
گروہ مسلمین جو حرف باطل کی طرف تیزی سے سبقت کرنے والے اور فعل قبیح سے چشم پوشی کرنے والے ہو۔ کیا تم قرآن پر غور نہیں کرتے ہواور کیا تمھارے دلوں پر تالے پڑے ہؤے ہیں۔یقیناًتمھارے اعمال نے تمھارے دلوں کو زنگ آلود کر دیا ہے اور تمھاری سماعت اور بصارت کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔تم نے بد ترین تاویل سے کام لیا ہے۔
حضرت فاطمہ انصار کی سر زنش کرتے ہوئے یوں فرماتی ہیں حضرت علیؑ جو ولایت و امامت کیلے سزاوار ترین شخص تھا امور قضائی میں سب سے بہتر اور مسلط تھے اسے کنار ے پہ لگایا اور تم اپنی فکر میں لگے رہے علیؑ سازش کا ر نہیں حق اور انصاف اور عفو و درگزر میں کسی ایک کو دوسرے پر برتری اور فوقیت نہیں دیتے یہ تمہارے لیے گراں گزرا ابوبکر کو خلیفہ بنا کر تم نے اس سے نجات پانا چاہا جو تمہارے کہنے کے مطابق عمل کرتا ہے تمہارا مطیع ہے تمہارے ارادوں کے مطابق حکم کرتا ہے(امینی،ص۱۶۵) جبکہ تمہارے درمیان رسول کا جانشین موجود تھاتم سے خدا نے انکی اطاعت پر عھد لیاہےوہ قرآن ناطق اور منور نور ہیں ان سے عھد نباو ۔ ( امیننی،ص ۱۶۵)
خطبہ حضرت زہراؑ کی شرح میں خواص پر تنقید کو یوں بیان کیا ہے میں تم پر اتمام حجت کر رہا ہوں وگرنہ تم سے کوئی امید نہیں رکھتی ہوں خاموشی اور سکوت کے زریعہ تمام مظالم کو تقویت دیا اور ہر چیز کو مشکوک کیا اور گمان کرتے ہو یہ خاموشی ضرر ساں نہیں مگر ختما اسکا نتیجہ بگتنا ہو گا ۔ (مکارم ،ص ۲۰۸) رسول کی بیٹی اس عمل کو بدون اساس الہی اور قدم انحرافی تصور کرتی تھی اور اسے اسلام کا اصلی چہرے کو مسخ کرنے کا ایک سبب قرار دیتی ہیں ۔ لہذا اپنی تام تر توانائی و قدرت سے امامت کا دفاع کرتی ہیں ۔تا کہ آنے والی نسلیں بھی زہراؑ کی تقلید کرے اور اس اساس خلافت کوناجائز تصور کریں ۔
امیرالمومنین کی مظلومیت پر رونا
جب سے حضرت علیؑ کی خلافت غصب ہوئی حضرت زہراؑ نے سیا سی، فکری و فرھنگی جدو جہد شروع کیا اس دفاع کو کار ساز بنانے کیلے حضرت زہراؑ نے مناسب مقامات پر نالہ و فریاکےذریعے سے صداے حق بلند کیا تا کہ حاکم وقت تک یہآواز پہنچ جائے حضرت زہراؑ کے نالہ و فریاد پورے شہر مدینہ میں پھیل گیا یہاں تک کی ہر کوئی اپنےآپ سے سوال کرنے پر مجبور ہوئے زہراؑ اتنا کیوں روتی ہیں؟ نالہ و فریاد حضرت زہراؑ نے لوگوں کو پرشان کیا انکے دلوں میں اضطراب پیدا کیا۔ہیں تک کہ رسول زادی کے رونے پر بھی پابندی عائد ہوئی حضرت علیؑ نے زہراؑ کی تسکین کےلیے بقیع میں ایک گھر بنایازہراؑ رونے کےلیے وہاں جایا کرتی تھی جسے بیت الاحزان کا نام دیا گیا۔( مجلسی ج ۴۳ ص ۱۷۴) شہزادی کے رونے کے بہت سارے اسباب تھے مگر مہم ترین سبب جس نے روح رسول زادی کو تڑپایا اور ناراحت کیا وہ اسلام کا اپنے حقیقی راستے سے منحرف ہونا اور علیؑ کو خانہ نشین کرکے منافقین کا زمام حکومت کو تھام لیانا بہت بڑی مصیبت تھی حضرت زہراؑ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ےتھا رسول گرامی اسلام ﷺ نے کس طرح،کن مشکلات و مسٓیب اور تنہائی نیںاسلام کی آبیاری کی اب اس میں انحراف زہراؑ کو برداشت نہیں ہو سکا اس انحراف نے اپنے اندر ہزاروں انحرافات چھپا رکھا ہیں در حقیقت اشک زہراؑ انکی شعور پر مبنی تھے یعنی آنے والے امانے میں ایک فاجعہ اور بڑی مصیبت کی جانب تنبیہ اور اشارہ تھا واقعا اسی واقعہ کی بنا پر اسلام کتنے فرقوںمیں بٹ گئی اور مسلمانوں کے درمیان کتنے جنگیں لڑی گئی کتنے مسلمان اسی انحراف کا نذر ہوےگئے یہی انحراف باعثبنا مسلمان ایک دوسرے سے دور ہوئے انکے درمیان اختلافات بڑھ گئے جنگ جمل ، صفین ،بنو امیہ اور بنو عباس اسی انحراف کے ثمرات تھے پیش گوئی رسول زادی نالہ و فریاد کے ذریعے بتا رہی تھی۔
وصیت نامہ سیاسی و تاریخی حضرت زہراؑ
حضرت زہراؑ کی سیاسی بصیرت کا یہاں سے اندازہ لگا سکتے ہے کہ آپ نے اپنے ھدف کو امان و مکان سے بالا تر قرار دیا اپنے وصیت نامے کے ذریعے دفاع ولایت و امات کو قیامت تک کے لیے جاری کیا تاکہ حق قیامت تک آنے والے لوگوں تک پہونچ جائے آنے والی نسلیں بھی ان کی شیطانی اوف انحرافات سے آگاہ رہے آپ اپنی وصیت نامہ میں فرماتی ہیں : جنہوں نے ولایت امیرالمومنین کے بارے میں عھد وپیمان خدا اور رسول کو توڑاہے اور مجھ پر ظلم کیا ہے انکو میرے جناے میں نماز کی اجازت نہیں ہے مجھے رات دفن کرو ۔( مجلسی ج ۴۳ ص ۱۷۴) حضرت زہراؑ کے اس وصیت نامہنے دشمنوں کی منافقت اور دوغلہ پالیسی کو تا قیامت آشکار کیا اور خلفا کی محکومیت اور خلافت کی غصب پر ایک ناقابل تردید دلیل ہے ۔
خلاصہ
حضرت زہراؑ نے آغاز فتنہ سے لے کر اپنی زندگی کی آخری سانس تک ولایت و امامت بر حق کی دفاع کیا ۔ انکے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان کیا یہاں تل کہ انکو تکفین ، تجھیز اور تدفین کے مراسم میںشرکت کی اجازت نہیں دی حضرت زہراؑ علیؑ کو جانشین برحق رسول مانتی تھے انکی حقانیت پر قرآن اور فرامین رسول سے دلائل بیان کرتی تھی آپ امامت کے امامت کےمنکر اور اہل سقیفہ کو غاصباور منحرف سمجحتی تھی لھذا آپ نے بازاروں، درباروں تقریروں اور خطبوں مین نالہ و فریاد میں شکوہ و شکایات میں اپنے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان کیاا اور اس انحراف کے خطرات ، عواقب اور نتائج سے آگاہ کی ۔ حضرت زہراؑ نے ہرا حال میں تنہائی میں پہلو شکستہ ، بدن خستہ امامت و ولایت کی دفاع کر کے رہتی دنیا کے لیے یہ درس دیا ہے کہ وم سب بھی انکی پیروی کرتے ہوئ ےہمیشہ حریم ولایت کی دفاع کے لیے آمدہ رہیں ۔
منابع
1. اصفہانی، قیومی ،جواد،صحیفہ حضرت زہراؑ، ث۵،قم جامعہ مدرسین
2. امینی، ابراہیم، فاطمہ زہرا بانوی نمونہ اسلام ،ق، ث ۵ ،شفق، ۱۳۷۳
3. حسینی، زنجانی، عزیزالدین، شرح خطبہ حضرت زہرا، ث ۳ ، قم ،تفتر تبلیغٓات اسلامی
4. دشتی، محمد، فرہنگ سخنان فاطمہ۔ث ۱۶ قم، موسسئہ تحقیقات امیرالمومنین
5. رسول محلاتی،ہاشم،زندگانی حضرت زہراو دختران آن حضرت ،چ ۸، تہران،دفتر نشر فرہنگ اسلامی۱۳۷۹
6. صدوق، محمد بن علی، الخصال، تحقیق علی اکبر غفاری، قم نشر اسلامی۱۴۰۳
7. صفائی حائری، علی،روزہای فاطمہ شرحی بر خطبہ فدک،ث۲، بی جا،
8. طبرسی،احمد بن علی،الاحتجاج، ترجمہ بہزاد جعفری،تہران دارالکتب الاسلامیہ
9. کلینی، محمد ابن یعقوب،روضۃ الکافی، بیروت،دارالمعارف۔
10. مجلسی،محمد باقر،بحارالانوار، چ۳ تپران ،کتاب فروشی اسلامیہ
11. مفید،محمد بن محمد بن نعمان،الاختصاص تحقیق عبد المنعم عامر،قم، منشورات الریاضی
12. مکارم، شیرازی، ناصر، زہرابرترین بانو جہان،ث۱۳ قم ،سرور۔۱۳۸۴
13. یعقوبی، احمد ابن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، بیروت، دار صادر، ۱۳۷۹
دیدگاهتان را بنویسید