تازہ ترین

حضرت علی (ع) جناب زہراء (ع) کی قبر پر

  جناب زہراء (ع) کے دفن کو مخفی اور بہت سرعت سے انجام دیا گیا تا کہ دشمنوں کو اطلاع نہ ہو اور وہ  آپ کے دفن میں مانع نہ ہوں لیکن جب حضرت علی (ع) جناب زہراء (ع) کے دفن سے فارغ ہوئے آپ پر بہت زیادہ غم و اندوہ نے غلبہ کیا آپ […]

شئیر
37 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1454

  جناب زہراء (ع) کے دفن کو مخفی اور بہت سرعت سے انجام دیا گیا تا کہ دشمنوں کو اطلاع نہ ہو اور وہ  آپ کے دفن میں مانع نہ ہوں لیکن جب حضرت علی (ع) جناب زہراء (ع) کے دفن سے فارغ ہوئے آپ پر بہت زیادہ غم و اندوہ نے غلبہ کیا آپ نے فرمایا اے خدا کس طرح میں نے پیغمبر (ص) کی نشانی کو زمین میں دفن کیا ہے، کتنی مہربان بیوی، باصفا، پاکدامن اور فداکار کو اپنے ہاتھ سے دے بیٹھا ہوں خدایا اس نے میرا دفاع کرنے میں کتنے مصائب برداشت کئے ہیں کتنی میرے گھر میں زحمت اٹھائی ہے_ آہ زہراء (ع) کا اندرونی درد افسوس ان کے ٹوٹے ہوئے پہلو پر اور ان کے ورم کئے ہوئے بازو پر ان کے ساقط شدہ بچے پر، اے میرے خدا میری امید تھی کہ آخری زندگی تک اس مہربان بیوی کے ساتھ گزاروں گا لیکن افسوس اور صد افسوس کو موت نے ہمارے درمیان جدائی ڈال دی ہے_ آہ میں زہراء (ع) کے یتیم چھوٹے بچوں کا کیا کروں؟

رات کے اندھیرے میں آپ جناب رسول خدا (ص) کی قبر کی طرف متوجہ ہوئے اور عرض کی سلام ہو آپ پر اے رسول خدا (ص) میری طرف سے اور آپ کی پیاری دختر کی طرف سے جو ابھی آپ کی خدمت میں پہنچنے والی ہے اور آپ کے جوار میں دفن ہوئی ہے اور سب سے پہلے آپ سے جاملی ہے، یا رسول اللہ میرا صبر ختم ہوگیا ہے لیکن اس کے سوا چارہ بھی نہیں ہے، جیسے آپ کی مصیبت پر صبر کیا ہے زہراء کے فراق پر بھی صبر کروں گا یا رسول اللہ (ص) آپ کی روح میرے دامن میں قبض کی گئی میں آپ کی آنکھوں کو بند کرتا تھا میں تھا کہ جس نے آپ کے جسم مبارک کو قبر میں التارا ہاں صبر کروں گا اور پڑھوں گا انا لله و انا الیه راجعون، یا رسول اللہ وہ امانت جو آپ نے میرے سپرد کی تھی اب آپ (ص) کے پاس لوٹ گئی ہے_ زہراء (ع) میرے ہاتھ سے چھینی گئی ہے، آسمان اور زمین کی رونق ختم ہوگئی ہے، یا رسول اللہ (ص) میرے غم کی کوئی انتہا نہیں رہی میری آنکھوں سے نیند اڑ گئی ہے میرا غم و اندوہ ختم نہ ہوگا مگر جب کہ میں مروں گا اور آپ (ص) کے پاس پہنچوں گا یہ ایسے غم اور مصائب ہیں جو دل کے زخموں سے پیدا ہوئے ہیں، ہماری باصفا گھریلو زندگی کتنی جلدی لٹ گئی ہیں اپنے دل کے درد کو خدا سے بیان کرتا ہوں_

یا رسول اللہ (ص) آپ کی دختر آپ کو خبر دے گی کہ آپ کی امت نے اتفاق کر کے خلافت کو مجھ سے چھیں لیا اور زہراء (ع) کے حق پر قبضہ کرلیا_ یا رسول اللہ (ص) حالات اور اوضاع کو اصرار سے جناب فاطمہ (ع) سے پوچھنا کیوں کہ ان کے دل میں بہت زیادہ درد موجود ہے جو یہاں ظاہر یہ کرسکیں لیکن آپ سے وہ بیان کریں گی، تا کہ خدا ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان قضاوت کرے_ یا رسول اللہ(ص) آپ کو وداع کرتا ہوں اس لئے نہیں کہ آپ (ص) کی قبر پر بیٹھنے سے تھک گیا ہوں اور آپ سے رخصت ہوتا ہوں، اس لئے نہیں کہ یہاں ملول خاطر ہوگیا ہوں اور اگر آپ (ص) کی قبر پر بیٹھا رہوں تو اس لئے نہیں کہ اللہ تعالی کے اس وعدے پر ”جو صبر کرنے والوں کو دیا گیا ہے” یقین نہیں رکھتا پھر بھی صبر کرنا تمام چیزوں سے بہتر ہے_

یا رسول اللہ (ص) اگر دشمنوں کی شماتت کا خوف نہ ہوتا تو آپ (ص) کی قبر پر بیٹھا رہتا اور اس مصیبت عظمی پر روتا رہتا، یا رسول اللہ (ص) ہمارے حالات ایسے تھے کہ ہم مجبور تھے کہ آپ کی بیٹی کو مخفی طور سے رات کی تاریکی میں دفن کریں_ اس کا حق لے لیا گیا اور اسے میراث سے محروم رکھا گیا، یا رسول اللہ (ص) میں اپنے اندرونی درد کو خدا کے سامنے پیش کرتا ہوں اور اس دردناک مصیبت پر آپ (ص) کو تسلیت پیش کرتا ہوں آپ(ص) پر اور اپنی مہربانی بیوی پر میرا درد رہو (1)_

حضرت علی (ع) نے دشمنوں کے خوف سے جناب زہراء (ع) کی قبر مبارک کو ہموار کردیا اور سات یا چالیس تازہ قبریں مختلف جگہ پر بنادیں تا کہ حقیقی قبر نہ پہچانی جاسکے (2)_

اس کے بعد آپ اپنے گھر واپس لوٹ آئے، جناب ابوبکر اور عمر اور دوسرے مسلمان دوسری صبح کو تشیع جنازہ کے لئے حضرت علی (ع) کے گھر کی طرف روانہ ہوئے، لیکن مقداد نے اطلاع دی کہ جناب فاطمہ (ع) کو کل رات دفن کردیا گیا ہے جناب عمر نے جناب ابوبکر سے کہا ہیں نے نہیں کہا تھا کہ وہ ایسا ہی کریں گے؟ جناب عباس نے اس وقت کہا کہ خود جناب فاطمہ (ع) نے وصیت کی تھی کہ مجھے رات کو دفن کردیا جائے اور ہم نے آپ(ع) کی وصیت کے مطابق عمل کیا ہے_ جناب عمر نے کہا، کہ بنی ہاشم کی دشمنی اور حسد ختم ہونے والا نہیں میں فاطمہ (ع) کی قبر کو کھودونگا اور اس پر نماز پڑھوں گا_

حضرت علی (ع) نے فرمایا اے عمر خدا کی قسم اگر تم ایسا کروگے تو میں تیرا خون تلوار سے بہادوں گا ہرگز اجازت نہیں دوں گا کہ فاطمہ (ع) کے جنازے کو قبر سے باہر نکالاجائے_ جناب عمر نے حالت کو خطرناک پھانپ لیا اور اپنے اس ارادے سے منحرف ہوگئے (3)_

———–

1) بحار الانوار، ج 43 ص 192_

2) بحار الانوار، ج 43 ص 183_

3) بحار الانوار، ج 43 ص 199_

بشکریہ  http://www.erfan.ir/urdu/ 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *