حضرت سلیمان اور عاشق چڑیا ڈاکٹر محمد لطیف مطہری کچوروی*
اسلامی تعلیمات میں خداوند متعال سے محبت کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ انسان کو کمال کی بلندیوں تک پہنچنے کے لیے انسان کا دل خدا کی محبت سے معمور ہونا چاہیے۔جب دل میں خدا کی محبت پیدا ہوتی ہے تو بندہ محبوب کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی رضا حاصل کرنا محبت کی علامت ہے۔بہت سی روایات میں یہ سفارش کی گئی ہے کہ دل کو خدا کی محبت کا مرکز بنایا جائے اور اس کے سوا کسی کو اس میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ اگر خدا کی محبت کے بجائے دل کے قیمتی ظرف میں کسی اور کو جگہ دے تو اسی کا رنگ اوربو آنا شروع ہو گا لیکن اس کے برعکس اگر دل خداوند متعال کا حرم بن جائے تو اس کا رنگ اور خوشبو مقدس، الہٰی اور پاکیزہ ہوجاتاہے۔ اگر خدا کی محبت عام ہو جائے اور انسان کا دل مکمل طور پر خدا کے لئے وقف ہو جائے تو گناہ کو ترک کرنے اور گناہ سے دور رہنے کی طاقت بھی انسان کو حاصل ہو جائے گی۔ خدا سے محبت کے بغیر، گناہ کو ترک کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے دعا کے لمحات میں اور نماز کے دوران، ہمیں ہمیشہ خدا سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمارے دلوں میں اس کی محبت کو بڑھا دے، اور اگر ایسی محبت ہمارے دلوں میں موجود ہے تو اس میں اضافہ اوراستمرار کے لئے کوشش کرنا چاہیے۔
خداوند متعال قرآن مجید میں بیان فرماتا ہے:( ما جعل الله لرجل من قلبين في جوفه) اللہ نے کسی شخص کے پہلو میں دو دل نہیں رکھے ہیں۔۱۔ اب جب کہ انسان کے پاس ایک دل ہے، تو وہ ایک سے زیادہ معبود اور محبوب نہیں رکھ سکتا ہے۔ امام صادق(ع) سے روایت ہے کہ فرمایا: (القلب حرم الله فلاتسكن حرم الله غيرالله) دل خداوند کا حرم ہے، اور اس کے حرم میں کسی اور کو سکونت نہ دو۔۲۔
خداوند متعال وہ ہستی ہے جو سب کچھ اور سب کو خلق کرنے والا ہے ۔ سب سے بہتر انسان کی دیکھ بھال کرتا ہے اور یہ خدا یکتاہے ۔ انسان کے پاس بھی صرف ایک دل ہے جس میں وہ کسی ایک محبوب کو بسا سکتا ہے ، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان یہ جرات کرے کہ کسی اور کو اس گھر میں داخل کرے یا اس سے بھی بدتر، خدا کو جگہ نہ دے اور کسی نا اہل کو دل میں جگہ اور سکونت دے؟
امیرالمؤمنین (ع) سے روایت ہے کہ انسان کامل کی منزلت تک پہنچنے کا راستہ یہ ہے کہ دل کے دروازے پر بیٹھیں اور کسی کو اس گھر میں داخل نہ ہونے دیں۔اگر کسی کا دل خدا کو پہچان لے اور کسی اور کو نہ مانے تو اس وقت خدا کی یاد سے دل کو سکون ملتا ہے اور اس کی زندگی آسان ہوجاتی ہے۔ (الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ تَطْمَئنِ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئنِ الْقُلُوب)(یہ لوگ ہیں) جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دل یادِ خدا سے مطمئن ہو جاتے ہیں اور یاد رکھو! یاد خداسے دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔۳۔
ہم عشق و عاشقی، محبت اور دیوانگی کے صرف دعویدارہیں درحالیکہ نہ صرف توحید ، يكتاپرستی اور يگانہ خواہی میں جھوٹے ہیں بلکہ دوگانه يا چندگانه پرست ہیں جو اپنے آپ کو بھی فریب دینے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ہمارے دل کسی اورعاشق کے پاس ہیں اور اورہم عاشقی کا صرف زبانی ادعا کر رہے ہوتے ہیں ۔ ہماری مثال اسے چڑیے کی ہے جو اپنی شریک حیات سے عاشقی کا دعوی کرتا ہے درحالیکہ دل کسی اورکے سپرد کیا ہوا ہوتا ہے۔
روایت ہے کہ ایک دن حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک نر چڑیا کو دیکھا کہ ایک مادہ چڑیا سے کہہ رہی ہے کہ تم مجھ سے دور کیوں رہتے ہو اور کیوں مجھے نظر انداز کرتے ہو، جب کہ میں چاہتا تو سلیمان کا تاج اور تخت اپنی چونچ میں لے کر سمندر میں پھینک سکتا ہوں۔ (ان سليمان عليه السلام راي عصفورا يقول لعصفوره: لم تمنعين نفسك مني؟ ولو شئت اخذت قبه سليمان بمنقاري فالقيتها في البحر) حضرت سلیمان علیہ السلام مسکرائے اور ان دونوں کو طلب کیا اور نر چڑیا سے فرمایا: کیا تم ایسا کام کر سکتے ہو؟
نر چڑیا نے کہا: نہیں یا رسول اللہ! لیکن مرد کے لیے اچھا ہے کہ وہ اپنی بیوی پر اپنی طاقت پر فخر کرے اور کوئی ایسا کام کرے جس سے وہ اس کی نظروں میں بڑا اور بااختیار ظاہر ہو۔ اس لیے میں نے یہ جملہ کہا۔ اور ظاہر ہے، عاشق کو اس کے کہنے پر قصور وار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔اس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام مادہ چڑیا کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم اس سے کیوں منہ موڑ رہی ہو جب کہ وہ تم سے محبت کرتی ہے؟
مادہ چڑیا نے کہا: وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا، بلکہ صرف محبت اور دوستی کا دعویٰ کرتا ہے۔ کیونکہ وہ میرے باوجود کسی اور سے پیار کرتا ہے۔ (فقالت: يا نبي الله انه ليس محبا ولكنه مدع لانه يحب معي غيري)
مادہ چڑیا کی باتوں کا س حضرت سلیمان پر ایسا اثر ہوا کہ وہ رونے لگا پھر چالیس دن تک لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کی اور مسلسل خدا سے دعا کی کہ وہ ان کے دل سے دوسروں کی محبت نکال دے اور خدا کی محبت کو ان کے دل میں خالص کر دے۔حضرت سلیمان کو معلوم ہوا کہ خداوند متعال سے محبت خالص ہونا چاہیے اور کسی اورکو اس محبت میں شریک نہیں کرنا چاہیے۔۴۔
جو شخص ایک خدا سے محبت کرتا ہے اسے ایسا ہونا چاہیے اور صرف خدا کے ساتھ ہی محبت کرے، اپنی محبت کو اسی کے لئے ہی وقف کرنا چاہئے، اور دل میں صرف وہی واحد ہستی ہونا چاہئے۔ اگر وہ اس طرح عمل کرے گا تو اسے امن او رسکون حاصل ہو گا کہ وہ کسی اور چیز کا بدلہ نہیں لے گا۔لہذا انسان ان ہستیوں سے جیسے انبیاء و اولیاء الہی اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے محبت کرے جن کی محبت کو خود خداوند متعال نے واجب کیا ہے تو یہ درحقیقت خود خداوند متعال سے محبت ہے ۔ جیساکہ ارشاد ہوتا ہے:( قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ) کہدیجئے: میں اس (تبلیغ رسالت) پر تم سے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے کوئی اجرت نہیں مانگتا ۔۵۔
روایت ہے کہ امیر المومنین علی (ع) نے فرمایا:( من آنس بالله استوحش من الناس)۶۔ جو اللہ کے قریب ہو جائے تو وہ لوگوں سے الگ ہو جاتا ہے۔اگر کسی کا دل خدا کو پہچان لے اور کسی اور کو قبول نہ کرے تو اس وقت خدا کی یاد سے دل کو سکون ملتا ہے اور اس کی زندگی آسان ہوجاتی ہے۔بہت سے لوگ اپنے آپ کو مصیبتوں، مشکلات اور تکالیف میں گرفتار پاتے ہیں اور وہ اپنے دل کو سکون دینے کے لیے تڑپتے رہتے ہیں اور اس کے حصول کے لیے وہ کسی بھی چیز سے چمٹے رہتے ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:(وَ مَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِى فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكاً وَ نحَشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَمَةِ أَعْمَى)۷۔اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اسے یقینا ایک تنگ زندگی نصیب ہو گی اور بروز قیامت ہم اسے اندھا محشور کریں گے۔
امام صادق علیہ السلام سے ایک روایت نقل ہوئی ہے: ان الله عز و جل يقول:(من شغل بذكري عن مسالتي اعطيته افضل ما اعطي من سالني)اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جو شخص میرے ذکر میں مشغول ہو جائے اور میری یادمیں اپنی درخواست کو بھول جائے تو میں اسے اس سے بہتر چیز عطا کروں گا جو مانگنے والا مانگتا ہے۔۸۔لہٰذا اگر ہمیں کوئی ضرورت ہو تو بھی، یہ کہنے کے بجائے، اگر ہم صرف اُس کی محبت پر توجہ مرکوز کریں، تو ہم اُس سے بہتر حاصل کرنے کی اُمید رکھ سکتے ہیں جو ہم اپنے دلوں میں چاہتے ہیں۔
حضرت مریم کے قصے میں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہواہے کہ مریم ہمیشہ عبادت گاہ میں رہتی تھی ، سارا دن اور رات خدا کے لیے وقف کی ہوئی تھی اور وہ آسمانی رزق کھاتی تھی۔ چنانچہ جب حضرت زکریا علیہ السلام ان سے پوچھتے کہ یہ کھانا پینا کہاں سے آیا ہے؟ تو وہ جواب دیتی تھی کہ یہ سب میرے رب کا رزق ہے جو وہ اسے براہ راست فراہم کرتا ہے۔
تو اس کے رب نے اسے خوش اسلوبی کے ساتھ پالا اور زکریا کو اس کا سرپرست مقرر کیا جب بھی زکریا اس کے پاس محراب میں جاتا تو وہ اس سے پہلے کہتا:( فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَ أَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَ كَفَّلَهَا زَكَرِيَّا كلُّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا قَالَ يَامَرْيَمُ أَنىَ لَكِ هَاذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيرْ حِسَاب)
چنانچہ اس کے رب نے ا س کی نذر (لڑکی) کو بوجہ احسن قبول فرمایا اور اس کی بہترین نشو و نما کا اہتمام کیا اور زکریا کو اس کا سرپرست بنا دیا، جب زکریا اس کے حجر ہ عبادت میں جاتے تو اس کے پاس طعام موجود پاتے،پوچھا: اے مریم! یہ (کھانا) تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے؟وہ کہتی ہے: اللہ کے ہاں سے، بےشک خدا جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔ ۹۔
لیکن جب مریم علیہا السلام نے اپنے بیٹے کو جنم دیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی روزی کمانے کے لیے محراب عبادت سے منتقل ہو جائیں اور کھجور کے درخت کو ہلائیں تاکہ تازہ کھجوریں خشک درخت سے زمین پر گریں۔( وَ هُزِّى إِلَيْكِ بجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا)اور کھجور کے تنے کو ہلائیں کہ آپ پر تازہ کھجوریں گریں گی۔۱۰۔
تفسیر میں ہے کہ جب حضرت مریم علیہا السلام سے کہا گیا کہ اٹھو اور درخت کو ہلاؤ یہاں تک کہ تازہ کھجوریں آپ پر گر پڑیں۔ انہوں نے خدا وند متعال سے عرض کی: اے خدا، اس سے پہلے آپ خود مجھے محراب عبادت میں ہی مجھے غذا حاضر کر دیتا تھا، اب آپ مجھے درخت ہلا کر کھانا کھانے کو کیوں فرما رہا ہے؟
خطاب آیا : پہلے آپ کے تمام خیالات ہم پر مرکوز تھے، اس لیے ہم آپ کی تمام خواہشات اور ضروریات پوری کرتے تھے، لیکن اب آپ کے دل کا ایک گوشہ آپ کے بچے پر مرکوز ہے۔ اس لیے جس قدر آپ کا دل ہم سے جدا ہو چکا ہے، ہم نے آپ سے کہا ہے کہ اپنے رزق کے لیے درخت کو ہلا دو، تاکہ آپ پر تازہ کھجوریں گریں اور آپ ان میں سے کھائیں۔۱۱۔
اس لیے انسان جتنا زیادہ پاکیزہ ہوگا اور جتنا زیادہ اللہ کو یاد کرے گا اتنا ہی زیادہ فائدہ حاصل کرے گا اور جتنا اس سے دور ہوگا اتنا ہی کم فائدہ حاصل ہوگا۔حقیقی خدا پرست ہونے کے لئے انسان کو خدا کا عشق بننا چاہیے اوروہ کسی اورکی محبت کو اپنے دل میں نہ رکھے تب جا کر وہ حقیقی موحد اوریکتا پرست بن جاتا ہے ۔
حوالہ جات:
۱۔احزاب آیہ 4
۲۔بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج 70، ص 25
۳۔ رعد آيه 28
۴۔بحار الانوار، علامہ مجلسی، ج14، ص95
۵۔شوری ،۲۳
۶۔ غررالحكم ص 635
۷۔ سورہ طٰہٰ ، 124
۸۔اصول کافی، کلینی، ج 2، ص 501
۹۔آل عمران، 37
۱۰۔ مریم، آیت 25
۱۱۔تفسير اثني عشر، ج 8، ص 169
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید